ڈی امرناتھ ریڈی بورویل سے اپنے کھیتوں کی سینچائی کیا کرتے تھے، لیکن جب ان کا تیسرا بورویل (کنواں) بھی سوکھ گیا تو آخرکار انہیں بارش کے پانی پر منحصر ہونا پڑا۔ لیکن ۵۱ سال کے یہ کسان آندھرا پردیش کے جس رائل سیما خطہ میں ٹماٹر کی کھیتی کرتے ہیں وہ خشک سالی سے متاثرہ علاقہ ہے، اس لیے کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہاں وقت پر بارش ہوگی بھی یا نہیں۔ انہی تمام وجوہات کے سبب امرناتھ ریڈی نے چتور ضلع کے مُڈی ویڈو گاؤں میں واقع اپنے تین ایکڑ کھیت کی سینچائی کا انتظام کرنے کے لیے ۵ لاکھ روپے میں بورویل لگوایا تھا۔ اس کی کھدائی کروانے کے لیے انہیں ساہوکاروں سے قرض لینا پڑا۔ پہلے بورویل سے جب کام نہیں چلا، تو انہوں نے دوسرا بورویل لگوایا۔ یہ بھی جب ناکام رہا تو انہوں نے تیسری بار کوشش کی۔ لیکن تیسری بار میں اُن کا قرض تو کافی بڑھ گیا، مگر پانی کا معقول انتظام نہیں ہو سکا۔

اپریل-مئی ۲۰۲۰ میں امرناتھ بڑی بے صبری سے اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ ان کی فصل تیار ہو جائے، تاکہ وہ اپنے قرض کے کچھ پیسے لوٹا سکیں۔ اُس وقت تک ان کے اوپر ۱۰ لاکھ روپے کا قرض چڑھ چکا تھا – جس میں بورویل کا خرچ، اپنی بڑی بیٹی کی شادی کے لیے لیا گیا قرض اور ساتھ ہی فصل لون کے پیسے شامل تھے۔ لیکن پچھلے سال ۲۴ مارچ کو وزیر اعظم کے ذریعے اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان نے ان کے اس پورے منصوبہ پر پانی پھیر دیا۔ ٹماٹر کو توڑنے اور انہیں فروخت کرنے میں ناکام، امرناتھ انہیں کھیتوں میں ہی پکتے اور سڑتے ہوئے دیکھتے رہ گئے۔

ان کی بیوی، ڈی وملا ۱۷ سمتبر ۲۰۲۰ کو امرناتھ کے زہر کھا کر خودکشی کر لینے کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ’’انہیں یہی لگا ہوگا کہ وبائی مرض کے دوران حالات بہتر نہیں ہوں گے، اس لیے انہوں نے تمام امیدیں چھوڑ دیں۔ اس سے ۱۰ دن پہلے بھی انہوں نے خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کی جان بچانے کے لیے ہم انہیں بنگلورو [۱۸۰ کلومیٹر دور] کے ایک بڑے اسپتال لے گئے۔ تب ہم نے ان کے علاج پر ایک لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔‘‘ وملا نے امرناتھ سے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ وہ ایسا دوبارہ نہ کریں۔

چتور میں کسانوں کی خودکشی سے متعلق پولیس کی رپورٹوں میں بورویل سوکھ جانے کو خودکشی کی سب سے بڑی وجہوں میں سے ایک بتایا گیا ہے۔ ٹماٹر کی فصلوں کا برباد ہو جانا اور زرعی قرض اس کے دیگر اسباب ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے سے متعلق ریاستی حکومت کے حکم نامہ میں اس کے مزید اسباب بیان کیے گئے ہیں: ’’اس قسم کی خودکشی کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں جیسے کہ بورویل کا خشک ہو جانا، کاشت کی زیادت لاگت کے ساتھ تجارتی فصلیں اُگانا، غیر منافع بخش قیمتیں، زبانی طور پر کھیت کو کرایے پر دینا اور بینک سے لون لینے میں نا اہلی، اعلیٰ شرح سود پر ساہوکاروں سے قرض لینا، موسم کی مار، بچوں کی تعلیم، خراب صحت اور شادیوں پر کافی پیسے خرچ ہونا۔‘‘

کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے سال بغیر کسی پلاننگ کے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دینے سے بھی حالات مزید خراب ہوگئے۔ اکیلے ۲۰۲۰ میں، چتور ضلع کے ۳۴ کسانوں نے خود کشی کر لی تھی – جو کہ سال ۲۰۱۴ کے بعد خودکشی کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے، ۲۷ لوگوں کی موت اپریل سے دسمبر کے درمیان ہوئی۔

Vimala's husband, D. Amarnath Reddy, could not harvest his tomato crop because of the Covid-19 lockdown
PHOTO • Courtesy: D. Vimala

چتور کے مُڈی ویڈو میں ڈی وملا (دائیں) اور ان کے والد، بی وینکٹ۔ وملا کے شوہر، ڈی امرناتھ ریڈی کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنی ٹماٹر کی فصل کاٹ نہیں سکے تھے

وبائی مرض سے پہلے بھی صورتحال زیادہ بہتر نہیں تھی۔ سال ۲۰۱۹ میں، آندھرا پردیش کے کسانوں کا اوسط گھریلو قرض – یعنی ۲ لاکھ ۴۵ ہزار روپے – ملک کے بقیہ حصوں کے مقابلے سب سے زیادہ تھا۔ حال ہی میں جاری رپورٹ ’ دیہی ہندوستان کے کاشتکار گھرانوں اور زمین و مویشی رکھنے والے گھرانوں کی صورتحال کا جائزہ ‘ میں کہا گیا ہے کہ اُس سال ریاست میں ۹۳ فیصد کاشتکار گھرانے قرض میں ڈوبے ہوئے تھے۔

امرناتھ اور وملا کی بغل والی گلی میں رہنے والی ۲۷ سالہ پی منجولا اپنے آنجہانی شوہر کی ذہنی حالت کو سمجھنے کی آج بھی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں دیکھنے سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ پریشان ہیں۔ اپنی شادی شدہ زندگی کے آٹھ سالوں میں، وہ اکثر ان کے ساتھ اپنی ۱۰ ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے کے منصوبے سے متعلق باتیں کرتے رہتے تھے۔ ’’لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنی مالی پریشانیوں کا ذکر نہیں کیا۔ قرض [۸ لاکھ ۳۵ ہزار روپے] کی بات سن کر میں حیران رہ گئی۔‘‘ ان کے شوہر، ۳۳ سالہ پی مدھو سودن ریڈی نے ۲۶ جولائی، ۲۰۲۰ کو ایک درخت سے لٹک کر خود کشی کر لی تھی۔

مدھو سودن نے اپنے آدھے ایکڑ کھیت میں ٹماٹر لگائے تھے، لیکن وہ انہیں توڑ نہیں سکے۔ ان کے والد، پی جے رامی ریڈی بتاتے ہیں کہ قرض کا بوجھ اس لیے بڑھا کیوں کہ اس کا زیادہ تر پیسہ ان کے کھیتوں پر چار بورویل لگوانے میں خرچ ہوا تھا۔ ۷۰۰-۸۰۰ فٹ گہرے بورویل کی کھدائی میں آٹھ سال لگ گئے، جس کی وجہ سے قرض کے سود کی رقم بڑھتی چلی گئی۔

مدھو سودن کی موت کے بعد، قرض کے کچھ پیسے لوٹانے کے لیے ان کے گھر والوں نے دو ایکڑ زمین فروخت کر دی۔ اب یہ لوگ آدھے ایکڑ میں دھان کی کھیتی کر رہے ہیں اور ایک بورویل کے پانی سے اس کی سینچائی کرتے ہیں۔ اس بورویل کے پانی کا استعمال علاقے کے سات دیگر کنبے بھی کرتے ہیں۔ جے رام ریڈی کہتے ہیں، ’’ہم نے جو مونگ پھلی لگائی تھی اس کی فصل اچھی نہیں رہی، کیوں کہ اس سال [۲۰۲۱ میں] بہت زیادہ بارش ہوئی ہے۔ ہم نے اس کی کھیتی پر جتنا پیسہ لگایا ہے وہ ہمیں واپس نہیں مل پائے گا۔ بقیہ زمین خالی پڑی ہوئی ہے۔‘‘

چتور ضلع کے محکمہ باغبانی کے ڈپٹی ڈائرکٹر، بی شری نیواسولو بتاتے ہیں کہ سال ۲۰۱۹ سے اس علاقے میں بہت زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے یہاں کے کسان اب ٹماٹر کی بجائے دھان کی کھیتی کرنے لگے ہیں۔ لیکن کورابالاکوٹا منڈل، جہاں مُڈی ویڈو واقع ہے، کے معاون شماریاتی افسر، این راگھو ریڈی کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۹-۱۰ سے ۲۰۱۸-۱۹ کے عشرے میں، سات سالوں تک ضلع کے ان حصوں کو خشک سالی سے متاثرہ قرار دے دیا گیا تھا۔

P. Manjula and her late husband P. Madhusudhan Reddy's parents, P. Jayarami Reddy and P. Padmavatamma.
PHOTO • G. Ram Mohan
M. Eswaramma and Pooja in Deganipalli
PHOTO • Courtesy: M. Eswaramma

بائیں: منجولا اور ان کے آنجہانی شوہر پی مدھو سودن ریڈی کے والدین، پی جے رامی ریڈی اور پی پدماوتمّا۔ دائیں: دیگنی پلّی میں ایم ایشورمّا اور پوجا

چتور ضلع میں سال ۲۰۱۹ سے کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ڈسٹرکٹ کرائم ریکارڈز بیورو کے ذریعے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۱۸ میں یہ تعداد صرف ۷ تھی، جو ۲۰۱۹ میں بڑھ کر ۲۷ ہو گئی۔ سال ۲۰۲۰ میں، جب آندھرا پردیش کو کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں ملک کی تیسری سب سے زیادہ تعداد والی ریاست قرار دیا گیا تھا، تب اکیلے چتور میں ۳۴ کسانوں نے خودکشی کی تھی۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی بی) کے مطابق، پچھلے سال آندھرا پردیش میں کل ۵۶۴ کسانوں نے خودکشی کی، جن میں سے ۱۴۰ بٹائی دار کسان تھے۔

انہی بٹائی دار کسانوں میں سے ایک، ایم چِنّا ریڈپّا بھی تھے۔ انہوں نے پیڈا تھِپّامُدرم منڈل میں واقع اپنے گاؤں، سمپتھی کوٹا میں پٹّہ پر لی گئی ڈیڑھ ایکڑ زمین پر ٹماٹر لگائے تھے۔ یہ زمین انہوں نے ۲۰ ہزار روپے کے کرایے پر چھ مہینے کے لیے لی تھی۔ ان کی بیوی، ایم ایشورمّا کہتی ہیں کہ کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن نے انہیں اپنی فصل کو فروخت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ ’’پوری فصل کھیتوں میں ہی سڑ گئی، جس کے بعد ہمارے اوپر تین لاکھ روپے کا قرض چڑھ گیا۔‘‘ میاں بیوی کے پاس نہ تو کوئی جائیداد تھی اور نہ ہی بچت کے پیسے، جس کے سہارے وہ اپنے اس نقصان کی تلافی کر پاتے۔ ان سب سے پریشان ہو کر، ۴۵ سالہ چِنّا ریڈپّا نے ۳۰ دسمبر کو خودکشی کر لی۔

ان کی موت کے بعد ایشورمّا، پانچویں کلاس میں پڑھنے والی اپنی بیٹی پوجا کے ساتھ میکے چلی گئیں، جو بی کوتھا کوٹا منڈل کی دیگنی پلّی بستی میں واقع ہے۔ ایشورمّا کہتی ہیں، ’’اب میں ۲۰۰ روپیہ یومیہ پر کھیتوں میں مزدوری کرکے زندگی بسر کر رہی ہوں، اور میرے پاس قرض کے پیسے لوٹانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ قرض دینے والے مجھے ہمیشہ فون کرکے پریشان کرتے رہتے ہیں، جب کہ میں مشکل سے اپنا گزارہ کر رہی ہوں۔‘‘

کسانوں کی ایک تنظیم، رعیتو سوراج ویدیکا (آر ایس وی) کے ذریعے فروری ۲۰۱۹ میں حق اطلاع قانون کے تحت دی گئی درخواست کے جواب سے یہ بات سامنے آئی کہ ۲۰۱۴ سے ۲۰۱۸ کے درمیان آندھرا پردیش میں خودکشی سے ۱۵۱۳ کسانوں کی موت ہوئی ہے۔ لیکن ریاستی حکومت کی طرف سے صرف ۳۹۱ کنبوں کو ہی ۵ لاکھ روپے کا معاوضہ ملا۔ میڈیا میں رپورٹ آنے کے بعد ریاستی حکومت نے اس معاملے میں انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ جن لوگوں کو معاوضہ دینے سے انکار کر دیا گیا، ان کی مدد کرنے والی تنظیم، آر ایس وی کے سکریٹری، بی کونڈل ریڈی کہتے ہیں، ’’حکومت صرف ۶۴۰ مزید کنبوں کو معاوضہ دینے کے لیے راضی ہوئی، اور بقیہ ۴۸۲ کسانوں کے اہل خانہ کو کچھ نہیں ملا۔‘‘ ریاستی حکومت نے اکتوبر ۲۰۱۹ میں، خودکشی کرنے والے کسانوں کے اہل خانہ کو دیے جانے والے معاوضہ میں ۲ لاکھ روپے کا اضافہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن، ابھی تک نہ تو وملا کو کوئی معاوضہ ملا ہے اور نہ ہی منجولا یا ایشوَرمّا کو۔

سال ۲۰۱۹-۲۰ میں آندھرا پردیش پورے ملک میں ٹماٹر پیدا کرنے والی دوسری سب سے بڑی ریاست تھی، اور ریاست کی کل پیداوار کا ۳۷ فیصد حصہ چتور ضلع سے تھا۔ یہاں سال بھر ٹماٹر کی ہائبرڈ اور مقامی انواع پیدا کی جاتی ہیں۔ ٹماٹر کی کھیتی کرنے والے چتور اور رائل سیما کے دوسرے ضلعوں (وائی ایس آر کڈپّا، اننت پور، کرنول) کے ساتھ ساتھ پڑوسی ریاست کرناٹک کے بھی بہت سے کسان اپنی پیداوار چتور کے مدناپلّے بازار میں فروخت کرتے ہیں، جو کہ ملک میں ٹماٹر کے سب سے بڑے بازاروں میں سے ایک ہے۔

S. Sreenivasulu from Anantapur (left) sells his produce at Madanapalle market yard in Chittoor. The market yard is one of the largest trading hubs for tomatoes
PHOTO • G. Ram Mohan
The market yard is one of the largest trading hubs for tomatoes
PHOTO • G. Ram Mohan

اننت پور کے ایس شری نیواسولو (بائیں) اپنی پیداوار مدناپلّے بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ یہ بازار ملک میں ٹماٹر کے سب سے بڑے بازاروں میں سے ایک ہے

مدناپلّے میں، ہول سیل (تھوک میں فروخت) کی قیمتیں نیلامی کے ذریعے طے ہوتی ہیں، اور قیمت کا تعین متعدد عوامل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر رات میں بارش ہو گئی تو اگلے دن ٹماٹر کی قیمت کم ہو جائے گی۔ جب قیمتیں اچھی مل رہی ہوں، تو بازار میں بڑی مقدار میں ٹماٹر آنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے اُس دن نیلامی کے ذریعے طے کی گئی قیمت گھٹ سکتی ہے۔ ۲۹ اگست کو بھی یہی ہوا، جب اس رپورٹر نے مدناپلّے بازار میں ٹماٹر فروخت کر رہے اننت پور ضلع کے ٹناکل منڈل کے مل ریڈّی پلّے گاؤں سے آئے کسان، ایس شری نیواسولو سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’اچھی قیمت کی وجہ سے بازار میں کل جب کسان بڑی مقدار میں ٹماٹر لے کر پہنچنے لگے، تو ۳۰ کلو کے ایک کیرٹ کی قیمت ۵۰۰ روپے سے گھٹ کر ۳۹۰ روپے ہو گئی تھی۔‘‘

اننت پور کے نلّ چیروو منڈل میں واقع الّوگنڈو گاؤں کے ایک کسان، آر راما سوامی ریڈی کا کہنا ہے، ’’ایک ایکڑ کھیت میں ٹماٹر لگانے پر ایک لاکھ روپے سے دو لاکھ روپے تک خرچ کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر دیگر اِن پُٹس پر مزید پیسے خرچ کیے گئے اور قدرت کا ساتھ ملا [بارش نے فصل کو برباد نہیں کیا] تو فصل کی پیداوار زیادہ ہو سکتی ہے۔‘‘ ۲۔۳ سالوں کے دوران ہونے والے نقصان کی تلافی چوتھے سال میں جاکر ہو سکتی ہے۔

مدناپلّے کے ایک وکیل، این سہدیو نائیڈو بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین سالوں سے ٹماٹر کی کھیتی کرنا جوکھم بھرا کام ہو گیا ہے۔ ان کی فیملی کرایے پر لی گئی ۱۰-۱۵ ایکڑ زمین پر ٹماٹر کی کھیتی کرتی ہے۔ سہدیو کہتے ہیں، ’’میرا ۲۰ سال کا تجربہ یہ ہے کہ قیمتیں ایک ہفتہ بھی ایک جیسی نہیں رہتیں۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائی کے دوران اِن پُٹ کی لاگتوں میں ۷-۱۰ گنا اضافہ ہو گیا ہے، لیکن ٹماٹر کی قیمت ہمیشہ ایک روپیہ سے لے کر ۶۰ روپے کے درمیان ہی رہی۔ تاہم، فصل کی زیادہ پیداوار ہونے کے امکان کی وجہ سے بہت سے کسان یہ خطرہ مول لینے کو تیار رہتے ہیں۔ زیادہ پیداوار کی وجہ سے ہی نائیڈو کی فیملی گھٹتی بڑھتی قیمتوں کا سامنا کرنے میں کامیاب رہی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہم نے کرایے پر زمین لے کر فصل اگانی شروع کی اور سال بھر ٹماٹر فروخت کیے، اور اسی لیے ہم خود کو نقصانات سے بچانے میں کامیاب رہے۔‘‘

اس سال، ستمبر اور اکتوبر میں مانسون کی بھاری بارش، اور وسط نومبر سے ۲۲۵ فیصد کی حد سے زیادہ بے موسم بارش نے پورے رائل سیما میں ہزاروں ایکڑ میں لگی فصلوں کو تباہ کر دیا ہے ۔ ٹماٹر کی کم سپلائی کی وجہ سے، مدناپلّے میں اکتوبر سے ہی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ پچھلے مہینے اچھی کوالٹی کے جس ہائبرڈ ٹماٹر کی قیمت ۴۲ سے ۴۸ روپے فی کلو تھی، وہی ٹماٹر ۱۶ نومبر کو ۹۲ روپے فی کلو فروخت ہوا۔ اور یہ قیمت لگاتار بڑھتی رہی، حتیٰ کہ ۲۳ نومبر کو ایک کلو ٹماٹر ۱۳۰ روپے میں فروخت ہوا، جو کہ ابھی تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔

اگرچہ اُس دن کچھ کسان راحت محسوس کرتے ہوئے اپنے گھر لوٹے، لیکن بہت سے کسانوں کے لیے یہ اُن کے خراب معاش کی یاد دہانی کرانے والا دن رہا۔

اگر آپ خودکشی کے بارے میں سوچ رہے ہیں یا کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو پریشانی میں مبتلا ہے، تو براہ کرم ’کرن‘ کے نیشنل ہیلپ لائن نمبر، 0019-599-1800 (جو چوبیسوں گھنٹے ٹول فری ہے)، یا اپنے ارد گرد کی ان ہیلپ لائنز پر کال کریں۔ ذہنی صحت کے پیشہ وروں اور خدمات تک رسائی حاصل کرنے سے متعلق معلومات کے لیے، براہ کرم ایس پی آئی ایف کی ذہنی صحت سے متعلق ڈائرکٹری ملاحظہ کریں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

G. Ram Mohan

G. Ram Mohan is a freelance journalist based in Tirupati, Andhra Pradesh. He focuses on education, agriculture and health.

Other stories by G. Ram Mohan
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez