دن کی پہلی فروخت کا وقت ہو گیا۔ شیو پوروا گاؤں میں ایک ہینڈ پمپ پر کھڑی ۹-۱۰ عورتوں کے پاس بچو نے اپنی موٹر سائیکل روک دی۔ انہوں نے اُن عورتوں سے کہا، ’’دیدی، یہ ڈیزائن دیکھئے۔ آپ کو سیدھی بازار کی بڑی سے بڑی دکانوں میں بھی ایسی ساڑیاں نہیں ملیں گی۔ اگر پسند نہ آئے، تو مت خریدئے گا۔‘‘

اس کے بعد، بچو دن کی بوہنی (پہلی فروخت) کرنے کے لیے بھاری چھوٹ دینے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں: ’’ویسے تو ہر ساڑی کی قیمت ۷۰۰ روپے ہے، لیکن میں یہ صرف ۴۰۰ میں دے دوں گا...‘‘

ہر عورت گٹھر میں سے تقریباً ۱۵-۲۰ ساڑیاں الٹ پلٹ کر دیکھتی ہے۔ ان میں سے ایک کہتی ہے کہ وہ ایک ساڑی کے ۱۵۰ روپے دے گی۔ ناراض ہو کر بچو اپنے گٹھر کو ٹھیک کرنے لگتے ہیں، اسے رسی سے باندھتے باندھتے بڑبڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ساڑی کی قیمتِ خرید ہی ۲۵۰ روپے ہے۔ وہ عورت جو آج بچو کی پہلی گاہک ہو سکتی تھی، واپس ہینڈ پمپ کی طرف مڑ جاتی ہے۔

مایوس ہو کر، بچو اپنی موٹر سائیکل سے راستے میں پڑنے والے اگلے گاؤں، مڑوا کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ وہ مقامی بگھیلی زبان میں بڑبڑاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی لوگ کافی وقت برباد کر دیتے ہیں، لیکن خریدتے کچھ نہیں ہیں۔ ہمارا بہت سارا وقت ساڑیوں کو کھولنے، تہہ کرنے، اور پھر گٹھر بنانے میں ہی برباد ہو جاتا ہے۔‘‘

وہ تقریباً تین کلومیٹر بعد، مڑوا گاؤں کے ہینڈ پمپ پر پانی پینے کے لیے رکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے گھر سے نکلے چار گھنٹے ہو چکے ہیں، لیکن میں نے اپنی بوہنی بھی نہیں کی ہے [دن کی پہلی فروخت، جسے مبارک تصور کیا جاتا ہے]۔ آج صبح میں نے گاڑی میں ۱۵۰ روپے کا پٹرول ڈلوایا اور ابھی تک اتنا بھی نہیں کما پایا۔‘‘

Bachu (with his son Puspraj on the left) visits 9-10 villages across 30 to 50 kilometres on his motorcycle to sell sarees, chatais and other items
PHOTO • Anil Kumar Tiwari
Bachu (with his son Puspraj on the left) visits 9-10 villages across 30 to 50 kilometres on his motorcycle t o sell sarees, chatais and other items

بچو [بائیں: اپنے بیٹے پُشپ راج کے ساتھ] اپنی موٹر سائیکل سے ۳۰ سے ۵۰ کلومیٹر کی دوری طے کرتے ہوئے، ۹-۱۰ گاؤوں جاتے ہیں اور ساڑی، چٹائی اور دیگر سامان فروخت کرتے ہیں

بچو جائیسوال اُس دن صبح تقریباً ۱۰ بجے، اتر پردیش کی سرحد سے ملحق مدھیہ پردیش کے سیدھی ضلع کے سیدھی قصبہ میں واقع اپنے گھر سے نکلے تھے۔ وہ اور دیگر پھیری والے (گھوم گھوم کر سامان بیچنے والے) یہاں کے دیہی علاقوں میں گھر گھر جا کر ساڑی، کمبل، بیڈ شیٹ، کُشن کور، چٹائی، پلاسٹک کے جوتے اور دیگر سامان کفایتی قیمتوں پر بیچتے ہیں۔ وہ اکثر ان سامانوں کو تھوک میں مدھیہ پردیش کے کٹنی ضلع کے بڑے بازاروں سے خریدتے ہیں۔ یہ بازار ان کے گھر سے تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور واقع ہیں۔ ان کے گاہکوں میں زیادہ تر خواتین ہیں، جو بڑے بازاروں تک اکثر نہیں جا پاتی ہیں۔

ان خواتین میں، سیدھی قصبہ سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور سدلا گاؤں کی ۳۲ سالہ کسان مدھو مشرا بھی شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے لیے پھیری والے سے سامان خریدنا زیادہ آسان ہے، کیوں کہ مجھے کھیتی کے کام سے اتنی فرصت نہیں ملتی کہ میں بازار جا سکوں۔ ہم ہر سال ۳-۴ ساڑیاں اور ۴-۵ بیڈ شیٹ خریدتے ہیں۔ پہلے بچو مجھے ۲۰۰ روپے میں ایک اچھی ساڑی اور ۱۰۰ روپے میں ایک بیڈ شیٹ دیتے تھے۔ لیکن اب وہ ایک ساڑی کے لیے ۲۵۰ روپے سے زیادہ اور بیڈ شیٹ کے لیے ۱۵۰ روپے سے زیادہ پیسے لیتے ہیں۔ میں اتنا خرچ کرنے کی حالت میں نہیں ہوں۔‘‘

حالانکہ، بچو کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ ان کے مطابق، بار بار بڑھ رہی پٹرول کی قیمتیں، ان کے جیسے چھوٹے کاروباریوں کو تباہ کر رہی ہیں۔

۲۹ ستمبر، ۲۰۲۱ کو مدھیہ پردیش میں پٹرول کی قیمت ۱۱۰ روپے فی لیٹر کو پار کر گئی۔ وہیں، سال ۲۰۱۹ کے ستمبر ماہ میں یہ قیمت ۷۸ روپے فی لیٹر تھی (قیمت تھوڑا گرنے سے پہلے، ۳ نومبر ۲۰۲۱ کو ۱۲۰ روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی)۔ لمبے عرصے تک، بچو گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی موٹر سائیکل میں روزانہ ۱۵۰ روپے کا پٹرول بھروانے لگے، لیکن پٹرول کی مقدار پھر بھی گھٹ گئی؛ اور اس وجہ سے اب وہ اپنے گٹھر کے ساتھ کم گاؤوں کا چکر لگا پاتے ہیں۔

دو دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے دوڑتے بھاگتے سیلز مین کے طور پرکام کر رہے بچو، فیملی کے قرضوں، بیماریوں اور یہاں تک کہ لاک ڈاؤن ہونے کے بعد بھی گزارہ کر پانے میں کامیاب رہے۔ حالانکہ، پٹرول کی بڑھتی قیمتیں اب ان کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حالیہ سالوں میں لگاتار بڑھتی مہنگائی اور فروخت میں کمی کے سبب، بہت سے پھیری والوں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے اور اب وہ دہاڑی مزدوری کرتے ہیں یا بے روزگار بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ، فروخت کنندگان کو ریاست کے ذریعے دی جانے والی کسی بھی سہولت کو حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس لائیسنس نہیں ہے یا انہیں فروخت کنندگان کے طور پر منظوری حاصل نہیں ہوئی ہے یا انہیں کسی بھی اسکیم میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ (اس اسٹوری میں شامل ویڈیو میں، سیدھی ضلع کے ٹکٹ کلا گاؤں کے پھیری والے جگیہ نارائن جائیسوال ملتے جلتے مسائل کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔)

ویڈیو دیکھیں: سیدھی ضلع کے ایک پھیری والے جگیہ نارئن جائیسوال کہتے ہیں، ’اب مسئلہ یہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں‘

حالیہ برسوں میں بڑھتی مہنگائی اور فروخت میں کمی کے سبب، بہت سے پھیری والوں نے یہ کام چھوڑ دیا اور دہاڑی مزدوری کرنے لگے یا بے روزگار ہو گئے

۴۵ سالہ بچو کہتے ہیں کہ عام طور پر، پھیری والوں کا یہ کاروبار فیملی میں نسل در نسل چلتا ہے اور پہلے اس کام میں فائدہ بھی تھا۔ وہ اُس دور کو یاد کرتے ہیں جب انہوں نے ۱۹۹۵ میں اس بزنس کی شروعات کی تھی، ’’میں شروعات کے چھ سالوں تک، اپنے سر پر کپڑے کے گٹھر لے کر چلتا تھا۔‘‘ ان کا اندازہ ہے کہ گٹھر کا وزن تقریباً ۱۰ کلو رہتا ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’پہلے میں ہر دن تقریباً ۷-۸ کلومیٹر چل کر ۵۰ سے ۱۰۰ روپے تک کما لیتا تھا۔‘‘

سال ۲۰۰۱ میں، بچو نے ایک سائیکل خریدی۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس کے بعد میں نے ہر دن تقریباً ۱۵-۲۰ کلومیٹر تک جانا شروع کیا اور اب مجھے پہلے سے کم تھکان ہوتی تھی۔ میں ۵۰۰ سے ۷۰۰ روپے کا سامان بیچتا تھا اور ۱۰۰ سے ۲۰۰ روپے [فائدہ] کے درمیان کما لیتا تھا۔‘‘

سال ۲۰۱۵ میں، بچو نے پھیری والے کے طور پر ایک اور قدم آگے بڑھایا۔ انہوں نے اپنے دوست سے ۱۵ ہزار روپے میں ایک سیکنڈ ہینڈ ہیرو ہونڈا موٹر سائیکل خریدی۔ ’’اس کے بعد، میں نے موٹر سائیکل سے ۳۰ سے ۴۰ کلومیٹر تک کا چکر لگانا شروع کیا اور ۵۰۰ سے ۷۰۰ روپے تک روزانہ کمانے لگا۔‘‘ وہ ۹ سے ۱۰ گاؤوں تک جاتے تھے، جس میں سے کچھ گاؤں تو ۵۰-۶۰ کلومیٹر دور تھے۔

پہلے کے وقت میں اور آج بھی، بچو صرف سردیوں اور گرمیوں کے مہینوں (نومبر سے مئی تک) میں ہی سامان بیچنے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم برسات کے موسم [جون کے وسط سے ستمبر تک] میں سامان فروخت کرنے کے لیے چکر لگانے سے بچتے ہیں، کیوں کہ ان دنوں میں ہمارا گٹھر بھیگ سکتا ہے اور سارا سامان خراب ہونے کا ڈر رہتا ہے۔ ساتھ ہی، اس موسم میں کیچڑ کی وجہ سے گاؤں کی سڑکیں بند ہو جاتی ہیں۔‘‘

گرمیوں کے موسم میں بھی سامان بیچنے جانا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’۴۵ ڈگری [سیلسیس] درجہ حرارت ہونے پر، اس شدید گرمی میں گھنٹوں موٹر سائیکل چلانا بہت مشکل کام ہے۔ پھر بھی، ہم گرمیوں میں جتنا ہو سکتا ہے اتنی کمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ برسات کے موسم میں کمائی بند ہونے سے ہونے والے نقصان کی تلافی کر سکیں۔‘‘

Driving a motorbike for hours in the searing heat when the temperature is 45 degrees [Celsius] is extremely tough'. (On the right is Sangam Lal, a feriwala from Tikat Kalan village, whose father, Jagyanarayan Jaiswal, is featured in the video with this story)
PHOTO • Anil Kumar Tiwari
Driving a motorbike for hours in the searing heat when the temperature is 45 degrees [Celsius] is extremely tough'. (On the right is Sangam Lal, a feriwala from Tikat Kalan village, whose father, Jagyanarayan Jaiswal, is featured in the video with this story)
PHOTO • Anil Kumar Tiwari

’۴۵ ڈگری [سیلسیس] درجہ حرارت ہونے پر، اس شدید گرمی میں گھنٹوں موٹر سائیکل چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘ (دائیں جانب کی تصویر میں ٹکٹ کلا گاؤں کے ایک پھیری والے سنگم لال ہیں، جن کے والد جگیہ نارائن جائیسوال کو اس اسٹوری میں شامل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے)

لاک ڈاؤن کے وقت کو بچو نے بچت کے پیسوں اور کھیتی کے سہارے گزار لیا۔ سیدھی قصبہ سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور واقع ان کے گاؤں کُبری میں ان کے پاس آدھا ایکڑ زمین ہے۔ وہ اپنے کھیت میں خریف کے سیزن میں دھان اور ربیع کے سیزن میں گیہوں بوتے ہیں۔ کھیتی کرنے کے لیے، وہ ہر مہینے اپنے پھیری کے کام سے تھوڑے دنوں کی چھٹی لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہر سال تقریباً ۳۰۰ کلو گیہوں اور ۴۰۰ کلو دھان [جس کا استعمال فیملی کے کھانے کے لیے ہوتا ہے] کی پیداوار ہو جاتی ہے، جب کہ ہم دال اور دیگر اناج بازار سے خریدتے ہیں۔‘‘

مارچ ۲۰۲۱ میں، کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر کی شروعات میں بچو کو کورونا ہو گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں دو مہینے سے زیادہ وقت تک بستر پر پڑا رہا اور ایک پرائیویٹ اسپتال میں علاج کے چکر میں تقریباً ۲۵ ہزار روپے خرچ ہو گئے۔‘‘

بچو کی ۴۳ سالہ بیوی، پرمیلا جائیسوال کہتی ہیں، ’’اُن دنوں میں ہمارے پاس کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اس وقت، میرے والد [جو ایک کسان ہیں] نے ہمیں چار گائیں تحفے میں دیں۔ اُن گایوں سے اب مجھے ہر دن پانچ لیٹر دودھ مل جاتا ہے، جسے میں اپنی کالونی میں فروخت کرکے ہر مہینے ۳-۴ ہزار روپے کما لیتی ہوں۔‘‘

دوپہر کے وقت، پرمیلا سیدھی قصبہ کے باہری علاقے میں واقع گھاس کے میدانوں سے اپنے جانوروں کے لیے چارہ لینے جاتی ہیں۔ شام کو تقریباً ۶ بجے، جب بچو اپنے پھیری کے کام سے واپس آتے ہیں، تو گئوشالہ کی صفائی کرنے اور جانوروں کو چارہ کھلانے میں اپنی بیوی کی مدد کرتے ہیں۔

لاک ڈاؤن سے پہلے پرمیلا سبزی بیچتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’سال ۲۰۱۰ میں، میں نے اپنے سر پر سبزی کی ٹوکری رکھ کر، آس پاس کی کالونیوں میں سبزیاں فروخت کرنی شروع کردی تھیں۔ ہر دن، میں کم قیمت پر سبزی خریدنے کے لیے، تین کلومیٹر پیدل چل کر سبزی منڈی جاتی تھی اور ایک دن میں ۱۰۰-۱۵۰ روپے کما لیتی تھی۔‘‘ فروری ۲۰۲۰ میں، ۲۲ سال کی اپنی چھوٹی بیٹی پوجا کی شادی کے بعد، انہوں نے سبزی بیچنے کا کام بند کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب میں سبزی بیچنے گئی ہوتی تھی، تب وہ فیملی کے لیے کھانا بناتی تھی۔ اس کی شادی کے بعد، مجھے ہی کھانا بنانا ہوتا ہے۔‘‘

Pramila, Bachu's wife (centre) began selling milk in the colony during the lockdown; their son Puspraj (right) hopes to find a government job after college
PHOTO • Anil Kumar Tiwari
Pramila, Bachu's wife (centre) began selling milk in the colony during the lockdown; their son Puspraj (right) hopes to find a government job after college
PHOTO • Anil Kumar Tiwari
Pramila, Bachu's wife (centre) began selling milk in the colony during the lockdown; their son Puspraj (right) hopes to find a government job after college
PHOTO • Anil Kumar Tiwari

بچو کی بیوی پرمیلا (درمیان میں) نے لاک ڈاؤن کے دوران، کالونی میں دودھ بیچنا شروع کیا؛ ان کے بیٹے پشپ راج (دائیں) کو کالج کے بعد سرکاری نوکری ملنے کی امید ہے

پرمیلا اور بچو کی دو اور اولادیں ہیں، جن میں سے ایک ان کی سب سے بڑی بیٹی سنگیتا ہے اور دوسری پشپ راج ہے۔ سنگیتا کی عمر ۲۶ سال ہے اور ۲۰۱۳ میں اس کی شادی ہو گئی تھی؛ وہیں پشپ راج ۱۸ سال کا ہے اور کالج میں پڑھتا ہے۔

پرمیلا کہتی ہیں، ’’بھلے ہی ہماری حیثیت بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھانے کی نہیں تھی، اس کے باوجود ہم نے اپنے سبھی بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں داخلہ دلایا۔‘‘ پوجا کی شادی کے خرچ اور جہیز کی وجہ سے ان کے اوپر قرض کا بوجھ بڑھ گیا۔ اُس قرض میں سے ایک لاکھ روپے ابھی بھی بقایہ ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ میں ان قرضوں کو کیسے چکاؤں گی۔‘‘

پشپ راج ایک مقامی ڈیئری میں ہیلپر کے طور پر کام کرتے ہیں اور روزانہ ۱۵۰ روپے کماتے ہیں۔ اس کمائی سے وہ اپنے کالج کی فیس بھرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں اس لیے کام کر رہا ہوں، تاکہ اتنے پیسے جمع کر سکوں کہ کوچنگ [مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے یا سرکاری نوکری میں درخواست کے لیے] کلاس میں داخلہ لے پاؤں۔‘‘ وہ آگے کہتے ہیں، ’’جب کوئی گاہک نہیں ہوتا، تو مجھے ڈیئری میں پڑھنے کی اجازت ہے۔‘‘

حالانکہ، پٹرول کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ کے سبب، فیملی تمام طرح کی مشکلوں کا سامنا کر رہی ہے۔ بچو کہتے ہیں، ’’لاک ڈاؤن سے پہلے [مارچ ۲۰۲۰ میں]، جب پٹرول کی قیمت فی لیٹر تقریباً ۷۰-۸۰ روپے تھی، تو میں ہر مہینے ۷ سے ۸ ہزار روپے کما لیتا تھا۔ دیہی علاقوں میں ہمارے سامان کی کافی مانگ رہتی تھی۔ کئی گاہک ہمارا انتظار کرتے تھے، تاکہ وہ ہم سے کپڑے خرید سکیں۔‘‘

بچو اپنی بات میں آگے جوڑتے ہیں، ’’اب پٹرول کی قیمتوں کے ساتھ نقل و حمل کی ہماری لاگت میں بھی ہوئے اضافہ کے باوجود، لوگ ہم سے پرانی قیمتوں پر ہی ساڑیاں اور دیگر سامان خریدنا چاہتے ہیں یا ایسا نہ ہونے پر وہ سامان خریدنے سے منع کر دیتے ہیں۔ اسی لیے، ہمارا منافع کم ہوتا جا رہا ہے۔ صبح سے شام تک کام کرنے کے بعد، میں ۲۰۰ روپے بھی بہت مشکل سے کما پاتا ہوں۔ پٹرول کی قیمتوں کے سبب، ہمارا کاروبار تباہ ہو گیا ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Anil Kumar Tiwari

Anil Kumar Tiwari is a freelance journalist based in Sidhi town of Madhya Pradesh. He mainly reports on environment-related issues and rural development.

Other stories by Anil Kumar Tiwari
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez