موٹربائک حادثہ میں اپنا ایک پیر گنوا چکے ۲۸ سالہ بملیش جیسوال کے لیے یہ ایک ہمت والا قدم تھا، جب انہوں نے ممبئی کے باہری علاقے، پنویل میں واقع اپنے کرایے کے کمرے سے مدھیہ پردیش کے ریوا میں واقع اپنے گھر تک کی ۱۲۰۰ کلومیٹر سے بھی زیادہ دوری، اپنی ہونڈا ایکٹوا سے طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسکوٹر میں سائڈ کار ہے۔ اور انہوں نے یہ سفر اپنی ۲۶ سالہ بیوی سنیتا اور ۳ سالہ بیٹی روبی کے ساتھ کیا۔ ’’میرے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

بملیش پنویل میں ایک ٹھیکہ دار کے لیے کام کرتے تھے، جس کے ساتھ وہ ہر نئے پروجیکٹ تک جاتے – وہاں بننے والے سبھی گھروں میں جھاڑو لگاتے اور صفائی کرتے تھے۔ ’’ایک پیر سے کچھ بھی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن جو کرنا ہے، وہ تو کرنا ہی پڑتا ہے،‘‘ انہوں نے ریوا کے ہنوٹی گاؤں میں واقع اپنے گھر سے مجھے فون پر بتایا۔ اسی جذبے نے بلا شبہ انہیں کبھی کبھی ۴۰ ڈگری سیلسیس سے بھی زیادہ درجہ حرارت میں اپنے اس حیران کن سفر کو پورا کرنے پر مجبور کیا۔ وہی حوصلہ، وہی عزم – اور گہری افسردگی، جو اپنے گھر پہنچنے کے لیے ان کے جیسے مہاجر مزدوروں میں دیکھنے کو ملی۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے جب کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ۲۴ مارچ کو ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، تو بملیش جیسے لاکھوں یومیہ مزدوروں نے خود کو ایک دلدل میں پایا۔ ’’ہمارے پاس کوئی کام نہیں تھا، اس لیے ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کھانا کیسے حاصل کیا جائے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمارے کرایے اور بجلی کے بلوں کو ادا کرنے کی بات تو چھوڑ دیجئے۔ چار گھنٹے کے نوٹس پر ملک کو کون بند کرتا ہے؟‘‘

اس کے بعد بھی پنویل میں یہ فیملی ۵۰ دنوں تک پھنسی رہی۔ ’’مقامی این جی او ہمیں کھانا اور راشن دیتے تھے،‘‘ بملیش بتاتے ہیں۔ ’’ہم کسی طرح بچ گئے۔ ہم امید کررہے تھے کہ لاک ڈاؤن کو ہر مرحلہ کے آخر میں اٹھا لیا جائے گا۔ لیکن جب ہم نے محسوس کیا کہ چوتھا مرحلہ بھی شروع ہونے والا ہے، تو ہمیں لگا کہ یہ ہمیشہ کے لیے رہے گا۔ ممبئی اور اس کے ارد گرد کورونا وائرس کے معاملے بڑھ رہے ہیں، اس لیے ہنوٹی میں میری فیملی کے لوگ بھی فکرمند تھے۔‘‘

Bimlesh lost a leg in a motorbike accident, but rode more than 1,200 km to reach home with his wife Sunita and their daughter Ruby
PHOTO • Parth M.N.

بملیش نے موٹر سائیکل حادثہ میں اپنا ایک پیر گنوا دیا تھا، لیکن انہوں نے گھر پہنچنے کے لیے اپنی بیوی سنیتا اور بیٹی روبی کے ساتھ ۱۲۰۰ کلومیٹر سے زیادہ دوری طے کی

اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ پنویل میں اپنا کرایے کا ایک کمرہ چھوڑ کر مدھیہ پردیش واپس جانا ہے۔ ’’مکان مالک ہمدرد تھا، جس نے ۲۰۰۰ روپے کے کرایے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’وہ ہماری پریشانی کو سمجھ گیا تھا۔‘‘

سنیتا بتاتی ہیں کہ جب واپس جانا طے ہو گیا، تو ان کے پاس تین متبادل تھے: پہلا یہ تھا کہ ریاست نے جن شرمک ٹرینوں کا انتظام کیا ہے، اس کا انتظار کیا جائے۔ ’’لیکن ہم اس پر کب سوار ہو پائیں گے، اس بارے میں کوئی متعینہ وقت یا یقین دہانی نہیں تھی۔‘‘ دوسرا امکان یہ تھا کہ مدھیہ پردیش جانے والے کئی ٹرکوں میں سے ایک میں کسی طرح جگہ مل جائے۔ ’’لیکن ڈرائیور ہر ایک سیٹ کے ۴۰۰۰ روپے مانگ رہے تھے۔‘‘

اس کے بعد جیسوال کے پاس صرف اسکوٹر سے جانے کا متبادل بچ گیا۔ ۱۵ مئی کو جب میں ممبئی-ناسک شاہراہ کے کھارے گاؤں ٹول ناکہ پر بملیش سے ملا، تو اس فیملی نے ۱۲۰۰ کلومیٹر میں سے صرف ۴۰ کلومیٹر ہی طے کیے تھے۔ وہ تھوڑا آرام کرنے کے لیے سڑک کے کنارے رکے ہوئے تھے۔ اسکوٹر میں پیر رکھنے والی جگہ پر دو تھیلے مشکل سے رکھے ہوئے تھے۔ سنیتا اپنا پیر سیدھا کرنے کے لیے نیچے اتریں، جب کہ روبی ان کے پاس ہی کھیلنے لگی۔

بملیش کی بیساکھی اسکوٹر سے ٹکی ہوئی تھی۔ ’’۲۰۱۲ میں، بائک سے میرے ساتھ ایک زبردست حادثہ ہوا تھا،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’میں نے اپنا بایاں پیر کھو دیا تھا۔ تبھی سے میں اس بیساکھی کا استعمال کر رہا ہوں۔‘‘

حادثہ سے چار سال پہلے تک، بملیش تعمیراتی مقامات پر مزدور کے طور پر کام کیا کرتے تھے – وہ ۲۰۰۸ میں ممبئی آئے تھے، چوڑی آنکھوں والے ایک نوجوان کے طور پر اس بڑے شہر میں کام کی تلاش میں۔ اس وقت، وہ مہینے میں ۵-۶ ہزار روپے کماتے تھے۔

When I met Bimlesh on May 15 at the Kharegaon toll naka, the family had only covered 40 of the 1,200 kilometres
PHOTO • Parth M.N.

۱۵ مئی کو جب میں کھارے گاؤں ٹول ناکہ پر بملیش سے ملا، تو اس فیملی نے ۱۲۰۰ کلومیٹر میں سے صرف ۴۰ کلومیٹر ہی کور کیے تھے

پھر حادثہ ہو گیا – جب ایک ٹرک نے موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے بملیش کو ٹکر مار دی اور ان کے پیر کو کچل دیا۔ یہ ۲۰۱۲ میں ہوا تھا۔

تب سے، وہ اپنے ٹھیکہ دار کے لیے گھروں میں جھاڑو لگانے اور صفائی کرنے کا کام کرکے مہینے میں تقریباً ۳۰۰۰ روپے کماتے ہیں – اس کا بالکل آدھا جو تقریباً ایک دہائی پہلے وہ کمایا کرتے تھے۔ سنیتا گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرکے تقریباً اتنی ہی کمائی کر رہی تھیں جب لاک ڈاؤن شروع ہوا – ایک ساتھ، ان کی ماہانہ آمدنی ۶۰۰۰ روپے تھی۔

روبی کی پیدائش کے بعد سنیتا نے کام کرنا جاری رکھا۔ لیکن ۲۵ مارچ سے کچھ بھی نہیں کمایا ہے – ان کے آجر نے اس مدت کے دوران انہیں پیسے نہیں دیے۔ مدھیہ پردیش کے لیے روانہ ہونے سے پہلے تک، یہ فیملی ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی تھی – باہر کا مشترکہ ٹوائیلٹ استعمال کرتے تھے – جس کے لیے انہیں اپنی ماہانہ کمائی کا ایک تہائی کرایے کے طور پر ادا کرنا پڑتا تھا۔

۱۵ مئی کو، جب ہم آپس میں بات کر رہے تھے، بملیش غروب آفتاب کے وقت خاموش بیٹھے ہوئے تھے، جب کہ شاہراہ پر بہت سارے ٹیمپو مزدوروں کو لیکر آگے جا رہے تھے۔ جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، ممبئی میں رہنے والے ہزاروں مزدور نقل و حمل کے مختلف طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے، بہار، اوڈیشہ، اتر پردیش اور دیگر جگہوں پر واقع اپنے گاؤوں کے گھروں کی طرف جا رہے ہیں۔ ممبئی-ناسک شاہراہ اس مدت میں بے حد مصروف رہی۔

اس دوران یہاں پر خطرناک سڑک حادثے بھی ہوئے ہیں – ان میں سے ایک حادثہ وہ تھا، جب حد سے زیادہ بھرا ہوا ایک ٹرک راستے میں پلٹ گیا اور کئی مہاجر مزدور اس کے نیچے دبنے سے مر گئے تھے۔ بملیش کو اس کی جانکاری تھی۔ ’’میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ مجھے ڈر لگتا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’لیکن میں نے وعدہ کیا ہے کہ رات میں ۱۰ بجے کے بعد اسکوٹر نہیں چلاؤں گا۔ اور جب میں گھر پہنچوں گا تو آپ کو فون کروں گا۔‘‘

انہوں نے اپنا دوسرا وعدہ پورا کیا۔ ۱۹ مئی کی صبح کو میرا فون بجا۔ ’’ہم لوگ ابھی ابھی پہنچے ہیں سر جی،‘‘ بملیش نے بتایا۔ ’’میرے والدین ہمیں دیکھ کر رونے لگے۔ وہ اپنی پوتی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔‘‘

On the Mumbai-Nashik highway, Sunita got down to un-cramp a bit, while Ruby played nearby
PHOTO • Parth M.N.

ممبئی-ناسک شاہراہ پر، سنیتا اپنا پیر سیدھا کرنے کے لیے نیچے اتریں، جب کہ روبی پاس میں ہی کھیلنے لگی

بملیش نے بتایا کہ انہوں نے سڑک پر جو چار دن اور چار راتیں گزاریں، ان میں سے کسی بھی دن وہ تین گھنٹے سے زیادہ نہیں سو پائے۔ ’’میں سب سے بائیں والی لین میں متوازن رفتار سے اسکوٹر چلاتا،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’ہم رات میں ۲ بجے تک چلتے، اور صبح ۵ بجے دوبارہ شروع کرتے۔‘‘

ہر رات کسی درخت کے نیچے ایک مناسب جگہ پر، وہ تھوڑی دیر کے لیے سوتے تھے۔ ’’ہم اپنے ساتھ چادر لے گئے تھے۔ ہم اسے زمین پر پھیلاکر سو جاتے تھے،‘‘ بملیش نے بتایا۔ ’’مجھے نہیں لگتا کہ میری بیوی اور میں کبھی اطمینان سے سو پائے، کیوں کہ ہم وہاں چلنے والی گاڑیوں، اپنے سامان، اور ہم جو نقدی لیکر چل رہے تھے، اس کے بارے میں ہمیشہ محتاط رہتے تھے۔‘‘

اس لحاظ سے، حالانکہ، ان کا سفر ناہموار تھا۔ فیملی کو جانچ کے لیے ریاست کی سرحد پر روکا بھی نہیں گیا تھا۔

سب سے قابل ذکر بات یہ رہی کہ بملیش کا بنا گیئر والا اسکوٹر، جو خاص طور سے شہروں یا قصبوں کے اندر چھوٹی دوری کا سفر کرنے کے لیے ہوتا ہے، وہ تقریباً چار دنوں تک بنا رکے یا خراب ہوئے لگاتار چلتا رہا۔

تیل اور کھانا کھانے کے لیے انہوں نے اپنے ساتھ ۲۵۰۰ روپے رکھ لیے تھے۔ ’’کچھ پٹرول پمپ کھلے ہوئے تھے، اس لیے جب کوئی ملتا، تو ہم ٹنکی بھروا لیتے تھے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’ہم اپنی بیٹی کے بارے میں فکرمند تھے۔ لیکن روبی نے اسکوٹر پر گرمی اور گرم ہوا کو برداشت کر لیا۔ ہم نے اس کے لیے مناسب مقدار میں کھانا رکھ لیا تھا، اور سڑک پر اچھے لوگوں نے اسے بسکٹ دیے۔‘‘

ممبئی گزشتہ ایک دہائی میں بملیش کا گھر بن گیا تھا۔ یا انہوں نے ایسا سوچا تھا، جب تک کہ لاک ڈاؤن نہیں ہو گیا۔ ’’میں پچھلے کچھ ہفتوں سے غیر محفوظ محسوس کر رہا تھا،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’بحران کے وقت، آپ اپنی فیملی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنے ہی لوگوں سے گھرے ہوئے رہنا چاہتے ہیں۔ میں ممبئی آیا تھا کیوں کہ گھر پر کوئی کام نہیں ہے۔ آج بھی یہی حالت ہے۔‘‘

ہنوٹی میں ان کے پاس کوئی کھیت نہیں ہے۔ فیملی کی آمدنی یومیہ مزدوری سے آتی ہے۔ ’’اگر آپ کو مزدوری کرنی ہے، تو آپ وہیں کر سکتے ہیں جہاں پر یہ آپ کو لگاتار مل سکے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’سب کچھ ٹھیک ہوتے ہی مجھے ممبئی لوٹنا ہوگا۔ زیادہ تر مہاجر مزدور شہروں میں اس لیے آتے ہیں کیوں کہ اپنے گاؤوں میں ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ شہروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez