پہلی منزل پر موجود کمرے میں تالا لگا ہے اور وہاں خاموشی چھائی ہوئی ہے، حالانکہ اس کے بند ہونے میں ابھی وقت ہے۔ بغل میں ٹِن اور لکڑی سے بنی جھونپڑی میں بھی کوئی نہیں ہے، صرف کرسی، میز، لوہے کی بنچ، آئرن سیرپ اور فولک ایسڈ کی ٹیبلیٹ سے بھرا کارٹن، اور ردّیوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ ایک پرانی زنگ آلودہ نام والی تختی بھی وہاں پڑی ہے، جب کہ بند کمرے والی عمارت کے داخلی دروازہ پر لگی نئی تختی پر لکھا ہے: ’گورنمینٹ نیو ٹائپ پرائمریری ہیلتھ سنٹر، شابری محلہ، ڈل ایس جی آر [سرینگر]‘۔

یہاں سے کشتی کے ذریعے ۱۰ منٹ کی دوری پر نظیر احمد بھٹ کا ’کلینک‘ ہے، جو عام طور پر کھلا رہتا ہے – اور کافی بھیڑ رہتی ہے۔ سردیوں کی ایک دوپہر کو وہ اُس وقت اپنے پاس آنے والے آخری کسٹمر- مریض سے مل رہے ہیں (مزید مریضوں کو دیکھنے کے لیے وہ دوبارہ شام کو یہاں آئیں گے)۔ لکڑیوں کے ستونوں پر کھڑی یہ اُن کی لکڑی سے بنی چھوٹی سی دکان ہے، جس میں انجیکشن لگانے کے لیے ایک چھوٹا سا خانہ بنا ہوا ہے۔ اس دکان کے باہر آویزاں بورڈ پر لکھا ہے ’ بھٹ میڈیکیٹ کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ‘۔

تقریباً ۶۰ سال کی ایک بزرگ خاتون، حفیظہ ڈار یہاں ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی انتظار کر رہی ہیں۔ وہ کشتی کے ذریعے یہاں نظیر ’ڈاکٹر‘ سے ملنے آئی ہیں، ان کا محلہ ۱۰ منٹ کی دوری پر واقع ہے۔ ’’میری ساس کو [ذیابیطس کا] انجیکشن لگنا ہے اور نظیر صاحب ہمارے گھر پر یہ انجیکشن بڑے آرام سے لگا دیتے ہیں کیوں کہ میری ساس اتنی ضعیف ہو چکی ہیں کہ یہاں آ نہیں سکتیں،‘‘ وہ ان کو دعائیں دیتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’ہمیں وہاں [این ٹی پی ایچ سی میں] کوئی ڈاکٹر نظر نہیں آتا،‘‘ حفیظہ کہتی ہیں جو ایک خاتونِ خانہ اور کاشتکار ہیں؛ ان کے شوہر ایک کسان ہیں اور ڈل جھیل میں شکارہ بھی چلاتے ہیں۔ ’’وہ صرف بچوں کو پولیو کی دوا پلاتے ہیں اور دن میں ۴ بجے کے بعد وہاں کوئی نہیں ہوتا۔‘‘

ڈل جھیل کے جزیروں پر رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں اگست ۲۰۱۹ سے لگاتار کرفیو اور لاک ڈاؤن کے بعد، تقریباً اِن دو سالوں میں اس نئے قسم کے ابتدائی طبی مرکز یا نیو ٹائپ پرائمری ہیلتھ سنٹر (این ٹی پی ایچ سی) میں انہوں نے کسی ڈاکٹر کو نہیں دیکھا ہے۔ ’’کچھ سال پہلے یہاں ایک ڈاکٹر ہوا کرتا تھا جس نے کافی اچھے کام کیے، لیکن اس کا تبادلہ کر دیا گیا۔ ۲۰۱۹ کے بعد سے ہم نے یہاں کسی دوسرے ڈاکٹر کو نہیں دیکھا ہے،‘‘ ۴۰ سالہ محمد رفیق مَلّا کہتے ہیں، جو قریب میں ہی رہتے ہیں اور سیاحوں کے لیے بطور فوٹوگرافر کام کرتے ہیں۔ ’’وہ [ملازمین] یہاں باقاعدگی سے نہیں آتے اور پھر پورے وقت تک رکتے بھی نہیں۔‘‘

اسسٹنٹ ڈائرکٹر پلاننگ برائے چیف میڈیکل آفیسر، سرینگر کے دفتر کے مطابق، تمام ’نیو ٹائپ پی ایچ سی‘ (کشمیر میں ’اپ گریڈ کیے گئے‘ ذیلی مراکز) میں کم از کم ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر بطور میڈیکل افسر، ایک ماہر دواسازی (فارماسسٹ)، ایک ایف ایم پی ایچ ڈبلیو (کثیرالمقاصد خاتون طبی کارکن) اور ایک نرسنگ اردلی ہونا چاہیے، جن میں سے سبھی کو ڈائریکٹریٹ آف ہیلتھ سروسز کی جانب سے ملازمت حاصل ہونی چاہیے۔

Lake residents can’t recall seeing a doctor at the primary health centre (NTPHC) for two years; an adjacent shed has some medical supplies and discarded furniture
PHOTO • Adil Rashid
Lake residents can’t recall seeing a doctor at the primary health centre (NTPHC) for two years; an adjacent shed has some medical supplies and discarded furniture
PHOTO • Adil Rashid

جھیل کے رہائشیوں نے دو سالوں سے نیو ٹائپ پرائمری ہیلتھ سنٹر (این ٹی پی ایچ سی) میں کسی ڈاکٹر کو نہیں دیکھا ہے؛ بغل کی ایک جھونپڑی میں کچھ طبی سازوسامان اور بیکار فرنیچر پڑے ہیں

’’لیکن یہ سنٹر [پولیو] ٹیکہ کاری مہم کے دوران کام کرنے لگتا ہے، جب وہ لاؤڈ اسپیکر سے اس کا اعلان کرتے ہیں،‘‘ ۲۵ سالہ وسیم راجا کہتے ہیں، جو سیاحتی کشتی پر بطور فوٹوگرافر کام کرتے ہیں اور اُسی محلہ میں رہتے ہیں جہاں این ٹی پی ایچ سی موجود ہے (جو دراصل کولی محلہ میں ہے، حالانکہ اس کی تختی پر بغل کے محلہ کا نام لکھا ہوا ہے)۔ وسیم بتاتے ہیں کہ ’’ماہر دوا ساز (فارماسسٹ) کو جب بھی فرصت ملتی ہے، وہ ہمارے گھر آکر میرے والد کو ڈرِپ لگاتے ہیں۔ لیکن جب بھی ہمیں دواخانہ میں اس کی شدید ضرورت ہوتی ہے، تو وہ بند رہتا ہے۔ تب ہم نظیر یا بلال [ایک اور دوا فروش اور معالج] کے پاس جاتے ہیں یا اسپتال جانے کے لیے سڑک تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں وقت لگتا ہے اور ایمرجنسی کے دوران یہ انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔

سب سے نزدیکی سرکاری اسپتال، سرینگر کے رَینا واڑی علاقہ کا جواہر لعل نہرو میموریل اسپتال ہے۔ وہاں جانے کے لیے سب سے پہلے کولی محلہ سے کشتی کے ذریعے بولیورڈ روڈ تک آنا پڑتا ہے، پھر اسپتال تک پہنچنے کے لیے دو الگ الگ بسوں سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ یا پھر جھیل میں رہنے والے لوگ ۴۰ منٹ تک کشتی کی سواری کرکے دوسرے پوائنٹ تک پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے تقریباً ۱۵ منٹ پیدل چل کر اسپتال پہنچتے ہیں۔ کشمیر کی سخت سردیوں میں، یہ سفر خاص طور سے مشکل ہو سکتا ہے۔

ڈل جھیل کے ۱۸ سے ۲۰ مربع کلومیٹر میں پھیلے ان متعدد جزیروں پر رہنے والے تقریباً ۵۰-۶۰ ہزار لوگوں کے لیے اس این ٹی پی ایچ سی کے علاوہ، دوسرا واحد سرکاری طبی مرکز نندپورہ میں واقع آئی ایس ایم (انڈین سسٹم آف میڈیسنز) دواخانہ ہے۔ یہ ڈل جھیل کے ایک کنارے پر واقع ہے، اور وہاں بھی حفظانِ صحت کے کارکنان ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتے۔ اور بولیور روڈ پر ایک ذیلی مرکز ہے (یہ بھی سب سے نزدیکی پوائنٹ ہے جہاں ان جزیروں پر رہنے والے لوگ کووڈ۔۱۹ کے ٹیکے لگوا سکتے ہیں اور ٹیسٹ کرا سکتے ہیں)۔

لہٰذا، جھیل کے رہائشیوں کے لیے، خاص کر اندرونی جزیروں پر رہنے والے لوگوں کے لیے نظیر اور اُن کے جیسی دواؤں کی دکان چلانے والے کم از کم تین دیگر افراد – جو ’ڈاکٹر‘ اور طبی صلاح کار کے طور پر بھی کام کرتے ہیں – کے ذریعے پیش کردہ خدمات ہی قابل رسا حفظانِ صحت کا واحد متبادل ہے۔

نظیر احمد بھٹ، جن کی عمر تقریباً ۵۰ سال ہے اور جو تقریباً ۱۵-۲۰ سالوں سے ڈل جھیل میں یہ کام کر رہے ہیں، اپنی دکان و کلینک میں صبح ۱۰ بجے سے رات کے ۱۰ بجے تک دو شفٹ دستیاب رہتے ہیں، دوپہر میں صرف کچھ دیر کے لیے وقفہ لیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ ۱۵-۲۰ مریضوں کو دیکھتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام بخار اور کھانسی زکام، بلڈ پریشر، مسلسل درد جیسی شکایات لیکر آتے ہیں یا جنہیں کوئی معمولی زخم ہو جسے صاف کرنے اور پٹی باندھنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ (وہ مجھے اپنی میڈیکل یا فارماسسٹ کی تعلیمی لیاقت کے بارے میں نہیں بتاتے)۔ نظیر صلاح دینے کی فیس نہیں لیتے، لیکن رِٹیل قیمت پر دوا کے پیسے لیتے ہیں (اور اسی سے اپنی آمدنی حاصل کرتے ہیں)، اور اُن دواؤں کا ذخیرہ بھی رکھتے ہیں جن کی ضرورت لوگوں کو مسلسل پڑتی ہے۔

Left: Mohammad Sidiq Chachoo, who sells leather goods to tourists, says, 'We prefer these clinics because they are nearby and have medicines readily available'. Right: The chemist-clinic he is visiting is run by Bilal Ahmad Bhat
PHOTO • Adil Rashid
Left: Mohammad Sidiq Chachoo, who sells leather goods to tourists, says, 'We prefer these clinics because they are nearby and have medicines readily available'. Right: The chemist-clinic he is visiting is run by Bilal Ahmad Bhat
PHOTO • Adil Rashid

بائیں: سیاحوں کو چمڑے کا سامان فروخت کرنے والے محمد صدیق چاکو بتاتے ہیں، ’’ہم ان کلینک کو اس لیے پسند کرتے ہیں کیوں کہ یہ قریب میں ہیں اور یہاں دوائیں ہمیشہ موجود رہتی ہیں‘۔ دائیں: وہ جس کیمسٹ- کلینک پر موجود ہیں اسے بلال احمد بھٹ چلاتے ہیں

نزدیک کے ایک دوسرے کیمسٹ- کلینک پر، سیاحوں کو چمڑے کا سامان فروخت کرنے والے ۶۵ سالہ محمد صدیق چاکو اپنا بلڈ پریشر چیک کرا رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سرینگر کے ایک پرائیویٹ اسپتال سے پتے کی پتھری کا آپریشن کرایا ہے۔ ’’دواخانہ [این ٹی پی ایچ سی] بیکار ہے۔ وہاں کوئی نہیں جاتا۔ ہم ان کلینکس کو اس لیے پسند کرتے ہیں کیوں کہ یہ نزدیک ہیں اور یہاں دوائیں ہمیشہ دستیاب رہتی ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

محمد صدیق جس کلینک پر گئے ہوئے ہیں اسے بلال احمد بھٹ چلاتے ہیں۔ بلال سرینگر کے جنوبی مضافات میں واقع، نوگام میں رہتے ہیں۔ انہیں دوا فروخت کرنے کا لائیسنس ملا ہوا ہے۔ وہ مجھے جموں و کشمیر فارمیسی کونسل کے ذریعے فراہم کردہ اپنا سرٹیفکیٹ دکھاتے ہیں۔

ان کی دکان میں دواؤں سے بھری ایک الماری اور مریضوں کے لیٹنے کے لیے ایک بستر ہے۔ یہ دکان صبح ۱۱ بجے سے شام کے ۷ بجے تک کھلتی ہے۔ بلال بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ ۱۰ سے ۲۵ مریضوں کو دیکھتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر معمولی شکایتوں کے ساتھ آتے ہیں۔ بلال بھی صلاح دینے کی فیس نہیں لیتے، اور صرف ایم آر پی پر دوائیں فروخت کرتے ہیں۔

وہ زور دیکر کہتے ہیں کہ ڈل جھیل میں ایک اسپتال کی ضرورت ہے۔ ’’یہاں پر کم از کم خواتین کے امراض کی ماہر کوئی ڈاکٹر ہونی چاہیے، بچوں کی ولادت کے لیے ایک چھوٹا اسپتال ہو جہاں خواتین ضروری خدمات حاصل کر سکیں۔ طبی جانچ کی بھی یہاں کوئی سہولت نہیں ہے۔ لوگ کم از کم اپنا بلڈ شوگر تو چیک کروا سکیں، ان کا سی بی سی ٹیسٹ ہو جائے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ مزدوری کرتے ہیں، وہ غریب ہیں۔ اگر انہیں یہ سہولیات دواخانہ [این ٹی پی ایچ سی] میں مل جائیں، تو انہیں یہاں میرے پاس سخت سردیوں میں ۵ روپے کے ٹیبلیٹ کے لیے بھی نہیں آنا پڑے گا۔‘‘

اُس دن صبح میں، بلال کو کولی محلہ میں واقع اپنے گھر میں کینسر کے ایک مریض کو چیک کرنا تھا۔ ’’اُن کا ایس کے آئی ایم ایس میں علاج چل رہا ہے اور مجھے ڈرِپ لگانا تھا (یعنی پانی کی بوتل چڑھانی تھی)،‘‘ وہ سرینگر کے شیر کشمیر انسٹیی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس کے آئی ایم ایس) کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، جو ڈل جھیل کے مشرقی کنارے پر واقع نہرو پارک گھاٹ سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور ہے۔ ’’اُتنی دیر کے لیے مجھے اپنی دکان بند کرنی پڑی۔ وہ ایک غریب آدمی ہیں جو رکشہ چلاتے ہیں، میں اُن سے پیسے نہیں لے سکتا تھا۔‘‘

For people living in the Lake's mohallas, the services offered by Nazir and at least three others who run similar pharmacies – and double up as ‘doctors’ or medical advisers – are often their only accessible healthcare option
PHOTO • Adil Rashid
For people living in the Lake's mohallas, the services offered by Nazir and at least three others who run similar pharmacies – and double up as ‘doctors’ or medical advisers – are often their only accessible healthcare option
PHOTO • Adil Rashid

جھیل کے محلے میں رہنے والے لوگوں کے لیے، نظیر اور اُن کے جیسی دواؤں کی دکان چلانے والے کم از کم تین دیگر افراد – جو ’ڈاکٹر‘ اور طبی صلاح کار کے طور پر بھی کام کرتے ہیں – کے ذریعے پیش کردہ خدمات ہی قابل رسا حفظانِ صحت کا واحد متبادل ہے

این ٹی پی ایچ سی چونکہ ۴ بجے بند ہو جاتا ہے، اس لیے شام کا اندھیرا ہونے کے بعد لوگوں کو دوا فروشوں اور کلینک چلانے والوں پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔ بلال بتاتے ہیں کہ ’’رات میں میرے پاس فون آتے ہیں جب میں اپنے گھر پر ہوتا ہوں۔‘‘ وہ ایک واقعہ یاد کرتے ہیں، جب ایک بزرگ خاتون کے گھر والوں نے فون کرکے بتایا کہ انہیں سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔ بلال بتاتے ہیں کہ اُس بزرگ خاتون کا سرینگر کے ایک اسپتال میں آپریشن ہوا تھا، انہیں ذیابیطس ہے اور وہ امراضِ قلب میں بھی مبتلا ہیں۔ ’’آدھی رات کے بعد جب انہوں نے فون کیا، تو مجھے شک ہوا کہ شاید انہیں دل کا دورہ پڑا ہو۔ لہٰذا، میں نے انہیں [فون پر] صلاح دی کہ وہ ان کو جلد از جلد کسی اسپتال میں لے جائیں۔ وہ لے گئے، وہاں جاکر پتا چلا کہ فالج کا حملہ تھا۔ خوش قسمتی سے، انہیں بچا لیا گیا۔‘‘

جھیل کے بالکل اندرونی حصے میں، ان جزیروں کے مسائل کافی خطرناک صورتحال اختیار کر سکتے ہیں کیوں کہ اس کے بارے میں نہ تو پریس میں کوئی رپورٹ ہے اور نہ ہی یہاں کی خوبصورت تصویریں کہیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سخت سردیوں کے مہینے میں کشتی کو چند فٹ آگے لے جانے کے لیے چھ انچ موٹی برف کی چادر کو توڑنا پڑتا ہے۔ گرمیوں میں کشتی سے جو دوری ۳۰ منٹ میں طے ہو جاتی ہے، جھیل کے جم جانے کے بعد اسی فاصلہ کو طے کرنے میں تین گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

’’ہمیں ایک ایسے اسپتال کی ضرورت ہے، جہاں ڈاکٹر رات دن موجود ہوں،‘‘ ۲۴ سالہ حدیثہ بھٹ کہتی ہیں۔ وہ جھیل کے اندرونی علاقے میں، ٹنڈ محلہ میں رہتی ہیں۔ ’’ہمیں طبی جانچ کرانے کی سہولیات بھی چاہئیں۔ دن میں یا دیر شام کو ہم نظیر کے کلینک میں جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی رات میں بیمار پڑ جائے، تو ہمیں کوئی کشتی اور اسے چلانے والے کو تلاش کرنا پڑتا ہے، جسے لیکر ہم رَینا واڑی جاتے ہیں۔ بالغ آدمی تو رات کے گزرنے کا انتظار کر سکتا ہے، لیکن بچے ایسا نہیں کر سکتے،‘‘ حدیثہ کہتی ہیں، جو خاتونِ خانہ ہیں۔ ان کے بھائی موسم کی بنیاد پر بطور کاشتکار کام کرتے ہیں یا جھیل میں شکارہ چلاتے ہیں۔

مارچ ۲۰۲۱ میں، جب اُن کی ماں پھسل کر گر پڑی تھیں اور شاید ان کی ہڈیوں میں زخم آ گیا تھا، تو انہیں نہرو پارک سے تقریباً ۸ کلومیٹر دور، جنوبی سرینگر کے برزولا میں واقع ہڈیوں اور جوڑ کا علاج کرنے والے سرکاری اسپتال لے جانا پڑا تھا۔ ’’حالانکہ اُن کا زخم زیادہ گہرا نہیں تھا، لیکن انہیں وہاں تک لے جانے میں دو گھنٹے لگے [آٹورکشہ اور ٹیکسی کا کرایہ الگ سے دینا پڑا]،‘‘ حدیثہ کے بھائی، عابد حسین بھٹ بتاتے ہیں۔ ’’بعد میں ہم نے اسپتال کے مزید دو چکر لگائے کیوں کہ آس پاس ایسا کوئی دواخانہ نہیں ہے جو اُن کا علاج کر سکے۔‘‘

لوگوں کو کم از کم جھیل سے اسپتال تک لے جانے کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے، دسمبر ۲۰۲۰ میں ایک ہاؤس بوٹ کے مالک، طارق احمد پتلو نے اپنے ایک شکارہ کو آبی ایمبولینس میں تبدیل کر دیا۔ میڈیا رپورٹوں میں اس کی تفصیل بیان کی گئی تھی کہ انہوں نے آخر ایسا کیوں کیا – ان کی چچی کو دل کا زبردست دورہ پڑا تھا، اور وہ خود بھی کووڈ۔۱۹ سے متاثر ہو گئے تھے۔ ایک ٹرسٹ سے انہیں مالی مدد ملی، اور اب ایمبولینس میں ایک اسٹریچر، وھیل چیئر، آکسیجن سیلنڈر، فرسٹ ایڈ کِٹ، ماسک، گلوکومیٹر، اور ایک بلڈ پریشر مانیٹر ہے۔ ۵۰ سالہ طارق بتاتے ہیں کہ وہ جلد ہی اس ایمبولینس پر ایک طبی معاون اور ایک ڈاکٹر کا انتظام کرنے والے ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ یہ ایمبولینس ابھی تک ۳۰ مریضوں کو اسپتال پہنچا چکی ہے، اور اس نے لاشوں کو بھی جھیل کے اُس پار لے جانے میں مدد کی ہے۔

Tariq Ahmad Patloo, houseboat owner who turned a shikara into a 'lake ambulance'
PHOTO • Adil Rashid
Tariq Ahmad Patloo, houseboat owner who turned a shikara into a 'lake ambulance'
PHOTO • Adil Rashid

ہاؤس بوٹ کے مالک، طارق احمد پتلو، جنہوں نے شکارہ کو ’جھیل کی ایمبولینس‘ میں بدل دیا

سرینگر میں صحت سے وابستہ افسران کو بھی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ ڈل جھیل کی اس جزوی طبی سہولت کے بارے میں پوچھنے پر ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ سرینگر کے خانیار میں واقع خود اُن کے اسپتال میں اسٹاف کی کمی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مارچ ۲۰۲۰ میں جب ضلع اسپتال (رَینا واڑی میں واقع جواہر لعل نہرو میموریل اسپتال) کو پوری طرح سے کووڈ۔۱۹ مرکز میں تبدیل کر دیا گیا تھا، تو بغیر کووڈ والے بہت سے مریض ان کے اسپتال میں آنے لگے، جب کہ مریضوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کو سنبھالنے کے لیے اضافی عملہ انہیں نہیں دیا گیا۔ ’’پہلے اگر ہمارے پاس کسی مخصوص دن ۳۰۰ مریض آتے تھے، تو اب ۸۰۰ سے لیکر ۹۰۰ تک آتے ہیں، کبھی کبھی تو ۱۵۰۰ مریض بھی آ جاتے ہیں،‘‘ انہوں نے اس سال جنوری میں مجھے بتایا تھا۔

اُس سرکاری ملازم نے آگے بتایا کہ جھیل کے رہائشیوں کی چھوٹی نظر آنے والی ضروریات کے اوپر بڑی بیماریوں کو ترجیح دینے کی وجہ سے این ٹی پی ایچ سی اور ذیلی مراکز کے عملہ کو عام دنوں سے زیادہ رات کی ڈیوٹی کرنے کے لیے بلا لیا گیا ہے۔ انہیں یہ ڈیوٹی لگاتار کرنی پڑتی ہے، اسی لیے کولی محلہ میں واقع این ٹی پی ایچ سی کے طبی معاون اکثر غائب رہتے ہیں۔ ایف ایم پی ایچ ڈبلیو نے، طبی مراکز میں اپنے کام کے علاوہ، کووڈ۔۱۹ کے دوران متاثرہ لوگوں کا پتا لگانے میں اہم رول ادا کیا ہے، اور ان کے اوپر بھی کام کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔

کولی محلہ کے این ٹی پی ایچ سی میں ۱۰ سال سے زیادہ عرصے سے بطور ماہر دوا ساز (فارماسسٹ) کام کر رہے، ۵۰ سالہ افتخار احمد وفائی بتاتے ہیں کہ انہیں خانیار کے اسپتال میں ہر مہینے پانچ بار رات کی ڈیوٹی کے لیے بلایا جاتا ہے، اس لیے وہ اگلی صبح این ٹی پی ایچ سی میں رپورٹ کرنے لائق نہیں رہتے۔ ’’اس کے لیے ہمیں الگ سے پیسے نہیں ملتے، پھر بھی ہم یہ کام کر رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمیں معلوم ہے کہ تمام طبی مراکز میں اسٹاف کی کمی ہے اور اس وبائی مرض نے سارے حدود پار کر دیے ہیں۔‘‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ این ٹی پی ایچ سی میں تقریباً تین سال سے کوئی ڈاکٹر نہیں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے اسٹاف کی کمی کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی تھی، لیکن ان سے ’ایڈجسٹ‘ کرنے کے لیے کہہ دیا گیا۔ ’’سنٹر کی صفائی بھی میں خود ہی کرتا ہوں۔ بعض دفعہ میں مریضوں کو انجیکشن بھی لگاتا ہوں، اور جب وہ ضد کرتے ہیں تو کبھی کبھی ان کا بلڈ پریشر بھی چیک کرتا ہوں،‘‘ افتخار احمد بتاتے ہیں، حالانکہ ان کی ملازمت سے متعلق تفصیلات میں کہیں یہ درج نہیں ہے کہ انہیں یہ سب کرنا ہوگا۔ ’’لیکن مریضوں کو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، اور آپ جس طرح بھی ہو سکے اُن کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اور جب افتخار احمد وفائی بھی اکثر دستیاب نہیں ہوتے، تو ڈل جھیل میں رہنے والے لوگوں کو عموماً بند پڑے این ٹی پی ایچ کو پار کرکے، آگے اُن دوا فروشوں اور کلینک چلانے والوں کے پاس جانا پڑتا ہے، جو شدید ضرورت کے وقت ان کی مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Adil Rashid

Adil Rashid is an independent journalist based in Srinagar, Kashmir. He has previously worked with ‘Outlook’ magazine in Delhi.

Other stories by Adil Rashid
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez