این سوامی بَسّوَنّا، باندی پور نیشنل پارک کے ٹھیک آگے موجود گاؤں، منگلا کے ایک کسان ہیں، جہاں وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

سوامی نے چھ مہینے کے دوران، کرناٹک کے چامراج نگر ضلع میں واقع ہندوستان کے سب سے بڑے ٹائیگر ریزروس میں سے ایک، باندی پور نیشنل پارک کے باہری علاقے میں اپنی روزمرہ کی زندگی کے تصویریں کھینچیں – اپنی فیملی، پڑوسیوں، کام، کھیتوں، فصلوں اور جانوروں کی۔ ان کا تصویری مضمون جنگلی جانوروں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے بارے میں ایک بڑے شراکتی فوٹوگرافی پروجیکٹ کا حصہ ہے، اور پاری (PARI) پر شائع چھ مضامین کے ایک سلسلہ کا چھٹا حصہ ہے (اس کا پہلا حصہ، جیمّا نے جب تیندوے کو دیکھا ۸ مارچ ۲۰۱۷ کو شائع ہوا تھا۔)

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

اس پروجیکٹ کے بارے میں ۳۰ سالہ سوامی کہتے ہیں، ’’میں باہری لوگوں کو یہاں کے کام کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ میں ایک پیغام دینا چاہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر کسی کو زرعی سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہیے اور ان چیلنجز کو سمجھنا چاہیے جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ کھانے کی ضرورت سبھی کو ہے۔ اس لیے ہر کسی کو کھیتی کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے‘‘

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

دادی: ’’یہ میری دادی ہیں، جو پھلیاں توڑ رہی ہیں۔ ہم نے یہاں اوریکئی (سیم کی پھلیاں) اُگائی ہیں۔ میری دادی روزانہ صبح ساڑھے پانچ بجے اٹھتی ہیں اور گائے کا دودھ نکالتی ہیں۔ صبح ساڑھے چھ بجے وہ کھیت پر کام کرنے چلی جاتی ہیں‘‘

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

بچھڑا اور لڑکا: ’’میں نے جب یہ تصویر کھینچی تھی، اس کے کچھ دیر بعد ہی یہ بچھڑا غائب ہو گیا۔ ہم انھیں چرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن یہ واپس نہیں آیا۔ اِندر اور میں اس کی تلاش میں ہر جگہ گئے، لیکن اسے ڈھونڈ نہیں سکے۔ یہ لڑکا گایوں کا بہت شوقین ہے اور وہ اس لاپتہ بچھڑے کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔ یہاں پر وہ اسے پانی پلا رہا ہے۔ شاید کوئی ٹائیگر یا تیندوا اسے کھا گیا، لیکن ہم یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے، ہم اسے کبھی نہیں ڈھونڈ پائے‘‘

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

ہاتھی کا راستہ: ’’یہ وہ راستہ ہے جس پر ہاتھی روزانہ چلتے ہیں۔ اس سڑک پر آگے جا کر ایک چھوٹی سی جھیل ہے۔ ہاتھی وہاں پانی پینے آتے ہیں۔ وہ اس بات کو لے کر محتاط رہتے ہیں کہ سڑک کے دونوں طرف لگے شمسی توانائی والے باڑ کے تاروں کو نہ چھوئیں‘‘

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

فصل پر حملہ: ’’ہاتھی یہاں آئے اور کاٹ کر رکھی گئی زیادہ تر پھلیوں کو کھا گئے؛ یہاں پر وہ صرف اپنا یہ گوبر چھوڑ گئے۔ ہم نے پھلیوں کو کاٹ کر یہاں انبار اس لیے لگایا تھا تاکہ ان کے بیج نکال سکیں۔ لیکن تین ہاتھیوں – دو بالغ اور ایک بچہ – کا ایک جھُنڈ رات میں آیا اور اسے کھا گیا۔ اس بات کو پانچ مہینے ہو چکے ہیں، لیکن مجھے محکمہ جنگلات سے صرف پچھلے ہفتہ ہی معاوضہ ملا ہے۔ اور انھوں نے مجھے صرف ۳۰۰۰ روپے دیے۔ میری ۴۰ ہزار روپے کی تقریباً ۴۰۰-۵۰۰ کلو فصل کا نقصان ہوا تھا۔ ہاتھیوں نے شمسی توانائی والے باڑ کو بھی توڑ دیا تھا‘‘

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

مزدور: ’’وہ میرے لیے کام کرتے ہیں، لیکن وہ ایک شکاری ہوا کرتے تھے۔ وہ سولیگا آدیواسی ہیں۔ وہ جنگی جانور کو مارتے تھے، لیکن اب نہیں مارتے۔ پچھلے چار برسوں سے وہ میرے کھیت میں کام کر رہے ہیں اور گایوں کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ وہ میری بات سنتے ہیں، وہ اب شکار نہیں کرتے‘‘

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

سڑک پر فصلیں: ’’لوگ اپنی کاٹی گئی پوری فصل سڑک پر پھیلا دیتے ہیں، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انھیں ایسا کرنا چاہیے۔ پہلے لوگ اسے اپنے کھیتوں میں پھیلاتے تھے۔ انھیں فصلوں کو سڑک پر نہیں رکھنا چاہیے کیوں کہ اس سے سڑک پر چلنے والوں کو پریشانی ہوتی ہے، اور سڑک پر گرے کیمیکل اور مویشیوں کے پیشاب اس میں مل جائیں گے۔ انھیں اپنے کھیت میں فصلوں کی رولنگ کرنے میں سُستی آتی ہے، اسی لیے وہ ایسا کرتے ہیں۔ پہلے، کسان پودے سے بیج کو الگ کرنے کے لیے بیل کے ذریعے کھینچے جانے والے ایک بڑے پتھر کے رولر کا استعمال کرتے تھے۔ اس میں کافی محنت لگتی ہے، لیکن یہ کاروں، ٹرکوں اور بائک سے کرانے کی بجائے زیادہ صاف ستھرا ہے‘‘

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

رولنگ: ’’یہ کٹی ہوئی فصلوں کی رولنگ ہے۔ بیل پتھر کے رولر کو کھینچنے میں مدد کرتے ہیں۔ مجھے یہ اُن سڑکوں پر کرنا پسند نہیں ہے، جہاں گاڑیاں ان پر چلتی ہیں۔ ہم مویشیوں کے لیے ایک سال کا چارہ جمع کرتے ہیں۔ ہم کٹائی کے بعد جوار کے پودوں کو صاف کرتے ہیں اور انھیں سال بھر گایوں کو کھلاتے ہیں۔ پہلے ہمارے پاس تقریباً ۱۰۰ گائیں تھیں، لیکن اب ہمارے پاس صرف پانچ ہیں‘‘

PHOTO • N. Swamy Bassavanna

ٹائیگر اور گائے: ’’یہ اسکول کی برسی کے موقع پر ہو رہا ہے۔ بچے ٹائیگر اور دیگر جانوروں کے درمیان دوستی کے بارے میں ایک ڈرامہ پیش کر رہے تھے۔ وہ یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گایوں کے ساتھ ٹائیگر کا دوستانہ سلوک رہتا ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ ٹائیگر کو نہ ماریں‘‘

اس کام کو جیئرڈ مارگلیز نے کرناٹک کے منگلا گاؤں میں واقع مریَمّا چیریٹیبل ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا۔ یہ ۲۰۱۶۔ ۲۰۱۵ کے فل برائٹ نہرو اسٹوڈنٹ ریسرچ گرانٹ کی وجہ سے ممکن ہو پایا، جو کہ یونیورسٹی آف میری لینڈ بالٹی مور کاؤنٹی  کا ایک گریجویٹ اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن ریسرچ گرانٹ ہے، ساتھ ہی اسے مریما چیریٹیبل ٹرسٹ سے بھی مدد ملی۔ لیکن اس میں سب سے بڑی شراکت خود فوٹوگرافرز کی رہی، جنہوں نے پوری تندہی اور محنت سے کام کیا۔ متن کا ترجمہ کرتے وقت بی آر راجیو کا قیمتی تعاون بھی شامل حال رہا۔ تمام تصویروں کے کاپی رائٹس، پاری کے کریٹو کامنس یوز اور ری پروڈکشن پالیسیوں کے مطابق، پوری طرح سے فوٹوگرافرز کے پاس محفوظ ہیں۔ ان کے استعمال یا دوبارہ اشاعت سے متعلق کوئی بھی سوال پاری سے کیا جا سکتا ہے۔

اس سلسلہ کے دیگر تصویری مضامین:

جب جیمّا نے تیندوے کو دیکھا

’ہمارے پاس پہاڑیاں اور جنگل ہیں، ہم یہیں رہتے ہیں‘

باندی پور میں فصل والے گھر

باندی پور کے پرنس سے قریبی سامنا

’یہی وہ جگہ ہے جہاں تیندوا اور ٹائیگر حملہ کرتے ہیں‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

N. Swamy Bassavanna

N. Swamy Bassavanna is a farmer who lives on the fringes of Bandipur National Park, one of India’s premier tiger reserves.

Other stories by N. Swamy Bassavanna
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez