آج، ایک بار پھر، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) عالمی یوم ترجمہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ترجمہ نگاروں کی ٹیم کا بھی جشن منا رہا ہے، جس کے بارے میں ہمارا ماننا ہے کہ یہ صحافت کی کسی بھی ویب سائٹ سے کہیں بہتر ٹیم ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے – اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو کوئی بھی مجھے درست کر سکتا ہے – کہ پاری صحافت کی دنیا میں سب سے بڑی کثیر لسانی ویب سائٹ ہے۔ ۱۷۰ ترجمہ نگاروں کی اس شاندار ٹیم کی بدولت ہی، پاری پر ۱۴ زبانوں میں اشاعت کا کام ہوتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ میڈیا ہاؤسز ۴۰ زبانوں میں نشر و اشاعت کرتے ہیں۔ لیکن، ان میں سخت درجہ بندی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کچھ زبانوں کو وہاں پر دوسروں کے برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت کم اہمیت دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ، ہمارے یہاں اشاعت کا صرف ایک ہی اصول ہے کہ ’ ہندوستان کی ہر ایک زبان آپ کی اپنی زبان ہے ‘۔ اس کا مطلب ہے، تمام زبانوں کو برابری کا درجہ دینا۔ اسی لیے، اگر کوئی اسٹوری ایک زبان میں سامنے آتی ہے، تو ہم اسے تمام ۱۴ زبانوں میں شائع کرتے ہیں، یہی ہمارا مینڈیٹ ہے۔ پاری کی زبانوں کی فیملی میں چھتیس گڑھی کو اسی سال شامل کیا گیا ہے۔ اور زبانوں کی اس طویل فہرست میں اگلا نمبر بھوجپوری کا آنے والا ہے۔

ہمارا ماننا ہے کہ ہندوستانی زبانوں کو فروغ دینا پورے معاشرہ کے لیے ضروری ہے۔ ملک کی لسانی کثرت نے ہی اس پرانی کہاوت کو جنم دیا کہ یہاں پر اگر ہر تین یا چار کلومیٹر کے بعد پانی کا ذائقہ بدل جاتا ہے، تو ہر ۱۲ سے ۱۵ کلومیٹر کے بعد بولی یا زبان بھی بدل جاتی ہے۔

لیکن ہم اس کے بارے میں مزید مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ سکتے۔ ایسے وقت میں تو بالکل بھی نہیں، جب پیپلز لنگوسٹک سروے آف انڈیا کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہو کہ تقریباً ۸۰۰ زندہ زبانوں کے اس ملک نے گزشتہ ۵۰ سالوں کے اندر ۲۲۵ زبانوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے۔ نہ ہی ایسے وقت میں، جب اقوام متحدہ یہ دعویٰ کرے کہ دنیا میں بولی جانے والی ۹۵-۹۰ فیصد زبانیں اس صدی کے آخر تک یا تو ختم ہو چکی ہوں گی یا انہیں سنگین خطرہ درپیش ہوگا۔ اور نہ ہی ایسے وقت میں، جب پوری دنیا میں کم از کم ایک مقامی زبان کی موت ہر پندرہ دنوں میں ہو رہی ہے۔

A team of PARI translators celebrates International Translation Day by diving into the diverse world that we inhabit through and beyond our languages

جب کوئی زبان مرتی ہے، تو ہمارے معاشرہ، ہماری ثقافت، ہماری تاریخ کا ایک حصہ بھی مر جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یادیں، موسیقی، افسانے، گیت، کہانیاں، آرٹ، سمعی کائنات، زبانی روایات، اور زندگی گزارنے کا ایک طریقہ بھی مر جاتا ہے۔ یہ کمیونٹی کی اہلیت اور دنیا سے تعلق، اس کی شناخت اور وقار کا زیاں ہے۔ یہ قوم کے مجموعی تنوع کا بھی زیاں ہے – جو پہلے سے ہی خطرے سے دوچار ہے۔ زبانوں کے مستقبل سے ہماری ماحولیات، معاش اور جمہوریت کا رشتہ اتنا ہی گہرا ہے۔ ان کے وسیع تنوع کو دیکھ کر ان کی قدر و قیمت کا احساس پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پھر بھی، ان کی حالت آج سے پہلے اتنی نازک کبھی نہیں تھی۔

پاری اپنی کہانیوں، نظموں اور گیتوں کے ذریعے ہندوستانی زبانوں کا جشن مناتا ہے۔ ان کے تراجم کے ذریعے جشن مناتا ہے۔ ایسے کئی خزانے دیہی ہندوستان کے دور افتادہ علاقوں میں حاشیہ پر رہنے والی برادریوں کی طرف سے ہمارے پاس آئے ہیں، جس میں وہ خود اپنی منفرد زبان میں بول رہے ہیں۔ ہمارے فعال ترجمہ نگاروں کی ٹیم اپنی اصل جگہ سے بہت دور، کئی نئے منظرناموں کو پیش کرتی، نئی اسکرپٹ اور محاوروں میں لپٹی ان کہانیوں کو الگ الگ زبانوں میں پیش کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ یہ ہندوستانی زبانوں سے انگریزی میں یک طرفہ ترجمہ نہیں ہے۔ پاری کی لسانی کائنات سے تنوع کے ایک بڑے وژن کا انکشاف ہوتا ہے۔

آج ملک کی اس حیرت انگیز دولت کے ایک چھوٹے سے حصے کی نمائندگی کرنے والی ہمارے ترجمہ نگاروں کی یہ ٹیم، ہمارے یہاں استعمال ہونے والی ہندوستانی زبانوں: آسامی، بنگالی، چھتیس گڑھی، ہندی، گجراتی، کنڑ، ملیالم، مراٹھی، اڑیہ، پنجابی، تمل، تیلگو اور اردو – ہر ایک میں سے ایک چھوٹا سا موتی ڈھونڈ کر لائی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کثرت میں وحدت، اس لسانی تنوع کی لذت سے پوری طرح محظوظ ہوں گے۔

نظیر اکبر آبادی کی یہ نظم – ’روٹیاں‘ بتا رہی ہے کہ انسان ایک روٹی حاصل کرنے کے لیے ذات پات، مذہب و مسلک، قوم و فرقہ، رنگ و نسل جیسی تمام حدوں کو توڑ دیتا ہے، جب کہ انہی کی بنیاد پر اکثر انسانوں کو لڑایا جاتا رہا ہے۔

محمد قمر تبریز کی آواز میں نظیر اکبر آبادی کی نظم، ’روٹیاں‘ سنیں




ر وٹیاں

روٹی جب آئی پیٹ میں، سَو قند گھُل گئے

گل زار پھولے آنکھوں میں، اور عیش تُل گئے

دو تر نوالے پیٹ میں جب آ کے ڈھُل گئے

چودہ طبق کے، جتنے تھے، سب بھید کھل گئے

یہ کشف، یہ کمال، دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی نہ پیٹ میں ہو ، تو پھر کچھ جتن نہ ہو

میلے کی سیر، خواہشِ باغِ چمن نہ ہو

بھوکے، غریب دل کی، خدا سے لگن نہ ہو

سچ ہے کہا کسی نے، بھوکے بھجن نہ ہو

اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں

اب جن کے آگے مال پُوے بھر کے تھال ہیں

پوری بھگت اُنھی کی، وہ صاحب کے لال ہیں

اور جن کے آگے روغنی اور شیرمال ہیں

عارف وہی ہیں اور وہی صاحب کمال ہیں

پکی پکائی اب جنھیں آتی ہیں روٹیاں

کپڑے کسی کے لال ہیں، روٹی کے واسطے

لمبے کسی کے بال ہیں، روٹی کے واسطے

باندھے کوئی رومال ہیں، روٹی کے واسطے

سب کشف اور کمال ہیں، روٹی کے واسطے

جتنے ہیں روپ، سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی سے ناچے پیادہ، قواعد دِکھا دِکھا

اَسوار ناچے، گھوڑے کو کاوا لگا لگا

گھنگھرو کو باندھے پَیک بھی پھرتا ہے ناچتا

اور اِس سوا، جو غور سے دیکھا تو جا بہ جا

سَو سَو طرح کے ناچ دکھاتی ہیں روٹیاں

دُنیا میں اب بدی نہ کہیں اور نکوئی ہے

نا دشمنی و دوستی، نا تُند خوئی ہے

کوئی کسی کا، اور کسی کا نہ کوئی ہے

سب کوئی ہے اُسی کا کہ جس ہاتھ ڈوئی ہے

نوکر، نفر، غلام، بناتی ہیں روٹیاں

روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر

روکھی بھی روٹی، حق میں ہمارے ہے شہد و شیر

یا پَتلی ہو وے، موٹی، خمیری ہو، یا فطیر

گیہوں کی، جوار، باجرے کی، جیسی ہو نظیرؔ

ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں

جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں

پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں

آنکھیں پری رُخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں

سینے اُپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں

جتنے مزے ہیں، سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہو بھرا

کرتا پھرے ہے کیا وہ اُچھل کود جا بہ جا

دیوار پھاند کر، کوئی کوٹھا اُچھل گیا

ٹھٹھّا، ہنسی، شراب، صنم، ساقی، اس سِوا

سَو سَو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں

جس جا پہ ہانڈی، چولھا، توا اور تنور ہے

خالق کی قدرتوں کا اسی جا ظہور ہے

چولھے کے آگے آنچ جو جلتی حضور ہے

جتنے ہیں نور، سب میں یہی خاص نور ہے

اِس نور کے سبب، نظر آتی ہیں روٹیاں

آوے توے، تنور کا جس جا زباں پہ نام

یا چکّی چولھے کا جہاں گُل زار ہو تمام

واں سر جھکا کے کیجیے دنڈوَت اور سلام

اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام

پہلے اِنھی مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں

اِن روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں پُور پُور

آٹا نہیں ہے، چھلنی سے چَھن چَھن گرے ہے نور

پیڑا ہر ایک اُس کا ہے برفی و موتی چور

ہرگز کسی طرح نہ بُجھے پیٹ کا تنور

اِس آگ کو مگر یہ بُجھاتی ہیں روٹیاں

پوچھا کسی نے یہ، کسی کامل فقیر سے

’’یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے؟‘‘

وہ سُن کے بولا، ’’بابا! خدا تجھ کو خیر دے

ہم تو نہ چاند سمجھیں، نہ سورج ہیں جانتے

بابا! ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں‘‘

پھر پوچھا اُس نے ’’کہیے، یہ ہے دل کا نور کیا؟

اِس کے مشاہدے میں ہے کُھلتا ظہور کیا؟‘‘

وہ بولا سُن کے ’’تیرا گیا ہے شعور کیا!

کشف القلوب اور یہ، کشف القبور کیا؟

جتنے ہیں کشف، سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں‘‘

شاعر: نظیر اکبر آبادی

ماخذ: https://www.rekhta.org/nazms/rotiyaan-nazeer-akbarabadi-nazms?lang=ur

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez