مئی کے آخر میں، نکھیرپا گڈّیَپّا نے اپنے کوکون کی اچھی قیمت پانے کی امید میں ہویری تعلقہ سے رام نگر بازار تک کا سفر کیا۔ ۳۷۰ کلومیٹر کا یہ سفر انہوں نے بنا رکے ۱۱ گھنٹے میں پوری کیا۔ لیکن رات کے وقت ٹیمپو کے ذریعے سفر کرنے سے انہیں ڈر بھی لگ رہا تھا۔ دوسری طرف، سڑک کے کنارے کھانے کی سبھی دکانیں لاک ڈاؤن کے سبب بند تھیں۔ اوپر سے یہ تشویش کہ اگر کوکون کی قیمت کم ملی، تب کیا ہوگا؟

ہویری ضلع کے اپنے گاؤں، ہنڈِگنور لوٹتے وقت ان کی امیدوں پر پانی پھر چکا تھا – اور خوف سچائی میں بدل گیا تھا۔ انہوں نے اپنے کل ۲۵۰ کلوگرام کوکون کو صرف ۶۷۵۰۰ روپے – یا ۲۷۰ روپے فی کلو – میں فروخت کیا تھا۔

مارچ کی ابتدا میں، شادی کے سیزن میں کافی زیادہ مانگ ہونے کی وجہ سے بائی وولٹین کوکون تقریباً ۵۵۰ روپے فی کلو اور کراس بریڈ کوکون اوسطاً ۴۸۰ روپے فی کلو فروخت ہو رہا تھا۔ دیگر موسموں میں، بائی وولٹین سلک کوکون کی اوسط قیمت ۴۵۰-۵۰۰ روپے اور کراس بریڈ سلک کوکون کی ۳۸۰-۴۲۰ روپے فی کلو ہوتی ہے۔ (بائی وولٹین سفید رنگ کا سب سے معیاری کوکون ہوتا ہے؛ کراس بریڈ کوکون پیلے رنگ کے ہوتے ہیں جنہیں سخت ادنیٰ معیار والے اور بائی وولٹین کے بقیہ جات کو ملاکر تیار کیا جاتا ہے۔)

’’میں نے کوکون کی پیداوار کے لیے اپنی آبائی زمین پر [۲۰۱۴ میں] شہتوت لگانا شروع کیا تھا۔ اب، ہم انہیں معمولی قیمتوں پر بیچنے کے لیے مجبور ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا قرض کیسے چکاؤں گا،‘‘ ۴۲ سالہ گڈیپّا کہتے ہیں۔

سال ۲۰۱۴ تک، گڈیپّا کرناٹک کے ہویری ضلع میں کھیتوں پر کام کرکے ۱۵۰-۱۷۰ روپے یومیہ مزدوری پاتے تھے۔ ان کی ۱۰ رکنی فیملی خود کے استعمال اور بازار میں فروخت کرنے کے لیے اپنی تین ایکڑ زمین پر عام طور سے جوار اور مونگ پھلی کی کھیتی کرتی تھی۔ سال ۲۰۱۶ میں، گڈیپا نے جوار اور مونگ پھیلی اُگانے کے لیے مزید پانچ ایکڑ زمین بٹائی پر لے لی، جب کہ باقی زمین پر شہتوت لگا دیے – اس امید میں کہ اس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔

گڈیپا اور دیگر کسان کوکون کو ہر ۳۵-۴۵ دنوں میں ایک بار – یا سال میں تقریباً ۱۰ بار بیچتے ہیں۔ چوکی (ریشم کے چھوٹے کیڑے) کو کوکون بننے میں تقریباً ۲۳ دن لگتے ہیں۔ اس بار، گڈیپا نے مئی کے پہلے ہفتہ میں کیڑے کو پالنا شروع کیا تھا۔ انہوں نے کوکون کی دیکھ بھال کرنے پر روزانہ تقریباً ۱۰ گھنٹے لگائے اور یقینی بنایا کہ نمی سے انہیں کوئی بیماری نہ ہو جائے۔ پھر مئی کے آخر میں وہ کوکون کو لیکر رام نگر بازار گئے – جہاں انہیں یہ نقصان اٹھانا پڑا۔

On the return journey to Handiganur village, silk cocoon farmer Nikhirappa Gadiyappa's hope was gone – and his fears had come true
PHOTO • Tamanna Naseer

ہنڈِگنور گاؤں لوٹتے وقت، کوکون کے کسان نکھیرپّا گڈیَپّا کی امیدوں پر پانی پھر چکا تھا – اور ان کا خوف سچائی میں بدل گیا تھا

’’میں نے مزدوری، چوکی ، کھاد، دیکھ بھال اور ٹرانسپورٹ پر تقریباً ۴۸۰۰۰ روپے خرچ کرنے کے بعد، مشکل سے ۲۰ ہزار روپے کا منافع کمایا،‘‘ فکرمند گڈیپا کہتے ہیں۔ ان کی پیشانی کی لکیروں سے فکرمندی صاف جھلک رہی تھی۔

کووڈ-۱۹ لاک ڈاؤن نے ریشم صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس نے گڈیپا جیسے کئی کسانوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، جو رام نگر کے سرکاری بازار میں آتے ہیں – یہ ایشیا کا ایسا سب سے بڑا بازار ہے۔ بازار کے ڈپٹی ڈائرکٹر، منشی بسیّا بتاتے ہیں کہ یہاں اوسطاً ۳۵-۴۰ میٹرک ٹن کوکون روز بیچے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ۲۰۱۸-۱۹ میں کوکون کی کل پیداوار، ۳۵۲۶۱ میٹرک ٹن میں سے ۳۲ فیصد حصہ کرناٹک سے آیا تھا۔ (چین کے بعد ہندوستان ریشم کی پیداوار کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔)

تقریباً ۱۱ لاکھ کی آبادی والے شہر، رام نگر کے وسیع و عریض بازار میں کرناٹک کے کسانوں کے ذریعے لائے گئے کوکون ہال میں بڑی دھات کی ٹرے میں بھرے رہتے ہیں۔ بازار ۲۴ گھنٹے کھلا رہتا ہے کیوں کہ اگلے دن کی نیلامی کے لیے کئی کسان رات میں یہاں پہنچتے ہیں۔

کاروباری گھنٹوں کے دوران، سینکڑوں سلک ریلر (کوکون سے ریشم کا دھاگہ بنانے والے)، جن میں سے زیادہ تر کرناٹک سے ہیں، کوکون کا معائنہ کرتے ہیں اور ای-نیلامی کے ذریعے بولی لگاتے ہیں۔ ریلر عام خریدار ہیں – وہ چرخے اور خودکار ریلنگ مشینوں کا استعمال کرکے کوکون سے ریشم کے دھاگے نکالتے ہیں اور اسے بنکروں کو فروخت کرتے ہیں۔

دن کی ای-نیلامی کے بعد، کسان کیش کاؤنٹر سے لین دین کا بل حاصل کرتے ہیں۔ لیکن رام نگر بازار میں مارچ کے بعد سے قیمتیں گرنے لگی ہیں۔ اگر وہ خوش قسمت رہے، تو کسی دن انہیں تھوڑا بہت منافع مل جاتا ہے، لیکن زیادہ تر دنوں میں وہ بڑا نقصان اٹھا رہے ہیں۔

ڈوڈّا بلّاپور تعلقہ کے چندر شیکھر سِدّا لِنگیّا کو اپنا بل دیکھ کر یقین نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنا ۱۶۶ کلوگرام کوکون محض ۳۲۰ روپے فی کلو میں بیچا ہے۔ ’’میں نے ان کی پیداوار پر ایک لاکھ تیس ہزار روپے خرچ کیے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میرے بھائی نے اعلیٰ معیار کے انڈے خریدے تھے، یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ہمیں اچھے کوکون ملیں گے۔‘‘ یعنی اس کی پیداواری لاگت بھی زیادہ تھی۔ دونوں بھائی چار ایکڑ زمین پر ریشم کے کیڑے پالتے ہیں۔ ’’کوئی خریدار نہیں ہے، ہمیں بہت کم قیمت پر بیچنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ ہم جیسے کسانوں کے لیے بہت بڑا نقصان ہے،‘‘ سدّا لنگیّا کہتے ہیں۔

PHOTO • Tamanna Naseer

اوپر بائیں: چندر شیکھر سدا لنگیا کم قیمت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ’دیکھئے، میرے کوکون اچھے ہیں‘، وہ رام نگر کے سرکاری بازار میں کہتے ہیں، جو ایشیا کا کوکون کا سب سے بڑا بازار ہے۔ کوکون کے انبار پلاسٹک اور دھات کی ٹرے میں رکھے جاتے ہیں، اور ریلر اور تاجر ای-نیلامی کے ذریعے ان کی بولی لگاتے ہیں

’’ہم پچھلی رات یہاں پہنچے۔ ہم ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھا پائے، ریشم بازار کے پاس کی چائے کی زیادہ تر دکانیں بھی بند ہیں،‘‘ ۵۰ سالہ کسان کہتے ہیں، جن کی تکان آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ پھر بھی، انہوں نے رام نگر میں اپنے کوکون کو بیچنے کے لیے ۹۰ کلومیٹر کا سفر کیا، کیوں کہ وہ کہتے ہیں، ’’میرے گاؤں یا مقامی بازاروں میں وہ [سلک ریلر] ایک کلو کے صرف ۲۰۰ روپے دیتے ہیں۔ میرے جیسے کسان کب تک اس طرح سے زندہ رہ پائیں گے؟‘‘

اِدھر سدا لنگیا بازار کے کاؤنٹر کی طرف چلنا شروع کرتے ہیں، اُدھر مزدور ان کے فروخت ہو چکے کوکون کو پلاسٹک کی کریٹ میں لوڈ کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس میں سے ایک مٹھی اٹھاتے ہیں: ’’دیکھئے، میرے کوکون اچھے ہیں۔ یہ سب سے معیاری پیداوار ہے۔ میں نے دسمبر میں اسی کو ۶۰۰ روپے میں فروخت کیا تھا۔‘‘ سدا لنگیا کی چھ رکنی فیملی پوری طرح سے ریشم کے کوکون سے ہونے والی کمائی پر ہی منحصر ہے۔ ’’میری بیوی اور بھائی میرے ساتھ کھیتوں پر کام کرتے ہیں۔ ہم اس کام کے لیے پانچ مزدور بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری ساری محنت برباد ہو گئی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

قیمتوں میں گراوٹ کی ایک وجہ ڈیمانڈ-سپلائی سلسلہ کا ٹوٹ جانا بھی ہے۔ بازار کے عہدیداروں اور دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی شادیاں ملتوی کر دی گئی ہیں، پروگرام ردّ ہو گئے ہیں اور کپڑے کی زیادہ تر دکانیں بند ہیں – اس لیے ریشم کی مانگ میں تیزی سے کمی آئی ہے، جس کے چلتے سلک ریلر رام نگر بازار سے غائب ہیں۔

ریلر اور بُنکر تو کم از کم ریشم کا ذخیرہ کر سکتے ہیں، لیکن کسان انتظار نہیں کر سکتے – انہیں کوکون کو وقت پر بیچنا پڑتا ہے ورنہ یہ خراب ہو جاتے ہیں۔

ریشم بنانے کی کارروائی گھر میں پالے گئے ریشم کے کیڑوں کی افزائش سے شروع ہوتی ہے۔ پھر وہ انڈے دیتے ہیں، جن سے بچے نکلتے ہیں۔ ریشم کے یہ کیڑے جب آٹھ دن کے ہو جاتے ہیں، تو انہیں کوکون کے کسانوں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ کسان یا تو چوکی مراکز پر جاتے ہیں یا ایجنٹوں کے توسط سے خریدتے ہیں – وہ ۷۵-۹۰ ہزار چھوٹے کیڑے تقریباً ۱۸۰۰-۵۰۰۰ روپے میں خریدتے ہیں، جو ان کی قسم پر منحصر ہے، کوکون کی پیداوار کے ہر ۲۳ دن کے دور کے لیے۔ (بائی وولٹین ریشم کے کیڑے کی ہر خرید کے لیے سرکار کسانوں کو ۱۰۰۰ روپے کی سبسڈی دیتی ہے۔)

کسان ریشم کے کیڑوں کو متعینہ وقفے پر شہتوت کے پتّے کھلاتے ہیں، کیڑا پالنے کے لیے خاص طور سے بنائے گئے گھروں میں چھڑکاؤ کرنے اور ہوا میں نمی رکھنے والے آلہ سے مناسب درجہ حرارت (۲۴-۲۸ ڈگری سیلسیس) اور معقول نمی (۶۵-۷۵ فیصد) بنائے رکھتے ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بانس کی پلیٹوں میں رکھے اور اخباروں سے ڈھکے کیڑے ۲۰-۲۳ تک بیماری سے دور رہیں۔ پھر، ان کے ذریعے پیدا کیے گئے کوکون کو بازار میں ریلر کو فروخت کیا جاتا ہے، جو اس سے ریشم نکالتے ہیں اور بنکروں اور تاجروں کو فروخت کرتے ہیں۔ ریشم کے کیڑے پالنے والے گھروں کی تعمیر کے لیے، کسانوں کو چھڑکاؤ کرنے اور ہوا میں نمی بنائے رکھنے والے آلات، بانس کی ٹرے اور دیگر آلات خریدنے پر پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں (جس کے لیے کئی کسان قرض لیتے ہیں)۔

لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد، چوکی پروری مراکز کو بھی ۲۵ مارچ سے ایک ہفتہ کے لیے وقتی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ کئی مراکز نے پیداوار کم کر دیا تھا اور چھوٹے کیڑوں اور انڈوں کو پھینک دیا تھا۔ لیکن، ریشم کے کیڑے چونکہ ایک متعینہ وقت میں پالے جاتے ہیں، اس لیے پیداوار دوبارہ شروع ہو گئی اور کسان لاک ڈاؤن کے دوران ان مراکز سے ریشم کے کیڑے دوبارہ خرید سکتے تھے۔

PHOTO • Tamanna Naseer

کووڈ-۱۹ لاک ڈاؤن نے ریشم صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس نے پُتّ رام دلگوڑا جیسے کوکون کے کئی کسانوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ وہ رام نگر تعلقہ کے ہری سندرا گاؤں سے رام نگر کے اس بازار میں آتے ہیں۔ نیچے بائیں: کوکون کے کسان رسید حاصل کرنے کے لیے کاؤنٹر کے باہر قطار لگاتے ہیں۔ نیچے دائیں: ۲۷ مئی، ۲۰۲۰ کو دن بھر کی کڑی محنت کے بعد آرام کرتے ہوئے

اہلکار بتاتے ہیں کہ آزادی کے بعد پہلی بار، رام نگر بازار بھی ۲۵ مارچ سے ۱ اپریل تک ایک ہفتہ کے لیے بند رہا۔ بازار جب دوبارہ کھلا، تو بائی وولٹین ریشم کی اوسط قیمت گھٹ کر ۳۳۰ روپے فی کلو اور کراس بریڈ کوکون کی ۳۱۰ روپے فی کلو ہو گئی۔ پہلے، رام نگر کا ریشم بازار عام طور پر سال میں صرف دو دن بند رہتا تھا – ایک یومِ جمہوریہ پر اور دوسرا یومِ آزادی پر۔

ملک بھر میں جب لاک ڈاؤن کی پابندیوں  کو دھیرے دھیرے کم کیا جانے لگا، تو کوکون کے کسان امید کر رہے تھے کہ قیمتوں میں دوبارہ اچھال آئے گا۔ لیکن، قیمتیں اور کم ہوتی چلی گئیں۔ مئی کے آخری ہفتہ میں، بائی وولٹین کوکون کی اوسط قیمت ۲۵۰ روپے سے بھی کم تھی، جب کہ کراس بریڈ کوکون تقریباً ۲۰۰ روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔

’’کرناٹک کے سلک ریلر ملک بھر کے بنکروں اور تاجروں کو ریشم فروخت کرتے ہیں، لیکن ان کا پہلا بازار تمل ناڈو اور آندھرا پردیش ہے،‘‘ ڈپٹی ڈائرکٹر منشی بسیا کہتے ہیں۔ ’’لیکن جب لاک ڈاؤن شروع ہوا، تو ٹرانسپورٹ کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے اب ریلر کے پاس زیادہ مقدار میں ریشم ہے اور ان کی طرف سے کوئی مانگ نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

رام نگر کے ریشم کے کیڑے پالنے والے محکمہ کے ڈپٹی ڈائرکٹر مہندر کمار جی ایم بتاتے ہیں، ’’کووڈ-۱۹ وبا سے پہلے، ریشم بازار میں روزانہ ۸۵۰-۹۰۰ ریلر نیلامی میں شریک ہوتے تھے۔ جب ۲ اپریل کو بازار دوبارہ کھلا، تب بھی ۴۵۰-۵۰۰ خریدار یہاں آتے تھے۔ مئی کے آخر میں، صرف ۲۵۰-۳۰۰ ریلروں نے کوکون خریدا۔ دریں اثنا، صرف اپریل کے ابتدائی کچھ دنوں میں ہی کسانوں کی تعداد کم ہوئی تھی، باقی دنوں میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔‘‘

کم قیمتوں کے لیے ’’ڈیمانڈ-سپلائی سبب‘‘ کے علاوہ، کمار کہتے ہیں، ’’دیگر اسباب بھی ہیں۔ سلک ریلروں کے پاس کوکون خریدنے کے لیے زیادہ رقم نہیں بچی ہے۔ بازار میں فروخت ہونے والے کوکون کا معیار خراب ہے؛ صرف پانچ فیصد کوکون اچھے ہیں۔ کوکون کے لیے نمی اچھی نہیں ہوتی۔ بارش کے دوران [جنوبی کرناٹک میں بارش ہو رہی ہے، جس سے درجہ حرارت کم ہو گیا ہے]، پیداوار کا معیار خراب ہوتا ہے۔ اسی لیے اب بہت کم ریلر ہی بازار سے ریشم کے کوکون خرید رہے ہیں۔‘‘

یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ کسانوں کو بہتر قیمتیں کب ملیں گی، ریشم کے کیڑے پالنے والے محکمہ کے اہلکار کہتے ہیں۔

اس غیر یقینیت کے دوران، کوکون کے بہت سے کسانوں کے لیے اپنے اخراجات کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس لیے بورا لنگیا بورے گوڈا اور رام کرشن بورے گوڈا، رام نگر ضلع کے چنّا پٹّن تعلقہ کے انکشن ہلّی گاؤں میں چار ایکڑ کھیت میں پھیلے اپنے شہتوت کے درختوں کو ختم کر رہے ہیں۔ انہوں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ جب تک کوکون کی قیمتیں مستحکم نہیں ہو جاتیں، وہ اس کی پیداوار سے دور رہیں گے۔

The mulberry leaves (left) fed to silkworms in cocoon farmer Ramakrishna Boregowda's rearing unit in Ankushanahalli village. With severe losses this year, he has started removing the mulberry crop from his land and plans to stop producing cocoons
PHOTO • Tamanna Naseer
The mulberry leaves (left) fed to silkworms in cocoon farmer Ramakrishna Boregowda's rearing unit in Ankushanahalli village. With severe losses this year, he has started removing the mulberry crop from his land and plans to stop producing cocoons
PHOTO • Tamanna Naseer

شہتوت کے پتّے (بائیں)، انکشن ہلّی گاؤں میں کوکون کے کسان رام کرشن بورے گوڈا کے کیڑے پالنے والے مرکز کے ریشم کے کیڑوں کو کھلائے جاتے ہیں۔ اس سال بھاری نقصان کے سبب، انہوں نے اپنے کھیت سے شہتوت کے درختوں کو اکھاڑنا شروع کر دیا اور کوکون کی پیداوار بند کرنے کا فیصلہ کیا

’’ان تمام برسوں میں ہم ایڈجسٹمینٹ کرتے رہے،‘‘ ۶۰ سالہ رام کرشن کہتے ہیں۔ ’’کبھی کبھی ہم نے کوکون کی پیداوار کے لیے پیسوں کا انتظام کرنے کے لیے کیلے اور ٹماٹر بیچے۔ کئی بار، ہم نے دیگر کھیتی کو برقرار رکھنے کے لیے کوکون فروخت کیا۔ اب، ہم بازار میں کچھ بھی نہیں فروخت کر پا رہے ہیں۔ ٹماٹر اور کیلے کھیتوں میں سڑ رہے ہیں۔ ہمارے ناریل کو بھی کوئی خریدنا نہیں چاہتا۔ میں نے زندگی بھر جدوجہد کی ہے۔ لیکن ہمیں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ اب ہمارے پاس بیچنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا ہے۔‘‘

بورا لنگیا اور رام کرشن آپس میں بھائی ہیں، جن کے پاس مشترکہ طور پر ۲۰ ایکڑ زمین ہے۔ ان برسوں میں، انہوں نے کھیتی کے لیے بینک سے ۱۷ لاکھ روپے کے تین قرض لیے ہیں۔ یہ قرض ابھی تک ادا نہیں کیے گئے ہیں۔ تین سال پہلے انہوں نے ریشم کے کیڑے پالنے کے لیے دو اکائیاں بنائی تھیں، جن پر ۸ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے؛ ریاستی حکومت نے ایک لاکھ روپے کی سبسڈی دی تھی۔ اب، ان میں سے صرف ایک اکائی میں ہی کیڑے رکھے گئے ہیں۔ ’’اس بار کوکون کی پیداوار ہونے کے بعد، ہم اسے روک دیں گے۔ اگر بازار سے پیسہ واپس نہ ملے، تو اسپرنکلر استعمال کرنے، بجلی کا خرچ برداشت کرنے اور مزدوروں کو پیسے دینے کا کیا فائدہ ہے؟ ہمارے پاس کوکون کے کام کو جاری رکھنے کے وسائل نہیں ہیں،‘‘ رام کرشن کہتے ہیں۔

ان کے شہتوت کے آدھے کھیتوں کو ابھی صاف کرنا باقی ہے۔ ’’ہم باقی پتّے اپنی گایوں کو کھلا دیں گے۔ کھیت کو صاف کرنے کے بعد، ہم ناریل لگائیں گے۔ شاید ناریل بیچنے سے ہمیں کچھ پیسے مل جائیں،‘‘ ۷۰ سالہ بورا لنگیا ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ فیملی اپنے بی پی ایل کارڈ سے خریدے گئے راشن، اور اس راگی اور سبزیوں سے کام چلا رہی ہے، جسے انہوں نے اپنے کھیت کے ایک ٹکڑے پر اگایا تھا۔

حالانکہ، کوکون کی پیداوار سے الگ ہونا، ریشم صنعت سے وابستہ کئی کسانوں کے لیے عملی متبادل نہیں ہے۔ کچھ کسان کوکون کی پیداوار جاری رکھنے کے لیے مجبور ہیں کیوں کہ وہ ایسی کوئی فصل نہیں اگاتے جس سے ان کا کام وقتی طور پر چل سکے۔

’’قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے میں ایک دن کے لیے بھی اپنا کام نہیں روک سکتا۔ میں اپنی فیملی کو کیسے کھلاؤں گا؟‘‘ گڈیپّا کہتے ہیں۔ اس بار کوکون کی پیداوار مکمل کرنے کے لیے، انہیں مزید پیسے قرض لینے ہوں گے۔ انہوں نے پہلے کے اپنے دو قرض ابھی تک واپس نہیں کیے ہیں – ان میں سے ۳ء۵ لاکھ روپے کا ایک قرض انہوں نے ۲۰۱۹ میں ۱۲ فیصد کی سالانہ شرح سود پر کوآپریٹو بینک سے، اور ۱ء۵ لاکھ روپے کا دوسرا قرض ۷ فیصد شرح سود پر وجیہ بینک سے لیا تھا۔ انہوں نے دونوں قرضے کی بنیادی رقم ابھی تک نہیں چکائی ہے۔

’’میں اب کسی دیگر قرض کے بنا جاری لاگتوں کا انتظام نہیں کر پاؤں گا۔ لیکن کوئی بھی پیسہ دینے کو تیار نہیں ہے،‘‘ گڈیپّا کہتے ہیں۔ ’’اگر میں ۱۰ ہزار روپے [فی کوکون پیداواری سائیکل] بھی کماؤں، تو ہم کم از کم ایک وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں۔ نہیں تو میری فیملی بھوکے مر جائے گی۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ مشکل ہے۔ لیکن میں کوئی نہ کوئی راستہ نکال لوں گا۔ ایک بار کورونا ختم ہو جائے، تو حالات معمول پر آ جائیں گے۔‘‘

کور فوٹو: ایم ایس رودر کمار، مانڈیا ضلع کے مدّور تعلقہ کے نرسنگن ہلّی گاؤں کے کوکون کے ایک کسان ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Tamanna Naseer

Tamanna Naseer is a freelance journalist based in Bengaluru.

Other stories by Tamanna Naseer
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez