اتوار کا دن ہے اور صبح کے ساڑھے ۱۰ بجے ہیں۔ ہنی کام کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوکر، وہ احتیاط سے اسکارلیٹ لپسٹک لگاتی ہیں۔ ’’یہ میرے سوٹ کے ساتھ اچھی طرح میل کھائے گی،‘‘ وہ کہتی ہیں اور اپنی سات سال کی بیٹی کو کھلانے کے لیے بھاگتی ہیں۔ ڈریسنگ ٹیبل پر کچھ ماسک اور ایک جوڑی ایئرفون لٹک رہا ہے۔ کاسمیٹکس اور میک اَپ کے سامان میز کے اوپر بکھرے ہوئے ہیں، جب کہ آئینہ میں کمرے کے ایک کونے میں لٹ رہی دیوی دیوتاؤں اور رشتہ داروں کی تصویریں دکھائی دے رہی ہیں۔

ہنی (بدلا ہوا نام) نئی دہلی کے منگول پوری کی ایک بستی میں واقع اپنے ایک کمرہ کے گھر سے تقریباً ۷-۸ کلومیٹر دور، ایک ہوٹل میں موجود گاہک کے پاس جانے کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ وہ تقریباً ۳۲ سال کی ہیں اور پیشہ سے جسم فروش (سیکس ورکر) ہیں، جو راجدھانی کے نانگ لوئی جاٹ علاقے میں کام کرتی ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ہریانہ کی رہنے والی ہیں۔ ’’میں ۱۰ سال پہلے آئی تھی اور اب یہیں کی ہوں۔ لیکن میری زندگی دہلی آنے کے بعد سے بدقسمتی کا ایک سلسلہ رہا ہے۔‘‘

کس قسم کی بدقسمتی؟

’’چار اسقاط تو بہت بڑی بات ہے! وہ میرے لیے تھے، جب مجھے کھانا کھلانے، میری دیکھ بھال کرنے اور مجھے اسپتال لے جانے والا کوئی نہیں تھا،‘‘ ہنی مصنوعی ہنسی کے ساتھ کہتی ہیں، یہ اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ اپنے دَم پر ایک لمبا سفر طے کر چکی ہیں۔

’’یہی وجہ تھی کہ مجھے اس کام میں آنا پڑا۔ میرے پاس کھانے اور اپنے بچے کو کھلانے کے لیے پیسے نہیں تھے، جو کہ ابھی بھی میرے اندر تھا۔ میں پانچویں بار حاملہ ہوئی تھی۔ میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا جب میں صرف دو مہینے کی حاملہ تھی۔ میری بیماری سے پیدا شدہ واقعات کے ایک سلسلہ کے بعد، میرے مالک نے مجھے پلاسٹک کے ڈبے بنانے والی اس فیکٹری سے نکال دیا جس میں، میں کام کرتی تھی۔ میں وہاں ۱۰ ہزار روپے مہینہ کماتی تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

ہنی کے والدین نے ہریانہ میں ۱۶ سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی تھی۔ وہ اور ان کے شوہر کچھ سال وہاں رہے – جہاں وہ ایک ڈرائیور کے طور پر کام کرتا تھا۔ جب وہ تقریباً ۲۲ سال کی تھیں، تب وہ دونوں دہلی چلے آئے۔ لیکن ان کا شرابی شوہر اکثر غائب رہنے لگا۔ ’’وہ کئی مہینوں کے لیے چلا جاتا۔ کہاں؟ مجھے نہیں معلوم۔ وہ اب بھی ایسا کرتا ہے اور کبھی نہیں بتاتا ہے۔ بس دیگر عورتوں کے ساتھ دور چلا جاتا ہے اور صرف تبھی واپس لوٹتا ہے جب اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ وہ ایک فوڈ سروس ڈلیوری ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے اور زیادہ تر خود پر خرچ کرتا ہے۔ میرا چار بار اسقاط حمل ہونے کا یہی سبب تھا۔ وہ میرے لیے نہ تو ضروری دوائیں لیکر آتا تھا اور نہ ہی تغذئی کھانا۔ میں بہت کمزوری محسوس کرتی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

'I was five months pregnant and around 25 when I began this [sex] work', says Honey
PHOTO • Jigyasa Mishra

’میں نے جب یہ [جسم فروشی کا] کام شروع کیا، تب میں پانچ مہینے کی حاملہ اور تقریباً ۲۵ سال کی تھی‘، ہنی بتاتی ہیں

اب ہنی، اپنی بیٹی کے ساتھ منگول پوری میں اپنے گھر میں رہتی ہیں، جس کے لیے وہ ہر مہینے ۳۵۰۰ روپے کرایہ دیتی ہیں۔ ان کا شوہر ان کے ساتھ ہی رہتا ہے، لیکن ہر کچھ مہینے میں پھر سے غائب ہو جاتا ہے۔ ’’میں نے اپنی نوکری کھونے کے بعد زندہ رہنے کی کوشش کی، لیکن ایسا نہیں کر سکی۔ پھر گیتا دیدی نے مجھے جسم فروشی کے بارے میں بتایا اور مجھے پہلا گاہک دلوایا۔ میں نے جب یہ کام شروع کیا، تب میں پانچ مہینے کی حاملہ اور تقریباً ۲۵ سال کی تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ہم سے بات کرتے ہوئے وہ اپنی بیٹی کو کھانا کھلاتی رہیں۔ ہنی کی بیٹی ایک پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول میں کلاس ۲ میں پڑھتی ہے، جس کی فیس ۶۰۰ روپے ماہانہ ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران، یہ بچی ہنی کے فون پر اپنی کلاسوں میں آن لائن شامل ہوتی ہے۔ یہ وہی فون ہے جس پر ان کے گاہک ان سے رابطہ کرتے ہیں۔

’’جسم فروشی کا کام کرنے سے مجھے کرایے کی ادائیگی اور کھانا اور دوائیں خریدنے کے لیے معقول پیسے ملنے لگے۔ میں نے ابتدائی دور میں ایک مہینہ میں تقریباً ۵۰ ہزار روپے کمائے۔ میں تب جوان اور خوبصورت تھی۔ اب میں موٹی ہو گئی ہوں،‘‘ ہنی زور سے ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’میں نے سوچا تھا کہ بچے کی پیدائش کے بعد میں اس کام کو چھوڑ دوں گی اور کوئی اچھا روزگار تلاش کروں گی، چاہے وہ کام والی (گھریلو ملازمہ) یا جھازو لگانے کا ہی کام کیوں نہ ہو۔ لیکن میری قسمت میں کچھ اور ہی لکھا ہے۔

’’میں اپنے حمل کے دوران بھی کمانے کے لیے بہت پرجوش تھی کیوں کہ میں پانچواں اسقاط حمل نہیں چاہتی تھی۔ میں اپنے آنے والے بچے کو ہر ممکن دوا اور غذائیت فراہم کرنا چاہتی تھی، اسی لیے میں نے حمل کے نویں مہینے میں بھی گاہکوں کو قبول کیا۔ یہ بہت دردناک ہوتا تھا لیکن میرے پاس اور کوئی متبادل نہیں تھا۔ مجھے بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ اس سے میری زچگی میں نئی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی،‘‘ ہنی بتاتی ہیں۔

’’حمل کی آخری سہ ماہی میں جنسی طور پر فعال رہنا کئی قسم سے خطرناک ہو سکتا ہے،‘‘ لکھنؤ کی خواتین کی امراض کی ماہر، ڈاکٹر نیلم سنگھ نے پاری کو بتایا۔ ’’وہ جھلّی کے پھٹنے کا تجربہ کر سکتی ہے اور جنسی منقولہ امراض (ایس ٹی ڈی) میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ وہ وقت سے پہلے دردِ زہ سے گزر سکتی ہے اور بچے کو بھی ایس ٹی ڈی ہو سکتا ہے۔ اور اگر حمل کے شروعاتی دنوں میں اکثر مباشرت کی جائے، تو اس سے اسقاط ہو سکتا ہے۔ جسم فروشی کرنے والی زیادہ تر عورتیں حاملہ ہونے سے بچتی ہیں۔ لیکن حاملہ ہونے پر اگر وہ کام کرنا جاری رکھتی ہیں، تو یہ کبھی کبھی دیر سے اور غیر محفوظ اسقاط کا سبب بن سکتا ہے اور ان کی افزائشی صحت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‘‘

ہنی بتاتی ہیں کہ ’’ناقابل برداشت خارش اور درد کے بعد ایک بار جب میں سونوگرافی کے لیے گئے، تو مجھے معلوم ہوا کہ میری جانگھوں، پیٹ کے نچلے حصے پر غیر معمولی ایلرجی اور اندام نہانی پر ورم تھا۔ مجھے جتنا درد ہو رہا تھا، اور ان سب کا علاج کرنے میں جتنا پیسہ خرچ ہونے والا تھا، اس کے بارے میں سوچ کر میں خود کو ہلاک کر دینا چاہتی تھی۔‘‘ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ یہ جنسی منقولہ مرض ہے۔ ’’لیکن پھر، میرے گاہکوں میں سے ایک نے مجھے جذباتی اور مالی مدد فراہم کی۔ میں نے ڈاکٹر کو کبھی اپنے پیشہ کے بارے میں نہیں بتایا۔ اس سے مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا۔ انہوں نے اگر میرے شوہر سے ملنے کے لیے کہا ہوتا، تو میں اپنے ایک گاہک کو ان کے پاس لے جاتی۔

’’اُس آدمی کا شکریہ کہ میں اور میری بیٹی آج ٹھیک ہیں۔ اس نے میرے علاج کے دوران آدھا بل ادا کیا۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس کام کو جاری رکھ سکتی ہوں،‘‘ ہنی کہتی ہیں۔

'I felt like killing myself with all that pain and the expenses I knew would follow,' says Honey, who had contracted an STD during her pregnancy
PHOTO • Jigyasa Mishra
'I felt like killing myself with all that pain and the expenses I knew would follow,' says Honey, who had contracted an STD during her pregnancy
PHOTO • Jigyasa Mishra

’مجھے جتنا درد ہو رہا تھا، اور ان سب کا علاج کرنے میں جتنا پیسہ خرچ ہونے والا تھا، اس کے بارے میں سوچ کر میں خود کو ہلاک کر دینا چاہتی تھی‘، ہنی کہتی ہیں، جو اپنے حمل کے دوران ایس ٹی ڈی میں مبتلا ہو گئی تھیں

’’کئی تنظیمیں انہیں کنڈوم کے استعمال کی اہمیت کے بارے میں بتاتی ہیں،‘‘ نیشنل نیٹ ورک آف سیکس ورکرز (این این ایس ڈبلیو) کی کوآرڈی نیٹر کرشن دیش مکھ کہتی ہیں۔ ’’حالانکہ، جسم فروش عورتوں کے درمیان خود سے اسقال کرانا اپنے آپ اسقاط ہو جانے کے مقابلے زیادہ عام ہے۔ لیکن عام طور پر، وہ جب سرکاری اسپتالوں میں جاتی ہیں، تو وہاں کے ڈاکٹر ان کے پیشہ کے بارے میں جاننے کے بعد انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹروں کو کسے پتا چلتا ہے؟

’’وہ خواتین کے امراض کی ماہر ہیں،‘‘ دیش مکھ بتاتی ہیں، جو مہاراشٹر کے سانگلی میں واقع ویشیا اَنیائے مُکتی پریشد (وی اے ایم پی) کی صدر بھی ہیں۔ ’’وہ جب ان کا پتہ پوچھتی ہیں اور جان جاتی ہیں کہ عورتیں کس علاقے سے ہیں، تو انہیں اس کا پتا لگ جاتا ہے۔ پھر عورتوں کو [اسقاط کرانے کے لیے] تاریخیں دی جاتی ہیں جو اکثر ملتوی ہوتی رہتی ہیں۔ اور کئی بار، ڈاکٹر آخر میں بولتے ہیں کہ اسقاط ممکن نہیں ہے، یہ کہتے ہوئے: ’آپ نے [حمل کی مدت کے] چار مہینے گزار دیے ہیں اور اب اسقاط کرانا غیر قانونی ہوگا۔‘‘

بہت سی عورتیں سرکاری اسپتالوں سے کسی بھی قسم کی طبی مدد حاصل کرنے سے بچتی ہیں۔ اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرا کے ٹریفکنگ اور ایچ آئی وی/ایڈز پروجیکٹ کی ۲۰۰۷ کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً ’’۵۰ فیصد جسم فروش عورتوں [جن کا نو ریاستوں میں سروے کیا گیا تھا] نے صحت عامہ کے مراکز سے زچگی سے قبل کی دیکھ بھال اور اسپتالوں میں زچگی جیسی خدمات لینے سے انکار کیا۔‘‘ اس کی وجہ شاید زچگی کے بعد بدنامی، برے برتاؤ اور فوری ضرورت پیش آنے کا خوف ہے۔

’’اس پیشہ کا تولیدی صحت سے سیدھا تعلق ہے،‘‘ اجیت سنگھ کہتے ہیں۔ وہ وارانسی میں مقیم گڑیا سنستھان کے بانی اور ڈائرکٹر ہیں۔ ان کی تنظیم ۲۵ سال سے زیادہ عرصے سے انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف لڑائی لڑ رہی ہے۔ دہلی کے جی بی روڈ علاقے میں عورتوں کی مدد کرنے والی تنظیموں کے ساتھ کام کر چکے، اجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ان کے تجربہ میں ’’جسم فروش ۷۵-۸۰ فیصد عورتوں میں تولیدی صحت سے متعلق کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہوتا ہے۔‘‘

’’ہمارے پاس ہر قسم کے گاہک آتے ہیں،‘‘ نانگ لوئی جاٹ میں، ہنی کہتی ہیں۔ ’’ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے لیکر پولس والے، طلبہ سے لیکر رکشہ چلانے والے تک، وہ سبھی ہمارے پاس آتے ہیں۔ چھوٹی عمر کا ہونے پر، ہم صرف انہی لوگوں کے ساتھ جاتے ہیں جو اچھے پیسے دینے والے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے، ہم انتخاب کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ دراصل، ہمیں ان ڈاکٹروں اور پولس والوں کے ساتھ اچھا رشتہ بناکر رکھنا پڑتا ہے۔ پتا نہیں آپ کو ان کی ضرورت کب پڑ جائے۔‘‘

اب وہ مہینے میں کتنا کماتی ہیں؟

’’اگر ہم اس لاک ڈاؤن کی مدت کو چھوڑ دیں، تو میں ایک مہینہ میں تقریباً ۲۵ ہزار روپے کما رہی تھی۔ لیکن یہ ایک تخمینہ ہے۔ ادائیگی، گاہک کے پیشہ کی بنیاد پر الگ الگ ہوتی ہے۔ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ ہم (ان کے ساتھ) پوری رات گزارتے ہیں، یا صرف کچھ گھنٹے،‘‘ ہنی کہتی ہیں۔ ’’گاہک کے بارے میں شک ہونے پر، ہم ان کے ساتھ ہوٹلوں میں نہیں جاتے، بلکہ انہیں اپنے گھر پر بلاتے ہیں۔ لیکن میرے معاملے میں، میں انہیں نانگ لوئی جاٹ میں گیتا دیدی کے یہاں لے آتی ہوں۔ میں ہر مہینے کچھ راتوں اور دنوں کے لیے یہاں رہتی ہوں۔ گاہک مجھے جتنے پیسے دیتے ہیں، وہ اس میں سے آدھا حصہ لیتی ہیں۔ وہ ان کا کمیشن ہے۔‘‘ رقم وسیع طور پر الگ الگ ہوتی ہے، لیکن پوری رات کے لیے ان کی کم از کم قیمت ایک ہزار روپے ہے، وہ بتاتی ہیں۔

Geeta (in orange) is the overseer of sex workers in her area; she earns by offering her place for the women to meet clients
PHOTO • Jigyasa Mishra
Geeta (in orange) is the overseer of sex workers in her area; she earns by offering her place for the women to meet clients
PHOTO • Jigyasa Mishra

گیتا (نارنجی میں) اپنے علاقے میں جسم فروش عورتوں کی نگراں ہیں؛ وہ عورتوں کو گاہکوں سے ملنے کے لیے اپنا کمرہ دیکر کماتی ہیں

تقریباً ۴۰ سالہ گیتا، اپنے علاقے میں جسم فروش عورتوں کی نگراں ہیں۔ وہ بھی جسم فروش ہیں، لیکن بنیادی طور پر دیگر عورتوں کو اپنا کمرہ دیکر اور ان سے کمیشن لیکر اپنی زندگی گزارتی ہیں۔ ’’میں ضرورت مند عورتوں کو اس کام میں لاتی ہوں اور جب ان کے پاس کام کرنے کے لیے جگہ نہیں ہوتی، تو میں انہیں اپنا گھر پیش کرتی ہوں۔ میں ان سے ان کی آمدنی کا صرف ۵۰ فیصد ہی لیتی ہوں،‘‘ گیتا کہتی ہیں۔

’’میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ دیکھا ہے،‘‘ ہنی کہتی ہیں۔ ’’پلاسٹک کی ایک فیکٹری میں کام کرنے سے لیکر باہر نکالے جانے تک کیوں کہ میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا تھا، اور اب یہ پھپھوند اور اندام نہانی کا انفیکشن، جس کے ساتھ میں جی رہی ہوں پھر بھی میں دوائیں لیتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ کے لیے یہی میری قسمت ہے۔‘‘ ان دنوں ہنی کا شوہر بھی ان کے اور ان کی بیٹی کے ساتھ رہ رہا ہے۔

کیا وہ ان کے پیشہ کے بارے میں جانتا ہے؟

’’بہت اچھی طرح،‘‘ ہنی کہتی ہیں۔ ’’وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اب اسے مالی اعتبار سے مجھ پر منحصر رہنے کا بہانہ مل گیا ہے۔ بلکہ آج تو وہ مجھے ہوٹل چھوڑنے جا رہا ہے۔ لیکن میرے والدین [وہ ایک کسانی فیملی ہیں] اس بابت کچھ نہیں جانتے۔ اور میں انہیں کبھی بھی جاننے نہیں دینا چاہوں گی۔ وہ بہت بوڑھے ہیں، ہریانہ میں رہتے ہیں۔‘‘

’’غیر اخلاقی جسم فروشی (کی روک تھام) کا قانون، ۱۹۵۶ کے تحت، ۱۸ سال سے زیادہ عمر کے کسی بھی شخص کے لیے جسم فروش عورت کی کمائی پر زندگی بسر کرنا جرم ہے،‘‘ وی اے ایم پی اور این این ایس ڈبلیو دونوں کی پونہ میں مقیم قانونی صلاح کار، آرتی پائی کہتی ہیں۔ ’’اس میں جسم فروشی کرنے والی عورت کے ساتھ رہنے والے اور اس کی کمائی پر منحصر بالغ بچے، ساتھی/شوہر اور والدین شامل ہو سکتے ہیں۔ ایسے شخص کو سات سال تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔‘‘ لیکن ہنی کے ذریعے اپنے شوہر کے خلاف کارروائی کرنے کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے۔

’’لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد میں پہلی بار کسی گاہک سے ملنے جا رہی ہوں۔ ان دنوں شاید ہی کوئی گاہک ملتا ہے، یا بالکل بھی نہیں ملتا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اب جو لوگ اس وبائی مرض کے دوران بھی ہمارے پاس آتے ہیں، ان پر زیادہ تر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پہلے، ہمیں صرف ایچ آئی وی اور دیگر [جنسی منقولہ] امراض سے پاک رہنے کے لیے احتیاط برتنا پڑتا تھا۔ اب، یہ کورونا بھی آ گیا ہے۔ یہ پورا لاک ڈاؤن ہمارے لیے عذاب رہا ہے۔ کوئی کمائی نہیں تھی – اور ہماری ساری بچت ختم ہو چکی ہے۔ دو مہینے سے میں اپنی دوائیں [پھپھوند مزاحم کریم اور مرہم] بھی نہیں لا سکی کیوں کہ زندہ رہنے کے لیے ہم مشکل سے کھانے کا خرچ اٹھا سکے،‘‘ ہنی کہتی ہیں، اور اپنے شوہر سے موٹرسائیکل باہر نکالنے اور انہیں ہوٹل پہنچانے کے لیے کہتی ہیں۔

کور کا خاکہ بذریعہ انترا رمن۔ وہ سرشٹی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی، بنگلورو سے وژول کمیونی کیشن میں حالیہ گریجویٹ ہیں۔ ان کی خاکہ نگاری اور ڈیزائن پریکٹس پر تصوراتی فن اور داستان گوئی کی تمام شکلوں کا سب سے زیادہ اثر ہے۔

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔

جگیاسا مشرا ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کی طرف سے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہری آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے مواد پر کوئی ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں کیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Illustration : Antara Raman

Antara Raman is an illustrator and website designer with an interest in social processes and mythological imagery. A graduate of the Srishti Institute of Art, Design and Technology, Bengaluru, she believes that the world of storytelling and illustration are symbiotic.

Other stories by Antara Raman
Editor : P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Series Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez