پُتُل دلوئی کے شوہر، چندن کی موت کو چھ مہینے ہو چکے ہیں۔ نئی دہلی کے وسنت کُنج کے بنگالی محلہ میں ان کے چھوٹے سے گھر تک پہنچنے کے لیے، آپ کو گائے بھینسوں سے بھڑی سڑکوں سے گزرنا ہوگا۔ یہ دودھ کی تجارت کا مرکز ہے، اور ہوا میں چاروں طرف گوبر کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ محلہ میں رہنے والے زیادہ تر لوگ بنگالی مہاجر ہیں۔

۲۶ سالہ پُتُل کے گھر کی ایک دیوار پر، ماں دُرگا کا ایک پوسٹر کالی کے اوتار میں ٹنگا ہوا ہے۔ اس کے بغل میں ان کے شوہر کی ایک پرانی تصویر ہے۔ ان کی ایک اور تازہ تصویر میز کے اوپر کھڑا کرکے رکھی ہے، جس کے سامنے ایک اگربتی جل رہی ہے۔

PHOTO • Bhasha Singh

پُتُل دلوئی نئی دہلی میں بنگالی محلہ (بائیں) میں رہتی ہیں، جو اس مال سے زیادہ دور نہیں ہے، جہاں ان کے شوہر کام کیا کرتے تھے

چندن دلوئی (۳۰) نے سات سال تک وسنت اسکوائر مال میں کام کیا تھا۔ وہ صفائی سے متعلق خدمات انجام دینے کے لیے ورلڈ کلاس سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے متعین ہاؤس کیپنگ ٹیم کا حصہ تھے۔ ۱۱ نومبر ۲۰۱۶ کو، چندن اور ایک دیگر ملازم کو مال کے احاطہ میں ایک سیپٹک ٹینک کو صاف کرنے کے لیے کہا گیا۔ چندن، بغیر کسی حفاظتی سامان کے ٹینک میں اتر گئے، جہاں زہریلی گیس کے سبب ان کا دَم گُھٹ گیا۔ ان کے ساتھی اسرائیل، ان کی مدد کے لیے اندر کودے، لیکن وہ بھی بیہوش ہو کر گر پڑے۔ نیوز رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ایک بیٹ کانسٹیبل نے رسّی ڈال کر انھیں ٹینک سے باہر نکالا اور اسپتال لے گیا۔ وہاں پہنچنے پر چندن کو مردہ قرار دے دیا گیا، جب کہ اسرائیل کی جان بچ گئی۔

’’میں نے جب یہ خبر سنی، تو مال کی طرف بھاگی،‘‘ پتل بتاتی ہیں، ’’مجھے مجھے اندر نہیں جانے دیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ چندن کو فورٹس اسپتال بھیجا گیا ہے۔ بنگالی محلہ کے سینکڑوں لوگ اسپتال میں جمع ہو گئے تھے، لیکن ہمیں وہاں سے بھگا دیا گیا۔ میں گڑگڑائی کہ وہ میرے شوہر ہیں، مجھے انھیں دیکھنا ہے۔ یہاں تک کہ میرے بیٹے کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہمیں ایسے بھگایا گیا جیسے کہ ہم مجرم ہوں۔

ویڈیو دیکھیں: ’مجھے جو کھونا تھا وہ میں نے کھو دیا ہے، وہ جا چکے ہیں...‘

’’آخری لمحات میں انھیں نہ دیکھ پانے کا غم مجھے ستاتا رہتا ہے۔‘‘ پتل بولتے وقت بس آنسو بہانے ہی والی ہیں۔ ’’میرے شوہر کو اسی غیر قانونی کام کے لیے بنایا گیا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ پتل کو جب یہ پتہ چلا کہ وقفہ وقفہ پر انھیں سیپٹک ٹینک صاف کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، تو انھوں نے ان کو نوکری چھوڑ دینے کے لیے کہا تھا۔ لیکن چندن نے ان کی بات نہیں مانی، اس خوف سے کہ اگر وہ ٹینک کو صاف کرنے سے منع کریں گے، تو انھیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور دوسری نوکری حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔

’’جن لوگوں نے انھیں ایسا کرنے کے لیے کہا تھا، انھیں پکڑا جانا چاہیے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ٹینکوں کے اندر مہلک گیس ہوتی ہے، پھر بھی میرے شوہر کو اس کے اندر جانے کے لیے کہا گیا۔ کیوں؟ صرف میری ذات کے لوگوں کو ہی سیور اور نالے کی صفائی کے کام پر کیوں مامور کیا جاتا ہے؟ ہندوستان میں ’’ترقی‘‘ کے بارے میں اتنا شور مچایا جا رہا ہے اور دوسری طرف انسانوں کو مال کے نالے سے گندگی صاف کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ لوگ اب بھی ان سیوروں کے اندر کیوں مر رہے ہیں؟ مجھے اس سوال کا جواب چاہیے۔‘‘

PHOTO • Bhasha Singh

’سبھی جانتے ہیں کہ ٹینکوں کے اندر مہلک گیس ہوتی ہے، پھر بھی میرے شوہر کو اس کے اندر جانے کے لیے کہا گیا‘، پتل کا کہنا ہے جو بتا رہی ہیں کہ چندن دلوئی (دائیں) کی جان کیسے گئی

خوش قسمتی سے، پتل انصاف کے لیے اپنی لڑائی میں اکیلی نہیں ہیں۔ وہ دباؤ کے آگے جھکیں نہیں۔ جس آئی ٹی پیشہ ور کے گھر پر پتل گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں، اس نے پولس تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے میں ان کی مدد کی۔ غیر سرکاری تنظیموں اور اسی محلہ میں رہنے والی ایک دیگر رشتہ دار کے آجر نے بھی ان کی مدد کی۔

’’پوسٹ مارٹم رپورٹ نے سچائی ثابت کر دی – موت کا سبب تھا زہریلی گیس سے دَم گھُٹنا،‘‘ پتل کی رشتہ دار دیپالی دلوئی کہتی ہیں۔ ’’کمپنی نے رپورٹ میں ہیر پھیر کرنے کی کوشش کی، یہ کہتے ہوئے کہ موت بجلی کا جھٹکا لگنے سے ہوئی ہے۔ لیکن ہر کوئی سچائی جانتا ہے۔ جب کوٹھیوں (ہاؤسنگ کالونیوں) کے صاحبوں نے کمپنی کے خلاف معاملہ درج کرنے کی دھمکی دی، تب انھوں نے رپورٹ کو صحیح مانا۔‘‘ نظام ہمارے لیے مایوسی کا سبب ہے، دیپالی کہتی ہیں۔ ’’اگر دہلی کی یہ حالت ہے، تو کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ دور دراز کے گاؤوں کی حالت کیا ہوگی؟‘‘

مہینوں تک چکر لگانے کے بعد، چندن کے آجروں نے پتل کو ۱۰ لاکھ روپے دیے (سپریم کورٹ کے ۲۷ مارچ، ۲۰۱۴ کے ایک فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ ۱۹۹۳ سے سیور/سیپٹک ٹینک کی صفائی کے دوران مرنے والے سبھی لوگوں کو معاوضہ کے طور پر ۱۰ لاکھ روپے دیے جائیں) اور پتل کو نوکری دینے کی یقین دہانی کرائی۔

بدقسمتی سے، انھوں نے پتل کو بھی ہاؤس کیپنگ کی وہی نوکری پیش کی جس نے ان کے شوہر کی جان لے لی تھی۔

’’آخرکار، ذات معنی رکھتی ہے۔ میں اپنے شوہر کو واپس نہیں پا سکتی۔ میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ کسی اور کو یہ پریشانی نہ جھیلنی پڑے۔ نالے میں کسی کی موت نہیں ہونی چاہیے،‘‘ پتل کہتی ہیں۔

پُتُل اور چندن باگڑی ہیں، جو کہ ایک درج فہرست ذات ہے۔ وہ مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے، سندربن کے کاندک پور گاؤں سے دہلی آئے تھے۔ گاؤں میں کوئی کام نہیں تھا۔ مال میں، چندن ۹۸۰۰ روپے کمایا کرتے تھے، اور وہ ۳۵۰۰ روپے اپنے کمرے کا کرایہ دیتے تھے۔

اب اُداس اور پاس کے بنگلے میں ایک باورچی کے طور پر اپنے کام پر لوٹنے میں ناقابل، پتل جانتی ہیں کہ وہ سندر بن واپس نہیں لوٹ سکتیں۔ واپس جانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی ساس، دیور اور ان کی فیملی مشکل سے اپنی دو ڈھائی بیگھہ زمین (موٹے طور پر۶ء۰ ایکڑ) پر گزارہ کرتی ہے۔

حالانکہ وہ اس خیال سے نفرت کرتی ہیں، لیکن پُتُل جانتی ہیں کہ انھیں صفائی کے کام کی پیشکش کو قبول کرنا ہی پڑے گا۔ ’’یہ اب ایک مجبوری ہے۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ اس کام سے میں اپنے بچے کی بہتر اور محفوظ طریقے سے پرورش کر سکتی ہوں۔‘‘

امت، پُتُل کا نو سالہ بیٹا، اسٹرابیری آئس کریم کے ساتھ اسکول سے گھر لوٹتا ہے۔ وہ وسنت پبلک اسکول میں اَپر کے جی میں ہے۔ اسے یاد ہے کہ اس کے والد پژا اور برگر کے لیے انھیں مال لے جایا کرتے تھے۔ اور پھر، اس نومبر کے دن، اس نے اپنے والد کو گھر پر لاتے ہوئے دیکھا، جب سر سے ناف تک ان کے جسم پر ٹانکے لگے ہوئے تھے۔

PHOTO • Bhasha Singh

ان کا بیٹا، ۹ سالہ امت، اپنے والد کی تصویر کے ساتھ: ’میں انجینئر بنوں گا اور ایسی ٹکنالوجی تیار کروں گا، جو انسانوں کو نالہ صاف کرنے سے روکے گی‘

’’انھوں نے ان کو اُس گندے نالے میں جانے پر مجبور کیا جس میں ان کی موت ہو گئی،‘‘ امت غصے سے کہتا ہے۔ ’’بعد میں انھوں نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے وہاں ایک سیفٹی بیلٹ لگا دی۔ اگر بیلٹ وہاں پہلے سے ہوتی، تو پاپا کے گٹر میں جانے سے وہ گندی ہو گئی ہوتی۔ لیکن بیلٹ تو بے داغ تھی۔‘‘

امت وقت سے پہلے ہی ذات پر مبنی عام تصور سے متاثر ہو چکا ہے۔ ’’جب اسکول میں دوستوں کو میرے پاپا کی موت کے بارے میں پتہ چلا، تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ وہ اس گٹر میں کیوں گئے تھے، وہ یہ گندا کام کر ہی کیوں رہے تھے؟ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے والد یہ کام کرتے ہیں، اس لیے میں خاموش رہا۔‘‘

امت موبائل فون اٹھاتا ہے اور مجھے اپنے والد کی تصویریں دکھاتا ہے۔ ہر تصویر کے بارے میں اس کے پاس ایک کہانی ہے۔ ’’پاپا جب گٹر میں گئے، تو انھوں نے اپنے کپڑے اتار دیے اور فون اس کے اندر ہی چھوڑ دیا۔ موت کے بعد، میں نے ان کا فون لے لیا،‘‘ وہ بتاتا ہے۔ ’’روزانہ اسکول کے بعد میں ان کی تصویر دیکھتا ہوں اور پھر فون پر تھوڑی دیر کھیلتا ہوں۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’پاپا کو اس طرح نہیں جانا چاہیے تھا‘

امت کودتا ہے اور پیروں کے ایک لال نشان کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو فریم کرکے دیوار پر لگایا گیا ہے۔ یہ چندن کے پیر کی چھاپ ہے، جسے ان کی موت کے بعد لیا گیا تھا۔ لال رنگ آلتہ کا ہے، جس کا استعمال مبارک موقعوں پر ہاتھ پیر رنگنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس برادری کا یہ عقیدہ ہے کہ پیروں کا نشان اس بات کو یقینی بنائے گا کہ روح کبھی وداع نہ ہو۔ ’’دیکھئے، میرے پاپا یہاں ہیں،‘‘ امت کہتا ہے۔

پولس نے ہمیں بتایا کہ ان کے توسیعی خاندان کے تقریباً ۵۰-۶۰ ارکان دہلی میں رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا گاؤں ہی اٹھ کر شہروں میں چلا آیا ہے۔ یہ سبھی کسی نہ کسی طرح کی صفائی کے کام میں لگے ہوئے ہیں، زیادہ تر ٹھیکہ مزدوروں کی شکل میں۔ اپنے گاؤں سے تو انھیں چھٹکارہ مل گیا، لیکن زندگی اور ذریعہ معاش کو محدود کرنے والی اپنی ذات کی پہچان سے نہیں۔ ’’ہاؤس کیپنگ‘‘ صرف ایک دلکش لفظ ہے؛ اس نے ان کے کام کے حالات کو نہیں بدلا ہے۔

پُتُل کے والد، پردیپ، دہلی کے چترنجن پارک میں طویل عرصے سے جھاڑو لگانے اور صفائی کا کام کر رہے ہیں۔ چندن کا ایک بڑا بھائی نرمل اور بہن سمترا ان سے پہلے دہلی آئے تھے۔ ان کی برادری کے مردوں کو عام طور پر ہاؤس کیپنگ یا باغبانی کا کام ملتا ہے اور عورتیں گھریلو کام کرتی ہیں۔

چندن کے ماما دیپک، ۲۰ سال قبل اسی گاؤں، کاندک پور سے دہلی آئے تھے۔ ایک غیر رسمی ملازم کے طور پر برسوں تک جھاڑو لگانے اور صفائی کرنے کے بعد، اب وہ گوشت اور مچھلی کی ایک دکان چلاتے ہیں۔ ’’ہاتھ سے گندگی صاف کرنے کا کام بے روک ٹوک جاری ہے،‘‘ دیپک کہتے ہیں۔ ’’یہ رکنا چاہیے۔ کبھی کبھی جب کوئی موت ہو جاتی ہے، تو یہ ایشو خبر بنتا ہے۔ کیا ہمیں اس ایشو کو سنجیدگی سے لینے سے پہلے کسی کے مرنے کا انتظار کرنا چاہیے؟‘‘

PHOTO • Bhasha Singh

’ذات سے فرق پڑتا ہے‘، پُتُل کہتی ہیں۔ ’میں اپنے شوہر کو واپس نہیں پا سکتی۔ میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ کسی اور کو یہ پریشانی نہ جھیلنی پڑے‘

پُتُل، جنہوں نے بنگالی میڈیم سے ۸ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے، دہلی میں رہنے اور اپنے بیٹے کو ’’بڑا آدمی‘‘ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ اسے جھاڑو پونچھا لگانے کے کام سے دور رکھیں گی۔ ’’میں ذات کے بندھنوں کو توڑنے کے لیے اپنی آخری سانس تک لڑوں گی،‘‘ وہ اعلان کرتی ہیں۔

امت اپنی ماں سے لپٹ کر کہتا ہے، ’’میں انجینئر بنوں گا اور ایک ایسی ٹکنالوجی تیار کروں گا، انسانوں کو گٹر صاف کرنے سے روکے گی۔‘‘

پوسٹ اسکرپٹ: مضمون نگار کے ذریعے صدمے میں مبتلا فیملی سے ملنے کے کچھ وقت بعد ہی، پُتُل نے مال میں اپنے شوہر کی نوکری قبول کر لی۔ حالانکہ، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس خیال سے نفرت کرتی ہیں، لیکن خود کی اور اپنے بیٹے کی مدد کے لیے انھیں ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Bhasha Singh

Bhasha Singh is an independent journalist and writer, and 2017 PARI Fellow. Her book on manual scavenging, ‘Adrishya Bharat’, (Hindi) was published in 2012 (‘Unseen’ in English, 2014) by Penguin. Her journalism has focused on agrarian distress in north India, the politics and ground realities of nuclear plants, and the Dalit, gender and minority rights.

Other stories by Bhasha Singh
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez