وہ گھر جس نے کافی مصیبتیں دیکھی ہیں، وہاں اب بھی ہنسی موجود ہے۔

پانی کی کمی والے تمل ناڈو میں، ایک ایسا کھیت ہے جہاں پھول کھلتے ہیں۔

وہ ریاست جس کی زمین کی زرخیزی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے، وہاں کھیت کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا صرف آرگینک کھاد ہی استعمال کرتا ہے۔

زبردست زرعی بحران کے درمیان، دو بچوں کی یہ اکیلی ماں دلیری سے مقابلہ کر رہی ہے۔ اور، اب تک، ایک کسان کے طور پر کامیاب ہوتی رہی ہے۔

اس کی اسٹوری اور جدوجہد، جسے سب سے پہلے پاری پر ریکارڈ کیا گیا، کو چنئی میں پہچان ملی جہاں اس ہفتہ وہ چنئی پہنچیں اور ’ہوم پرینئر‘ انعام حاصل کیا۔ یہ انعام ’’گھر سے تجارت کرنے والی خواتین‘‘ کو اعزاز کے طور پر دیا جاتا ہے۔

شیو گنگئی ضلع کے مُتھور گاؤں کی چھوٹی سی بستی، میلا کاڈو میں رہنے والی چندرا سبرامنین کسی بھی مرد کسان سے زیادہ محنت کرتی ہیں، لیکن نوجوان لڑکے کا کپڑا پہنتی ہیں۔ ’’یہ میرے بیٹے کی شرٹ ہے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ ان کا بیٹا 10 سال کا ہے، جب کہ خود ان کی عمر 29 سال ہے۔ انھوں نے اس نیلی شرٹ کو اپنی گاؤن کے اوپر پہن رکھا ہے، لیکن تہہ کے باوجود، وہ پہلے سے زیادہ دُبلی دکھائی دے رہی ہیں۔ آپ کا وزن کم کیوں ہو رہا ہے؟ میں نے سوال کیا۔ ’’کام،‘‘ وہ اس وَرَپّو (مینڈ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں جسے انھوں نے کھیتوں کے درمیان خود بنایا ہے۔ ’’یہاں پر یہ پتلا تھا، اس لیے میں نے اس کے اوپر ریت چڑھا کر اسے مضبوط کر دیا۔‘‘ میں نے بڑے مردوں کو اس کام کے خیال سے پیچھے ہٹتے دیکھا ہے۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan

سمپنگی یا گلِ شب بو چندرا کے کھیت سے توڑے جا رہے ہیں۔ دائیں: ان کی بیٹی، اِنیا پھولوں سے بھری ایک تھیلی دکھا رہی ہے

چندرا رات دن کام کرتی ہیں۔ جولائی کے شروع میں ان کے دروازے پر پہنچنے پر، میں نے دیکھا کہ وہ مرغے کی بانگ سے پہلے ہی بیدار ہو چکی ہیں۔ صبح 1 بجے ’’کیوں کہ سمپنگی کو توڑنے کا یہی بہترین وقت ہوتا ہے۔‘‘ تمل ناڈو میں گلِ شب بو بڑے پیمانے پر اُگائے جاتے ہیں اور ان کا استعمال شادیوں اور پوجا میں مالا بنانے میں کیا جاتا ہے۔

پھولوں کی قیمت کیا ملے گی، اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ اسے کب لے جایا جاتا ہے، وہ دودھ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اسے ایک گلاس سے دوسرے گلاس میں ڈالتے ہوئے مجھے بتاتی ہیں۔ ’’شام کو اسے توڑنے پر، اس کی قیمت کم ملتی ہے۔ اگلی صبح تک انتظار کیجئے، یہ پوری طرح کھِل جائیں گے، اس لیے یہ وقت کا زیاں ہے۔ اسے رات میں توڑنا ہی سب سے بہتر ہوتا ہے۔ لو، پی لو!‘‘ وہ مجھے تازہ دودھ دیتی ہیں، جھاگوں سے بھرا ہوا اور پیار سے چینی ملی ہوئی۔ چندرا چائے پی رہی ہیں۔ وہ دودھ بسکٹ کو اس کے اندر ڈبوتی ہیں، اور اس طرح ان کا ناشتہ پورا ہو جاتا ہے۔ ’’چلو، چلتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں، اور میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتی ہوں۔

چندرا سے میری پہلی ملاقات 2014 میں میلا کاڈو میں ان کے کھیت پر ہوئی تھی، ان کے شوہر کے ذریعہ خودکشی کرنے کے ایک سال بعد۔ اس سانحہ کے صرف دو ہفتے پہلے ہی، چندرا کے والد کی موت ایک سڑک حادثہ میں ہو گئی تھی۔ تب وہ صرف 24 سال کی تھیں جب یہ دونوں واقعات رونما ہوئے، اوپر سے دو چھوٹے بچے، وہ اپنی بیوہ ماں کے پاس آ گئیں رہنے کے لیے۔ دونوں ہی خواتین گزر بسر کے لیے کھیتی کرتی ہیں۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan

چندرا اپنے کھیت پر بیٹی اِنیا اور بیٹے دھنش کمار کے ساتھ۔ دائیں: چنئی میں ’ہوم پرینئر‘ انعام حاصل کرتے ہوئے

چندرا کے پاس چار ایکڑ کھیت ہیں۔ اچھی بارش کے سالوں میں، انھوں نے اس پر دھان اور گنے کی کھیتی کی۔ لیکن دو سال تک نہایت خراب مانسون کی وجہ سے انھوں نے سبزیاں اُگانی شروع کر دیں، جسے وہ مقامی جھونپڑی میں خود سے ہی بیچتی ہیں۔ اس سال، انھوں نے پھولوں پر داؤ لگایا ہے، دو ایکڑ پر پھول لگائے ہیں اور آدھا ایکڑ پر سبزیاں۔ باقی زمین غیر مزروعہ ہے۔ پھولوں پر روز کام کرنا تھکا دینے والا ہے، لیکن وہ اسے خود سے ہی کرتی ہیں۔ پھول چننے والے روزانہ کے 150 روپے لیتے ہیں۔ ’’وہ جوڑے میں آتے ہیں۔ اگر میں ایک رات میں 300 روپے بچا لوں، تو کیا میں پیسے بنا سکتی ہوں؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔

’’وہ سمپنگی کا کھیت ہے،‘‘ وہ اشارہ کرتی ہیں۔ اسے دیکھنے سے پہلے میں اسے سونگھتی ہوں۔ دو ایکڑ، صاف ستھرا اور سبز۔ لمبی ٹہنی چندرا کے کندھوں پر آ جاتی ہے۔ پھول، جو گچھے میں بڑے ہو رہے ہیں، پودے کے اوپری حصے میں تاج کی طرح ہوتے ہیں۔ قطاروں کے درمیان ہلکا سا فاصلہ ہے۔ اور ہر رات، اپنی نائٹی اور چھوٹی ٹارچ پہنے – ’’800 روپے، کافی مضبوط، میں رینگتی ہوئی چینٹیوں کو بھی دیکھ سکتی ہوں‘‘ – جس وقت دنیا سو رہی ہوتی ہے، چندرا چار گھنٹے پھول چننے میں لگاتی ہیں۔

بعض دفعہ، سانپ اور بچھو سو نہیں رہے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بچھو نے ان کو ڈَنک مار دیا تھا۔ آپ نے کیا کیا؟ میں نے ان سے پوچھا، استعجاب سے۔ انھوں نے اسے بھلا دیا، وہ بتاتی ہیں، اور میں نے جب ان کو گم بوٹس پہننے کا مشورہ دیا تو وہ قہقہہ لگانے لگیں۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan

چندرا کی دو ایکڑ زمین پر گلِ شب بو لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے کھیت پر صرف آرگینک کھاد استعمال کرتی ہیں

روزانہ صبح کو 5.30 بجے وہ توڑے گئے پھولوں کا گٹھر بورے میں بھرتی ہیں اور اسے ریلوے کراسنگ تک پہنچاتی ہیں، جہاں سے ایک ٹرک اسے مدورئی لے جاتا ہے۔

گھر واپس لوٹنے کے بعد، وہ اپنے دونوں بچوں کو تیار کرتی ہیں – دھنش کمار 5ویں کلاس میں ہے، اِنیا دوسری کلاس میں – اور ان کا لنچ پیک کرتی ہیں۔ ’’یہ نیا اسکول پرانے اسکول کے مقابلے دو گنا مہنگا ہے۔ لیکن میں ان کے لیے بہترین چاہتی ہوں۔ آخر میں کس کے لیے پیسے بچا رہی ہوں؟‘‘ اس کے بعد، وہ اپنی سبزیاں بازار لے جاتی ہیں۔ اس پیسہ کو، وہ ’بونس‘ کہتی ہیں۔ اس سے مزید کھانے پینے کا انتظام ہوتا ہے۔ ’’اگر پانی ہوتا، تو ہم خود سے دھان کی کھیتی کرتے۔ لیکن اب؟‘‘

ان کی ماں بیچ میں کودتی ہیں۔ ’’تم انھیں بیچ سکتی ہو،‘‘ وہ ان کے امریکی چوہے سے بھرے پنجرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’اگر یہ مرغی یا بکری ہوتی، تو تم اسے کھا سکتی تھی، اس کا کیا فائدہ ہے؟‘‘ یہ بحث دو سالوں سے چل رہی ہے۔ چندرا کا جواب یہ ہے کہ کُترنے والے پالتو جانور کو کھانا نہیں چاہیے۔

جس دن وہ خوش قسمت ہوتی ہیں، دوپہر میں چند گھنٹے سو لیتی ہیں، کیوں کہ انھیں کئی راتوں میں نیند نصیب نہیں ہوتی۔ اب وہ موٹر کی طرف جا رہی ہیں۔ ’’پانی دیکھئے؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔ یہ وہاں ہے، ٹھنڈا اور کالا، تقریباً 20 فٹ گہرے قطر میں کھلے ہوئے کنویں کے نیچے کافی گہرائی میں۔ چندرا اور ان کا بھائی اپنے بورویل سے اس 75 فٹ گہرے کنویں میں پانی بھرتے ہیں، اور پھر یہاں سے، اپنے کھیتوں کی سینچائی کرتے ہیں۔ ’’میرا بورویل 450 فٹ گہرا ہے، لیکن میرے بھائی نے جو نیا بورویل کھودا ہے، انھیں پانی ڈھونڈنے کے لیے 1000 فٹ نیچے جانا پڑا۔‘‘

PHOTO • Aparna Karthikeyan

چندرا اپنی چھوٹی ٹارچ پہنے ہوئی ہیں، جو انھیں اندھیری رات میں ’رینگتی چینٹیوں‘ کو بھی دیکھنے میں مدد کرتی ہے۔ دائیں: کھلا ہوا کنواں جہاں وہ اور ان کے بھائی اپنے بورویل سے پانی جمع کرتے ہیں

’’جب اچھی بارش ہوتی ہے، تو کنواں بھر جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اوپر سے پانی بہہ کر باہر نکلنے لگتا ہے۔ ایک بار، ہم نے بچوں کی کمر میں پلاسٹک کے ڈبے باندھ کر انھیں اس کے اندر پھینک دیا،‘‘ وہ ہنستی ہیں، اور میری حیرانی کو دیکھ کر مزید بتاتی ہیں۔ ’’وہ ڈوبیں گے نہیں؛ ڈبہ انھیں پانی کے اوپر تیرنے میں مدد کرتا ہے۔ آخر وہ تیرنا کیسے سیکھیں گے؟‘‘

چندرا بچوں کو ڈانتی ہیں جو ابھی ابھی ہمارے پاس پہنچے ہیں۔ ’’اپنے بال کو دیکھو، کتنے خشک ہیں! جاؤ، تیل ڈالو، کنگھی کرو!‘‘ ہم امرود توڑنے کے لیے چل پڑتے ہیں۔ وہ اور ان کی ماں ضد کرتی ہیں کہ میں کچھ امرود اپنے ساتھ گھر لے جاؤں۔

اپنے بھائی کے کھیت سے چمبیلی کے پھول توڑتے ہوئے چندرا مجھ سے کہتی ہیں کہ وہ باقی چیزیں چھوڑ کر صرف پھولوں کی کھیتی کرنا چاہتی ہیں۔ ’’ سمپنگی کی قیمت تیزی سے بدلتی رہتی ہے، یہ صحیح ہے۔ لیکن مجھے اس میں منافع دکھائی دے رہا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ انھوں نے ہر ایک ایکڑ میں گلِ شب بو لگانے پر ایک لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ یعنی بلب پر 40000 روپے، ڈرِپ سینچائی پر تقریباً 30000 روپے، اور بقیہ پیسے کھیت اور پودے تیار کرنے پر خرچ کیے ہیں۔ ’’میں صرف آرگینک کھاد استعمال کرتی ہوں، گائے کا گوبر،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ پودے میں سات مہینے بعد پھول آتے ہیں، اور اسے مستحکم ہونے میں چند دن اور لگتے ہیں۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan

اِنیا اُن امرودوں کو رکھنے کے لیے ایک تھیلی پکڑے ہوئی ہے جو چندرا اپنے کھیت پر لگے درختوں سے توڑتی ہیں

اب، وہ ایک دن میں 40 کلوگرام توڑتی ہیں، اچھے دنوں میں 50۔ لیکن قیمت کافی تیزی سے بدلتی ہیں۔ ’’5 روپے فی کلو سے، 300 روپے سے زیادہ تک،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ یہ شادی اور تہواروں کے موسم میں تیزی سے بڑھ جاتی ہے اور اس کے فوراً بعد نیچے گر جاتی ہے۔ ’’اگر مجھے روزانہ ایک کلو کے 50 سے 100 روپے ملیں، تو میں منافع کما سکتی ہوں۔‘‘ چندرا حساب لگا کر بتاتی ہیں کہ ان دو ایکڑ سے اوسطاً انھیں ہر ماہ 10000 روپے کا منافع ہوتا ہے، بعض دفعہ اس سے زیادہ بھی ہوتا ہے۔ یہ پیسہ ان کے پاس تمام لاگت، دیکھ بھال، اور لون اور سود کی قسطوں پر لگنے والی رقم کو گھٹانے کے بعد بچتا ہے۔ اسی سے ان کی فیملی کا گزارہ ہو رہا ہے۔ وہ مزید 2000 روپے ماہانہ سبزیوں سے کما سکتی ہیں۔

انھوں نے اس میں سے کچھ پیسہ ایل آئی سی بیمہ پالیسی پر بھی لگایا ہے۔ وہ سبزیاں لگانا اب محدود کر دیں گی (اگلی سبزی ہوگی اچار کے لیے چھوٹی ککڑی)۔ ’’ان خالی کھیتوں کو دیکھئے؟ میں نے انھیں ایسا پہلے کبھی نہیں چھوڑا... لیکن بارش کے بغیر کھیتی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تربوز، یہاں تک کہ ناریل بھی سوکھ گئے ہیں۔‘‘

واپس اپنے گھر میں، وہ پھولوں کو دھاگے میں پروتی ہیں اور انھیں میرے بال میں لگانے میں مدد کرتی ہیں۔ ’’اپنی بیٹی کے لیے بھی اس میں سے کچھ لے جاؤ،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ میں ان کو اپنی بیٹی کا فوٹو دکھاتے ہوئے کہتی ہوں کہ میرے ممبئی پہنچنے تک یہ بچیں گے نہیں۔ ’’اس کے بال دیکھو؟ ایسے کٹ کے ساتھ وہ پھولوں کو نہیں لگا سکتی،‘‘ چندرا مسکراتے ہوئے فوٹو کو غور سے دیکھتی ہیں۔ اس کے بعد وہ مجھ سے پوچھتی ہیں، ’’کیا تم اس کے لیے ایک بوتل تیل اور ایک کنگھی نہیں خرید سکتی؟‘‘ اس کے بعد جو قہقہہ لگتا ہے، وہ گرمی کی بارش جیسا ہے۔

تصویریں: اپرنا کارتی کیئن

مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز

Aparna Karthikeyan
aparna.m.karthikeyan@gmail.com

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez