بھانو اپنی جھگی بستی کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے پہاڑی کے اوپر موجود اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے منہ پر ایک رومال بندھا ہوا ہے، اور اس کے ہاتھ میں آدھا کلو چاول اور دال کا پالی تھین بیگ ہے، جواسے امداد کی شکل میں ملا ہے۔ دوسری طرف سے کچھ لوگوں کو آتے دیکھ، بھانو گلی کے کنارے کے ایک گھر کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ پہاڑی کی طرف سے آنے والے یہ لوگ بوریاں اور گٹھری لیکر جا رہے ہیں۔ بھانو اپنے کمرے کی جانب دوبارہ چلنا شروع کرنے سے پہلے ان شناسا چہروں کو کچھ دیر تک دیکھتا ہے۔

وہ ایک تنگ کھلے نالے کے اوپر کودتا ہے۔ گلی میں ۱۰ بائی ۱۰ مربع فٹ کے کئی کمرے بند ہیں۔ ان عارضی دروازوں کے پیچھے ایک عجیب سے خاموشی پوشیدہ ہے۔ کوئی بات نہیں کر رہا ہے، لڑ نہیں رہا ہے، ہنس نہیں رہا ہے، موبائل فون پر زور سے چیخ نہیں رہا ہے، اونچی آواز میں ٹی وی نہیں دیکھ رہا ہے۔ کھانا پکانے کی کوئی تیز خوشبو بھی نہیں آ رہی ہے۔ چولہے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں۔

بھانو کا کمرہ پہاڑی کی چوٹی پر ہے۔ گھر پر، اس کی بیوی سریتا گیس کے چولہے کے پاس بیٹھی ہے اور دروازے کو لگاتار دیکھ رہی ہے۔ اس کے ہاتھ اس کے پیٹ پر ہیں، وہ چھ مہینے کی حاملہ ہے۔ نو سال کا راہل کھلونے والی اپنی چھوٹی کار کو گول گول گھماکر سیمنٹ کے فرش پر چلا رہا ہے اور اپنی ماں سے لگاتار کھانے کے لیے کچھ مانگ رہا ہے۔

’’اماں، مجھے بھوک لگی ہے! میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ تم نے دودھ اور کریم والا بسکٹ بھی نہیں دیا، اما...‘‘

سریتا آہیں بھرتی ہے، شاید انجانے میں۔ ’’ہاں، میرے بچے،‘‘ وہاں سے اٹھتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’’مجھے معلوم ہے۔ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں۔ تمہارے پاپا آنے ہی والے ہیں۔ وہ بہت ساری چیزیں لائیں گے۔ تم باہر جاکر کھیلتے کیوں نہیں؟‘‘

’’میرے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہیں ہے،‘‘ راہل کہتا ہے۔ ’’امّا، وکّی اور بنٹی کہاں چلے گئے؟‘‘

’’مجھے لگتا ہے، پچھلے سال کی طرح اپنے گاؤں چلے گئے۔ وہ واپس آئیں گے۔‘‘

’’نہیں اما، اسکول کے سال کے درمیان نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ واپس آئیں گے۔ ہم انجینئر بننے والے تھے۔ ہم تینوں اسکول کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد کاروں کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک گیراج کھولنے والے تھے۔ لیکن وہ اب اسکول نہیں آنے والے!‘‘

’’تم اور تمہاری کار! تم اپنا گیراج کھولوگے، بڑا سا۔ تم ایک بڑے آدمی ہو!‘‘ سریتا، جو اب اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہے، چولہے کے پیچھے کی تین الماریوں سے گزرتی ہے۔ ایک الماری پر کچھ خالی برتن، ایک کڑھائی، ایک کفگیر، چمچے، چار پلیٹیں، اور کچھ پیالیاں اور چھوٹی پلیٹیں، یہی سارے سامان ہیں۔ باقی دو الماریوں پر نمک، دال، چاول، گیہوں کا آٹا، سوکھا اناج، مصالحے، کھانا پکانے کے تیل کے لیے پلاسٹک کے جار کی ایک چھوٹی قطار ہے – سبھی جار خالی ہیں۔ وہ راہل کو دینے کے لیے کچھ ڈھونڈنے کا ناٹک کرتی ہے، ایک ایک کرکے سبھی جار کھولتی ہے۔ ان میں سے ایک میں کریم بکسٹ کا ایک خالی ریپر ہے۔ اپنی مٹھی میں ریپر کو رگڑتے ہوئے، وہ راہل کے پاس جاتی ہے اور دروازے پر بھانو کو کھڑا ہوا دیکھتی ہے، جو اپنے منہ پر بندھے رومال کو کھول رہا ہے اور ایک آہ کے ساتھ دہلیز پر بیٹھ جاتا ہے۔ راہل اپنے والد سے تھیلا لینے کے لیے خوشی سے دوڑتا ہے۔

’’آپ گھر آ گئے؟! راہل، پاپا کو پانی دو، پلیز۔‘‘

بھانو ٹھیکہ دار کے ساتھ اپنی ملاقات کو ہزارویں بار پھر سے اپنے دماغ میں دوہرا رہا ہے۔

’’پاپا، پانی... پاپا... لے لو۔ آپ کو کوئی بسٹک نہیں ملا، کیا آپ کو ملا؟‘‘ راہل نے اس کا کندھا ہلایا۔

بھانو، راہل کے ہاتھ سے گلاس لیتا ہے اور خاموشی سے پانی پینے لگتا ہے۔

’’ٹھیکہ دار نے کوئی پیسہ نہیں دیا اور کہا کہ ایک اور مہینے تک کام شروع نہیں ہوگا۔‘‘ وہ بات کرتے ہوئے سریتا کو دیکھتا ہے۔

وہ اپنی ہتھیلی کو دوبارہ اپنے پیٹ کے اُبھار پر گھماتی ہے۔ وہ اندر رہے پل رہے بچے کو آرام پہنچانے یا اس سے آرام پانے کی کوشش کر رہی ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔

’’سرکار نے سب کچھ بند کرد یا ہے،‘‘ بھانو اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے، ’’بیماری جو ہے۔ کام پھر سے کب شروع ہوگا، اس بارے میں صرف سرکار ہی بتا سکتی ہے۔‘‘

’’بغیر پیسے کے ڈیڑھ مہینے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ دال اور چاول، کچھ نہیں بچا... ہم دوسروں کے رحم و کرم پر کب تک زندہ رہیں گے۔‘‘

’’مجھے تم کو یہاں نہیں لانا چاہیے تھا،‘‘ بھانو اپنی آواز میں احساس جرم کو چھپا نہیں سکتا۔ ’’تمہاری حالت میں...مناسب کھانے کا انتظام کرنے کے قابل نہیں ہونا۔ اگر کچھ اور مہینے ایسا ہی چلتا رہا تب کیا ہوگا؟‘‘

وہ غصے میں اپنے ہاتھوں کو اینٹھتا ہے۔ بھانو کی فیملی ڈیڑھ مہینے سے دن میں صرف ایک ہی بار کھانا کھا رہی ہے – صرف دال اور چاول، وہ بھی اگر مقامی تنظیم کے ذریعے تقسیم کیا گیا تب۔ یہ سب شروع ہونے سے پہلے، اس کی فیملی ہری سبزیاں، دودھ، اور خریدنے کے قابل ہونے کی حالت میں، کچھ پھل، کچھ سیب، سنترے، انگور کھاتی تھی۔

خاکہ: انترا رمن

لیکن سرکار نے کورونا وائرس کی وبا کے سبب جب ملک بھر میں اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا، تو اس کے بعد تمام صنعتیں بند ہو گئیں۔ آٹھ برسوں میں پہلی بار، بھانو نے اتنے لمبے وقت تک کام نہیں کیا ہے۔ وہ تعمیراتی مقامات پر کام کر رہا تھا – عام طور پر مہینے میں ۲۵ دن، اور ۴۰۰ روپے یومیہ کماتا تھا۔ وہ اتنا کما لیتا تھا کہ اس سے فیملی کا خرچ چلا سکے اور تھوڑا پیسہ اتر پردیش کے اپنے گاؤں میں اپنے بزرگ والدین کو بھیج سکے۔

میاں بیوی جس وقت باتیں کر رہے ہیں، بھانو کے دوست، سوریہ اور ابھے، ان کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں ہر جگہ پاس کے لیبر ناکہ پر کھڑے ہو جاتے، اور عام طور پر تعمیراتی مقامات پر کام کرنے کے لیے لے جائے جاتے تھے۔ ایسا لاک ڈاؤن سے پہلے ہوتا تھا۔ اب ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ سوریہ چار کیلے لیکر آیا ہے، جو وہ بھانو کو دیتا ہے۔

ابھے سریتا سے انہیں کھانے کی اپیل کرتا ہے۔ ’’کیا کر رہی ہو بھابھی؟ پہلے کچھ کیلے کھاؤ... کل سے تم نے کچھ نہیں کھایا ہے۔‘‘

سوریہ نے بھانو سے پوچھا، ’’کیا ٹھیکہ دار نے تمہاری مزدوری دی؟ اس نے کیا کہا؟‘‘

’’وہ کیا کہے گا؟ وہ اتنے دنوں سے میرا فون بھی نہیں اٹھا رہا تھا۔ میں اس کی عمارت کے باہر کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ ایک گھنٹہ کے بعد کہیں باہر سے آیا۔ میں نے دیکھا کہ کاغذ میں شراب کی ایک بوتل لپٹی ہوئی تھی۔ وہ اسے مجھ سے چھپا رہا تھا۔ میں نے اسے پچھلے مہینہ کی مزدوری دینے کے لیے کہا، میں نے دو ہفتے تک کام کیا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ اس کے پاس پیسے بالکل بھی نہیں ہیں۔ ۵۰۰ روپے کا یہ نوٹ دیا اور بولا کہ ’خود اپنا انتظام کرو‘۔‘‘

سوریہ کہتا ہے، ’’اوہ شراب؟ واہ! ضروری چیزیں، بھائیں۔‘‘

سریتا مہمانوں کو دو گلاس پانی دیتی ہے اور پوچھتی ہے، ’’کیا آپ کو کسی گاڑی کے بارے میں پتا چلا، بھیا؟‘‘

’’نہیں بھابھی، کچھ پتا نہیں چلا،‘‘ ابھے کہتا ہے۔ ’’آپ جہاں بھی جائیں، لوگ سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم چار ریلوے اسٹیشن اور تین بس اسٹاپ پر گئے۔ کہیں بھی کوئی ٹرین یا بس نہیں ملتی۔‘‘

’’لیکن ہم نے فارم بھرے تھے، ٹیسٹ کرائے تھے۔ اس کا کیا ہوا؟‘‘

’’موبائل پر چیک کیا تھا۔ وہ دکھا رہا ہے کہ ردّ ہو گیا۔ جب ہم پوچھنے کے لیے اسٹیشن گئے، تو پولس نے ہمیں مار کر بھگا دیا،‘‘ سوریہ کہتا ہے۔

’’نیچے کے کمرے سے گیتا بھابھی اور ان کی فیملی کل کسی پرائیویٹ کار سے اپنے گاؤں چلی گئی۔ میں نے سنا ہے کہ اس نے فی کس تقریباً ۳-۴ ہزار روپے لیے تھے۔‘‘ سریتا انہیں بتاتی ہے۔

’’بینک میں تقریباً ۱۰ ہزار روپے اور اب ہاتھ میں یہ ۵۰۰ ہے...،‘‘ بھانو کہتا ہے۔ ’’میں نے سنا ہے، لوگ پیدل بھی گھر جا رہے ہیں...‘‘

سوریہ پرجوش ہوکر بھانو کے کمرے کی دہلیز پر بیٹھ جاتا ہے۔ ’’مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ مکان مالک لگاتار فون کر رہا ہے، دو مہینے کا کرایہ مانگ رہا ے، لیکن ادائیگی کیسے کروں؟‘‘ ابھے دیوار سے ٹیک لگا لیتا ہے۔ سریتا دروازے پر بھانو کے پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے۔ ابھے کہتا ہے، ’’ہر جگہ کا یہی منظر ہے، سب کی کہانی ایک جیسی ہے... ہم سبھی مزدور... میں نے تقریباً دو مہینے سے گھر پر ایک بھی پیسہ نہیں بھیجا ہے۔ باپو کی دوا کے لیے بھی نہیں...‘‘ اس کے والد کو پھیپھڑے کا مرض ہے۔ اس کی ماں کی دو سال پہلے ملیریا سے موت ہو گئی تھی۔ اس کی چھوٹی بہن ۱۰ویں کلاس میں ہے۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے ان کے خیالوں میں گم ہو جاتا ہے اور پھر چھوٹے لڑکے سے بات کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ’’ارے راہل، کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’میں اپنی آڈی چلا رہا ہوں، چاچا۔‘‘

سوریہ نے مذاق کرتے ہوئے لڑکے سے پوچھا، ’’اوڈی... کیا تمہاری اوڈی ہمیں... ہماری ریاست تک لے جائے گی...؟‘‘

’’ہاں، بالکل۔ یہ میری کار ہے، یہ ہر جگہ جاتی ہے، سبھی کو لے جاتی ہے۔ زوم سی سی روم سی سی سی روم سی سی روم سی سی روم سی سی سی...‘‘ وہ دہلیز پر بیٹھے اپنے والد کو دھکہ دیتا ہے اور اپنی کار کے ساتھ گھر سے باہر نکل جاتا ہے، زوم اور سیٹی کی تیز آواز نکالتے ہوئے، کار کو تنگ گلی میں تیز چلاتا ہے۔ سریتا، بھانو، سوریہ اور ابھے اسے خوشی سے کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

سوریہ فیصلہ کن لہجہ میں کہتا ہے، ’’چلو بھابھی ہم سبھی چلتے ہیں۔ چلو گھر چلتے ہیں۔‘‘

وہ رات کا زیادہ تر حصہ برتن اور کپڑے پیک کرنے میں گزارتے ہیں۔ اگلی صبح، سورج نکلنے سے پہلے، انہوں نے سڑک کی جانب چلنا شروع کیا، جو شاید انہیں شہر سے باہر لے جائے۔

*****

پٹھیا اور اس کی فیملی شہر سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور، ہائی وے کے کنارہ، گھاس کے ڈھکے ہوئے ایک کھلے میدان میں جاگتی ہے۔ صبح کے چار بج رہے ہیں۔ وہ گھاس پر پھیلے اپنے ہاتھ سے سلے ہوئے کمبل کو تہہ کرنے کے بعد دوبارہ چلنا شروع کرتے ہیں۔ پچھلے دن انہوںنے بُدروج گاؤں کے اینٹ بھٹے سے چلنا شروع کیا تھا۔ ان کا گھر ۱۵۰ کلومیٹر دور، گردے پاڑہ میں ہے۔ وہ کام کی تلاش میں بھٹے پر گئے تھے۔

پٹھیا اپنے سر پر جوار کے آٹے اور چاول کی بھاری بوری اور ہاتھ میں برتنوں کی ایک گٹھری لیکر چل رہا ہے۔ اس کی بیوی، ژولا اس کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے، جس کے سر پر کپڑے سے بندھی کمبل کی ایک بڑی گٹھری ہے۔ آٹھ مہینے کا چھوٹا نندو، اس کے سینے کے سامنے کپڑے سے بندھا، سو رہا ہے۔ اس کے غبار آلودہ چہرے کو چیرتے ہوئے آنسو سوکھے نشان چھوڑ گئے ہیں۔ ۱۳ سال کی کلپنا اپنے سر پر کپڑے کی گٹھری اٹھائے، اور چھ سال کی گیتا اپنی بہن کی فراک کے کنارے کو پکڑے، اپنی ماں کے پیچھے چل رہی ہیں۔

پیچھے کی طرف گھومے بغیر، ژولا ان سے کہتی ہے، ’’لڑکیوں، دھیان سے چلنا۔‘‘

پٹھیا سامنے سے پکارتا ہے، ’’انہیں ہمارے بیچ میں چلنے دو۔ پیچھے نہیں۔ اس طرح ہم ان پر نظر رکھ سکتے ہیں۔‘‘

کلپنا اور گیتا، پٹھیا اور ژولا کے بیچ میں چلنے لگتی ہیں۔ کچھ گھنٹوں کے بعد، سورج ان کے سر پر آ گیا ہے اور کافی گرمی ہے۔ ان کے پیر کی انگلیاں اور ایڑیاں پھٹے چپلوں سے باہر نکل آنے کے سبب تپتی زمین سے جل رہی ہیں۔ ژولا کا دل تیزی سے دھڑک رہا ہے، اس کی سانسیں پھولنے لگی ہیں۔

’’ہوم..ہوم..سنو۔ تھوڑی دیر رکتے ہیں۔ اور نہیں چل سکتی۔ پیاس بھی لگ رہی ہے۔‘‘

’’آگے ایک گاؤں ہے۔ وہاں رکتے ہیں،‘‘ پٹھیا کہتا ہے۔

آگے انہیں پیپل کا ایک درخت دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بائیں طرف ایک کچی سڑک آدرش وادی گاؤں کی طرف جا رہی ہے – درخت کے تنے سے لٹکے ایک بورڈ پر لکھا ہے۔ پٹھیا اپنے بوجھ کو درخت کے چاروں طرف بنے ایک چبوترے پر رکھ دیتا ہے۔ ژولا اور کلپنا چبوترے پر اپنا سامان رکھنے کے بعد ٹھنڈی سانسیں لیتی ہیں۔ گولر کی شاخوں کا گھنا سایہ آرامدہ ہے۔ ژولا اس کپڑے کو کھولتی ہے جس میں اس نے نندو کو اپنے جسم سے باندھ رکھا تھا، اور اسے دودھ پلانے کے لیے گود میں اٹھاتی ہے اور اسے اپنی ساڑی کے ایک کونے سے ڈھک دیتی ہے۔

پٹھیا کا جب گرم جسم تھوڑا ٹھنڈا ہوتا ہے، تو وہ اپنی ایک گٹھری سے پلاسٹک کی تین بوتلیں نکالتا ہے۔ ’’یہیں رکو۔ میں پانی لاتا ہوں۔‘‘

کچے راستے سے تھوڑا آگے، اسے کانٹے دار جھاڑیوں کا ایک بیری کیڈ دکھائی دیتا ہے۔ اس پر لگے ایک بورڈ پر بڑے حروف میں لکھا ہے: باہری لوگ کورونا وائرس سے حفاظت کے لیے گاؤں میں داخل نہیں ہو سکتے۔

’’بند ہے؟ کرونا...‘‘ پٹھیا دھیرے سے پڑھتا ہے اور وہاں جو کوئی بھی سن سکتا ہو اسے پکارنا شروع کرتا ہے۔

’’کوئی ہے؟ بہن... بھائی... کوئی ہے یہاں؟ مجھے تھوڑا پانی چاہیے۔ کوئی ہے وہاں؟‘‘

وہ دیر تک آواز لگاتا ہے، لیکن جب کوئی جواب نہیں ملتا، تو وہ مایوس ہوکر لوٹ جاتا ہے۔ ژولا اسے قریب آتا دیکھ مسکراتی ہے۔

’’پانی کہاں ہے؟‘‘

’’سڑک کو بند کر دیا گیا ہے۔ میں نے گاؤں والوں کو آواز لگانے کی کوشش کی۔ کوئی نہیں آیا۔ بیماری یہاں بھی ہے۔ آگے دیکھتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا۔‘‘

ژولا پر امید ہے۔ ’’اگر کوئی کھلا میدان نظر آتا ہے، تو ہم وہاں چولہا جلائیں گے۔‘‘

گیتا گڑگڑاتی ہے، ’’بابا، مجھے بہت بھوک لگی ہے۔‘‘

باپ اسے خوش کرنے کے لیے کہتا ہے، ’’گیتے، آؤ، میرے کندھے پر بیٹھو۔ اور ہمیں بتاؤ کہ اوپر سے تمہیں کیا کچھ دکھائی دے رہا ہے۔‘‘

گیتا اس کے سر کو پکڑ کر اس کے کندھے پر بیٹھ جاتی ہے۔ پٹھیا ایک ہاتھ میں چاول اور آٹے کی بوری اور دوسرے میں برتنوں کی گٹھری پکڑتا ہے۔ ۲-۳ کلومیٹر چلنے کے بعد، وہ سڑک کے کنارے ایک ٹن کی جھوپڑی میں پہنچتے ہیں۔ ژولا کی نظر کسی پر پڑتی ہے۔

’’بات سنو! کوئی وہاں زمین پر گرا ہوا ہے۔‘‘

پٹھیا غور سے دیکھتا ہے: ’’سو رہی ہوگی۔‘‘

’’زمین پر اس طرح کون سوتا ہے؟ دیکھو تو سہی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ بیہوش ہے۔‘‘

پٹھیا جھونپڑی کے قریب جاتا ہے، اپنی گٹھری کو زمین پر پٹختا ہے اور گیتا کو نیچے اتارتا ہے۔ ایک بزرگ عورت واقعی میں وہاں بیہوش پڑی ہے۔

’’ژولے، یہاں آؤ۔‘‘

ژولا تیزی سے جھونپڑی میں جاتی ہے، کلپنا اس کے پیچھے بھاگتی ہے۔ وہ عورت کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ژولا کلپنا کو جھونپڑی کے اندر سے پانی لانے کے لیے بھیجتی ہے۔

’’ماتا جی،‘‘ پٹھیا اس عورت کے چہرے پر پانی چھڑکتے ہوئے آواز لگاتا ہے۔

وہ اسے اٹھاکر ایک چارپائی پر رکھتا ہے۔ پھر نندو کو اپنی بانہوں میں لیکر گھاس پر بیٹھ جاتا ہے۔

بغیر کوئی وقت برباد کیے، ژولا جھونپڑی کے باہر پتھر کے ایک چولہے میں لکڑیاں جلاکر جوار کی بھاکھری بنانا شروع کرتی ہے۔ تبھی، وہ بوڑی عورت جاگ جاتی ہے۔

پٹھیا کہتا ہے، ’’تم اٹھ گئی، بوڑھی ماں؟ تمہارا پیٹ زور سے گُڑگُڑا رہا ہے۔ کیا تم نے کچھ کھایا پیا نہیں؟‘‘

’’بوڑھی ماں نہیں! میں لکشمی بائی ہوں۔ اور تم اس طرح کسی کے گھر میں کیسے گھُس سکتے ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟‘‘

کلپنا اس کے ہاتھ میں تل کی چٹنی کے ساتھ ایک بھاکھری رکھتی ہے اور مسکراتی ہے، ’’یہ لو دادی، کھاؤ۔‘‘

گرم بھاکھری کو دیکھتے ہی، وہ اپنا غصہ بھول جاتی ہے۔ پہلی بھاکھری ختم ہوتے ہی، ژولا اس کے ہاتھ میں ایک اور بھاکھری رکھ دیتی ہے۔ لکشمی بائی اسے دیکھ کر مسکراتی ہے۔

’’اب تم لوگ کس طرح جاؤ گے؟‘‘

’’ہم اینٹ بھٹے پر گئے تھے۔ لیکن آدھے راستے سے لوٹنا پڑا۔‘‘

’’ہوں... میں نے سنا ہےکہ کوئی بیماری ہے۔ گاؤں والے مجھے اندر نہیں جانے دیتے۔ میں بھیک مانگ کر اپنا گزارہ چلاتی ہوں۔ چار دنوں کے بعد مجھے بھاکھری کھانے کو ملی ہے۔‘‘ وہ سبھی باتیں کرتے ہوئے کھار ہے ہیں۔ ژولا ایک کپڑے میں الگ سے پانچ بھاکھڑی لپیٹتی ہے اور لکشمی بائی کو الوداع کہتی ہے۔ جانے سے پہلے پٹھیا اپنی پانی کی بوتلیں بھر لیتا ہے۔

لکشمی بائی چارپائی سے ہاتھ ہلاتی ہے، ’’دھیان سے جانا، بچوں،‘‘ اور انہیں دیر تک دیکھتی رہتی ہے۔ پھر وہ ایک آہ کے ساتھ اٹھتی ہے، اپنی ٹن کی جھونپڑی کے اندر جاتی ہے اور مٹی کے گھڑے سے پانی پیتی ہے۔ گھڑے کے بغل میں، وہ پلاسٹک کی تھیلی میں بندھا جوار کا آٹا اور تل کی چٹنی دیکھتی ہے۔ وہ جلدی سے باہر بھاگنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن وہ جا چکے ہیں!

تقریباً دس کلومیٹر چلنے کے بعد، وہ سڑک پر کچلے ہوئے بینگن اور بکھرے ہوئے ٹماٹر دیکھتے ہیں۔ ایک کسان نے سبزیوں کو ہائی وے پر پھینک دیا ہے۔ ’’وہ ویسے بھی خراب ہو رہے ہیں۔ میں انہیں شہر تک کیسے پہنچاؤں گا؟ ہم کتنا کھائیں گے؟ اسے پھینک دو،‘‘ پٹھیا کسانوں کی بات سنتا ہے۔ انہیں دیکھ کر، وہ پچھلے سال فصل کی کٹائی کے وقت بے موسم بارش سے برباد ہوئے دھان کے کھیتوں کو یاد کرتا ہے۔

’’ژولے، ایسا لگتا ہے کہ کسان کو اپنی زندگی کے دنوں میں اپنے نقصان کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے، چاہے بارش ہو یا بیماری،‘‘ پٹھیا کہتا ہے۔

وہ چلنا جاری رکھتے ہیں، تقریباً بے مقصد، جلد ہی گھر پہنچنے کی امید کرتے ہیں، تبھی انہیں آگے ایک مجمع نظر آتا ہے۔ خاکی وردی میں پولس والے پلاسٹک کے پیلے بیری کیڈز کے ساتھ کھڑے ہیں، لوگوں کو لکڑی کے ڈنڈو سے پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ کچھ پولس سے فریاد کر رہے ہیں، کئی سڑک پر بیٹھے ہیں، عورتیں، بچے، مرد، ہر کوئی۔ بچوں کے ساتھ پٹھیا، ژولا قریب جاتے ہیں۔

*****

’’او صاحب، ہمیں جانے دو۔ ہم لوگ صبح سے چل رہے ہیں۔ ہم نے کچھ کھایا بھی نہیں ہے،‘‘ سوریہ پولس والے سے کہتا ہے۔

’’تو؟ کیا میں نے کہا تھا تمہیں چلنے کے لیے؟ اوپر سے آرڈر ہے۔ سرحد پار نہیں کر سکتے۔ پیچھے ہٹو۔ براہ کرم واپس جاؤ، بھائی۔‘‘

’’ہم کہاں جائیں گے صاحب؟ یہ دیکھئے، آپ کے لوگوں نے میرے پیر پر مارا ہے۔ مجھے اسپرے یا کچھ دیں۔ بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘

’’ہمارے لوگوں نے؟ یہاں سے چلے جاؤ۔ بھاگو۔‘‘ پولس والا چھڑی کو ہوا میں اچھالتا ہے۔ سوریہ اپنے سر کو بچاتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ بھانو، سریتا اور چھوٹا راہل درخت کے نیچے بیٹھے ہیں، اور ابھے اس کی ٹہنی سے ٹیک لگائے کھڑا ہے۔

’’میں نے تمہیں وہاں جانے سے منع کیا تھا نا،‘‘ ابھے سوریہ کو ڈانٹتا ہے۔ ’’تم میری بات نہیں مانتے! کیا تم دوبارہ مار کھانا چاہتے ہو؟‘‘

’’ہم یہاں ڈیڑھ گھنٹے سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میری پٹائی ہو، گھسیٹا جائے، جو بھی ہو، لیکن میں گھر جانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’گھر! ان تمام برسوں میں ہم نے امیر لوگوں کے لیے کتنے بڑے گھر بنائے اور کتنی عمارتیں تعمیر کیں؟ کیا ہم نے ان سبھی کو نہیں دیکھا جب ہم آج صبح ان کے پاس سے گزر رہے تھے؟‘‘

’’کسی نے کھڑکی سے باہر نہیں دیکھا اور تمہیں شکریہ نہیں کہا، بھائی،‘‘ سوریہ تلخی سے ہنستا ہے۔

’’انہوں نے اپنی کھڑکیوں سے سڑک پر لوگوں کی لمبی قطاریں دیکھی ہوں گی۔ انہوں نے ضرور دیکھا ہوگا۔‘‘ پٹھیا کے وہاں پہنچنے پر بھانو کی بات درمیان میں ہی کٹ جاتی ہے۔ ’’بھائی۔ پولس یہاں سڑک کو کیوں بند کر رہی ہے؟‘‘ وہ پوچھ رہا ہے۔

سوریہ اس سے ہندی میں پوچھتا ہے، ’’کیا تم مراٹھی بولتے ہو؟‘‘

پٹھیا اپنی زبان میں بات جاری رکھتا ہے، ’’بھائی، ہم اپنے گاؤں جانا چاہتے ہیں۔ اینٹ بھٹے پر کام رک گیا۔ کوئی گاڑی نہیں ہے، اس لیے ہم پیدل چل رہے ہیں۔‘‘

سوریہ اور دیگر لوگ پٹھیا کو خالی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ابھے سمجھانے کے لیے آگے آتا ہے، ’’میں نے ’سڑک‘ لفظ کو چھوڑ کر تمہارے ذریعے کہی گئی کسی بھی بات کو نہیں سمجھا۔ وہ سڑک بند ہے۔‘‘

’’میں آپ کو بتاتی ہوں کہ میرے والد کیا کر رہے ہیں،‘‘ کلپنا بیچ میں کودتی ہے، اس ہندی میں بولتے ہوئے جو اس نے اسکول میں سیکھی ہے۔ ’’ہمیں اپنی گاؤں جانا ہے اور میرے والد جاننا چاہتے ہیں کہ یہ پولس والے یہاں پر کیوں ہیں۔‘‘

سوریہ مسکراتا ہے، ’’واہ! ہم تمہارے والد کی مراٹھی کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ یہ شہر کی مراٹھی سے الگ لگتی ہے۔‘‘

کلپنا اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آگے کہتی ہے، ’’مراٹھی ہر ضلع، گاؤں، شہر میں، پوری ریاست میں الگ الگ طریقے سے بولی جاتی ہے۔‘‘

بھانو، جو مراٹھی میں کچھ الفاظ کو سمجھتا ہے، پٹھیا کو بیٹھنے کے لیے کہتا ہے اور سوریہ کی طرف مڑتا ہے ’’کیا تم اب زبان کی کلاس لینے جا رہے ہو یا کیا؟‘‘ وہ کلپنا کو دیکھ کر مسکراتا ہے۔ ’’تم ایک اسمارٹ بچی ہو۔‘‘

وہ سبھی دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ مختلف زبانوں میں بات چیت کرتے ہیں، تبھی انہیں مجمع میں بے چین آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔

’’ہم یہاں کب تک بیٹھے رہیں گے؟‘‘ ایک آدمی کہتا ہے۔ ’’چلو کچی سڑک سے ریل پٹریوں کی طرف چلتے ہیں۔ اب جب انہوں نے ہم سبھی کو پیدل چلنے پر مجبور کر دیا ہے، تو وہ کوئی ٹرین نہیں چلائیں گے۔ چلو، سبھی چلو۔ چلتے ہیں۔‘‘

ہر کوئی اس غبار آلودہ سڑک کی طرف چلنا شروع کر دیتا ہے۔ دونوں کنبے ان کے پیچھے چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اندھیرا ہونے تک وہ چلتے ہیں۔ پٹھیا اور دیگر نے تقریباً ۴۰ کلومیٹر کی دوری مزید طے کر لی ہے۔ اب وہ ریل کی پٹریوں پر چل رہے ہیں۔ سوریہ اپنے زخمی پیر کی وجہ سے کافی پیچھےرہ گیا ہے۔ کلپنا اور گیتا اس کے ساتھ چل رہی ہیں۔

بھانو پٹھیا کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ سوریہ اور لڑکیوں کا انتظار کرے۔ ’’چلو رک کر ان کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کے آنے تک یہیں بیٹھتے ہیں۔‘‘

سریتا بھانو کو تھوڑی دیر آرام کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ ’’رات بھی ہو چکی ہے اور راہل بھوکا ہے اور اسے نیند آ رہی ہے۔‘‘

وہ سبھی جب ریل کی پٹریوں پر بیٹھنے کے بعد اپنے پیر پھیلاتے ہیں، تو ژولا بھاکھری کی گٹھری کو کھولتی ہے اور کہتی ہے، ’’ہم لوگ تھوڑا تھوڑا کھائیں گے۔‘‘

ابھے کہتا ہے، ’’ہمیں بچوں اور سوریہ کا انتظار کرنا چاہیے۔ ہم ایک ساتھ کھائیں گے۔‘‘

انتظار کرتے ہوئے، وہ اونگھنے لگتے ہیں۔ پٹھیا اپنا سر ہلاتا ہے اور تھوڑی دیر جاگنے کی کوشش کرتا ہے اورپھر پٹریوں پر سو جاتا ہے۔ وہاں آرام کرنے والے باقی لوگ بھی اب سو چکے ہیں۔

ٹرین کی سیٹی کی تیز آواز ان کے تھکے ہوئے کانوں تک مشکل سے پہنچتی ہے۔ تیز رفتار ٹرین کے انجن کی تیز چمک انہیں گھر کے خواب دیکھنے سے جگانے میں ناکام رہتی ہے۔

خاکہ نگار: انترا رمن، سرشٹی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی، بنگلور سے وژوئل کمیونی کیشن میں حالیہ گریجویٹ ہیں۔ ان کی خاکہ نگاری پر تصوراتی فن اور بیانیہ کی تمام شکلوں کا گہرا اثر ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jyoti Shinoli is a Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India; she has previously worked with news channels like ‘Mi Marathi’ and ‘Maharashtra1’.

Other stories by Jyoti Shinoli
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez