’’اب، ہمیں روزانہ کم از کم ۲۵ گھروں کا دورہ کرنا ہے، مہینے میں ہر ایک گھر کا کم از کم چار بار،‘‘ سنیتا رانی کہتی ہیں، ’’کورونا وائرس کا سروے کرنے کے لیے۔‘‘ یہ دورے وہ ۱۰ دنوں سے کر رہی ہیں، جب کہ ہریانہ میں پازیٹو معاملے لگاتار بڑھ رہے ہیں۔ ریاست کے محکمہ صحت کے مطابق، یہاں ۱۴ اپریل تک ۱۸۰ معاملوں کی تصدیق اور دو اموات ہو چکی ہیں۔

’’لوگ اس بیماری سے ڈرے ہوئے ہیں۔ کئی لوگ سوچتے ہیں کہ یہ چھونے سے پھیلتی ہے۔ میڈیا میں ’سماجی دوری‘ کی بات لگاتار کہی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس کیا ہے اور انہیں اس سے کیسے دور رہنے کی ضرورت ہے، یہ سب سمجھانے کے بعد بھی مجھے نہیں معلوم کہ میں ان سے آنکھ کیسے ملاؤں،‘‘ سنیتا کہتی ہیں۔ دس بائی دس فٹ کے گھر میں، جہاں ایک ساتھ سات لوگ رہتے ہوں، سماجی دوری کا کیا مطلب ہے؟‘‘

سنیتا (۳۹)، ایک منظور شدہ سماجی صحت کارکن (آشا) ہیں اور ہریانہ کے سونی پت ضلع کے ناتھوپور گاؤں میں کام کرتی ہیں۔ ملک بھر کی ۱۰ لاکھ آشا کارکنوں میں سے ایک، جو ہندوستان کی دیہی آبادی کو اس کے عوامی نگرانیٔ صحت کے نظام سے جوڑتی ہیں۔ کووڈ- ۱۹ چونکہ صحت عامہ اور سماجی بہبود کا سب سے بڑا بحران بنتا جا رہا ہے، اس لیے ان کا پوری طرح سے مصروف دن، جس میں ۶۰ کاموں کی فہرست میں سے کچھ بھی شامل ہو سکتا ہے – نومولود بچوں کو ٹیکہ لگانے سے لیکر حاملہ عورت کی نگہداشت کرنے، اور انہیں فیملی پلاننگ کے بارے میں بتانے تک – سارا کام الٹ پلٹ گیا ہے۔

ہریانہ میں ۱۷ مارچ کو، جب گروگرام میں کووڈ- ۱۹ کے پہلے معاملہ کا پتہ چلا، تو اس وقت تک سونی پت کی آشاؤں کو اس بیماری کے بارے میں اپنے سپروائزرز کی طرف سے کوئی ہدایت نہیں ملی تھی۔ چار دنوں کے بعد، سونی پت میں پہلا معاملہ سامنے آیا۔ تب بھی ان کے سپروائزرز کی طرف سے نئے حفاظتی طور طریقوں کے بارے میں انہیں کوئی ہدایت نہیں موصول ہوئی کہ اس پر عمل کرنا ہے یا گاؤوں والوں کو اس کے بارے میں بتانا ہے۔ سنیتا اور سونی پت کی ۱۲۷۰ آشا کارکنوں کو، ۲ اپریل کو جس وقت مہلک SARS-CoV-2 وائرس کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے محاذ پر رہنے کی ٹریننگ دی جا رہی تھی، اس وقت تک پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہو چکا تھا اور اس ریاست میں بھی کووڈ- ۱۹ سے پہلی موت واقع ہو چکی تھی۔

اپنے گاؤں میں تقریباً ایک ہزار لوگوں کی انچارج، سنیتا کی نئی ذمہ داریوں میں شامل ہے اپنے دائرۂ کار کے اندر آنے والے ہر ایک گھر کا تفصیلی ریکارڈ تیار کرنا، فیملی کے تمام ممبران کی عمر کیا ہے، کیا کوئی ملک کے باہر سے لوٹا ہے اور ان لوگوں کی صحت کی حالت جنہیں کووڈ- ۱۹ سے سب سے زیادہ خطرہ ہے – جیسے کہ کینسر، تپ دق یا دل کے مریض۔ ’’میں چیک کرتی ہوں اور نوٹ بتاتی ہوں کہ کسے انفلوینزا جیسی علامتیں ہیں یا [جن کو] کورونا وائرس ہے۔ یہ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ مجھے تفصیلی ریکارڈ بنانے کی عادت ہے، لیکن حالات پوری طرح سے بدل چکے ہیں،‘‘ سنیتا کہتی ہیں۔

Top left: An ASHA worker demonstrates an arm’s length distance to a rural family. Top right and bottom row: ASHA workers in Sonipat district conducting door-to-door COVID-19 surveys without protective gear like masks, gloves and hand sanitisers
PHOTO • Pallavi Prasad

اوپر بائیں: آشا کارکن ایک دیہی فیملی کو ایک ہاتھ کی دوری کے بارے میں بتا رہی ہے۔ اوپر دائیں اور نیچے کی قطار: سونی پت ضلع کی آشا کارکنان ماسک، دستانے اور ہینڈ سینیٹائزر جیسے بغیر کسی تحفظاتی سامان کے گھر گھر جاکر کووڈ- ۱۹ سے متعلق سروے کر رہی ہیں

’’ہمیں کوئی ماسک نہیں دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں جب ہمیں ۲ اپریل کو پہلی بار ٹریننگ دی گئی تھی، تب ہم نے حفاظتی سامان کا انتظام کرنے کے لیے کہا تھا۔ ہمارے پاس بنیادی تعلیم ہے، ہم خبریں پڑھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا: کوئی ماسک نہیں، ہینڈ سینیٹائزر نہیں، دستانے نہیں۔ ہم نے جب بہت زیادہ ضد کی، تب جاکر کچھ آشاؤں کو سوتی ماسک دیے گئے۔ ہم میں سے بقیہ نے اپنے گھر پر بنائے – خود اپنے لیے اور گاؤں کے ان لوگوں کے لیے بھی جو ہمارے خیال سے بیمار ہو سکتے تھے۔ ہم سبھی لوگ اپنے دستانے خود لیکر آئے،‘‘ سنیتا بتاتی ہیں۔

آشا کارکنوں کو بغیر کسی تحفظاتی سامان کے، کووڈ- ۱۹ کی ضروری ابتدائی علامتوں کا پتہ لگانے کے لیے دروازے دروازے بھیجنا سرکاری بے حسی کی ایک مثال ہے۔ آشا کارکنوں کو مشکل سے دو گھنٹے کے لیے – صرف ایک بار – اس بات کی ٹریننگ دی گئی کہ نئی بیماری اور انفلوینزا کی علامتوں کے درمیان کیسے فرق کرنا ہے، یا کسے کورونا وائرس سے سب سے زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ وہ بھی، ایسا لگتا ہے کہ آخری وقت کے بعد کی ایک کوشش کے طور پر، جب آشا کارکنوں کو کووڈ- ۱۹ کی علامت والے مریضوں، یا دیگر ممکنہ علامتوں کے بارے میں بنیادی تفصیلات فراہم کیے بنا۔

سونی پت کے بہل گڑھ گاؤں کی ۳۹ سالہ چھوی کشیپ بھی ان آشا کارکنوں میں شامل تھیں جنہیں ماسک نہیں ملا تھا۔ انہیں صرف یہ کہہ دیا گیا کہ وہ خود سے اپنے لیے ایک ماسک بنا لیں۔ ’’میں نے اپنے گھر پر جو ماسک بنایا تھا اس سے کچھ دنوں تک کام چلانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ زیادہ ٹائٹ (کسا ہوا) نہیں تھا۔ میرے دو بچے ہیں اور میرے شوہر بھی ایک اسپتال میں کام کرتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میں خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی، اس لیے میں نے اپنی چُنّی کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔‘‘ ہریانہ میں آشا کارکنوں کی یونین کے وہاٹس ایپ گروپ میں بڑے پیمانے پر شیئر کیا جانے والا ایک ویڈیو موجود ہے کہ مکمل حفاظت کے لیے چہرے کے چاروں طرف کیسے چُنّی کو باندھنا ہے، جسے انہوں نے ٹیوٹوریل کے طورپر استعمال کیا۔

ہریانہ کی آشا کارکنوں نے جب ریاستی حکومت کو اپنی حفاظت سے متعلق سوال کرتے ہوئے دو خطوط لکھے، تو اس کے بعد ۹ اپریل کو ان میں سے کچھ کو۷ سے ۹ ڈسپوزیبل ماسک دیے گئے، حالانکہ انہیں پہلے ۱۰ ماسک دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، اور ساتھ ہی ہینڈ سینیٹائزر کی سفر کے سائز کی ایک بوتل دی گئی، حالانکہ تب تک فیلڈ میں کام کرتے ہوئے انہیں چھ دن ہو چکے تھے۔

ویڈیو دیکھیں: چُنّی سے چہرے کا ماسک کیسے بنائیں

آشا کارکنوں کو مشکل سے دو گھنٹے کے لیے – صرف ایک بار – اس بات کی ٹریننگ دی گئی کہ نئی بیماری اور انفلوینزا کی علامتوں کے درمیان کیسے فرق کرنا ہے

چھوی کو ایک بار استعمال کیے جانے والے نو ماسک ملے – اور ان سے کہا گیا کہ وہ ان میں سے ہر ایک کو کم از کم تین دن استعمال کریں۔ ’’وہ ہمیں بغیر کسی چیز کے مہاماری میں اس طرح سے کیسے دھکیل سکتے ہیں؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ جلد ہی اپنی اسی چُنّی کو استعمال کرنا شروع کریں گی، جو لال رنگ کی اور سوتی ہے، جسے وہ ہر استعمال کے بعد گرم پانی میں کم از کم دو بار دھوتی ہیں۔ ’’سرکار کہتی ہے کہ بغیر ماسک کے باہر مت نکلو۔ ہمارے پاس کوئی ماسک نہیں ہے۔ ہم جب باہر نکلتے ہیں، تو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں،‘‘ چھوی کہتی ہیں۔

آشا کارکنوں کے لیے یہ لازمی ہے کہ اگر وہ کسی کے اندر ان علامتوں کو دیکھیں، تو اس کی اطلاع اپنی متعلقہ اے این ایم (معاون نرسوں) کو دیں، جس کے بعد پولس اور قریب ترین سرکاری اسپتالوں کے طبی کارکنان اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وہاں پہنچتے ہیں کہ ایسے افراد کو گھر پر ہی یا کسی سرکاری مرکز میں کوارنٹائن کیا جا رہا ہے۔ ’’اس کے بعد فیملی کے لوگ آکر ہمیں گالیاں دیتے ہیں کہ ہم نے اس کی اطلاع کیوں کر دی تھی۔ جن لوگوں کو ان کے گھروں پر کوارنٹائن کیا جاتا ہے، وہ اکثر ہمارے ذریعے ان کے گھر پر لگائے گئے اسٹیکر کو ہٹا دیتے ہیں، اور ہم اسے بار بار لگاتے رہتے ہیں اور ان سے بات چیت بھی کرتے رہتے ہیں،‘‘ سنیتا بتاتی ہیں۔

کیا انہیں انفیکشن ہونے کا ڈر نہیں ہے؟ بالکل ہے۔ لیکن آشا کارکن اور یونین لیڈر کے اپنے دوہرے کردار میں، دیگر چیزیں ان کے دماغ میں چلتی رہتی ہیں۔ وہ کم از کم ۱۵ عورتوں کو ماہانہ مانع حمل گولیاں دے رہی تھیں۔ ’’اب اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے، باہر سے آنے والے سامان بچے نہیں ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’کنڈوم بھی ختم ہو چکے ہیں، ہم نے گزشتہ چند مہینوں کے دوران جو کام کیے تھے، وہ سب بھی بیکار چلے جائیں گے۔‘‘ انہیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اس لاک ڈاؤن کے بعد غیر منصوبہ بند حمل کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔

’’پہلے مرد کام کے لیے باہر جایا کرتے تھے۔ اور ہمیں ان عورتوں سے بات چیت کا تھوڑا موقع مل جاتا تھا، جو ہمیں جانتی ہیں۔ اب، جب ہم کورونا وائرس سے متعلق سروے کے لیے جاتے ہیں، تو سارے مرد گھر پر ہی ہوتے ہیں۔ وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہ سب سوال کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ وہ ہم سے آئی ڈی کارڈ دکھانے کے لیے کہتے ہیں۔ سرکار ہمیں پہچاننے اور ہماری نوکریوں کو مستقل کرنے سے انکار کرتی ہے۔ ہم ان کے لیے صرف رضاکار ہیں۔ پھر، بہت سے مرد ہمارے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیتے ہیں،‘‘ سنیتا کہتی ہیں۔

Many ASHAs started stitching masks after receiving just one for their fieldwork. When they finally received disposable masks, it were less than their quota and came with a travel-sized bottle of sanitiser
PHOTO • Pallavi Prasad

کئی آشا کارکنوں کو جب فیلڈ ورک کے لیے صرف ایک ہی ماسک ملا، تو انہوں نے اپنے لیے خود ہی ماسک بنانے شروع کر دیے۔ آخرکار جب انہیں ڈسپوزیبل ماسک ملے، تو یہ ان کے کوٹہ سے کم تھے اور اس کے ساتھ سفر والے سائز کی سینیٹائزر کی ایک بوتل بھی تھی

اپنے روزانہ کے دوروں کے دوران ایک بار، جو عورتیں انہیں جانتی اور ان پر بھروسہ کرتی تھیں، ان سے بات کرنے کے لیے باہر آئیں۔ ’’پہلی چیز جو انہوں نے مجھ سے پوچھی وہ یہ تھی کہ کیا میرے پاس مانع حمل کی گولیاں ہیں۔ اس نے مجھ سے کہا ’اب تو ضرورت بڑھ گئی ہے، دیدی۔ وہ گھر پر رہتے ہیں‘۔ میرے پاس اسے بتانے کے لیے کچھ نہیں کہا تھا، لہٰذا میں نے معذرت کر لی۔ لیکن تبھی، اس کا شوہر باہر آیا اور مجھ سے چلے جانے کو کہا۔‘‘

آشا کارکنوں سے امید کی جاتی ہے کہ ان کے پاس سر درد، بدن درد، بخار اور مانع حمل کے لیے بنیادی دواؤں کا ڈبہ ہوگا، جسے وہ ضرورت کی بنیاد پر جمع کرکے رکھیں گی۔ یہ کٹ ہمیشہ صرف کاغذ پر موجود رہتا ہے، سنیتا کہتی ہیں – لیکن اس کمی کے نتائج اب زیادہ سنگین ہو چکے ہیں۔ ’’اس لاک ڈاؤن میں لوگ نہ تو اسپتال جا رہے ہیں اور نہ ہی دواؤں کی دکان پر۔ میں ان کے گھر جاتی ہوں اور میرے پاس کسی کو اگر بخار ہے، تو اسے دینے کے لیے پیراسیٹامول تک نہیں ہے... میں انہیں صرف آرام کرنے کے لیے کہہ سکتی ہوں۔ حاملہ عورتوں کو آئرن اور کیلشیم کے ٹیبلیٹ تک نہیں مل رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو خون کی کمی ہے۔ ان چیزوں کے بنا، ان کی زچگی کے دوران مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

چھوی کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ۵ اپریل کو ان کی زیر نگہداشت ۲۳ سالہ ایک حاملہ عورت کو دردِ زہ ہونے لگا۔ کووڈ سے پہلے ان کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اسے کسی سرکاری اسپتال میں لے جائیں اور آسانی سے زچگی کو یقینی بنائیں۔ ’’سب سے قریب سول اسپتال ہے، جو تقریباً آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ اگر میں اس کے ساتھ جاتی تو پولس ہمیں جانے کی اجازت دے دیتی کیوں کہ یہ ایمرجنسی تھی۔ جب کہ وہاں سے اکیلے لوٹتے ہوئے، اگر انہوں نے مجھے پکڑ لیا ہوتا، تو میں مصیبت میں پھنس جاتی کیوں کہ تب میں ’ضروری‘ کام نہیں کر رہی تھی۔ میرے پاس دکھانے کے لیے آئی ڈی (شناختی کارڈ) تک نہیں ہے۔‘‘ چھوی نے اس عورت کی مدد کرنے کے لیے ایمبولینس کا انتظام کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن کوئی نہیں آیا اور آخر میں اس کے شوہر نے اپنی بیوی کو اسپتال لے جانے کے لیے ایک آٹو کا انتظام کیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ۳۰ مارچ کو گوہانا تحصیل میں پولس والوں نے دو آشا کارکنوں کو لاٹھیوں سے پیٹا تھا – ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کرتے وقت – حالانکہ وہ دونوں ان کے سامنے گڑگڑاتی رہیں کہ انہیں ایک میٹنگ کے لیے کمیونٹی ہیلتھ سینٹر بلایا گیا ہے۔

آشا کارکنوں سے امید کی جاتی ہے کہ ان کے پاس سر درد، بدن درد، بخار اور مانع حمل کے لیے بنیادی دواؤں کا ڈبہ ہوگا، جسے وہ ضرورت کی بنیاد پر جمع کرکے رکھیں گی۔ یہ کٹ ہمیشہ صرف کاغذ پر موجود رہتا ہے

ویڈیو دیکھیں: ہریانہ پولس کووڈ- ۱۹ ڈیوٹی کے دوران آشا کارکنوں کی پٹائی کر رہی ہے

سخت ترین کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کا یہ بھی مطلب ہے کہ بچوں کو ٹیکہ لگانے کا کام بھی رک گیا ہے، اس بات کو لیکر کوئی وضاحت نہیں ہے کہ اسے دوبارہ کب شروع کیا جائے گا۔ دیہی علاقوں کی حاملہ عورتیں، جو اکثر آشا کے ساتھ اسپتال جاتی ہیں – وقت کے ساتھ وہ انہیں بہو اور دیدی کہنے لگتی ہیں – انہیں اب اپنے بچوں کو گھر پر ہی جنم دینا پڑے گا۔ ’’رہنمائی کے بغیر یہ بہت برا ہو سکتا ہے،‘‘ سنیتا آگاہ کرتی ہیں۔

کووڈ سے پہلے، ہریانہ میں آشا کارکنوں کو ریاستی حکومت کی طرف سے ماہانہ ۴۰۰۰ روپے اعزازیہ ملتا تھا۔ اور ۲۰۰۰ روپے مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ بنیادی کاموں کو انجام دینے کے لیے ملتے تھے (اسپتال میں ولادت، بچے کو ٹیکہ لگانا، ولادت کے بعد کی نگہداشت، گھر پر مبنی ولادت کے بعد کی نگہداشت اور فیملی پلاننگ سے متعلق بیداری)۔ دیگر کاموں کے لیے بھی انفرادی طور پر کچھ پیسے ملتے تھے جیسے کہ عورتوں کی نس بندی اور مردوں کی نس بندی کروانا۔

’’کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارے سبھی کام رک گئے ہیں۔ اس [کورونا وائرس] سروے کے لیے ہمیں گزشتہ تین ماہ سے صرف ۱۰۰۰ روپے مل رہے ہیں۔ ہمیں تقریباً ۲۵۰۰ روپے [ماہانہ] کا نقصان ہو رہا ہے۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مجھے اکتوبر ۲۰۱۹ سے کوئی پیسہ نہیں مل رہا ہے۔ مجھے یہ معمولی سی رقم آخر کب ملے گی؟ ہم اپنا گھر کیسے چلائیں گے، اپنے بچوں کو کیسے کھلائیں گے؟‘‘ سنیتا سوال کرتی ہیں۔

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ۱۰ اپریل کو پہلی قطار کے میڈیکل اسٹاف کی تنخواہیں دو گنی کر دی تھیں – جن میں کووڈ- ۱۹ سے نبرد آزاد ڈاکٹر، نرسیں اور صحت کارکنان شامل ہیں۔ لیکن آشا کارکنان نیشنل ہیلتھ مشن کے تحت نیم رضاکار ہیں – اسی لیے انہیں اس سے الگ رکھا گیا۔ ’’کیا ہمیں کارکنان بھی تصور نہیں کیا جائے گا؟‘‘ سنیتا سوال کرتی ہیں۔ ’’سرکار اس مہاماری کے دوران ہماری زندگیوں سے کھیل رہی ہے، لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔‘‘ اور اسی کے ساتھ ہماری بات چیت ختم ہو جاتی ہے۔ ان کے شوہر پہلی بار چاول پکا رہے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ یا تو وہ خود کو جلا لیں گے یا ان کے رات کے کھانے کو۔

مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز

Pallavi Prasad

Pallavi Prasad is a Mumbai-based independent journalist, a Young India Fellow and a graduate in English Literature from Lady Shri Ram College. She writes on gender, culture and health.

Other stories by Pallavi Prasad
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez