جھارکھنڈ کے بوروتیکا میں اگر کوئی عورت حمل سے متعلق پیچیدگیوں کا سامنا کر رہی ہے اور اگر اسے ڈاکٹر کو دکھانا ہے، تو اس کے لیے اسے ریاست کی سرحد پار کر کے شاید اوڈیشہ جانا پڑے۔

اس معاملے میں وہ اکیلی نہیں ہے – اگر آپ ایک عورت ہیں اور ہندوستان کے دیہی علاقے میں رہتی ہیں، تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ آپ کو وہاں کوئی ماہر امراض نسواں یا سرجن مل جائے۔ یہاں کے کمیونٹی ہیلتھ سنٹرز (سی ایچ سی) کے موجودہ انفراسٹرکچر میں درکار زچگی اور امراض نسواں کی ماہر ڈاکٹروں کی ۲ء۷۴ فیصد کمی ہے۔

اگر آپ بیمار بچے والی ایک ماں ہیں، تو سی ایچ سی میں کسی ماہر اطفال تک رسائی حاصل کرنے میں آپ کو وقت لگ سکتا ہے کیوں کہ ان کے ساتھ ساتھ عام معالجین (ڈاکٹروں) کے ۸۰ فیصد عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں۔

ہمیں ان تمام چیزوں کے بارے میں معلومات دیہی صحت کی شماریات ۲۲-۲۰۲۱ سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اور اس قسم کی دیگر رپورٹس، تحقیقی مقالے اور ہارڈ ڈیٹا، قوانین اور قراردادیں پاری ہیلتھ آرکائیو میں دستیاب ہیں، جو ہندوستان میں خواتین کی صحت کی حالت کو واضح اور بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔

یہ حصہ خاص طور پر دیہی ہندوستان میں خواتین کی صحت کی خطرناک حالت پر روشنی ڈالتا ہے۔ پاری ہیلتھ آرکائیو میں تولیدی صحت سے لے کر جنسی تشدد تک، ذہنی صحت سے لے کر کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے اثرات تک، خواتین کی صحت کے متعدد گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے – جو پاری کے ’عام لوگوں کی روزمرہ کی زندگی‘ کا احاطہ کرنے کے مینڈٹ کو تقویت فراہم کرتا ہے۔

PHOTO • Courtesy: PARI Library
PHOTO • Courtesy: PARI Library

پاری ہیلتھ آرکائیو، پاری لائبریری کا ایک ذیلی حصہ ہے، جس میں حکومت، آزاد تنظیموں، اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے ذریعے تیار کردہ اور دیگر ۲۵۶ دستاویزات موجود ہیں۔ اس میں عالمی سے لے کر قومی مسائل، یا ملک کے مخصوص خطوں کے موضوعات پر توجہ دی گئی ہے۔

مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع میں بیڑی بنانے کا کام کرنے والی تنوجا کہتی ہیں، ’’اس نے بتایا کہ میرے اندر کیلشیم اور آئرن کی کمی ہے اور مجھے فرش پر بیٹھنے سے منع کیا۔‘‘

نیلگری کے آدیواسی اسپتال کی ڈاکٹر شیلجا بتاتی ہیں، ’’ہمارے یہاں ابھی بھی ایسی آدیواسی خواتین آتی ہیں، جن کے اندر بالکل بھی خون نہیں ہوتا – ۲ گرام فی ڈیسی لیٹر ہیموگلوبن! جب خون کی کمی کی جانچ کرتے ہیں تب ہائڈروکلورک ایسڈ رکھتے ہیں اور خون ڈالتے ہیں، تو کم از کم ۲ گرام فی ڈیسی لیٹر تک کا ہی ناپ پڑھا جا سکتا ہے۔ اس سے کم بھی ہو سکتا ہے، لیکن ناپا نہیں جا سکتا۔‘‘

تازہ ترین نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ( این ایف ایچ ایس۔۵، ۲۱-۲۰۱۹ ) کے مطابق، سال ۱۶-۲۰۱۵ سے ملک بھر میں خواتین کے درمیان اینیمیا (خون کی کمی) کی حالت مزید خراب ہوئی ہے۔ اس سروے میں ہندوستان کی ۲۸ ریاستوں، آٹھ مرکز کے زیر انتظام علاقوں، اور ۷۰۷ ضلعوں کی آبادی، صحت اور غذائیت سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

PHOTO • Design Courtesy: Aashna Daga

بہار کے گیا ضلع کی انجنی یادو کہتی ہیں، ’’زچگی کے دوران میرے جسم میں خون کی کافی کمی ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی میری نرس نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے جسم میں خون کی بہت زیادہ کمی [اینیمیا کا سنگین مسئلہ] ہے اور مجھے پھل اور سبزیاں کھانی چاہئیں۔‘‘

ہندوستان میں ۲۱-۲۰۱۹ کے دوران ۱۵ سے ۴۹ سال کی ۵۷ فیصد خواتین اینیمیا کی شکار تھیں۔ دنیا بھر میں تقریباً تین میں سے ایک عورت اینیما کی شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی غذائی اور زرعی تنظیم کے ذریعے جاری کردہ دنیا میں غذائی تحفظ اور غذائیت کی حالت ۲۰۲۲ کے مطابق، ’’زیادہ تر دیہی علاقوں، غریب گھروں میں رہنے والی اور ایسی خواتین اینیما کی شکار ہوتی ہیں جنہیں کسی قسم کی باقاعدہ تعلیم نہیں دی گئی ہے۔‘‘

غذائیت سے بھرپور کھانا نہ ملنے کی وجہ سے اس طرح کی کمی مزید بڑھ جاتی ہے۔ ۲۰۲۰ کی گلوبل نیوٹریشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غذائیت سے بھرپور غذاؤں (جیسے کہ انڈا اور دودھ) کی زیادہ قیمت غذائی قلت سے نمٹنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ہندوستان میں سال ۲۰۲۰ میں صحت مند کھانے کی قیمت ۹۷ء۲ امریکی ڈالر یا تقریباً ۲۴۳ روپے تھی، جو اتنی زیادہ ہے کہ ہندوستان میں ۳ء۹۷۳ ملین لوگ صحت مند کھانا نہیں کھا سکتے۔ اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں اور گھروں سے باہر، وسائل کی تقسیم کے وقت عورتوں کو سب سے نچلے پائیدان پر رکھا جاتا ہے۔

PHOTO • Design Courtesy: Aashna Daga

پاری لائبریری میں مروجہ صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچہ سے متعلق کل ہند سروے شامل ہیں۔ پورے ہندوستان میں تقریباً ۲۰ فیصد گھروں میں صفائی سے متعلق کوئی سہولت موجود نہیں ہے، اسی لیے پٹنہ کی جھگیوں میں رہنے والی لڑکیاں کہتی ہیں، ’’رات کے وقت صرف ریل کی پٹریاں ہی بیت الخلاء کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔‘‘

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔۵ (۲۰۲۱-۲۰۱۹) سے پتہ چلتا ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والی تمام عورتوں میں سے صرف ۷۳ فیصد کو حیض سے متعلق صاف ستھری مصنوعات تک رسائی حاصل ہے، جب کہ شہری علاقوں میں رہنے والی تقریباً ۹۰ فیصد عورتوں کو ان مصنوعات تک رسائی حاصل ہے۔ ’حیض سے متعلق صاف ستھری مصنوعات‘ میں سینیٹری نیپکن، حیض والے کپ، ٹیمپون – اور کپڑے کے ٹکڑے تک شامل ہیں۔ مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ بہت سے سینیٹری نیپکن میں زہریلے کیمیکلز کی اعلیٰ سطح موجود ہے۔

PHOTO • Design Courtesy: Aashna Daga

ہندوستانی خواتین کے ہیلتھ چارٹر میں ان کی تولیدی صحت سے متعلق فیصلے کو ’’امتیاز، جبر اور تشدد سے پاک‘‘ رکھنے کے خواتین کے حقوق کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ان حقوق کی تکمیل کے لیے سستی حفظان صحت کی سہولیات تک رسائی ضروری ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔۵ (۲۱-۲۰۱۹) کے مطابق، نس بندی کرانے کے لیے تقریباً ۸۰ فیصد خواتین کو سرکاری حفظان صحت کی سہولت، یعنی عام طور پر میونسپل ہسپتال یا کمیونٹی ہیلتھ سنٹر کا سہارا لینا پڑا۔ باوجود اس کے، ملک میں ایسے ادارے بہت کم ہیں۔

جموں و کشمیر کے وزیری تھل گاؤں کے لوگوں کے لیے سب سے قریبی پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) پانچ کلومیٹر دور ہے۔

اس میں عملہ اور ساز و سامان کی بھی کمی ہے۔ کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کے بڈگام پی ایچ سی میں صرف ایک نرس ہے۔ وزیری تھل کی آنگن واڑی کارکن، راجہ بیگم نے پاری کو بتایا، ’’خواہ کوئی ہنگامی صورت ہو، مس کیرج ہو، یا اسقاط حمل، ان سارے حالات میں انہیں سیدھے گریز جانا پڑتا ہے۔ اور اگر آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے تو سرینگر کے لال دید ہسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ یہ گریز سے تقریباً ۱۲۵ کلومیٹر دور ہے اور خراب موسم میں یہاں تک پہنچنے میں نو گھنٹے لگ سکتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Design Courtesy: Aashna Daga

دیہی صحت کی شماریات ۲۲-۲۰۲۱ میں بتایا گیا ہے کہ ۳۱ مارچ، ۲۰۲۲ تک ذیلی طبی مراکز اور پرائمری ہیلتھ سنٹرز میں معاون نرس دائیوں کی ۳۴۵۴۱ آسامیاں خالی تھیں۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے، جب کہ سبھی کو معلوم ہے کہ زیادہ تر عورتیں اپنی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے منظور شدہ سماجی صحت کارکن (آشا)، معاون نرس دایہ (اے این ایم) اور آنگن واڑی کارکنان کے پاس ہی جاتی ہیں۔

آکسفیم انڈیا کی اِن اکویلٹی رپورٹ: ہندوستان کے غیر مساوی حفظان صحت کی کہانی کے مطابق، ملک میں ہر ۱۰۱۸۹ افراد کے لیے تقریباً ایک سرکاری ایلوپیتھک ڈاکٹر اور ہر ۹۰۳۴۳ افراد کے لیے ایک سرکاری ہسپتال ہے۔

PHOTO • Design Courtesy: Aashna Daga

ہندوستان میں خدمات صحت کی ضرورت اور مانگ موجودہ بنیادی ڈھانچے سے کہیں زیادہ ہے۔ صنفی مساوات کی حالت پر ممالک کی درجہ بندی کرنے والی عالمی صنفی فرق کی رپورٹ میں سال ۲۰۲۲ میں ہندوستان کو ۱۴۶ ممالک میں ۱۳۵ویں مقام پر رکھا گیا ہے۔ ’صحت اور بقا‘ کے اشاریہ میں بھی یہ ملک سب سے نیچے تھا۔ اس طرح کے سنگین ڈھانچے کی کمی کے پیش نظر، ملک میں حفظان صحت کی حالت اور خواتین کی زندگیوں پر اس کے اثرات کو بہتر طریقے سے سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے۔

پاری لائبریری اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

گرافکس تیار کرنے کے لیے ہم پاری لائبریری کی رضاکار آشنا ڈاگا کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔

کور ڈیزائن: سودیشا شرما

مترجم: محمد قمر تبریز

Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez