شمشیر سنگھ کہتے ہیں، ’’ہم نے اپنے ٹریکٹر کو ترنگے سے سجایا ہے، کیونکہ ہم اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے ٹریکٹر کو ہندوستانی پرچم کے تین رنگوں کے ربن، غباروں اور پھولوں سے مزین کیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’کاشتکاری ہمیں مادر وطن کی طرح عزیز ہے۔ ہم مہینوں زمین کاشت کرتے ہیں، اور فصلوں کی دیکھ بھال بالکل اسی طرح کرتے ہیں جس طرح ہماری مائیں ہماری دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اسی خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے اپنے ٹریکٹر کو دھرتی ماں کی طرح سجایا ہے۔‘‘

دہلی میں احتجاجی مقامات پر اور اس کے آس پاس کسان اس موقع کے لیے مختلف موضوعات (تھیمز) پر اپنے ٹریکٹروں کو تیار کر رہے ہیں۔ وہ اس ریلی کو دارالحکومت میں سالانہ یوم جمہوریہ پریڈ (جس میں مختلف ریاستوں اور موضوعات کی نمائندگی کرنے والے قافلے شامل ہوتے ہیں) کی طرح رنگین اور معنی خیز بنانا چاہتے ہیں۔ پھولوں، جھنڈوں اور ٹیبلوز سے لیس ٹریکٹروں کو ایک نئی شکل ملی ہے۔ کسانوں کی انفرادی کوششوں کے ساتھ ساتھ کسان یونین کی طرف سے مقرر کردہ ٹیمیں گزشتہ چند دنوں سے اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں کہ ٹریکٹر ۲۶ جنوری کے لیے وقت پر تیار ہو جائیں۔

شمشیر بتاتے ہیں، ’’گورے ننگل میں اپنے گھر سے [ٹریکٹر] ڈرائیو کر کے یہاں تک پہنچنے میں مجھے دو دن کا وقت لگا ہے۔‘‘ وہ پنجاب کے امرتسر ضلع کے اپنے گاؤں کے ۲۰ دیگر کسانوں کے ساتھ ہریانہ-دہلی سرحد پر واقع ٹکری پہنچے ہیں۔ ان کا مقصد زرعی قوانین کو منسوخ کرنے والے کسانوں کے مطالبات کا اعادہ کرنے کے لیے پریڈ میں شامل ہونا ہے۔

PHOTO • Shivangi Saxena

اوپر کی قطار: بلجیت سنگھ اپنے پوتے نشانت کے ساتھ، انہوں نے یوم جمہوریہ کی پریڈ کے لیے اپنا ٹریکٹر سجایا ہے۔ نیچے کی قطار: بلجندر سنگھ نے زراعت کی نمائندگی کرنے کے لیے اپنی کار کو سبز رنگ میں پینٹ کیا ہے

یہ کسان ستمبر ۲۰۲۰ میں پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان قوانین کو حکومت نے پہلے ۵ جون ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کے طور پر جاری کیا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں بل کے طور پر پیش کیا، اور اسی مہینے کی ۲۰ تاریخ تک جلدبازی میں ایکٹ کے طور پر پاس کر دیا تھا۔ یہ قوانین ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔

کسان ان قوانین کو اپنی روزی روٹی کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قوانین زراعت کے شعبے میں بڑے کارپوریٹوں کی مداخلت کو وسعت دے کر انہیں مزید طاقت فراہم کرنے والے ہیں۔ یہ قوانین کاشتکاروں کی مدد کے لیے دی جانے والی سہولتوں، مثلاً کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیاں (اے پی ایم سی)، ریاستی خریداری، وغیرہ کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

بلجیت سنگھ نے بھی اپنے ٹریکٹر کو رنگ برنگی لمبی مالاؤں اور ہندوستانی پرچم سے سجایا ہے۔ اس احتجاج میں حصہ لینے کے لیے وہ اپنے ۱۴ سالہ پوتے نشانت کے ساتھ روہتک ضلع کے کھیری سادھ گاؤں سے خود ڈرائیو کر کے یہاں  آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے پوتے اپنے احترام کے اظہار کے طور پر اور اپنی ریاست کے دوسرے کسانوں کی نمائندگی کرنے کے لیے ہریانہ کے روایتی لباس میں ملبوس ہوں گے۔

PHOTO • Shivangi Saxena

کئی فنکاروں نے ریلی کے لیے پوسٹر، بینرز اور ہورڈنگز بنائے ہیں۔ بھارتیہ کسان یونین کے ایک ترجمان کا کہنا ہے: ’ہم کسانوں کے اس احتجاجی پلیٹ فارم کو سماجی برائیوں سے متعلق بیداری پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘

۵۷ سالہ کسان کہتے ہیں، ’’احتجاج میں حصہ لینے کے لیے میں نے حال ہی میں مہندرا ٹریکٹر اپنے پیسوں سے خریدا ہے۔ یہ حکومت کو دکھانے کے لیے ہے کہ ہم کسی سے فنڈز نہیں لیتے۔ ہم نے خود پیسہ کمایا ہے۔‘‘

کاریں بھی پریڈ میں شامل ہوں گی۔ ۲۷ سالہ بلجیندر سنگھ پنجاب کے موگا ضلع کے موگا شہر سے ’کسان یوم جمہوریہ پریڈ‘ میں شریک ہونے کے لیے آئے ہیں۔ وہ اپنی انووا کار ۳۵۰ کلومیٹر سے زیادہ دوری تک ڈرائیو کرکے ٹکری پہنچے ہیں۔ بلجندر ایک آرٹسٹ ہیں اور زراعت کی نمائندگی کے لیے اپنی کار کے بیرونی حصے کو سبز رنگ سے پینٹ کیا ہے۔ کار کے پچھلے سرے پر انہوں نے ایک نعرہ ’پنجاب ویڈس دہلی‘ (پنجاب کی دہلی سے شادی) پینٹ کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں: ’’اس کا مطلب ہے کہ ہم، پنجاب کے لوگ دہلی [کا ہاتھ] جیتنے کے بعد ہی واپس جائیں گے۔‘‘ وہ کہتے ہے کہ ان کے ہیرو بھگت سنگھ ہیں، جو آزادی کے ایک عظیم سپاہی ہیں۔

ریلی کی تیاری کے سلسلے میں دیگر کئی فنکاروں نے پوسٹرز، بینرز اور ہورڈنگز بنائے ہیں۔ بھارتیہ کسان یونین (پی کے یو) نے فنکاروں کی ایک فہرست تیار کی ہے۔ بی کے یو (اگراہاں)  کے میڈیا ترجمان وکاس (وہ اپنے اسی نام کا استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں) کا کہنا ہے، ’’ہم کسانوں کے اس احتجاجی پلیٹ فارم کا استعمال دلتوں کے خلاف مظالم اور مہاجرت کے بحران جیسی برائیوں کے خلاف سماجی شعور بیدار کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ ہم اپنے گروؤں کی تعلیمات کے ساتھ بڑے بڑے ہورڈنگز بنا رہے ہیں، اور ان کو مکمل کرنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔‘‘

اور اس طرح ۲۶ جنوری کی صبح ٹریکٹر، کاریں اور لوگ اس بے مثال پریڈ میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ مظاہرین کو امید ہے کہ اس پریڈ کا سفر انہیں ان کی منزل، یعنی زرعی قوانین کی منسوخی، تک پہنچائے گا۔

مترجم: شفیق عالم

Shivangi Saxena

Shivangi Saxena is a third year student of Journalism and Mass Communication at Maharaja Agrasen Institute of Management Studies, New Delhi.

Other stories by Shivangi Saxena
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam