وی ترما بتاتی ہیں، ’’ہماری زندگی جوئے کے کھیل کی طرح ہے۔ بھگوان ہی جانتا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں ہمارے اوپر کیا گزری ہے۔ بطور فوک آرٹسٹ، پچھلے ۴۷ سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب ہم اپنا پیٹ بھرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔‘‘

۶۰ سالہ ترما امّا ایک ٹرانس خاتون فوک آرٹسٹ ہیں، جو تمل ناڈو کے مدورئی شہر میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں کوئی مقررہ تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ اور اس کورونا [وبائی مرض] نے تو ہم سے معاش کے باقی ماندہ مواقع بھی چھین لیے۔‘‘

مدورئی ضلع کے ٹرانس مقامی فنکاروں کے لیے سال کے ابتدائی چھ مہینے کافی ہم ہوتے ہیں۔ اس مدت میں، گاؤوں میں مقامی سطح پر تہوار منائے جاتے ہیں اور مندر ثقافتی پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ لیکن لاک ڈاؤن کے دوران، بڑی تعداد میں لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی لگنے کی وجہ سے ٹرانس خواتین فنکاروں کے معاش پر گہرا اثر پڑا ہے۔ ترما امّا (جیسا کہ لوگ انہیں پکارتے ہیں) کے اندازہ کے مطابق، ان مقامی فنکاروں کی تعداد تقریباً ۵۰۰ ہے۔ ترما اما ٹرانس خواتین کے ڈراما اور فوک آرٹ کی ریاستی تنظیم کی سکریٹری ہیں۔

ترما اما مدورئی ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک کرایے کے کمرے میں پھول بیچنے والے اپنے بھتیجے اور اس کے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ مدورئی شہر، جہاں ان کے ماں باپ یومیہ مزدوری کرتے تھے، میں بڑے ہوتے ہوئے وہ دوسرے ٹرانس جینڈر لوگوں کو مندروں اور ارد گرد کے گاؤوں کے تہواروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھتی تھیں۔

PHOTO • M. Palani Kumar

ترما اما مدورئی کے اپنے کمرے میں: ’ہمیں کوئی مقررہ تنخواہ نہیں ملتی ہے۔ اور اس کورونا [وبائی مرض] نے تو ہم سے معاش کے باقی ماندہ مواقع بھی چھین لیے‘

انہوں نے ۱۴ سال کی عمر میں گانا شروع کیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’امیر لوگ ہمیں اپنے یہاں میت میں گانے کے لیے بلاتے تھے۔ (اپنی برادری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے تمل لفظ ’تیروننگئی‘ کا استعمال کرتی ہیں۔) ہمیں اوپّاری [ماتم] اور مراڈی پاٹو [سینہ کوبی] کرنے کے پیسے ملتے تھے۔ اور اس طرح میں نے فوک آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔‘‘

اُن دنوں ٹرانس آرٹسٹوں کے چار لوگوں کے گروپ کو ۱۰۱ روپے دیے جاتے تھے۔ مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن لگنے سے پہلے ترما اما کبھی کبھی یہ کام کر لیتی تھیں، اُس وقت اس سے فی کس ۶۰۰ روپے کی آمدنی ہو جاتی تھی۔

۱۹۷۰ کی دہائی میں انہوں نے سینئر فنکاروں سے تالٹّو (لوری) اور ناٹوپورہ پاٹو (مقامی گیت) گانا سیکھا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ، فنی پیشکش کو دیکھتے ہوئے انہوں نے دیگر باریکیاں بھی سیکھ لیں اور راجا رانی اٹّم میں رانی کا کردار نبھانا شروع کیا۔ اٹّم ایک قسم کا روایتی ڈانس۔ڈراما ہے، جسے تمل ناڈو کے دیہی علاقوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

ترما اما یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’۱۹۷۰ کی دہائی میں مدورئی میں [اس ڈانس ڈراما کے] چاروں کردار راجا، رانی اور جوکر کے لباس میں مردوں کے ذریعے نبھائے جاتے تھے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے تین دیگر فنکاروں کے ساتھ اپنا ایک گروپ بنایا اور ایک گاؤں میں لوگوں کے سامنے راجا رانی اٹّم پیش کیا، ایسا پہلی بار ہوا تھا جب پیشکش میں چاروں کردار ٹرانس خواتین نے نبھائے ہوں۔

A selfie of Tharma Amma taken 10 years ago in Chennai. Even applying for a pension is very difficult for trans persons, she says
PHOTO • M. Palani Kumar
A selfie of Tharma Amma taken 10 years ago in Chennai. Even applying for a pension is very difficult for trans persons, she says
PHOTO • M. Palani Kumar

تقریباً ۱۰ سال قبل چنئی میں ترما امّا کی لی گئی سیلفی۔ وہ کہتی ہیں، ’ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے پنشن تک کی عرضی دینا بہت مشکل کام ہے‘

مقامی استادوں کی رہنمائی میں انہوں نے کرگٹّم بھی سیکھا، اس میں سر پر گھڑے کا توازن بناکر رقص کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس سے مجھے ثقافتی پروگراموں اور سرکار کی طرف سے منعقد ہونے والے پروگراموں میں پرفارم کرنے کا موقع ملنے لگا۔‘‘

بعد میں انہوں نے ہنر کا دائرہ بڑھاتے ہوئے دیگر فنی مہارتوں، مثلاً ماڈو اٹّم (جس میں فنکار مقامی گیتوں پر گائے کے بھیس میں ڈانس کرتے ہیں)، میئل اٹّم (جس میں مور کے حلیے میں ڈانس کرتے ہیں) اور پوئی کل کُڈورئی اٹّم (جس میں گھوڑے کے حلیے میں ڈانس کرتے ہیں)۔ اس قسم کے شو پورے تمل ناڈو میں بہت سے گاؤوں میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ ترما امّا بتاتی ہیں، ’’اپنے چہرے پر پاؤڈر لگانے کے بعد عام طور پر ہم رات میں ۱۰ بجے کے آس پاس پرفارم کرنا شروع کرتے ہیں، جو اگلی صبح ۴ یا ۵ بجے تک چلتا ہے۔‘‘

جنوری سے جون۔جولائی تک کے پیک سیزن میں بہت سی دعوتوں اور الگ الگ جگہوں پر جانے سے، ان کی ایک مہینہ میں ۸-۱۰ ہزار روپے تک کی کمائی ہو جاتی تھی۔ سال کے بقیہ دنوں میں ترما امّا تمام کوششوں کے بعد ۳۰۰۰ روپے ماہانہ ہی کما پاتی تھیں۔

لیکن وبائی مرض کے سبب لگے لاک ڈاؤن نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ تمل ناڈو اِیال ایسئی ناٹک منرم کی رجسٹرڈ ممبر ہونا بھی کسی کام نہ آیا۔‘‘ یہ – تمل ناڈو سنٹر فار میوزک، ڈانس، ڈراما اینڈ لٹریچر – ریاست کے ڈائرکٹریٹ برائے فن و ثقافت کی ایک اکائی ہے۔ ’’مرد و خاتون فوک آرٹسٹ تو آسانی سے پنشن کے لیے عرضی داخل کر سکتے ہیں، لیکن ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے یہ بہت مشکل ہے۔ میری عرضی کئی دفعہ خارج کی جا چکی ہے۔ دفتر کے اہلکار مجھے سفارش لیکر آنے کو کہتے ہیں۔ میں اس کے لیے کس کے پاس جاؤں؟ اگر مجھے کچھ فائدہ مل جاتا، تو اس خطرناک وقت میں میری زندگی تھوڑی آسان ہو جاتی۔ ہم گھر میں صرف چاول پکاکر کھا رہے ہیں، ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سبزی لا سکیں۔‘‘

*****

مدورئی شہر سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور، ولانگوڈی قصبہ کی رہنے والی میگی کے بھی کم و بیش یہی حالات ہیں۔ پچھلے سال تک، وہ پورے مدورئی اور دوسرے ضلعوں میں جاتی تھیں اور کُمّی پاٹو گاکر روزی روٹی کماتی تھیں۔ وہ ضلع کی ان چنندہ ٹرانس خواتین میں شامل ہیں، جو بوائی کے بعد بیج اُگنے کا جشن منانے کے لیے یہ روایتی گیت گاتی ہیں۔

PHOTO • M. Palani Kumar

میگی (جن کی پیٹھ کیمرے کی طرف ہے) اپنی سہیلیوں اور ساتھیوں کے ساتھ مدورئی میں واقع اپنے کمرے میں: شالنی (بائیں)، بھویاشری (شالنی کے ٹھیکے پیچھے)، اراسی (پیلے کرتے میں)، کے سویستیکا (اراسی کے بغل میں)، شفانا (اراسی کے ٹھیک پیچھے)۔  جولائی میں دعوت ناموں اور پیشکش کے سیزن کے ختم ہونے کے ساتھ ہی، اب سال کے آخر تک انہیں مشکل سے ہی کام کا کوئی موقع ملے گا

۳۰ سالہ میگی (وہ اپنا یہی نام استعمال کرتی ہیں) بتاتی ہیں، ’’میں گھر چھوڑنے کو مجبور تھی کیوں کہ میں ٹرانس خاتون ہوں [مدورئی قصبے میں ان کے ماں باپ قریب کے گاؤں میں زرعی مزدور تھے]۔ میں اُس وقت ۲۲ سال کی تھی۔ ایک سہیلی مجھے مُلئی پاری تہوار میں لے گئی تھی، جہاں میں نے کُمّی پاٹو سیکھنا شروع کیا۔‘‘

میگی بتاتی ہیں کہ ولانگوڈی کی جس گلی میں وہ ۲۵ دیگر ٹرانس خواتین کے گروپ  کے ساتھ رہتی ہیں، ان میں صرف دو کو کُمّی پاٹو گانا آتا ہے۔ تمل ناڈو میں جولائی میں ۱۰ دنوں تک چلنے والے مُلئی پاری تہوار میں یہ گیت پرارتھنا کی طرح گایا جاتا ہے۔ یہ گیت گاؤں کی دیوی کے نام کرتے ہوئے بارش، مٹی کی زرخیزی، اور اچھی فصل کی امید میں گایا جاتا ہے۔ میگی بتاتی ہیں، ’’تہوار میں گانے کے لیے ہمیں کم از کم ۴-۵ ہزار روپے ملتے ہیں۔ اور ہمیں مندروں میں گانے کے موقعے بھی ملتے ہیں، لیکن اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔‘‘

لیکن، جولائی ۲۰۲۰ میں یہ تہوار منعقد نہیں کیا گیا تھا اور اس بار بھی اس مہینے یہ منعقد نہیں ہوا۔ اور پچھلے سال مارچ میں لاک ڈاؤن لگنے کے بعد سے ہی، میگی نے بہت کم پیشکش کے لیے سفر کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس سال ہمیں لاک ڈاؤن لگنے سے ٹھیک پہلے [وسط مارچ میں] مدورئی کے ایک مندر میں تین دنوں کے لیے اپنا فن پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔‘‘

اب، جولائی میں دعوت ناموں اور پیشکش کے سیزن کے ختم ہونے کے ساتھ ہی میگی اور ان کی ساتھی کارکنان کو اگلے سال کے آخر تک کام کا شاید ہی کوئی موقع ملے گا۔

At Magie's room, V. Arasi helping cook a meal: 'I had to leave home since I was a trans woman' says Magie (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
At Magie's room, V. Arasi helping cook a meal: 'I had to leave home since I was a trans woman' says Magie (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

میگی کے کمرے میں، وی اراسی کھانا بنانے میں مدد کر رہی ہیں: میگی (دائیں) کہتی ہیں، ’ٹرانس خاتون ہونے کی وجہ سے مجھے گھر چھوڑنا پڑا‘

وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے سال لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد رضاکاروں نے ان ٹرانس فنکاروں کو دو چار بار راشن دیا تھا۔ اور چونکہ میگی ڈائرکٹریٹ برائے فن و ثقافت کی رجسٹرڈ ممبر ہیں، تو انہیں اس سال مئی میں حکومت کی طرف سے ۲۰۰۰ روپے ملے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے دوسرے لوگوں کو ایسا کچھ نہیں ملا۔‘‘

میگی بتاتی ہیں کہ عام طور پر زیادہ کام ملنے والے مہینوں میں بھی، لاک ڈاؤن سے پہلے کام ملنا کم ہو گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب کہیں زیادہ مرد و خواتین کُمّی گیت سیکھ رہے ہیں اور مندروں میں انہیں ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ بہت سی جگہوں پر ہم نے ٹرانس جینڈر ہونے کے ناطے بھید بھاؤ کا بھی سامنا کیا۔ شروع میں اس فن کا مظاہرہ صرف فوک آرٹسٹ ہی کرتے تھے اور بہت سی ٹرانس خواتین اس سے جڑی ہوئی تھیں، لیکن اس کی بڑھتی مقبولیت کے ساتھ ہی ہمارے لیے کام کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

*****

مدورئی شہر سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور، پڈوکوٹئی ضلع کے وِرالی ملائی قصبہ میں رہنے والی ورشا بھی گزشتہ ۱۵ سے زیادہ مہینوں سے جدوجہد کر رہی ہیں۔ پیسوں کی تنگی کا سامنا کر رہی ورشا زندگی کی بنیادی ضروریات کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہیں اور اس کے لیے انہیں اپنے چھوٹے بھائی، جس نے میکینکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ہوا ہے اور ایک مقامی کمپنی میں کام کرتا ہے، پر منحصر ہونا پڑا ہے۔

وبائی مرض سے قبل، ۲۹ سالہ ورشا، جو مدورئی کامراج یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن کے سال دوئم میں ہیں اور فوک آرٹ کی پڑھائی کر رہی ہیں، تہواروں اور مندروں میں رات کو فوک ڈانس کرکے پیسے کماتی تھیں اور پڑھنے کا کام دن میں کرتی تھیں۔ انہیں آرام کرنے کے لیے مشکل سے ۲-۳ گھنٹے ملتے تھے۔

Left: Varsha at her home in Pudukkottai district. Behind her is a portrait of her deceased father P. Karuppaiah, a daily wage farm labourer. Right: Varsha dressed as goddess Kali, with her mother K. Chitra and younger brother K. Thurairaj, near the family's house in Viralimalai
PHOTO • M. Palani Kumar
Left: Varsha at her home in Pudukkottai district. Behind her is a portrait of her deceased father P. Karuppaiah, a daily wage farm labourer. Right: Varsha dressed as goddess Kali, with her mother K. Chitra and younger brother K. Thurairaj, near the family's house in Viralimalai
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: ورشا، پڈوکوٹئی ضلع میں واقع اپنے گھر میں۔ ان کے ٹھیک پیچھے ان کے آنجہانی والد پی کروپیّا کی تصویر ہے، جو ایک یومیہ مزدور تھے۔ دائیں: وِرالی ملائی میں اپنے آبائی گھر کے پاس، دیوی کالی کے لباس میں ورشا اپنی ماں، کے چترا اور چھوٹے بھائی، کے تورئی راج کے ساتھ

ورشا کہتی ہیں کہ وہ پہلی ٹرانس خاتون ہیں جنہوں نے کٹّا کل اٹّم پیش کیا (اس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے مقامی اخبار میں شائع ایک مضمون بھیجا)، جس میں فنکار کو اپنے پیروں میں لکڑی سے بنے دو لمبے پیر باندھ کر گانے کی دھن پر رقص کرنا ہوتا ہے۔ اس میں توازن بنانا تبھی ممکن ہے، جب آپ کافی ماہر اور ہنرمند ہوں۔

ورشا کی پیشکش کی فہرست میں رقص کی کئی دیگر شکلیں بھی آتی ہیں۔ مثلاً تپّٹّم ، جس میں فن پیش کرنے والا تپّو کی تال پر رقص کرتا ہے۔ تپّو ایک طرح کا روایتی ڈرم ہے، جسے عام طور پر دلت برادری کے لوگ بجاتے ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ دیویگا نڈنم (دیویوں کا رقص) ان کا پسندیدہ ہے۔ وہ تمل ناڈو کی مشہور فوک آرٹسٹ ہیں اور ان کی پیشکش تمل ناڈو کے بڑے ٹی وی چینلوں پر نشر کی جا چکی ہے۔ انہیں مقامی فنکار کی تنظیموں کی جانب سے اعزاز حاصل ہو چکے ہیں اور انہوں نے بنگلورو، چنئی اور دہلی سمیت ملک کے تمام شہروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔

ورشا (وہ یہی نام استعمال کرنا پسند کرتی ہیں) ۲۰۱۸ میں بنے ٹرانس خواتین فنکاروں کے ایک گروپ ’اردھ ناری کلائی کُلو‘ کی بانی رکن بھی ہیں، جس کے سات ممبران مدورئی ضلع کے الگ الگ گاؤوں میں رہتے ہیں۔ کووڈ وبائی مرض کی پہلی اور دوسری لہر آنے سے پہلے، جنوری سے جون تک انہیں کم از کم ۱۵ پروگراموں کی دعوت ملتی تھی۔ ورشا بتاتی ہیں، ’’ہم میں سے ہر ایک کو مہینے میں کم از کم ۱۰ ہزار روپے مل جاتے تھے۔‘‘

وہ آگے کہتی ہیں، ’’میرا فن ہی میری زندگی ہے۔ ہمیں کھانے کو تبھی ملتا ہے، جب ہم اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم اُن ابتدائی چھ مہینوں میں جو کما پاتے تھے، اسی کے سہارے بقیہ چھ مہینے ہماری زندگی چلتی تھی۔‘‘ ان کی اور دیگر ٹرانس خواتین کی آمدنی صرف اتنی تھی کہ کسی طرح زندگی بسر کر سکیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ایسے میں بچت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیوں کہ ہمیں اپنے ملبوسات، سفر اور کھانے پر بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جب ہم کچھ پیسے قرض لینے کے لیے پنچایت دفتر جاتے تھے، تو ہماری عرضی ٹھکرا دی جاتی تھی۔ کوئی بھی بینک ہمیں [ضروری دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے] لون دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ہم اب ۱۰۰ روپے کے لیے بھی اپنا فن پیش کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

Varsha, a popular folk artist in Tamil Nadu who has received awards (displayed in her room, right), says 'I have been sitting at home for the last two years'
PHOTO • M. Palani Kumar
Varsha, a popular folk artist in Tamil Nadu who has received awards (displayed in her room, right), says 'I have been sitting at home for the last two years'
PHOTO • M. Palani Kumar

ورشا تمل ناڈو کی مشہور فوک آرٹسٹ ہیں، جنہیں اپنے کام کے لیے انعامات بھی مل چکے ہیں (جسے ان کے کمرے میں دیکھا جا سکتا ہے، دائیں طرف)، وہ کہتی ہیں، ’میں گزشتہ دو سالوں سے اس گھر سے باہر تک نہیں نکلی ہوں‘

ورشا کو ٹرانس سے متعلق اپنی شناخت کا علم تقریباً ۱۰ سال کی عمر میں ہوا، جب وہ پانچویں کلاس میں پڑھتی تھیں اور انہوں نے ۱۲ سال کی عمر میں پہلی بار اسٹیج پر فوک ڈانس پیش کیا تھا، جسے انہوں نے مقامی سطح پر ہونے والے تہواروں میں دیکھ کر سیکھا تھا۔ انہیں اس کی باقاعدہ تعلیم تبھی مل سکی، جب انہوں نے یونیورسٹی کے فوک آرٹ کورس میں داخلہ لیا۔

ورشا، جو اپنی ماں (جو پہلے زرعی مزدور تھیں) اور چھوٹے بھائی کے ساتھ وِرالی ملائی گاؤں میں رہتی ہیں، بتاتی ہیں، ’’میری فیملی نے مجھے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور مجھے ۱۷ سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ فوک آرٹ کے لیے میرے جنون کی وجہ سے ہی میری فیملی نے [آخرکار] مجھے اپنایا۔‘‘

وہ مزید بتاتی ہیں، ’’لیکن گزشتہ دو برسوں سے  [مارچ ۲۰۲۰ میں لگے پہلے لاک ڈاؤن کے بعد سے] کام نہ ملنے کی وجہ سے مجھے گھر پر ہی رہنا پڑا۔ [دوستوں کے علاوہ] کسی نے بھی ہماری مدد نہیں کی۔ میں نے این جی او اور تمام لوگوں سے مدد کی گزارش کی۔ جن لوگوں نے پچھلے سال ہماری مدد کی تھی، اس سال انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر لیے۔ دیہی علاقوں میں ٹرانس فوک آرٹسٹوں کو حکومت کی طرف سے بھی کوئی مالی مدد نہیں ملی ہے۔ پچھلے سال کی طرح ہی اس سال بھی، کام نہ ہونے کے سبب ہمیں زندہ رہنے کے لیے خود ہی کوئی انتظام کرنا ہوگا۔ لوگوں اور سرکار کی نظر میں شاید ہمارا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘

اس اسٹوری کے لیے انٹرویو فون پر لیے گئے تھے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Reporting : S. Senthalir

S. Senthalir is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She reports on the intersection of gender, caste and labour. She was a PARI Fellow in 2020

Other stories by S. Senthalir
Photographs : M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is PARI's Staff Photographer and documents the lives of the marginalised. He was earlier a 2019 PARI Fellow. Palani was the cinematographer for ‘Kakoos’, a documentary on manual scavengers in Tamil Nadu, by filmmaker Divya Bharathi.

Other stories by M. Palani Kumar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez