فلم دیکھیں: کماؤں میں چھولیا کا رقص اور ڈھول کی آواز

اتراکھنڈ کے دور دراز کے ایک گاؤں میں بیگ پائپ کی آواز نایاب اور غیر معمولی ہے۔ یہاں ہم انہیں باگیشور ضلع کے بیج ناتھ میں سن رہے تھے، جس میں پیچھے سے ڈھول کی آواز آ رہی تھی۔ ہم دور سے آتی ہوئی، اونچی آواز میں گانے کی آواز بھی سن سکتے تھے، جس کے ساتھ ہنسی اور تالی بجانے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ ہم جسے کوئی تہوار سمجھ رہے تھے، وہ اصل میں ایک مقامی شادی تھی۔ ہم اب ساز بجانے والوں کے چہرے دیکھ سکتے تھے۔ وہ گا رہے تھے اور رقص بھی کر رہے تھے۔ چمکدار رنگ کے کپڑوں میں ملبوس، ان فنکاروں نے ڈھال اور تلوار کا استعمال کیا، اور جوڑے میں رقص کیا۔ یہاں شادیوں میں مقامی برادریاں جلوس نکالتی ہیں، اور دولہا گھوڑے پر سوار ہوکر شادی کے ہال تک جاتی ہے۔

یہ چھولیا رقص ہے، جس کا آغاز اتراکھنڈ کے کماؤں علاقے میں ہوا۔ اس میں کوئی بھی عورت حصہ نہیں لیتی، یہ جنگجوؤں کا رقص ہے۔ وہ جس بیگ پائپ اور تلواروں کا استعمال کرتے ہیں، اس میں برطانوی حکومت اور راجپوت تہذیب کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ چھولیا ایک فن کے طور پر موسیقی اور مظاہرے کا امتزاج ہے، جو ایک ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے۔

ڈھول بجانے والے، جنہیں ڈھولی کہا جاتا ہے، عام طور سے دلت ہوتے ہیں۔ دیگر ساز بجانے والے، الگ الگ ذاتوں کے ہوتے ہیں، لیکن عام طور سے راجپوت ہوتے ہیں۔ اس مظاہرے سے شادی کے دوران جشن کا ماحول بنتا ہے۔ لوگوں کا اب بھی یہ ماننا ہے کہ چھولیا میں بری آتما (روح) کو بھگانے اور میاں بیوی کو خراب قسمت سے بچانے کی طاقت ہوتی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Yashashwini & Ekta

Yashaswini is a 2017 PARI fellow and a filmmaker, who recently completed an artist-in-residence term at the Rijksakademie van Beeldende Kunsten, Amsterdam. Ekta is a filmmaker and co-founder of Maraa, a media and arts collective in Bengaluru.

Other stories by Yashashwini & Ekta
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez