عبدالرحمٰن کی دنیا اب پوری طرح سے سمٹ چکی ہے – پیشہ کے لحاظ سے، ذاتی طور پر اور جسمانی اعتبار سے بھی۔ اور اس میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں بطور مہاجر مزدور چار بر اعظموں کی سیر کرنے والے عبد الرحمن، آج ۱۵۰ مربع فٹ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹ کر رہ گئے ہیں، جہاں وہ اپنی فیملی کے پانچ اراکین کے ساتھ رہتے ہیں۔

ممبئی – جہاں ان کے والد کئی دہائی قبل تمل ناڈو کے ایک گاؤں سے آ کر بس گئے تھے – میں بطور ٹیکسی ڈرائیور کام کرنے سے قبل، عبدالرحمن سعودی عرب، دبئی، برطانیہ، کناڈا، انڈونیشیا، ملیشیا اور افریقہ کے کچھ علاقوں میں بلڈوزر اور کار چلانے کا کام کرتے تھے۔ آج، ان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ماہم جھگی بستی کی تنگ گلیوں سے انہیں کرسی پر بیٹھا کر ٹیکسی تک لے جانا پڑتا ہے، پھر یہ ٹیکسی انہیں وہاں سے ساین اسپتال لے جاتی ہے۔ ایسا ایک بار نہیں، بلکہ بار بار کرنا پڑتا ہے۔

جب اسپتال جانے کا وقت آتا ہے، تو رحمٰن اپنے کمرے سے اترنے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ سیڑھی اُن کے دروازے کے ٹھیک باہر ہے۔ وہ فرش پر بیٹھ جاتے ہیں، ان کا بیٹا نیچے سے ٹانگیں پکڑتا ہے اور بھتیجا یا کوئی پڑوسی اوپر سے سہارا دیتا ہے۔ اس کے بعد رحمٰن نو قدموں پر مشتمل اس سیڑھی سے ایک بار میں ایک قدم پار کرتے ہوئے بڑی تکلیف سے نیچے اترتے ہیں۔

نیچے تنگ گلی میں اتر جانے کے بعد، انہیں سہارا دے کر ایک پرانی اور پینٹ کے داغ والی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھایا جاتا ہے۔ ان کا دایاں پیر چونکہ کٹا ہوا ہے، اس لیے وہ اس پیر کو کرسی کے اوپر ہی رکھتے ہیں۔ اس کے بعد، ان کا بیٹا اور دو لوگ اُس لمبی اور گھماؤدار گلی سے ہوتے ہوئے، ماہم بس ڈپو کے قریب والی سڑک کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہاں، رحمٰن کو ایک ٹیکسی کے اندر بیٹھایا جاتا ہے۔

ساین کا سرکاری اسپتال وہاں سے بمشکل پانچ کلومیٹر دور ہے، لیکن ان کے لیے ٹیکسی کا کرایہ بہت زیادہ ہے۔ پچھلے سال کئی مہینوں تک انہیں پیروں پر پٹی بندھوانے – اور سنگین ذیابیطس اور خون کا دوران بند ہونے سے جو مسائل پیدا ہوئے، ان کا علاج کرانے کے لیے ہر ہفتے اسپتال جانا پڑا۔ زخم جب تھوڑا بھر گیا، تو اسپتال جانا بھی کم ہوا، لیکن اب بھی انہیں کبھی کبھی کرسی پر بیٹھا کر دو طرفہ، دو یا تین منزلہ دربے نما مکانوں کے درمیان کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے شمالی ممبئی کے موری روڈ تک کا سفر طے کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

When it’s time to go to the hospital, Rahman begins to prepare for the descent from his room. In the narrow lane below, he is helped onto an old plastic chair
PHOTO • Sandeep Mandal
When it’s time to go to the hospital, Rahman begins to prepare for the descent from his room. In the narrow lane below, he is helped onto an old plastic chair
PHOTO • Sandeep Mandal

جب اسپتال جانے کا وقت آتا ہے، تو رحمٰن اپنے کمرے سے اترنے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ نیچے تنگ گلی میں، انہیں سہارا دے کر ایک پرانی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھایا جاتا ہے

کئی سالوں تک، عبدالرحمٰن عبدالصمد شیخ روزانہ صبح کو اس تنگ گلی سے تیزی سے چلتے ہوئے اپنی ٹیکسی کے پاس جاتے، تاکہ ۱۲ گھنٹے کام والے دن کی شروعات کر سکیں۔ پھر مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن لگ گیا، اس لیے انہوں نے ٹیکسی چلانا بند کر دیا، لیکن دوست و احباب سے ملنے کے لیے جان پہچان والی چائے کی دکان پر کبھی کبھی جایا کرتے تھے۔ تبھی وہ ذیابیطس کی وجہ سے اکثر بیمار رہنے لگے، اور لاک ڈاؤن ختم ہونے کے باوجود اپنے کام پر دوبارہ نہیں جا سکے۔ البتہ، انہوں نے چلنا پھرنا بند نہیں کیا۔

پھر اچانک، ایک دن انہوں نے اپنے پیر کی انگلیوں پر ایک چھوٹا سا سیاہ دھبہ دیکھا، ’’قلم سے بنائے گئے نشان جیسا‘‘۔ جب ڈاکٹر نے رحمن سے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کچھ اینٹی بائیوٹکس کھانے سے یہ ٹھیک ہو جائے گا، تو وہ بے فکر ہو گئے اور اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ لیکن، وہ بتاتے ہیں، ’’اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘ دائیں پیر کی انگلیوں کے بیچ میں پڑا وہ سیاہ دھبہ تیزی سے بڑا ہونے لگا۔ وہ کہتے ہیں، ’’پیر میں کافی تکلیف ہونے لگی۔ چلتے وقت ایسا لگتا تھا، گویا کوئی سوئی یا کانٹا چبھ رہا ہو۔‘‘

ڈاکٹروں کے پاس کئی بار جانے، ایکس رے اور ٹیسٹ کرانے کے بعد، سیاہ دھبے والی جلد کو کاٹ دیا گیا۔ لیکن، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایک مہینہ کے اندر ہی، اگست ۲۰۲۱ میں پیر کی وہ انگلی کاٹنی پڑی۔ کچھ ہفتوں کے بعد اس کے بغل والی انگلی بھی کاٹنی پڑی۔ ذیابیطس کی وجہ سے جو خون کا دوران بری طرح بلاک ہو گیا تھا، اس کا صحت پر بہت برا اثر پڑنے لگا۔ پچھلے سال اکتوبر میں، رحمن کے دائیں پیر کا تقریباً آدھا حصہ کاٹنا پڑا۔ اپنے کمرے کی فرش پر بچھی ایک پتلی چٹائی پر بیٹھے ہوئے، رحمن کہتے ہیں، ’’پانچوں انگلیاں اڑا دیں۔‘‘

اُسی دن سے ان کی دنیا، پہلی منزل پر بنے اس چھوٹے سے کمرے میں سمٹ کر رہ گئی ہے، جہاں ٹھیک سے ہوا بھی پاس نہیں ہوتی، البتہ اسپتال کے چکر انہیں اکثر لگانے پڑتے ہیں۔ ’’بس، اکیلا پڑا رہتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’وقت گزارنے کا میرے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ایک ٹی وی تو ہے، لیکن اسے چلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ میں صرف سوچتا رہتا ہوں… اپنے دوستوں کو یاد کرتا ہوں، بچوں کے لیے جو سامان خریدے تھے، انہیں یاد کرتا ہوں… لیکن ان سب کو یاد کرنے کا کیا فائدہ؟‘‘

Carrying the chair are his eldest son Abdul Ayaan, a neighbour's son and a nephew.
PHOTO • Sandeep Mandal
The taxi fare to the hospital in Sion more than he can afford, and yet he has had to keep going back there
PHOTO • Sandeep Mandal

ان کے سب سے بڑے بیٹے عبدالایان (بائیں)، پڑوسی کا بیٹا اور بھتیجا انہیں کرسی پر بیٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ ساین اسپتال جانے کے لیے ٹیکسی کا کرایہ اُن کے لیے بہت زیادہ ہے، پھر بھی انہیں اسی سے وہاں جانا پڑتا ہے

اپنا آدھا پیر گنوانے اور بری طرح بیمار پڑ جانے سے پہلے، چار دہائیوں تک رحمن کی دنیا اُس کمرے اور گلی سے کہیں زیادہ چوڑی تھی – وہ اپنی ٹیکسی سے شہر کے دور دراز علاقوں اور اس سے آگے تک کی سیر کیا کرتے تھے۔ رحمن جب ۱۸ سال کے تھے، تو انہوں نے شہر کی سڑکوں پر ٹیکسی چلانے والے دوسرے ڈرائیوروں سے گاڑی چلانا سیکھا۔ کچھ دنوں کے بعد، انہوں نے روزانہ کچھ گھنٹوں کے لیے ٹیکسی کرایے پر لے کر چلانا شروع کیا اور اس طرح ’’۳۰ سے ۵۰ روپے کمانے لگے‘‘۔ جب وہ ۲۰ سال کے ہوئے، تو انہیں ممبئی کی پبلک بس سروس، ’بیسٹ‘ میں بطور کلینر اور میکینک کے ہیلپر (معاون) کی نوکری مل گئی۔

اس کے آٹھ سال بعد، یعنی ۱۹۹۲ کے آس پاس، جب ان کی تنخواہ ۱۷۵۰ روپے تھی، انہیں ایک ایجنٹ کی مدد سے سعودی عرب میں نوکری مل گئی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اُن دنوں یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ وہاں [سعودی عرب میں] میں ہر مہینے ۲۰۰۰ سے ۳۰۰۰ روپے کمانے لگا، اور ایک مہینے تک گھر چلانے کے لیے ۵۰۰ [میری ’بیسٹ‘ کی تنخواہ سے زیادہ] بھی کافی تھا۔‘‘

رحمن وہاں پر بلڈوزر چلانے کا کام کرتے تھے اور کبھی کبھی کرایے والی کار بھی چلایا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرا کفیل [آجر یا مالک] ایک اچھا آدمی تھا،‘‘ جس نے ان کے رہنے کا انتظام کیا اور اپنے ملازمین کو دوسرے ممالک میں کام کی جگہوں پر بھیجا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، انہیں پوری دنیا میں کام کی الگ الگ جگہوں پر جانے کا موقع ملا۔

ان کے اس قسم کے سفر کے دوران کھینچی گئی تصویریں، جنہیں ان کی بیوی تاج النساء پلاسٹک کے ایک تھیلے سے نکالتی ہیں، ان میں رحمن مطمئن دکھائی دے رہے ہیں، کار سے ٹیک لگائے کھڑے ہیں، بلڈوزر پر بیٹھے ہوئے ہیں، ایک دکان میں بیٹھے ہوئے ہیں، دوستوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے ہیں۔ کئی تصویریں مڑی ہوئی ہیں اور کئی کے رنگ اڑ گئے ہیں۔ ماضی کی ان تصویروں میں وہ لمبے اور تندرست دکھائی دے رہے ہیں – لیکن اب ۵۷ سال کے ہو چکے رحمن، جو چٹائی پر لیٹے ہوئے اپنے دن گزار رہے ہیں، کافی کمزور اور دبلے پتلے ہو گئے ہیں اور بات کرتے وقت ان کی سانسیں پھولنے لگتی ہیں۔

اب ہر وقت بیٹھے یا لیٹے ہوئے رحمن کا ذہن، اس تنگ گلی سے نکل کر دور دراز کی اُن سرزمینوں کے بارے میں سوچ رہا ہے جہاں وہ پہلے کام کیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں کی زندگی آرامدہ تھی۔ ’’میرے کمرے میں [سعودی میں] اے سی تھا، جس کار کو میں چلاتا تھا اس میں اے سی تھا۔ کھانے میں ہمیں چاول اور اکھا مرغ [پورا چکن] ملتا تھا۔ کوئی ٹینشن نہیں تھا، میں کام سے لوٹتا، غسل کرتا، کھانا کھاتا اور سو جاتا تھا۔ یہاں، ہمارے علاقے میں ہمیشہ شور اور جھگڑا ہوتا ہے، کوئی چپ چاپ نہیں بیٹھتا۔ پنکھے کی ہوا سے مجھے درد ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ زندگی بے معنی ہو گئی ہے۔‘‘

For long, Rahman’s world stretched well past his room; he worked in countries on four continents and in images of a time past, he is tall and well-built
PHOTO • Courtesy: Shaikh family
PHOTO • Courtesy: Shaikh family
For long, Rahman’s world stretched well past his room; he worked in countries on four continents and in images of a time past, he is tall and well-built
PHOTO • Courtesy: Shaikh family

رحمن کی دنیا، لمبے عرصے تک اُن کے اس کمرے سے کہیں زیادہ چوڑی تھی؛ وہ چار بر اعظموں میں پھیلے ممالک میں کام کر چکے ہیں اور ماضی میں کھینچی گئی تصویروں میں وہ لمبے اور تندرست دکھائی دے رہے ہیں

رحمن ۲۰۱۳ میں ہندوستان لوٹ آئے، کیوں کہ بقول ان کے، سعودی عرب کے آجر دوسرے ممالک کے کارکنوں کو اپنے یہاں ۱۵ سال سے زیادہ نہیں رکھ سکتے۔ واپس لوٹنے کے بعد وہ اسی کمرے میں رہنے لگے، جہاں اس وقت رہتے ہیں۔ ان کی والدہ نے ۱۹۸۵ میں اسے ۲۵ ہزار روپے میں خریدا تھا، جب انہیں ’بیسٹ‘ میں بطور ڈرائیور کام کرنے والے رحمن کے والد کے انتقال کے بعد، پروویڈنٹ فنڈ (پی ایف) کے پیسے ملے تھے۔ (تب تک ان کی فیملی وڈالا میں اسٹاف کوارٹر میں رہتی تھی؛ وہیں پر رحمن نے ۷ویں کلاس تک تعلیم حاصل کی تھی)۔ ان سے چھوٹے چار بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہم لوگ جب یہاں آئے، تو اس وقت اس کمرے میں ہم ۱۰ لوگ رہتے تھے۔‘‘ (دسمبر ۲۰۲۱ تک، یہاں سات لوگ رہتے تھے – رحمن اور تاج النساء، ان کے چار بچے، اور ان کی والدہ، جن کا اُسی مہینے انتقال ہو گیا۔)

ماہم آنے کے بعد، ان کی والدہ کو گھریلو ملازمہ کی نوکری مل گئی تھی (ان کی بہنیں بھی دھیرے دھیرے یہی کام کرنے لگیں)۔ کچھ سالوں کے بعد، دونوں بھائیوں کی بھی الگ الگ سڑک حادثے میں موت ہو گئی۔ دونوں گلیوں میں گھوم گھوم کر سامان فروخت کیا کرتے تھے۔ رحمن کے باقی دو بھائی – جن میں سے ایک اے سی میکینک، اور دوسرا لکڑیوں پر پالش کرنے کا کام کرتا ہے – ماہم جھگی بستی میں تین حصوں والے گھر میں رہتے ہیں۔ رحمن درمیانی کمرے میں رہتے ہیں، جب کہ دونوں بھائی اوپر نیچے، جس کی وجہ سے یہ کمرے کافی گنجان ہیں۔

بہنیں شادی کے بعد اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ ملک سے باہر کام کرتے وقت، رحمن ہر سال یا دو سال میں ایک بار گھر آیا کرتے تھے۔ وہ تھوڑا فخریہ لہجے میں بتاتے ہیں کہ اُس وقت اپنی تنخواہ اور بچت کے پیسے سے انہوں نے ان کی (اور بعد میں اپنی بھتیجیوں کی) شادی میں مدد کی۔

رحمن جب سعودی عرب سے واپس لوٹے، تو اُس وقت ان کے پاس ۸ لاکھ روپے تھے، جو انہوں نے سالوں کی محنت سے بچائے تھے۔ (تب ان کی ماہانہ آمدنی تقریباً ۱۸ ہزار روپے تھی، جن میں سے زیادہ تر پیسہ وہ گھر بھیج دیتے تھے۔) بچت کی اس رقم میں سے زیادہ تر کا استعمال گھر کی شادیوں میں ہوا۔ انہوں نے ٹیکسی کا ایک پرمٹ بھی خریدا، بینک سے ساڑھے تین لاکھ روپے قرض لیے، اور ایک سینٹرو کار خریدی۔ وہ ٹیکسی چلایا کرتے تھے اور کبھی کبھی اسے کرایے پر چلانے کو دے دیتے تھے، اور اس طرح روزانہ ۶۰۰-۵۰۰ روپے کماتے تھے۔ دو سال کے بعد، کار کی دیکھ بھال کے لیے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے، رحمن نے اسے بیچ دیا اور کرایے پرٹیکس لے کر چلانے لگے، جس سے ان کی یومیہ ۳۰۰ روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔

Now he is confined to a 150 square feet airless room, and is fearful of his family losing that room too someday
PHOTO • Sharmila Joshi
Now he is confined to a 150 square feet airless room, and is fearful of his family losing that room too someday
PHOTO • Sharmila Joshi

اب وہ ۱۵۰ مربع فٹ کے کمرے میں سمٹ کر رہ گئے ہیں، جس میں ہوا تک نہیں آتی، اور انہیں ڈر ہے کہ ایک نہ ایک دن ان کی فیملی کو یہ کمرہ بھی کھونا پڑ سکتا ہے

یہ ۲۰۱۵ کی بات ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’لاک ڈاؤن [مارچ ۲۰۲۰ میں] سے پہلے تک میں یہی کام کر رہا تھا۔ اس کے بعد سب کچھ رک گیا۔‘‘ حالانکہ، اس درمیان وہ اپنے دوستوں سے بات چیت کرنے کے لیے جان پہچان کی جگہوں پر جایا کرتے تھے۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’میں زیادہ تر گھر پر ہی رہتا تھا۔‘‘ لاک ڈاؤن کے دوران اس فیملی نے خیراتی تنظیموں اور مقامی درگاہوں سے ملنے والے راشن سے اپنا گزارہ چلایا، اور دوستوں اور مالدار رشتہ داروں سے اکثر کچھ سو روپے اُدھار بھی لیتے رہے۔

سعودی عرب میں قیام کے دوران ہی رحمن کو ذیابیس کا پتہ چل گیا تھا، وہ دوائیں لے رہے تھے، لیکن ان کی صحت اس وقت اچھی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۳ میں ہندوستان لوٹنے کے بعد، ان کی صحت تیزی سے بگڑنے لگی۔ اس کی وجہ سے انہوں نے ملک سے باہر جا کر کام کرنے کی دوبارہ کبھی کوشش نہیں کی۔ لیکن لاک ڈاؤن کے بعد ان کی دنیا پوری طرح سے سمٹ گئی۔ دیر تک لیٹے رہنے کی وجہ سے ان کی پیٹھ میں چھالے پڑنے لگے۔ ان زخموں کا علاج بھی ساین اسپتال میں ہی سرجری کے ذریعے کیا گیا۔

اسی کے کچھ دنوں بعد، رحمن کو اپنے دائیں پیر کی بیچ والی انگلی پر سیاہ دھبہ نظر آیا۔

اسپتال کے بار بار چکر لگانے کے علاوہ، انہوں نے ایک مقامی ڈاکٹر سے بھی صلاح لی، جس نے خون کی بند رگوں کو کھولنے کے لیے اینجیو پلاسٹی کرانے کے لیے کہا۔ آدھا پیر کاٹے جانے کے کچھ ہفتوں بعد، اکتوبر ۲۰۲۱ میں انہوں نے آخرکار سیان اسپتال میں اینجیو پلاسٹی بھی کرا لی۔ رحمن بتاتے ہیں، ’’خون کا دوران بہتر ہوا، درد کم ہونے لگا، سیاہ دھبے کا رنگ بھی غائب ہو گیا۔ تاہم، پیر میں تھوڑا بہت درد اور کھجلی برقرار رہی۔‘‘ ایک مقامی تنظیم نے زخم پر پٹی باندھنے کے لیے ایک اٹینڈنٹ کا انتظام کر دیا، تاکہ انہیں بار بار اسپتال نہ جانا پڑے۔

رحمن کا پیر جب ٹھیک ہونے لگا، تو وہ کافی پر امید ہو گئے تھے (حالانکہ کم چلنے پھرنے کی وجہ سے انہیں پیٹ کی کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور علاج کرانے کے لیے اس سال کے شروع میں کچھ دنوں تک کے ای ایم اسپتال میں داخل بھی ہونا پڑا)۔ انہوں نے کہا، ’’ایک بار میرے پیر میں کچھ چمڑی [جلد] اُگ جائے، تو میں نے سنا ہے کہ ایسے پیروں کے لیے کچھ خصوصی جوتے بنتے ہیں۔ میں نے ان جوتوں کی قیمت معلوم کرنے کی کوشش کی ہے…تب میں دوبارہ چلنے کے قابل ہو جاؤں گا۔‘‘ تاج النساء نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے لیے ایک وہیل چیئر بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

Rahman's debilitation has hit his family hard
PHOTO • Sandeep Mandal
Rahman's debilitation has hit his family hard: Abdul Samad, Afsha, Daniya and his wife Tajunissa (eldest son Abdul Ayaan is not in this photo)
PHOTO • Sharmila Joshi

رحمن کی حالت نے ان کی فیملی کے اوپر برا اثر ڈالا ہے: عبدالصمد، افشاں، دانیا، اور ان کی بیوی تاج النساء (سب سے بڑا بیٹا عبد الایان اس تصویر میں نہیں ہے)

جب اُن کا زخم بھرنے کی امید جگی، تو رحمن کی خوشیاں بھی ان کی باتوں سے ظاہر ہونے لگیں، اور وہ اکثر تمل ناڈو کے اولوندورپیٹ تعلقہ کے اپنے آبائی گاؤں ایلاون سُرکوٹئی جا کر اپنی بڑی بہن اور فیملی کے دوسرے لوگوں سے مل آنے کا خواب دیکھتے تھے۔ آج بھی رحمن کے رشتہ داروں کی ان کے تئیں فکر انہیں جذباتی کر دیتی ہے، جب وہ ان سے ان کی صحت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مجھے واقعی خوشی ہوتی ہے۔‘‘

طویل عرصے سے ان کی اس حالت نے ان کی فیملی کے اوپر گہرا اثر ڈالا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد بھی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہونے کے سبب فیملی آج بھی دوسروں کی مدد کی محتاج ہے۔ تاج النساء (۴۸ سال) جو ابھی کچھ دنوں پہلے تک اپنی گھر اور فیملی کو سنبھالتی تھیں، نے اب ایک مقامی بال واڈی میں صفائی کا جز وقتی کام تلاش کر لیا ہے، جس سے انہیں ہر مہینے ۳۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں گھریلو ملازمہ کا کام تلاش کر رہی ہوں۔ شاید میں اپنے بڑے بیٹے کو درزی کا کام کرنے بھیجوں…‘‘

ان کا بڑا بیٹا عبدالایان ابھی ۱۵ سال کا ہے۔ رحمن اپنی بے بسی بیان کرتے ہیں، ’’اگر میرا بیٹا بڑا ہوتا، تو میں کام کے لیے اسے دبئی بھیجنے کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔ تاج النساء بھی اپنی طرف سے جوڑتی ہیں، ’’ہماری حالت بے حد خراب ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد سے ہمارا بجلی بل تقریباً ۱۹ ہزار روپے بقایا ہو چکا ہے، لیکن جب بجلی محکمہ سے آئے آدمی نے ہماری حالت دیکھی، تو اس نے ہمیں پیسے کی ادائیگی کے لیے تھوڑا وقت دیا۔ بچوں کی اسکول فیس بھی پوری نہیں دی گئی ہے، ہم نے اسے چکانے کے لیے بھی تھوڑا وقت مانگا ہے۔ گیس سیلنڈر بھی ختم ہونے والا ہے۔ ہمارا گھر کیسے چلے گا؟ ہم اپنے بچوں کی پرورش کیسے کر سکیں گے؟‘‘

ان کا چھوٹا بیٹا، ۸ سالہ عبدالصمد اور چھوٹی بیٹی، ۱۲ سال کی افشاں گزشتہ دو سالوں سے آن لائن کلاس نہیں کر پائے ہیں۔ ان کے چاروں بچوں نے پڑوس کے اسکولوں میں ہی داخلہ لے رکھا ہے۔ افشاں بولتی ہے، ’’کلاس میں کیا پڑھایا جا رہا ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا ہے۔‘‘ اب ان کے اسکول دوبارہ کھل چکے ہیں۔

ان کی بڑی بیٹی دانیا، جو ۱۶ سال کی ہے اور ۱۱ویں کلاس میں پڑھتی ہے، اپنے چچیرے بھائی بہنوں اور دوستوں کے موبائل فون کے ذریعے کسی طرح پڑھائی کر رہی ہے۔ ایان کی بھی یہی حالت ہے۔ دانیا کہتی ہے کہ وہ بیوٹیشین کی ٹریننگ کرنا چاہتی ہے۔ مہندی لگانے کے ہنر میں وہ پہلے سے ماہر ہے۔ اسے امید ہے کہ اس کے ذریعے وہ تھوڑی بہت کمائی کر لے گی۔

'Now I don't know how long I am alive. My hopes for my children have died'
PHOTO • Sandeep Mandal

’مجھے نہیں معلوم کہ میں کب تک زندہ رہوں گا۔ بچوں کے لیے پیدا ہونے والی میری ساری امیدیں مر چکی ہیں‘

رحمن ہر وقت اپنی فیملی کی ہی تشویشوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے بعد ان سب کا کیا ہوگا؟ میرا چھوٹا بیٹا ابھی صرف آٹھ سال کا ہے…‘‘ ان کی دوسری تشویش اس بات کو لے کر ہے کہ اگر ان کی بستی کو کبھی کسی ترقیاتی پروجیکٹ کی وجہ سے اجاڑ دیا گیا، تب ان کی فیملی کہاں جائے گی؟ پوری فیملی کو معاوضہ میں صرف ایک کمرے کا مکان ملے گا، جب کہ فی الحال وہ اور ان کے بھائی تین کمروں میں رہتے ہیں۔ فکرمند رحمن پوچھتے ہیں، ’’اگر میرے بھائی اسے فروخت کرکے کہیں اور جانا چاہیں تب کیا ہوگا؟ اگر وہ میری فیملی کو ۴-۳ لاکھ روپے پکڑا دیں اور اسے باہر کا راستہ دکھا دیں، تب میری فیملی کہاں جائے گی؟‘‘

وہ آگے کہتے ہیں، ’’اگر یہ زخم میرے پیر کی جگہ میرے بدن کے کسی اور حصے میں ہوتے، تو مجھے اتنی پرواہ نہیں ہوتی۔ میرا ہاتھ بھی کٹ جاتا، تو کم از کم میں چل سکتا تھا یا کہیں آ جا تو سکتا تھا۔ فی الحال تو میں خود بھی نہیں جانتا کہ مزید اور کتنے دن زندہ رہوں گا۔ اپنے بچوں کے بارے میں سوچ کر اب میں نا امید ہو چکا ہوں، لیکن جب تک میں زندہ ہوں، تب تک میں چاہوں گا کہ وہ پڑھیں۔ مجھے ان کے لیے قرض بھی لینا پڑے تو لوں گا، لیکن میں کوئی نہ کوئی بندوبست ضرور کروں گا۔‘‘

وسط فروری کے آس پاس رحمن اپنا چیک اپ کرانے کے لیے ساین اسپتال گئے تھے، تب غیر معمولی طور پر بڑھے ذیابیطس کی وجہ سے ڈاکٹر نے انہیں اسپتال میں داخل ہو جانے کا مشورہ دیا تھا۔ وہ مہینے بھر وہاں داخل رہے اور پھر انہیں ۱۲ مارچ کو گھر واپس بھیج دیا گیا۔ ان کا ذیابیطس ابھی بھی کنٹرول سے باہر ہے اور ان کے دائیں پیر میں صرف ہڈی اور چمڑی نظر آتی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’دائیں پیر کی بچی ہوئی کھال دوبارہ سیاہ ہونے لگی ہے اور اس میں درد بھی برقرار تھا۔ ڈاکٹر کو ایسا لگتا ہے کہ میرا پورا پیر کاٹنے کی نوبت آ سکتی ہے۔‘‘

رحمن بتاتے ہیں کہ ۱۴ مارچ کی شب کو درد برداشت کی حد سے باہر ہو گیا۔ ان کے مطابق، ’’ایسا لگا کہ میں چیخ کر رو پڑوں گا۔‘‘ انہیں دوبارہ کرسی پر لاد کر ٹیکسی تک پہنچایا گیا، تاکہ انہیں پھر سے اسپتال لے جایا جا سکے۔ ان کے دوبارہ ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ سوئیوں اور دواؤں کی وجہ سے ان کا درد تھوڑا کم ہوا ہے، لیکن درد دوبارہ کبھی بھی بڑھ سکتا ہے۔ جلد ہی گہری جانچ اور دوسرے ٹیسٹ کے لیے ان کو اسپتال پھر سے واپس جانا ہوگا اور شاید ان کی دوبارہ سرجری بھی کی جا سکتی ہے۔

وہ بے حد تھکے ہوئے اور گہری تکلیف میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی فیملی کو ابھی بھی یہ امید ہے کہ جلد ہی ان کی تمام مشکلیں دور ہو جائیں گی۔ رحمن بھائی کہتے ہیں، ’’انشاء اللہ۔‘‘

کور فوٹو: سندیپ منڈل

لکشمی کامبلے کا بیحد شکریہ، جن کے تعاون کی وجہ سے اس اسٹوری پر کام کرنا ممکن ہو پایا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez