وجے مروتّر کو اپنے والد کے ساتھ ہوئی ان کی آخری بات چیت سے زیادہ کسی چیز کا افسوس نہیں ہے۔

وہ گرمی کی ایک مرطوب شام تھی۔ یَوتمال ضلع میں واقع ان کے گاؤں میں آہستہ آہستہ شام ڈھل رہی تھی۔ انہوں نے اپنی نیم روشن جھونپڑی میں اپنے والد اور خود کے لیے کھانے کی دو پلیٹیں لگائیں۔  ان میں سلیقے سے مڑی ہوئی دو دو روٹیاں، دال اور چاول کا ایک پیالہ رکھا تھا۔

لیکن ان کے والد گھنشیام نے ایک نظر پلیٹ کی طرف دیکھا اور انہیں غصہ آ گیا، ’’کٹے ہوئے پیاز کہاں ہیں؟‘‘ ۲۵ سالہ وجے کے مطابق ان کا رد عمل غیرمناسب تھا، لیکن اس وقت ان کی ویسی ہی حالت تھی۔ مہاراشٹر کے اکپوری گاؤں میں اپنی ایک کمرے کی جھونپڑی کے باہر کھلی جگہ پر پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’وہ کچھ دنوں سے چڑچڑے ہو گئے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں غصہ آ جاتا تھا۔‘‘

وجے باورچی خانے میں واپس گئے اور اپنے والد کے لیے پیاز کاٹ کر لے آئے۔ لیکن رات کے کھانے کے بعد دونوں کے درمیان ناخوشگوار بحث چھڑ گئی۔ وجے اس رات بدمزگی کے ساتھ سو گئے۔ اس امید میں کہ اگلی صبح اپنے والد کے ساتھ صلح صفائی کر لیں گے۔

لیکن گھنشیام کے لیے وہ صبح نہیں آئی۔

۵۹ سالہ کسان نے اس رات حشرہ کش دوا پی لی۔ وجے کے بیدار ہونے سے پہلے ہی وہ مر چکے تھے۔ یہ اپریل ۲۰۲۲ کا واقعہ ہے۔

PHOTO • Parth M.N.

وجے مروتر، یوتمال ضلع کے اکپوری گاؤں میں اپنے گھر کے باہر۔ جس بات کا انہیں سب سے زیادہ افسوس ہے، وہ اپنے والد کے ساتھ آخری گفتگو ہے۔ ان کے والد نے اپریل ۲۰۲۲ میں خودکشی کر لی تھی

اپنے والد کی موت کے نو ماہ بعد جب وجے ہم سے بات کر رہے ہیں، تو اب بھی انہیں امید ہے کہ وہ گھڑی کی سوئی پیچھے موڑ دیں گے اور اس منحوس رات کی ناخوشگوار گفتگو کو مٹا دیں گے۔ وہ گھنشیام کی ایک پیار کرنے والے باپ کی شبیہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، نہ کہ ذہنی پریشانی میں مبتلا شخص کی جو وہ اپنی موت سے چند برس پہلے ہو گئے تھے۔ ان کی ماں (یعنی گھنشیام کی بیوی) کا دو سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔

ان کے والد کی ذہنی پریشانی کا سبب گاؤں میں کنبے کی پانچ ایکڑ زمین پر ہونی والی کھیتی تھی، جہاں وہ روایتی طور پر کپاس اور ارہر کی کاشت کرتے تھے۔ وجے کہتے ہیں، ’’پچھلے ۸  سے ۱۰ سال خاص طور پر خراب رہے ہیں۔ موسم کی غیر یقینی صورتحال ہمیشہ بنی رہی ہے۔ ہمارے یہاں مانسون دیر سے آیا اور گرمیوں کا موسم طویل رہا۔ ہر دفعہ ہمارے لیے بیج بونا جوئے میں پانسہ پھنکنے کے مترادف ہے۔‘‘

اس غیر یقینی صورتحال نے ۳۰ برسوں سے کاشتکاری سے وابستہ گھنشیام کو اچانک ان کی صلاحیتوں کے تئیں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا تھا۔ دراصل صرف یہی وہ کام تھا، جسے وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ وجے کہتے ہیں، ’’کاشتکاری کا دارو مدار وقت کی پابندی پر ہوتا ہے۔ لیکن آپ اسے ٹھیک نہیں کر سکتے کیونکہ موسم کے مزاج بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہر بار جب انہوں نے فصل لگائی خشک سالی کا دور آگیا اور اس کا اثر انہوں نے ذاتی طور پر قبول کیا۔ جب بوائی کے بعد بارش نہیں ہوتی ہے، تو آپ کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ دوسری بار بوائی  کریں یا نہیں۔‘‘

دوسری بار بوائی کی وجہ سے بنیادی پیداواری لاگت دوگنی ہو جاتی ہے، لیکن لوگ امید کرتے ہیں کہ یہ فصل اس کے بعد بھی منافع فراہم کرے گی۔ زیادہ تر معاملوں میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ وجے کہتے ہیں، ’’ایک فصل کی خرابی میں ہمیں ۵۰ ہزار سے ۷۵ ہزار روپے کے درمیان نقصان ہوتا ہے۔‘‘ او ای سی ڈی کے ۱۸-۲۰۱۷ کے اقتصادی سروے کے مطابق موسمیاتی تبدیلی درجہ حرارت اور بارش میں تغیرات کا باعث بنی ہے، جس سے آبپاشی والے علاقوں کے لیے کھیتی کی آمدنی میں ۱۵ سے ۱۸ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ نقصانات غیر آبپاشی والے علاقوں میں ۲۵ فیصد تک ہو سکتے ہیں۔

گھنشیام ودربھ کے ان چھوٹے کسانوں کی طرح ہیں جو مہنگے آبپاشی کے طریقے برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کا انحصار مکمل طور پر اچھے مانسون پر تھا، جو اکثر بے ربط رہتا ہے۔ ’’ابھی بارش نہیں ہو رہی ہے،‘‘ وجے کہتے ہیں۔ ’’یہاں یا تو خشک سالی رہتی ہے یا سیلاب آجاتا ہے۔ موسم کی غیر یقینی صورتحال فیصلہ سازی کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ ان حالات میں کاشتکاری انتہائی دباؤ کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ پریشان کن ہے اور اسی چیز نے میرے والد کو خبطی بنا دیا تھا،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

PHOTO • Parth M.N.

بے ربط موسم، فصلوں کی ناکامی، بڑھتے ہوئے قرضوں اور ذہنی تناؤ کے بارے میں بتاتے ہوئے وجے کہتے ہیں، ’ان حالات میں کاشتکاری انتہائی ذہنی تناؤ کا کام ہے۔ یہ ہمت پست کرنے والا کام ہے اور اسی چیز نے میرے والد کو خبطی بنا دیا تھا۔‘ انہیں وجوہات نے ان کے والد کی دماغی صحت کو متاثر کیا تھا

خطرے کے دائمی احساس اور حتمی نقصان نے خطے کے کسانوں میں ذہنی صحت کے بحران کو جنم دیا ہے۔ یہ خطہ پہلے ہی انتہائی زرعی بحران اور کسانوں کی خودکشیوں کی خطرناک تعداد کے لیے جانا جاتا ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق ہندوستان میں، ۲۰۲۱ میں تقریباً ۱۱ ہزار کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، اور ان میں سے ۱۳ فیصد کا تعلق مہاراشٹر سے تھا۔ ہندوستان میں خودکشی سے مرنے والوں میں سب سے زیادہ حصہ اسی ریاست کا ہے۔

اس کے باوجود یہ بحران سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ جیسا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے، ’’ہر ایک خودکشی کے لیے ممکنہ طور پر ۲۰ دوسرے افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

گھنشیام کے معاملے میں بے ربط موسم کی وجہ سے کنبے کے مسلسل نقصانات نے بڑے قرضوں کو جنم دیا تھا۔ وجے کہتے ہیں، ’’میں جانتا تھا کہ میرے والد نے کاشتکاری جاری رکھنے کے لیے ایک نجی ساہوکار سے قرض لیا تھا۔ وقت کے ساتھ سود بڑھنے کی وجہ سے ان پر قرض کی ادائیگی کا دباؤ بڑھ گیا تھا۔‘‘

گزشتہ ۵ سے ۸ برسوں کے درمیان جو زرعی قرضوں کی معافی کی چند اسکیمیں سامنے آئی تھیں وہ کئی شرائط سے مشروط تھیں۔ ان میں سے کسی نے بھی نجی ساہوکاروں کا احاطہ نہیں کیا تھا۔ پیسے سے متعلق تناؤ ان کے گلے کی ہڈی بن گئی تھی۔ وجے مزید کہتے ہیں، ’’میرے والد نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ ہم پر کتنی رقم واجب الادا ہے۔ انہوں نے مرنے سے پہلے پچھلے دو سالوں میں بہت زیادہ شراب پینی شروع کر دی تھی۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

گھنشیام کی موت سے دو سال قبل، مئی ۲۰۲۰ میں ان کی اہلیہ کلپنا ۴۵ سال کی عمر میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے چل بسی تھیں۔ وہ بھی اپنی بگڑتی ہوئی مالی حالت کی وجہ سے تناؤ میں تھیں

یوتمال میں مقیم ایک ماہر نفسیات سماجی کارکن، ۳۷ سالہ پرفل کاپسے کے مطابق، شراب کی علت ذہنی افسردگی (ڈپریشن) کی علامت ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’زیادہ تر خودکشیوں کی بنیاد ذہنی حالت ہوتی ہے۔ اس کا پتہ نہیں چلتا ہے کیونکہ کسان نہیں جانتے کہ انہیں کہاں مدد مل سکتی ہے۔‘‘

گھنشیام کے کنبے نے ان کی خودکشی سے پہلے ہائی بلڈ پریشر، ذہنی اضطراب اور تناؤ کے ساتھ ان کی بڑھتی ہوئی جدوجہد کو دیکھا تھا۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ وہ گھر میں تنہا نہیں تھے جو ذہنی اضطراب اور تناؤ سے دوچار تھے۔ دو سال قبل مئی ۲۰۲۰ میں ان کی اہلیہ کلپنا، جن کی عمر ۴۵ سال تھی اور جنہیں صحت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھیں۔

وجے بتاتے ہیں، ’’وہ کھیتوں اور گھر دونوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ فصلوں کی نقصان کی وجہ سے کنبے کا پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ ہماری بگڑتی ہوئی مالی حالت کی وجہ سے تناؤ میں تھیں۔ میں کسی اور وجہ کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔‘‘

کلپنا کی غیر موجودگی نے گھنشیام کی زندگی کو اور مشکل بنا دیا تھا۔ وجے کہتے ہیں، ’’میرے والد تنہا ہو گئے تھے اور ان کی موت کے بعد وہ ایک خول میں چلے گئے۔ میں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ صرف میری حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘

کاپسے کا استدلال ہے کہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی)، خوف اور ذہنی افسردگی دیہی علاقوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں جو شدید موسمیاتی واقعات اور آب و ہوا کی بے یقینی سے دوچار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کسانوں کے پاس آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’جب علاج نہیں کیا جاتا ہے تو تناؤ مصیبت میں بدل جاتا ہے، آخر میں ذہنی افسردگی کی طرف چلا جاتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں، ذہنی افسردگی کا علاج مشاورت (کاؤنسلنگ) سے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بعد کے مراحل میں جب خود کشی کے خیالات آنے لگتے ہیں تو دوا کی ضرورت پیش آتی ہے۔‘‘

لیکن ۱۶-۲۰۱۵ کے نیشنل مینٹل ہیلتھ سروے کے مطابق ہندوستان میں ذہنی امراض کے ۷۰ سے ۸۰ فیصد معاملات میں طبی مداخلت نہیں ہوتی ہے۔ دماغی حفظان صحت کے قانون، ۲۰۱۷ کی منظوری اور مئی ۲۰۱۸ میں اس کے نفاذ کے بعد بھی ذہنی عارضے سے متاثرہ لوگوں کی ضروری خدمات تک رسائی اور ان کے لیے ان خدمات کی فراہمی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔

PHOTO • Parth M.N.

یوتمال کے وڈگاؤں میں اپنے گھر میں بیٹھیں سیما۔ ان کے ۴۰ سالہ شوہر سدھاکر نے حشرہ کش دوائی پی کر جولائی ۲۰۱۵ میں خودکشی کر لی تھی۔ اس کے بعد سے وہ اپنی ۱۵ ایکڑ کی زمین کی کاشتکاری خود سنبھال رہی ہیں

سیما وانی، جن کی عمر ۴۲ سال ہے، یوتمال تعلقہ کے گاؤں وڈگاؤں کی ایک کسان ہیں۔ وہ دماغی حفظان صحت کے قانون یا اس کے تحت دستیاب خدمات سے پوری طرح بے خبر ہیں۔ ان کے شوہر سدھاکر نے جولائی ۲۰۱۵ میں ۴۰ سال کی عمر میں حشرہ کش دوائی پی کر خود کشی کر لی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنی ۱۵ ایکڑ زمین کی کاشتکاری خود سنبھال رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’’میں کافی عرصے سے سکون سے سو نہیں پائی ہوں۔ میں ٹین [تناؤ] کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں۔ میرے دل کی دھڑکنیں اکثر تیز ہو جاتی ہیں۔ کھیتی کے موسم میں میرے پیٹ میں گرہ پڑ جاتی ہے۔‘‘

جون ۲۰۲۲ کے آخر میں خریف کی فصل شروع ہونے پر سیما نے کپاس کی کاشت کی تھی۔ انہوں نے بیج، حشرہ کش، اور کھاد پر ایک لاکھ روپے خرچ کر کے ایک بڑے منافع کو یقینی بنانے کے لیے چوبیس گھنٹے محنت کی تھی۔ وہ اپنے ایک لاکھ روپے منافع کے ہدف کے قریب تھیں کہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں دو دن کے زبردست بارش نے ان کی گزشتہ تین ماہ کی محنت کو ضائع کر دیا۔

’’میں صرف ۱۰ ہزار روپے مالیت کی فصل بچانے میں کامیاب ہو سکی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’کاشتکاری سے منافع کمانے کی کون کہے، میں اپنی لاگت نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہوں۔ آپ مہینوں محنت سے کھیتی کرتے ہیں اور وہ صرف دو دن میں تباہ ہو جاتی ہے۔ میں یہ سب کیسے برداشت کروں گی؟  ایسے ہی حالات میرے شوہر کی موت کا سبب بنے تھے۔‘‘ سدھاکر کی موت کے بعد سیما کو کھیتی کی زمین اور اس کے ساتھ آنے والا تناؤ دونوں وراثت میں ملے تھے۔

’’ہم نے پہلے ہی خشک سالی کی وجہ سے پچھلی فصل میں نقصان اٹھایا تھا،‘‘ وہ سدھاکر کی موت سے پہلے کے وقت کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ’’لہذا، جولائی ۲۰۱۵ میں جب ان کے خریدے ہوئے کپاس کے بیج نقلی نکلے تو وہ تابوت میں یہ آخری کیل ثابت ہوئے۔ ہمیں اسی وقت اپنی بیٹی کی شادی بھی کرنی تھی۔ وہ تناؤ برداشت نہیں کرسکے اور اس نے انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔‘‘

سیما نے اپنے شوہر کو وقت کے ساتھ خاموش ہوتے دیکھا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی تکلیف کو اپنے تک محدود رکھتے تھے، لیکن انہیں توقع نہیں تھی کہ وہ یہ انتہائی قدم اٹھائیں گے۔ ’’کیا گاؤں کی سطح پر ہمارے لیے کوئی مدد دستیاب نہیں ہونی چاہیے؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔

PHOTO • Parth M.N.

سیما اپنے گھر میں اپنی بچائی گئی کپاس کی فصل کے ساتھ

دماغی حفظان صحت کا قانون، ۲۰۱۷ کے نفاذ کا مطلب یہ تھا کہ سیما کے کنبے کے پاس اچھے معیار کی اور ضرورت کے مطابق مشاورت اور علاج کی خدمات دستیاب ہوتیں، ذہنی مریضوں کی نگہداشت کا مرکزہوتا، ان کے لیے پناہ گاہیں اور رہائشی معاونت تک آسان رسائی ہوتی۔

کمیونٹی سطح پر۱۹۹۶ میں متعارف کرائے گئے ڈسٹرکٹ مینٹل ہیلتھ پروگرام (ڈی ایم ایچ پی) کے تحت ہر ضلع میں ایک ماہر نفسیات، ایک طبی ماہر نفسیات، ایک نفسیاتی نرس اور ایک نفسیاتی سماجی کارکن کی موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تعلقہ سطح پر کمیونٹی ہیلتھ سینٹر میں کل وقتی طبی ماہر نفسیات یا نفسیاتی سماجی کارکن ہونا چاہیے تھا۔

لیکن یوتمال میں پرائمری ہیلتھ سینٹرز (پی ایچ سی) کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر وہ ہیں جو ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار لوگوں کی شناخت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ونود جادھو، جو ڈی ایم ایچ پی کوآرڈینیٹر برائے یوتمال ہیں۔ وہ  پی ایچ سی میں اہل عملے کی کمی کو قبول کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’صرف اس صورت میں جب مریض کو ان کے [ایم بی بی ایس ڈاکٹر] کی سطح پر علاج ممکن نہیں ہوتا تب ضلعی ہسپتال کو ریفر کیا جاتا ہے۔‘‘

اگر سیما کو اپنے گاؤں سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں دستیاب مشاورتی خدمات اور اس کے فائدے کا علم ہوتا، تو وہ ایک گھنٹے کا بس کا سفر اور سفر کے اخراجات اٹھانے کے لیے تیار ہو جاتیں۔

’’اگر مدد بذریعہ بس ایک گھنٹے کی دوری پر ہے، تو یہ لوگوں کو اس کا فائدہ اٹھانے سے روکتی ہے، کیونکہ وہاں آپ کو بار بار آنا جانا پڑتا ہے،‘‘ کاپسے کہتے ہیں۔ اس وجہ سے لوگوں کو یقین دلانے کے بنیادی چیلنج میں اضافہ ہوتا ہے کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے۔

جادھو کا کہنا ہے کہ ڈی ایم ایچ پی کے تحت ان کی ٹیم یوتمال کے ۱۶ تعلقوں میں سے ہر ایک میں ہر سال ایک آؤٹ ریچ کیمپ لگاتی ہے، تاکہ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار لوگوں کی شناخت کی جا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بہتر ہے کہ ہم ’’لوگوں تک پہنچیں جہاں وہ ہیں، بجائے اس کے کہ وہ ہمارے پاس آئیں۔ ہمارے پاس کافی گاڑیاں یا فنڈز نہیں ہیں، لیکن ہم جتنا کر سکتے ہیں کرتے ہیں۔‘‘

ریاست کے ڈی ایم ایچ پی کے لیے دونوں حکومتوں کی طرف سے تین برسوں کے لیے منظور شدہ کل فنڈ تقریباً ۱۵۸ کروڑ روپے ہے۔  مہاراشٹر حکومت نے اس بجٹ کا بمشکل ۵ء۵ فیصد یعنی تقریباً ۸ء۵ کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

مہاراشٹر کے ڈی ایم ایچ پی کے سکڑتے ہوئے بجٹ کے پیش نظر بہت سے وجے اور سیما کے اس طرح کے کیمپ میں آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔

PHOTO • Parth M.N.

ماخذ: کارکن جیتندر گڈگے کے ذریعے حق اطلاع قانون، ۲۰۰۵ کے ذریعے جمع شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر

PHOTO • Parth M.N.

ماخذ: وزارت صحت کے ذریعے جمع شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر

تنہائی، مالی مشکلات اور ذہنی کمزوری کے مسائل کو بڑھاوا دینے والی وبائی بیماری کے باوجود پچھلے کچھ سالوں میں کیمپوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ذہنی صحت کے لیے مدد کی ضرورت والے لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کا رجحان ہے۔

یوتمال میں مقیم ماہر نفسیات ڈاکٹر پرشانت چاکروار کہتے ہیں، ’’کیمپوں سے صرف معمولی تعداد میں لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، کیونکہ مریضوں کو بار بار ماہرین کی مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے اور کیمپ سال میں ایک بار لگتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہر خودکشی نظام کی ناکامی ہے۔ لوگ راتوں رات اس فیصلے تک نہیں پہنچتے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو کئی منفی حادثات سے تیار ہوتا ہے۔‘‘

اور کسانوں کی زندگیوں میں ناموافق معاملات کا اضافہ ہو رہا ہے۔

اپنے والد گھنشیام کے انتقال کے پانچ ماہ بعد وجے مروتر نے خود کو اپنے کھیت میں گھٹنوں تک پانی میں کھڑا پایا۔ ستمبر ۲۰۲۲ کی تیز بارش نے ان کی کپاس کی زیادہ تر فصل کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ ان کی زندگی کی پہلی فصل ہے، جہاں ان کی رہنمائی کرنے کے لیے ان کے والدین میں سے کوئی نہیں ہے۔ وہ تنہا ہیں۔

جب انہوں نے پہلی بار اپنے کھیت کو پانی میں ڈوبا ہوا دیکھا، تو اسے بچانے کا خیال انہیں نہیں آیا۔ وہ بس وہیں کھڑے دیکھتے رہے۔ انہیں یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ انہوں نے جو سفید کپاس کا بیج ڈالا ہے وہ سڑ گل چکا ہے۔

’’میں نے فصل پر تقریباً ۲۵ء۱ لاکھ [روپے] کی سرمایہ کاری کی تھی،‘‘ وجے بتاتے ہیں۔ ’’میں نے اس میں سے زیادہ تر کھو دیا۔ لیکن میں نے اپنا آپا نہیں کھویا ہے۔ میں ٹوٹنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔‘‘

پارتھ ایم این، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کے آزاد صحافتی گرانٹ کے ذریعے صحت عامہ اور شہری آزادی کے موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کسی طرح کا ادارتی کنٹرول استعمال نہیں کیا ہے۔

اگر آپ میں خودکشی کی علامت ہے یا آپ کو کسی پریشانی کا سامنا ہے تو براہ کرم ’کرن‘، نیشنل ہیلپ لائن، 1800-599-0019 (چوبیسوں گھنٹے ٹول فری) پر یا اپنے قریب کی ان ہیلپ لائنس میں سے کسی پر کال کریں۔ دماغی صحت کے لیے پیشہ ور ماہرین اور خدمات تک رسائی کی معلومات حاصل کرنے کے لیے، براہ کرم ایس پی آئی ایف کی ذہنی صحت کی ڈائرکٹری سے رجوع کریں۔

مترجم: شفیق عالم

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a poet and a translator who works across Gujarati and English. She also writes and translates for PARI.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam