نہ تو ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہے اور نہ ہی یہ ثابت کرنے کا کوئی اور طریقہ کہ شانتی دیوی کی موت کووڈ۔۱۹ سے ہوئی تھی۔ لیکن، ان کی موت سے جڑے واقعات بتاتے ہیں کہ ان کی موت اسی وبائی مرض کی وجہ سے ہوئی تھی۔

اپریل ۲۰۲۱ میں، جب پورا ملک کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر کا سامنا کر رہا تھا، تقریباً ۴۵ سال کی شانتی دیوی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ایک کے بعد ایک علامتیں ظاہر ہونے لگیں: پہلے کھانسی ہوئی، پھر زکام، اور اس کے اگلے دن بخار آ گیا۔ اُن کی ۶۵ سالہ ساس، کلاوتی دیوی بتاتی ہیں، ’’اُس وقت گاؤں کا تقریباً ہر آدمی بیمار تھا۔ ہم پہلے اسے جھولا چھاپ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔‘‘

اتر پردیش کے تقریباً ہر گاؤں میں جھولا چھاپ ڈاکٹر پائے جاتے ہیں۔ وبائی مرض کے دوران دیہی علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ اپنا علاج کرانے کے لیے سب سے پہلے انہی ’ڈاکٹروں‘ کے پاس گئے، کیوں کہ وہ ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں اور ریاست میں صحت عامہ کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے۔ وارانسی ضلع کے ڈلّی پور گاؤں میں رہنے والی کلاوتی بتاتی ہیں، ’’ہم تمام لوگ کافی ڈرے ہوئے تھے، اس لیے ہم میں سے کوئی بھی اسپتال نہیں گیا۔ ہمیں اس بات کا ڈر تھا کہ وہاں جانے پر ہمیں [کوارنٹائن] سینٹر میں ڈال دیا جائے گا۔ اور سرکاری اسپتال مریضوں سے پوری طرح بھرے ہوئے تھے۔ کوئی بیڈ خالی نہیں تھا۔ ایسے میں، ہم صرف جھولا چھاپ ڈاکٹر کے پاس ہی جا سکتے تھے۔‘‘

لیکن ان ’ڈاکٹروں‘ کے پاس نہ تو کوئی ٹریننگ ہے اور نہ ہی کوئی تعلیمی لیاقت، اس لیے وہ سخت بیمار لوگوں کا علاج نہیں کر سکتے۔

جھولا چھاپ ڈاکٹر سے دکھانے کے تین دن بعد، شانتی دیوی کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر کلاوتی، شانتی کے شوہر منیر، اور فیملی کے دیگر ممبران گھبرا گئے۔ لہٰذا، وہ انہیں ایک پرائیویٹ اسپتال لے کر بھاگے، جو کہ وارانسی کے پنڈرا بلاک میں واقع ان کے گاؤں سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور ہے۔ ’’لیکن اسپتال کے عملہ نے [ان کی حالت] دیکھنے کے بعد کہا کہ ان کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ہم گھر لوٹ آئے اور جھاڑ پھونک شروع کر دیا،‘‘ کلاوتی، جھاڑوں سے بیماری کو دور بھگانے کے ایک پرانے، غیر سائنسی طریقے کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتی ہیں۔

اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا؛ اسی رات شانتی دیوی کی موت ہو گئی۔

Kalavati with her great-grandchildren at home in Dallipur. Her daughter-in-law Shanti died of Covid-like symptoms in April 2021
PHOTO • Parth M.N.

کلاوتی ڈَلّی پور کے گھر میں اپنے پڑ پوتے/ پوتیوں کے ساتھ۔ اپریل ۲۰۲۱ میں کووڈ جیسی علامتوں کی وجہ سے ان کی بہو شانتی دیوی کی موت ہو گئی تھی

اتر پردیش کی ریاستی حکومت نے اکتوبر ۲۰۲۱ میں کووڈ۔۱۹ سے مرنے والوں کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ فیصلہ، ایسے کنبوں کو مالی مدد فراہم کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کی ہدایت کے تقریباً چار مہینے بعد لیا گیا۔ ریاستی حکومت نے ۵۰ ہزار روپے کے اس معاوضہ کا دعویٰ کرنے کے لیے مخصوص گائیڈ لائنس جاری کیے تھے۔ لیکن کلاوتی دیوی نے کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ اور آگے بھی ایسا کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

معاوضہ کی رقم حاصل کرنے کے لیے، شانتی دیوی کی فیملی کو ایک ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی، جس میں کووڈ۔۱۹ کو ان کی موت کی وجہ بتائی گئی ہو۔ ضابطے میں کہا گیا کہ معاوضہ تبھی مل سکتا ہے، جب مرض کی جانچ کا نتیجہ پازیٹو (مثبت) آنے کے ۳۰ دنوں کے اندر اس شخص کی موت ہوئی ہو۔ بعد میں، ریاستی حکومت نے ’کووڈ سے ہونے والی موت‘ کا دائرہ بڑھا کر اس میں ان مریضوں کو بھی شامل کر دیا جو ۳۰ دنوں تک اسپتال میں داخل رہے، لیکن وہاں سے ڈسچارج ہو جانے کے بعد ان کی موت ہوئی ہو۔ اور اگر ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی وجہ کووڈ نہیں بتائی گئی ہے، تو ویسی صورت میں آر ٹی – پی سی آر یا ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ یا انفیکشن کو ثابت کرنے والی تشخیص کافی ہوگی۔ لیکن ان میں سے کچھ بھی شانتی کی فیملی کے کام نہیں آیا۔

ڈیتھ سرٹیفکیٹ، یا پازیٹو ٹیسٹ کے نتیجہ، یا اسپتال میں داخل ہونے کے ثبوت کے بغیر، شانتی کا کیس مذکورہ بالا شرائط کو پورا نہیں کرتا۔

اُدھر اپریل میں ہی، ان کی لاش کو ڈلی پور میں ندی کے ایک گھاٹ کے قریب نذر آتش کر دیا گیا۔ ان کے سسر، ۷۰ سالہ لُلّور بتاتے ہیں، ’’اس کی چتا (لاش) کو آگ لگانے کے لیے لکڑیاں نہیں تھیں۔ وہاں پر لاشوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ ہم نے [شانتی کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے] اپنی باری کا انتظار کیا اور پھر گھر لوٹ آئے۔‘‘

Lullur, Shanti's father-in-law, pumping water at the hand pump outside their home
PHOTO • Parth M.N.

شانتی کے سسر، لُلّور اپنے گھر کے باہر ایک ہینڈ پمپ سے پانی نکال رہے ہیں

مارچ ۲۰۲۰ کے آخر میں اس وبائی مرض کی شروعات کے بعد، کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے سب سے زیادہ موتیں دوسری لہر (اپریل تا جولائی ۲۰۲۱) کے دوران ہوئیں۔ ایک اندازہ کے مطابق، جون ۲۰۲۰ سے جولائی ۲۰۲۱ کے درمیان ۳۲ لاکھ لوگوں کی موت ہوئی تھی، جن میں سے ۲۷ لاکھ افراد اپریل سے جولائی ۲۰۲۱ کے درمیان مرے۔ سائنس (جنوری ۲۰۲۲) میں شائع یہ مطالعہ ہندوستان، کناڈا اور امریکہ کے محققین کے ایک گروپ کے ذریعے کرایا گیا تھا۔ تجزیے سے پتہ چلا کہ ہندوستان میں کووڈ سے ہونے والی اموات کے بارے میں سرکار نے جو تعداد بتائی، وہ ستمبر ۲۰۲۱ تک اس سے ۷-۶ گنا زیادہ تھی۔

محققین اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ ’’ہندوستان میں سرکاری سطح پر مرنے والوں کی تعداد بہت کم کرکے بتائی گئی۔‘‘ لیکن، ہندوستانی حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔

ہندوستان میں کووڈ سے ہونے والی اموات کی سرکاری گنتی کے مطابق، یہ تعداد ۷ فروری، ۲۰۲۲ تک ۵ لاکھ ۴ ہزار ۶۲ (یا آدھا ملین) تھی۔ اموات کی یہ تعداد ویسے تو ملک کی تقریباً سبھی ریاستوں میں کم کرکے بتائی گئی، لیکن یو پی میں اسے کچھ زیادہ ہی کم کرکے بتایا گیا۔

آرٹیکل ۱۴ ڈاٹ کام (Article-14.com) پر شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوپی کے ۷۵ ضلعوں میں سے ۲۴ میں موت کی گنتی، مجموعی طور پر، سرکاری کووڈ۔۱۹ اموات کی تعداد سے ۴۳ گنا زیادہ تھی۔ یہ رپورٹ یکم جولائی ۲۰۲۰ سے ۳۱ مارچ ۲۰۲۱ کے درمیان درج کی گئی اموات پر مبنی ہے۔ اگرچہ تمام اضافی اموات کووڈ۔۱۹ سے منسوب نہیں کی جا سکتی ہیں، لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’اوسط عام اموات اور وبائی مرض کے دوران اضافی اموات میں وسیع فرق نے، مارچ ۲۰۲۱ کے آخر تک کووڈ۔۱۹ سے ہونے والی ۴۵۳۷ اموات والی یوپی کی سرکاری تعداد پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔‘‘ مئی کے مہینے میں اجتماعی قبروں کی تصاویر اور گنگا ندی میں تیرتی ہوئی لاشوں سے متعلق رپورٹوں نے ان متعدد اموات کی جانب اشارہ کیا، جن کی گنتی نہیں کی گئی تھی۔

حالانکہ، ریاستی حکومت نے جب معاوضہ کے لیے رہنما خطوط (گائیڈ لائنس) کا اعلان کیا، تو اس وقت اس نے دعویٰ کیا کہ کووڈ کی وجہ سے یوپی میں ۲۲۸۹۸ لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ لیکن جیسے لوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، جن کے اہل خانہ کو اس وقت معاوضہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

Shailesh Chaube (left) and his mother Asha. His father Shivpratap died of Covid-19 last April, and the cause of death was determined from his CT scans
PHOTO • Parth M.N.
Shailesh Chaube (left) and his mother Asha. His father Shivpratap died of Covid-19 last April, and the cause of death was determined from his CT scans
PHOTO • Parth M.N.

شیلیش چوبے (بائیں) اور ان کی ماں آشا۔ پچھلے سال اپریل میں کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے ان کے والد، شیو پرتاپ کی موت ہو گئی تھی، اور ان کے سی ٹی اسکین سے موت کی وجہ معلوم ہوئی تھی

یوپی کے محکمہ معلومات (انفارمیشن ڈپارٹمنٹ) کے ایڈیشنل چیف سکریٹری، نونیت سہگل نے پاری کو بتایا کہ مطلوبہ دستاویزوں کے بغیر کوئی بھی فیملی معاوضہ حاصل نہیں کر پائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوگ عام طور سے بھی مرتے ہیں۔ لہٰذا، یہ جانے بغیر کہ موت کی وجہ کووڈ تھا یا نہیں،‘‘ فیملی کو معاوضہ نہیں مل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بیماری کی جانچ (ٹیسٹنگ) ’’دیہی علاقوں میں بھی کی جا رہی تھی۔‘‘

جب کہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ کووڈ کی دوسری لہر کے دوران یوپی کے دیہی علاقوں سے خبریں مل رہی تھیں کہ ٹیسٹ میں تاخیر کی جا رہی ہے۔ مئی ۲۰۲۱ میں، الہ آباد ہائی کورٹ نے ٹیسٹنگ آہستہ آہستہ کم کرنے پر ناخوشی کا اظہار کیا تھا، اور دوسری لہر سے ٹھیک سے نہیں نمٹنے پر ریاستی حکومت کی سرزنش کی تھی۔ کم ٹیسٹنگ کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ٹیسٹ کرانے والے لوگ کم ہیں، لیکن پیتھولوجی لیب کی طرف سے اطلاع ملی کہ انہیں انتظامیہ کی طرف سے ٹیسٹنگ کو کم کرنے کے آرڈر موصول ہو رہے ہیں۔

یہاں تک کہ شہری علاقوں میں بھی لوگوں کو ٹیسٹنگ کی سہولیات تک رسائی حاصل کرنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وارانسی شہر کے رہنے والے ۶۳ سالہ شیو پرتاپ چوبے نے کووڈ۔۱۹ کی علامات ظاہر ہونے کے بعد، ۱۵ اپریل ۲۰۲۱ کو اپنا ٹیسٹ کرایا۔ لیکن لیب نے ۱۱ دنوں کے بعد ان کے ذریعے جمع کرائے گئے نمونے (سیمپل) کا جواب یہ دیا کہ نمونہ پھر سے لینا ہوگا۔

لیکن نمونہ دوبارہ اس لیے جمع نہیں کرایا جا سکتا تھا: کیوں کہ ان کی موت ہو گئی تھی۔ ۱۹ اپریل کو انہوں نے آخری سانس لی۔

شیو پرتاپ جب بیمار پڑے، تو انہیں سب سے پہلے ایک سرکاری اسپتال لے جایا گیا، جو ان کے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ ان کے بیٹے، ۳۲ سال کے شیلیش چوبے بتاتے ہیں، ’’وہاں پر ایک بھی بستر خالی نہیں تھا۔ بیڈ حاصل کرنے کے لیے ہمیں نو گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔ لیکن، ہمیں آکسیجن والے بیڈ کی فوری ضرورت تھی۔‘‘

آخر میں، ادھر ادھر فون گھمانے کے بعد، شیلیش کو وارانسی سے تقریباً ۲۴ کلومیٹر دور، بابت پور گاؤں (پنڈرا بلاک) کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں بیڈ مل گیا۔ لیکن، شیلیش کہتے ہیں، ’’وہاں دو دن کے بعد ان کی [شیو پرتاپ] موت ہو گئی۔‘‘

اسپتال کے ذریعے دیے گئے سرٹیفکیٹ میں شیو پرتاپ کے سٹی اسکین کی بنیاد پر بتایا گیا کہ ان کی موت کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اس سے ان کی فیملی کو سرکاری معاوضہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ شیلیش نے دسمبر ۲۰۲۱ کے آخری ہفتہ میں درخواست جمع کرائی۔ اس پیسے سے، اپنے والد کے علاج کے لیے انہوں نے جو قرض لیا تھا اسے واپس ادا کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک بینک میں بطور اسسٹنٹ مینیجر کام کرنے والے شیلیش بتاتے ہیں، ’’ہمیں کالا بازار (بلیک مارکیٹ) سے ۲۵ ہزار روپے میں ریمڈیسیور انجیکشن خریدنا پڑا۔ اس کے علاوہ، ہمیں ٹیسٹ کرانے، اسپتال کے بیڈ اور دواؤں کے اوپر ۷۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ ہمارا تعلق ایک نچلے متوسط طبقہ سے ہے، اس لیے ۵۰ ہزار روپیہ ہمارے لیے بہت بڑی رقم ہے۔‘‘

Left: Lullur says his son gets  work only once a week these days.
PHOTO • Parth M.N.
Right: It would cost them to get Shanti's death certificate, explains Kalavati
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: لُلّور بتاتے ہیں کہ آج کل ان کے بیٹے کو ہفتہ میں صرف ایک دن ہی کام مل پاتا ہے۔ دائیں: کلاوتی بتاتی ہیں کہ شانتی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے میں انہیں پیسے خرچ کرنے ہوں گے

موسہر برادری سے تعلق رکھنے والی شانتی کی فیملی کے لیے یہ رقم بہت بڑی ہے۔ غریب اور پس ماندہ موسہر، اتر پردیش میں درج فہرست ذات میں شامل ہیں۔ ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے، اور یہ لوگ پیسہ کمانے کے لیے مزدوری کرتے ہیں۔

شانتی کے شوہر، ۵۰ سالہ منیر ایک مزدور ہیں اور تعمیراتی مقامات پر کام کرکے یومیہ ۳۰۰ روپے کماتے ہیں۔ ۵۰ ہزار روپے کمانے کے لیے انہیں ۱۶۶ دنوں (یا ۲۳ ہفتوں) تک جدوجہد کرنی پڑے گی۔ ان کے والد لُلور بتاتے ہیں کہ وبائی مرض کے دوران منیر کو ہفتہ میں صرف ایک دن ہی کام مل پاتا ہے۔ ایسے میں، اتنی بڑی رقم کمانے کے لیے انہوں نے تین سال سے زیادہ عرصے تک مزدوری کرنی ہوگی۔

منیر جیسے مزدوروں کے لیے، مہاتما گاندھی قومی روزگار گارنٹی قانون (منریگا) کے تحت زیادہ کام دستیاب نہیں ہے۔ اس قانون کے ذریعے ایک مالی سال میں ۱۰۰ دنوں کا کام ملنے کی گارنٹی دی گئی ہے۔ یوپی میں رواں مالی سال (۲۲-۲۰۲۱) کے دوران، ۹ فروری تک اس اسکیم کے تحت تقریباً ۸۷ لاکھ ۵۰ ہزار کنبوں نے کام کا مطالبہ کیا تھا۔ ان میں سے ۷۵ لاکھ ۴۰ ہزار سے زیادہ لوگوں کو اب تک روزگار فراہم کیا جا چکا ہے، لیکن صرف ۳۸۴۱۵۳ کنبوں (یعنی ۵ فیصد) نے ہی ۱۰۰ دنوں کا کام مکمل کیا ہے۔

وارانسی میں واقع پیپلز وجیلنس کمیٹی آن ہیومن رائٹس سے وابستہ ایک کارکن، ۴۲ سالہ منگلا راج بھر کہتے ہیں کہ منریگا کا کام باضابطہ یا مسلسل دستیاب نہیں ہے۔ ’’کام کبھی کبھی ملتا ہے اور وقتی ہوتا ہے، اور مزدوروں کو اسے ٹکڑے ٹکڑے میں پورا کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔‘‘ راج بھر یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اسکیم کے تحت پائیدار کام مہیا کرانے کے لیے ریاست کی طرف سے کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔

شانتی اور منیر کے چاروں بیٹے (جن کی عمر ۲۰ سے ۳۰ سال کے درمیان ہے) ہر صبح کام کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ لیکن، کلاوتی بتاتی ہیں کہ وہ اکثر خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں۔ ’’کسی کو بھی کام نہیں مل رہا ہے۔‘‘ جب سے کووڈ۔۱۹ کی بیماری آئی ہے، اس فیملی کو کئی بار بھوکے رہنا پڑا ہے۔ کلاوتی کہتی ہیں، ’’سرکار کی طرف سے جو مفت راشن مل رہا ہے، ہم اسی پر زندہ ہیں۔ لیکن یہ پورے مہینے نہیں چلتا۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’’شانتی کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے میں ہمیں ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے خرچ کرنا پڑتا۔ ہمیں اپنی حالت کے بارے میں بتانے کے لیے کئی لوگوں کے پاس جانا پڑتا۔ اور لوگ ہم سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔‘‘ لیکن، وہ کہتی ہیں، ’’معاوضہ سے ہمیں کافی مدد مل جاتی۔‘‘

پارتھ ایم این، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ملے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے ذریعے، صحت عامہ اور شہری آزادی کے امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے متن پر اداریہ سے متعلق کوئی کنٹرول نہیں رکھا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez