ڈونگر گڑھ، شمالی ممبئی کے ماڑھ جزیرہ کا ایک گاؤتھن (بستی) ہے۔ یہاں پر کولی ماہی گیر کمیونٹی کے تقریباً ۴۰ سے ۴۵ گھرانے آباد ہیں۔ وہ مشترکہ طور پر کھالا (مچھلی کو سُکھانے کا ایک مسطح میدان) چلاتے ہیں۔ ماڑھ میں اس جیسے متعدد میدان ہیں۔

تقریباً ہر کولی فیملی ۵ سے ۱۰ کامگاروں کو ملازمت دیتی ہے، جن میں سے بہت سے لوگ اترپردیش، آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں سے آتے ہیں۔ یہ مہاجر مزدور ستمبر سے جون کے درمیان ہر سال ممبئی آتے ہیں۔ یہ کولیوں کے لیے ٹھیکہ پر کام کرتے ہیں اور آٹھ مہینے تک تقریباً ۶۵ سے ۷۵ ہزار روپے تک کما لیتے ہیں۔

مہاجر مرد عام طور سے مشترکہ کمروں میں رہتے ہیں، کولی گھرانوں کے ذریعہ فراہم کردہ ایک کمرے میں ۴ سے ۵ مرد رہتے ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر عورتیں آندھرا پردیش سے آتی ہیں؛ وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ آتی ہیں، جن میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے مالک کی جانب سے ۷۰۰ روپے ماہانہ کرایے پر الگ سے جگہ دے دی جاتی ہے۔

02-DSC_1602(Crop)-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

رَن گمّا (دائیں طرف؛ وہ صرف اپنا پہلا نام لینا پسند کرتی ہیں) آندھرا پردیش کے کرنول ضلع کے مانتریکی گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ تیلگو کے علاوہ، وہ مراٹھی اور ہندی فراٹے سے بولتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر اور فیملی کے دیگر ممبران کے ساتھ گزشتہ ۲۰ برسوں سے ماڑھ آ رہی ہیں۔ صرف ان کا ایک بیٹا، جو کہ ایک ٹیچر ہے، گاؤں میں ہی ٹھہرتا ہے۔ ’وہاں پر بارش نہیں ہوتی،‘ وہ ہندی میں کہتی ہیں، ’اس لیے کھیتی کرنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا ہم کام کرنے یہاں آ جاتے ہیں‘


03-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

سریش رجک اترپردیش کے جونپور ضلع کے دھرم پور گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ وہ کئی برسوں تک ٹھانے ضلع کے ڈومبی وَلی میں ایک پینٹ فیکٹری میں کام کر چکے ہیں، اور چند ماہ قبل ہی ماڑھ آئے ہیں۔ ’ہمارے گاؤں سے لوگ یہاں کئی سالوں سے آ رہے ہیں،‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’یہاں پر کام اور پیسہ اچھا ملتا ہے‘


04(Crop)-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

گیان چند موریہ (بائیں) بھی دھرم پور کے ہی رہنے والے ہیں۔ وہ ۲۰۱۶ میں ڈونگر پاڑہ آنے سے قبل وسطی ممبئی کے سات راستہ میں واقع ایک ٹِمبر ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ اسی گاؤں کے دیگر لوگ بھی ماڑھ میں موجود ہیں ۔ صوبیدار گوتم (بیچ میں) پچھلے پانچ سالوں سے یہاں آ رہے ہیں؛ دھیرج وشوکرما (دائیں) ۲۰ سال کے ہیں اور اب بھی پڑھ رہے ہیں اور اپنے امتحان کے لیے بیچ بیچ میں جونپور چلے جاتے ہیں


05-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

’نکوا (مالک) بڑی کشتیوں میں جاتے ہیں اور رات بھر مچھلیاں پکڑتے ہیں،‘ سریش بتاتے ہیں۔ ’صبح کے ۳ سے ۴ بجے، ہم وائرلیس واکی پر سنتے ہیں کہ کشتی آ چکی ہے۔ اس کے بعد ہم چھوٹی کشتیوں میں جاتے ہیں اور پکڑی گئی مچھلیوں کو میدان میں لے آتے ہیں ۔۔۔ ہمارے گاؤں کا کوئی بھی آدمی مچھلی پکڑنے والی کشتی پر جانا پسند نہیں کرتا۔ (گہرا) سمندر ہمیں بیمار کر دیتا ہے۔ نکوا پر پڑے رہنا ہی بہتر ہے‘


06-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

رن گمّا کا چھنٹائی کا کام تب شروع ہوتا ہے، جب پکڑی ہوئی مچھلی آ جاتی ہے۔ وہ مجھے ایک ٹوکری دکھاتی ہیں اور کہتی ہیں، ’دیکھو، اس ڈھیر میں ہر چیز موجود ہے چھوٹی مچھلیوں سے لے کر، جھینگے اور کچرے تک۔ ہم انھیں الگ کر رہے ہیں‘۔ دوپہر کے بعد جوالا (چھوٹے جھینگے) جنہیں سوکھنے کے لیے پھیلایا گیا تھا، گہرے گلابی رنگ کے ہو چکے ہیں


07-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

لتا کولی (بائیں) اور ریشما کولی (سنٹر) کھالا میں کام کرنے والیوں میں سے ہیں۔ کولی اپنے کامگاروں کو ’نوکر‘ کہتے ہیں، ان میں سے ایک مانتریکی گاؤں کی مریپا بھارتھی (دائیں) ہیں۔ ’ہماری فیملی نے ۱۰ مہاجر مزدوروں کو کام پر رکھا ہے۔ ہم (کولی) اور وہ ایک ہی کام کرتے ہیں،‘ ریشما بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مہاجر مزدوروں کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے، کیوں کہ کولیوں کے درمیان کام کرنے والوں کی کمی ہے اور ان کے بچے دوسرے پیشوں میں جا چکے ہیں


08-DSC_1620(Crop)-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

عورتیں، اور بعض مرد بھی، جب متعدد مچھلیوں اور جھینگوں کو الگ کر لیتے ہیں، تو وہ انھیں برف میں رکھ کر شمالی ممبئی کے ملاڈ میں واقع بازار لے جاتے ہیں۔ کچھ مچھلیوں کو دھوپ میں پھیلا دیا جاتا ہے۔ آدھے دن کے بعد، انھیں پلٹ دیا جاتا ہے، تاکہ یہ چاروں طرف سے سوکھ جائیں


09-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

دنیر گندال، یہ بھی مانتریکی گاؤں کے ہی ہیں، تمام مچھلیوں کو دھوتے ہیں، جنہیں یا تو تازہ بیچا جائے گا یا پھر انھیں پہلے سُکھایا جائے گا


10-DSC_1801-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

کچھ ورکرس بومبل، جو بامبے ڈَک کے نام سے مشہور ہیں، کو سُکھاتے ہیں۔ انھیں دو مچھلیوں کے جبڑوں کو ملا کر لاک کر دیا جاتا ہے، پھر انھیں والینڈ (بانس کے فریم) پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ ان کا منھ مشرق سے مغرب کی جانب ہوتا ہے، تاکہ ہر سائڈ کو برابر دھوپ مل سکے


11-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

کووں کو ڈرانے کے لیے والینڈ کے ساتھ کالے پلاسٹک بیگ باندھ دیے جاتے ہیں، تاکہ انھیں یہ لگے کہ یہ بھی کوّے ہیں۔ یہ کبھی کبھار ہی کام کرتا ہے


12-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

جب دن بھر کی چھنٹائی اور سُکھانے کا کام مکمل ہو جاتا ہے، تو دوسرے کام بچتے ہیں، جیسے مچھلی پکڑنے والی جال کی مرمت کرنا۔ ڈومینک کولی، ۵۱، کھالا کے سب سے سینئر اور باعزت کولی کے یہاں چھ مزدور ہیں، سبھی مہاجر ہیں، یہ اپنے مزدوروں کے ساتھ خود بھی سارا کام کرتے ہیں، جیسے کشتی چلانا، مچھلی پکڑا، انھیں سُکھانا اور جال کی مرمت کرنا۔ انھوں نے اور ڈونگر پاڑہ کی دیگر کولی فیملیز نے مچھلی پکڑنے والے جال کو ٹھیک کرنے والے عبدالرزاق سولکر (اوپر) کو ایک دن کے لیے کام پر رکھا ہے، تاکہ وہ ان کے جال کی مرمت کر سکیں۔ سولکر مہاراشٹر کے رتناگیری ضلع کے راجاپور تعلقہ کے رہنے والے ہیں۔ ’میرے والد جال بُنا کرتے تھے، اور میں بھی اب یہی کر رہا ہوں‘، وہ کہتے ہیں۔ ’میں ایک ڈیلی ویج ورکر ہوں۔ آج میں یہاں ہوں، کل کہیں اور رہوں گا‘


13-DSC_1519-SK-The migrant fish workers of Dongarpada.jpg

سُکھانے والے میدان میں جہاں یہ سارا کام چل رہا ہے، دوسرے لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ بھوکے کوّے، کتے اور سارس دن بھر کھالا کے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں، مچھلی کی تیز بو کی وجہ سے اور اس امید میں کہ وہ تیزی سے ان پر جھپٹ سکیں

Shreya Katyayini

Shreya Katyayini is a Video Coordinator at the People's Archive of Rural India, and a photographer and filmmaker. She completed a master's degree in Media and Cultural Studies from the Tata Institute of Social Sciences, Mumbai, in early 2016.

Other stories by Shreya Katyayini
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez