وزیر اعظم نریندر مودی نے جب ۸ نومبر کو نوٹ بندی کا اعلان کیا، اس سے ایک ہفتہ قبل تلنگانہ کے سدّی پیٹ ضلع کے دھرم رام گاؤں کے ۴۲ سالہ کسان، وَردا بَلَیّا، اپنا ایک ایکڑ کھیت بیچنے والے تھے۔ یہ کھیت سدی پیٹ اور رامیَم پیٹ کو آپس میں جوڑنے والی شاہراہ کے قریب ہے۔

اکتوبر میں بے موسم بارش کی وجہ سے ان کی مکئی کی پوری فصل برباد ہو گئی تھی۔ انہوں نے ساہوکاروں اور آندھرا بینک سے کل ۸ سے ۱۰ لاکھ روپے کا جو قرض لے رکھا تھا، اس کی سود کی رقم لگاتار بڑھ رہی تھی۔ وہ پیسے کے بغیر ساہوکاروں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنی چار ایکڑ زمین کے ایک ایکڑ کے سب سے زرخیز حصہ کو بیچنے کے لیے کسی اچھے خریدار کی تلاش شروع کر دی تھی۔

نوٹ بندی سے پہلے انہوں نے اپنی بڑی بیٹی سریشا سے کہا، ’’کوئی زمین خریدنے کے لیے آیا ہے۔‘‘

سال ۲۰۱۲ میں بَلَیّا کافی مالی دباؤ میں آ گئے تھے، جب انہوں نے سریشا کی شادی کے لیے ۴ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ یہ بوجھ تب اور بڑھا، جب انہوں نے چار بور ویل (کنوؤں) کی کھدائی کے لیے مزید ۲ لاکھ روپے قرض لیے، جن میں سے تین بورویل ناکام ثابت ہوئے۔ ان تمام چیزوں سے ان کے قرض میں کافی اضافہ ہو گیا۔

چند ماہ قبل، بَلَیّا کی چھوٹی بیٹی، ۱۷ سالہ اکھلا، بارہویں کلاس میں پہنچ گئی؛ اکھلا کی بہن کی اسی عمر میں شادی کر دی گئی تھی۔ بَلَیّا اب اکھلا کی شادی کے بارے میں فکرمند رہنے لگے۔ وہ اپنے تمام قرضوں کو واپس کرکے آزاد ہونا چاہتے تھے۔

PHOTO • Rahul M.

بَلَیّا کی چھوٹی بیٹی اکھلا اور اس کی دادی: دونوں نے اُس رات وہ شوربہ نہیں کھایا تھا، جس کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی

دھرم رام گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بلیّا جس زمین کو بیچنا چاہتے تھے، وہ ہائی وے کے ٹھیک بغل میں ہے اور انہیں آسانی سے ایک ایکڑ کے ۱۵ لاکھ روپے مل جاتے۔ اس سے ان کے کئی مسائل حل ہو جاتے: مکئی کی فصل کی بربادی سبب قرض، سود کے لیے ان کا پیچھا کرنے والے ساہوکار اور اکھلا کی شادی کی فکر۔

لیکن حکومت کے ذریعے ۵۰۰ اور ۱۰۰۰ روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے بعد بَلَیا کا سارا منصوبہ الٹا پڑ گیا۔ ان کا ممکنہ خریدار پیچھے ہٹ گیا۔ اکھلا یاد کرتی ہیں، ’’میرے والد پہلے تو ٹھیک تھے۔ پھر، نوٹ بندی کے اعلان کے بعد نوٹوں کا حال دیکھ کر انہیں احساس ہواکہ کوئی بھی انہیں [زمین کے لیے] پیسے نہیں دے گا۔ وہ بہت اداس رہنے لگے۔‘‘

پھر بھی، بلیّا نے ہار نہیں مانی اور نئے خریداروں کی تلاش جاری رکھی۔ لیکن اس دوران کئی لوگوں کو لگا تھا کہ ان کی بچت راتوں رات بیکار ہو گئی ہے۔ یہاں کئی لوگوں کے پاس فعال بینک اکاؤنٹ تک نہیں ہیں۔

نوٹ بندی کے ایک ہفتہ بعد، ۱۶ نومبر تک، بلیّا کو احساس ہوا کہ کوئی بھی کچھ وقت کے لیے ان کی زمین نہیں خرید پائے گا۔ وہ اس صبح اپنے کھیت میں گئے اور مکئی کی فصل خراب ہونے کے بعد بوئی گئی سویا بین کی فصل پر حشرہ کش کا چھڑکاؤ کیا۔ شام کو انہوں نے اپنے کھیت میں دیوی میسمّا کو ایک مرغی کاٹ کر چڑھائی، اور رات کے کھانے کے لیے اسے ساتھ لے کر گھر لوٹ آئے۔

بلیّا کے گھر پر مرغ کا گوشت صرف تہواروں کے دوران پکایا جاتا تھا یا جب سریشا اپنے شوہر کے گاؤں سے گھر آتی تھیں، تب بنتا تھا۔ بلیّا ہمیشہ خود ہی گوشت پکاتے تھے۔ آخری بدھ کو، شاید وہ چاہتے تھے کہ ان کا آخری کھانا جشن کے طور پر ہو؛ اس ہفتے کو بھلانے کے لیے جس نے ان کے سب سے اچھے سرمایہ کو ان کے سب سے برے خوابوں میں سے ایک میں بدل دیا تھا۔ بلیّا نے گوشت کے شوربے میں کیڑے مار دوا ملا دی۔ ان کی فیملی میں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ انہوں نے ایسا کیا ہے۔ بلیّا کے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے، ’’وہ اپنی فیملی کو قرض کے بھاری [مالی] بوجھ تلے نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ان سبھی کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔‘‘

رات کے کھانے کے وقت بلیّا نے ایک لفظ نہیں بولا، لیکن جب ان کے ۱۹ سالہ بیٹے پرشانت نے ان سے شوربے سے آ رہی عجیب بو کے بارے میں پوچھا، تو اکھلا کے مطابق انہوں نے کہا، ’’میں نے صبح سے شام تک [حشرہ کش کا] چھڑکاؤ کیا ہے۔ اسی کی بو آ رہی ہے۔‘‘

فیملی کے چھ ممبران میں سے چار نے سالن کھایا – بلیّا، ان کی بیوی بالا لکشمی، پرشانت، جو بی ٹیک کر رہا ہے، اور بلیّا کے ۷۰ سالہ والد، گالیّا۔ چونکہ اکھلا اور اس کی دادی گوشت نہیں کھاتیں، اس لیے اس رات زہریلے کھانے سے بچ گئیں۔

PHOTO • Rahul M.

پڑوسیوں کے ساتھ ایک غم زدہ ماں اور بیوہ بیوی – انہوں نے اپنے بیٹے بلیّا کے ساتھ ساتھ، اپنے شوہر گالیّا کو کھو دیا

اکھلا یاد کرتی ہیں، ’’رات کے کھانے کے بعد دادا جی کو چکّر آنے لگے اور وہ لیٹ گئے۔ ان کے منھ سے رال ٹپک رہی تھی۔ ہم نے سوچا کہ یہ فالج کا حملہ ہے اور ان کے پیر اور ہاتھ رگڑنے لگے۔‘‘ کچھ دیر بعد، گالیّا کی موت ہو گئی۔

بلیّا نے بھی قے کرنی شروع کر دی اور لیٹ گئے۔ خوف و ڈر میں مبتلا اکھلا اور پرشانت نے مدد کے لیے اپنے پڑوسیوں کو بلایا۔ ایک بار جب انہیں پتہ چلا کہ سالن میں کیڑے مار دوا ملی ہوئی ہے، تو انہوں نے ایک ایمبولینس بلائی اور بلیّا، بالا لکشمی اور پرشانت کو اسپتال لے کر بھاگے۔ اکھلا اپنے دادا کی لاش کے پاس، اپنی دادی کے ساتھ گھر پر رکیں۔

اسپتال لے جاتے وقت راستے میں ہی بلیّا کی موت ہو گئی۔ ان کی بیوی اور بیٹے کا علاج ان کے گاؤں سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور، سدّی پیٹ شہر کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں چل رہا ہے۔ سریشا اور ان کے شوہر رمیش، اسپتال میں ہیں اور وہاں کا بل چکانے کے ساتھ ساتھ ماں اور بیٹے کی دیکھ بھال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رمیش کہتے ہیں، ’’پرشانت کو ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرایا گیا تھا، اس لیے ان کا علاج آروگیہ شری [ایک ہیلتھ اسکیم] کے تحت کیا جا رہا ہے۔ لیکلن ہم [گاؤں کے لوگوں کے ذریعے] اُدھار دیے گئے پیسے سے ان کی ماں کا علاج کروا رہے ہیں اور اپنی بچت کا استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ وہ اسپتال کے سبھی بلوں کو حفاظت سے رکھ رہے ہیں، کیوں کہ ریاستی حکومت نے بلیّا کی موت کے بعد فیملی کی مدد کا اعلان کیا ہے۔

گھر پر، اکھلا نے پڑوسیوں سے ادھار لیے گئے پیسوں اور ضلعی حکام سے ملے مبینہ ۱۵ ہزار روپے سے اپنے والد اور دادا کی آخری رسومات ادا کیں۔

وہ صبر کیے ہوئی ہیں، لیکن اپنے مستقبل کو لے کر اداس رہتی ہیں: وہ کہتی ہیں، ’’مجھے پڑھائی میں بہت دلچسپی ہے۔ مجھے ریاضی پسند ہے۔ اور میں ای اے ایم سی ای ٹی امتحان [انجینئرنگ اور میڈیکل اسٹوڈنٹس کے لیے ہونے والا داخلہ جاتی امتحان] میں بیٹھنا چاہتی تھی۔ لیکن اب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا…‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Rahul M.

Rahul M. is an independent journalist based in Andhra Pradesh, and a 2017 PARI Fellow.

Other stories by Rahul M.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez