کھپریل بنانے میں نہکل پانڈو کی مدد کرنے کے لیے پورا بامڈا بھیسا محلہ ان کے گھر پر اکٹھا ہو گیا تھا۔ یہ ایک طرح سے ہمدردی کا اظہار تھا، جہاں پوری برادری بغیر کسی معاوضہ کے ایک ساتھ مل کر یہ کھپریل بنا رہی تھی۔ سبھی کو لگا کہ نہکل کے گھر میں بنی شراب ایک طرح سے دعوت ہے، لیکن کوئی بھی اس کی اصل قیمت بتانے کو تیار نہیں تھا۔

لیکن یہ لوگ ان کی چھت کے لیے آخر کھپریل کیوں بنا رہے تھے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ تھا کہ جو کھپریل ان کے مکان کی چھت پر پہلے سے موجود تھی، وہ غائب کیسے ہو گئی؟ ان کے گھر کے اوپر نظر ڈالنے سے یہ صاف طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ اس کا صرف بنیادی ڈھانچہ نظر آ رہا ہے، جب کہ چھت کی تمام کھپریلیں غائب تھیں۔

انہوں نے غصے سے کہا، ’’یہ ایک سرکاری لون تھا۔ میں نے ۴۸۰۰ روپے قرض لیے تھے اور اس سے دو گائیں خریدی تھیں۔‘‘ سرکاری اسکیم کا بنیادی مقصد تھا – ’سافٹ لون‘، یعنی اگر آپ گائے خریدتے ہیں تو آپ کو سبسڈی اور کم سود پر قرض، دونوں سہولیات ملیں گی۔ اور ۱۹۹۴ میں سرگوجا کے اس حصہ میں آپ اتنے پیسے سے اُس زمانے میں دو گائیں خرید سکتے تھے۔ (یہ ضلع اس وقت مدھیہ پردیش میں تھا اور اب چھتیس گڑھ میں ہے۔)

حالانکہ، نہکل کو شروع میں قرض لینے کا خیال بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ جس پانڈو آدیواسی برادری سے ان کا تعلق ہے، اس کے کچھ دوسرے لوگوں نے بھی پہلے قرض لیا تھا، لیکن ان کا یہ تجربہ بعد میں جا کر پریشانی کا باعث بنا کیوں کہ اس کی وجہ سے انہیں اکثر اپنی زمینوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن یہ سرکاری لون تھا، جو خصوصی طور پر آدیواسیوں کے فائدے کے لیے مقامی بینک کے ذریعے جاری کیے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اسے قبول کرنے سے کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ – کوئی بات نہیں۔

’’لیکن میں اس قرض کو واپس نہیں کر سکا،‘‘ نہکل نے بتایا۔ پانڈو کافی غریب لوگ ہیں، جن کی درجہ بندی ’خاص طور سے کمزور قبائلی گروپ‘ کے طور پر کی گئی ہے۔ اس لیے نہکل کی حالت بھی ان سے مختلف نہیں ہے۔

PHOTO • P. Sainath

نہکل کے لیے بھی سرکاری اسکیم فائدہ نہیں، بلکہ سزا ثابت ہوئی

انہوں نے ہمیں بتایا، ’’قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے ان کے اوپر دباؤ بڑھ رہا تھا۔‘‘ اور بینک کے ملازمین اکثر ان سے بدتمیزی سے پیش آتے تھے۔ ’’میں نے الگ الگ چیزیں فروخت کرکے تھوڑا بہت پیسہ چکایا۔ آخر میں، میں نے اپنے مکان کی کھپریلیں فروخت کرکے قرض چکانے کے لیے کچھ اور پیسے جمع کیے۔‘‘

جس قرض کا مقصد نہکل کی غریبی ختم کرنا تھا، اس کی قیمت انہیں اپنے گھر کی کھپریل فروخت کرکے چکانی پڑی۔ اب ان کے پاس گائیں بھی نہیں ہیں – انہیں یہ گائیں بھی فروخت کرنی پڑیں۔ نہکل نے سوچا تھا کہ یہ اسکیم ان کے فائدے کے لیے ہے، لیکن اصل میں وہ اس اسکیم کے مقصد کو پورا کرنے والے ایک ’ٹارگیٹ‘ تھے۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ یہاں پر رہنے والے دوسرے لوگ، جن میں سے اکثر غریب آدیواسی ہیں، انہیں بھی اس پروگرام اور سزا کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایڈووکیٹ موہن کمار گیری، جو اپنے آبائی ضلع سرگوجا کے کچھ گاؤوں کا دورہ کرتے وقت ہمارے ساتھ تھے، انہوں نے بتایا، ’’نہکل اور دیگر لوگوں کو ان پیسوں کی واقعی میں ضرورت تھی جو انہوں نے اس اسکیم کے تحت قرض لیے تھے – لیکن وہ اسے ان چیزوں کی خاطر حاصل نہیں کر سکے جس کے لیے وہ چاہتے تھے۔ انہیں ان اسکیموں کے تحت قرض لینا پڑا جو ان کی ضرورتوں سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ عموماً، آپ اپنے سر کے اوپرکی چھت کو بچانے کے لیے قرض لیتے ہیں۔ لیکن نہکل کو قرض لینے کی وجہ سے اپنے سر کے اوپر کی چھت گنوانی پڑی۔ اب آپ کی سمجھ میں آیا کہ اتنے سارے لوگ ابھی بھی قرض لینے کے لیے ساہوکاروں کے پاس کیوں جاتے ہیں؟‘‘

ہم دونوں حیرت سے ان لوگوں کو دیکھ رہے تھے، جو اپنے جادوئی ہاتھوں سے بے جان مٹی سے خوبصورت کھپریلیں بنا رہے تھے۔ ہمارے گروپ کے بقیہ دو لوگ کھپریل بنانے والے ان جادوئی ہاتھوں کو نہیں، بلکہ اس شاندار شراب کو دیکھنے میں مصروف تھے جسے وہ لوگ پی رہے تھے۔

بنیادی طور پر Everybody Loves a Good Drought میں تصویروں کے بغیر شائع اسٹوری ‘Take a loan, lose your roof’ سے ماخوذ – یہ تصویریں میں نے ڈھونڈ کر نکالی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez