گڈاپوری بالاراجو نے اپنے آٹورکشہ کی پچھلی سیٹ ہٹا کر اس میں تقریباً ۷۰۰ کلو تربوز لوڈ کر لیا ہے۔ یہ تربوز انہوں نے ابھی ابھی  کوپولے گاؤں کی ایک بستی، ویلیڈنڈوپاڈو کے ایک کسان سے خریدا ہے۔ یہ بستی ان کے اپنے  گاؤں، ویم پہاڑ سے ۳۰ کلومیٹر دور ہے۔

یہاں سے نکلنے کے بعد وہ نلگنڈہ ضلع کے ندامنور منڈل کے مختلف دیہاتوں میں اپنے آٹو رکشہ سے پھیری لگا کر ۱ سے ۳ کلو کے درمیان کے تربوزوں میں سے چند تربوزوں کو ۱۰ روپے فی تربوز کے حساب سے فروخت کر دیں گے۔  بالاراجو کے لیے فروخت کا یہ ایک نہایت مشکل دن ہے۔ جب وہ پھل بیچنے نہیں جاتے، تو اپنے آٹورکشہ کو مسافروں کے لیے کرایے پر بھی چلاتے ہیں۔ گاؤں والے انہیں اندر آنے دینے سے گریزاں ہیں۔ ۲۸ سالہ بالاراجو کہتے ہیں، ’’کچھ لوگ انہیں ’کورونا کایا‘ [تربوز] کہہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں مت آؤ۔ تم تربوزوں کے ساتھ وائرس بھی لا رہے ہو۔‘‘

۲۳ مارچ کے بعد جب سے تلنگانہ میں کووڈ۔۱۹ کا لاک ڈاؤن نافذ ہوا ہے، وہ تربوز فرخت کر کے بمشکل ۶۰۰ روپے یومیہ حاصل کر پاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے قبل فصل تیار ہو جانے کے کچھ ہفتوں کے اندر بالا راجو تقریباً ۱۵۰۰ روپے یومیہ کما لیتے تھے۔ تربوز کی فصل عام طور پر یہاں جنوری کے اوائل میں لگائی جاتی ہے اور دو ماہ بعد اس کی کٹائی کی جاتی ہے۔

تربوزوں کی فروخت میں آ رہی کمی اور لوگوں کے تبصروں کے مدنظر یکم اپریل کو خریدے گئے تربوزوں کی موجودہ کھیپ کو نمٹانے کے بعد بالاراجو باہر نہیں جانا چاہتے۔ بالا راجو کی طرح تربوزوں کی پیداوار اور مارکیٹنگ سے وابستہ بہت سے ایسے کسان، مزدور اور تاجر ہیں، جو کووڈ۔۱۹ بحران کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔

پھل توڑ کر ٹرک پر لوڈ کرنے والے مزدوروں کی روزی روٹی یومیہ اجرت پر چلتی ہے۔ ان مزدوروں میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔  ۷ سے ۸ خواتین مزدوروں کے ایک گروپ کو ٹرک پر ۱۰ ٹن کی لوڈنگ کے عوض ۴۰۰۰ روپے ملتے ہیں، جو یہ آپس میں مساوی طور پر تقسیم کر لیتی ہیں۔ عام طور ایک گروپ ایک دن میں دو یا کبھی کبھی تین ٹرک لوڈ کر لیتا ہے۔ بہرحال، لاک ڈاؤن کے بعد تلنگانہ کے شہروں میں پھل لے جانے والے ٹرکوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، اس لیے ان مزدوروں کی اجرت بھی کم ہو گئی ہے۔

Left: 'Some are calling it ‘corona kaya’ [melon]', says Gudapuri Balaraju, loading his autorickshaw with watermelons in Vellidandupadu hamlet. Right: The decline in the trade in watermelon, in great demand in the summers, could hit even vendors
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
Left: 'Some are calling it ‘corona kaya’ [melon]', says Gudapuri Balaraju, loading his autorickshaw with watermelons in Vellidandupadu hamlet. Right: The decline in the trade in watermelon, in great demand in the summers, could hit even vendors
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

بائیں: ویلڈینڈوپاڈو بستی میں تربوزوں کو اپنے آٹورکشہ میں لوڈ کرتے ہوئے گڈاپوری بالاراجو کہتے ہیں، ’کچھ لوگ اسے ’کورونا کایا‘ [تربوز] کہہ رہے ہیں۔‘ دائیں: گرمیوں میں تربوز کی زیادہ مانگ رہتی ہے، لیکن اس کی تجارت میں آ رہی مندی دکانداروں کو بھی متاثر کر سکتی ہے

مقامی اخباروں کی رپورٹوں کے مطابق ۲۹ مارچ کو تربوز کے صرف ۵۰ ٹرک مشرقی حیدرآباد کے کوتھاپیٹ مارکیٹ میں داخل ہوئے تھے۔ میریالا گوڈا شہر کے ایک تاجر مدھو کمار کے اندازے کے مطابق، لاک ڈاؤن سے قبل تربوز کی کٹائی کے موسم کے میں، ہر روز ۵۰۰ سے ۶۰۰ ٹرک تلنگانہ کے مختلف اضلاع، خاص طور پر نلگنڈہ اور محبوب نگر، سے کوتھاپیٹ پہنچتے تھے۔ ہر ایک ٹرک میں تقریباً ۱۰ ٹن تربوز ہوتے ہیں۔ قصبوں اور شہروں میں ہول سیل ڈیلروں کو تربوز مہیا کرانے والے کمار کہتے ہیں، ’’بہت سے ٹرک چنئی، بنگلورو اور یہاں تک کہ دہلی بھی جاتے تھے۔‘‘

لاک ڈاؤن کی وجہ سے تربوزوں کی ہول سیل قیمتیں بھی اوندھے منہ گری ہیں۔ لاک ڈاؤن سے قبل کمار نلگنڈہ ضلع کے گرومپوڈے منڈل میں واقع کوپولے گاؤں کے بڈاریڈی گوڈا بستی کے کسان بولم یادایا  سے ایک ٹن تربوز ۶۰۰۰ سے ۷۰۰۰ روپیہ فی ٹن کے حساب سے خریدتے تھے، لاک ڈاؤن کے بعد ۲۷ مارچ تک وہ کسانوں کو ۳۰۰۰ روپے فی ٹن کی پیشکش کر رہے تھے۔ اسی قیمت پر انہوں نے یادیّہ کے کھیت سے دو ٹرک تربوز خرید کر میریالاگڈا کے ایک پھل فروش کو بھیجے ہیں۔

تاہم لاک ڈاؤن کی مار کی وجہ سے ریاست میں پہلے سے ہی خسارے میں چل رہے تربوز کاشتکاروں کو مزید نقصان کا سامنا ہے۔ ایسے کسانوں میں نلگنڈہ ضلع میں واقع کنگل منڈل کے تُرکا پَلّے گاؤں کے ۲۵ سالہ بیرو گنیش بھی شامل ہیں۔

گنیش تربوز کی جس نسل کی کاشت کرتے ہیں وہ زیادہ خرچ والی ہائبرڈ نسل ہے۔ یہ موسم اور کیڑوں کی مار کے لحاظ سے انتہائی حساس ہے۔ اس کی فی ایکڑ کاشت کی لاگت (بشمول بیج، کھاد، کیڑے مارنے والی ادویات، زمین کی جوتائی، نرائی، ملچنگ وغیرہ) تقریباً ۵۰ ہزار روپے سے ۶۰ ہزار روپے تک آتی ہے۔ سال ۲۰۱۹ کے موسم گرما میں گنیش نے تقریباً ۱۰ ہزار روپے فی ٹن کے حساب سے تربوزے فروخت کرکے تقریباً ایک لاکھ ۵۰ ہزار روپے کا منافع حاصل کیا تھا۔

Left: The number of trucks taking watermelon to the cities of Telangana has reduced, so the wages of labouters who load the fruit have shrunk too. Right: Only the perfectly smooth and green melons are being picked up by traders; the others are sold at discounted rates or discarded
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
Left: The number of trucks taking watermelon to the cities of Telangana has reduced, so the wages of labouters who load the fruit have shrunk too. Right: Only the perfectly smooth and green melons are being picked up by traders; the others are sold at discounted rates or discarded
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

بائیں: تلنگانہ کے شہروں میں تربوز لے جانے والے ٹرکوں کی تعداد کم ہو گئی ہے، اس لیے ان کی لوڈنگ کرنے والے مزدوروں کی اجرت بھی کم ہو گئی ہے۔ دائیں: تاجر صرف ہموار اور سبز تربوز ہی اٹھا رہے ہیں۔ باقی ماندہ تربوزوں کو رعایتی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے یا ضائع کر دیا جاتا ہے

گنیش کو اس سال بھی گزشتہ سال کی طرح کے منافع کی امید تھی۔ انہوں نے مارچ اور جون کے درمیان تین مرحلوں میں فصل کاشت کرنے کے لیے ۹ ایکڑ زمین پٹّہ (لیز) پر لی تھی۔ خیال رہے کہ ایک ایکڑ سے عموماً ۱۵ ٹن تربوز کی پیداوار ہوتی ہے، جن میں سے اوسطاً ۱۰ ٹن بالکل سالم، ہموار، یکساں سائز اور وزن کے بے داغ تربوز ہوتے ہیں۔ یہ تربوز مادھو کمار جیسے تاجروں کے ذریعہ شہروں اور بڑے قصبوں میں بھیج دیے جاتے ہیں۔ بالاراجو (آٹورکشہ والے) جیسے جزوقتی پھل فروش باقی ماندہ تربوز کسانوں سے رعایتی نرخوں پر خرید کر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بیچتے ہیں۔

ایک ہی پلاٹ پر مسلسل دوسری بار تربوز کاشت کرنے سے اوسط پیداوار کم ہوکر ۷ ٹن تک رہ جاتی ہے اور تیسری فصل میں پیداوار میں مزید کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اگر بوائی کے ۶۰ویں اور ۶۵ویں دن کے درمیان تربوزوں کی کٹائی نہیں ہوتی، تو پھل ضرورت سے زیادہ پک جاتے ہیں۔ اور اگر کیڑے مار ادویات یا کھادوں کا صحیح مقدار اور صحیح وقت پر استعمال نہ کیا گیا تو پھل ضروری شکل، سائز اور وزن حاصل نہیں کر پاتے۔

کیڑے مار ادویات اور کھادیں دکانداروں سے صرف اسی صورت میں حاصل کی جا سکتی ہیں، جب کسان پوری قیمت نقد ادا کرے۔ تُرکا پالے گاؤں میں ۲۰۱۹ میں تربوز کی کاشت شروع کرنے والی چِنتلا یادمّا کہتی ہیں، ’’تربوز کی کاشت کے لیے کوئی بھی ان اشیاء کو ادھار میں نہیں دیتا، ہاں میٹھا لیمن اور دھان کے لیے یہ ادھار میں ضرور مل جاتی ہیں۔ وہ [تربوز میں] شامل خطرات سے واقف ہیں۔‘‘ نجی ساہوکاروں سے زیادہ سود کی شرح پر قرضوں کا حوالہ دیتے ہوئے وہ مزید کہتی ہیں، ’’کسی اور جگہ سے رقم لینا آسان ہے۔‘‘

کسانوں کا کہنا ہے کہ تربوز کی کاشت میں اضافے کی وجہ سے لاک ڈاؤن سے پہلے ہی قیمتیں گر رہی تھیں۔ ان کی شکایت ہے کہ ضرورت سے زیادہ سپلائی کی وجہ سے تاجروں کی طرف سے قیمتوں کے تعین میں سخت سودے بازی ہونے لگی ہے۔ مارچ کے اوائل میں لگائی جا رہی پہلے سے کم قیمتوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

جن کسانوں سے میری بات ہوئی، ان میں سے بہتوں نے تربوز کی کاشت کا  موازنہ جوئے سے یا ’تاش کی بازی‘ سے کیا۔ لیکن اس میں شامل خطرات کے باوجود کئی کسان ایسے بھی تھے جو اس فصل کی کاشت جاری رکھنا چاہتے تھے۔ ہر ایک نے یہ امید لگا رکھی تھی کہ اس سال کی فصل ان کے لیے فائدے کا سودا ثابت ہوگی۔

Left: Bairu Ganesh delayed harvesting his first three-acre crop by around a week – hoping for a better price. Right: The investment-heavy hybrid variety of watermelons grown in Ganesh's farm
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
Left: Bairu Ganesh delayed harvesting his first three-acre crop by around a week – hoping for a better price. Right: The investment-heavy hybrid variety of watermelons grown in Ganesh's farm
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

بائیں: بیرو گنیش نے بہتر قیمت کی امید میں اپنی تین ایکڑ کی پہلی فصل کاٹنے میں تقریباً ایک ہفتہ کی تاخیر کر دی۔ دائیں: گنیش کے کھیت میں اگائے جانے والے زیادہ لاگت والے ہائبرڈ نسل کے تربوز

گنیش نے بہتر قیمت کی امید میں اپنی تین ایکڑ کی پہلی فصل کو کاٹنے میں تقریباً ایک ہفتہ کی تاخیر کر دی۔ کئی ٹن تربوز توڑنا اور پھر انہیں صحیح طریقے سے ذخیرہ کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’[مارچ کی شروعات میں] تقریباً ایک ٹرک [۱۰ ٹن] پھل نہیں توڑے گئے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ  وہ کسی ایسے تاجر کا انتظار کر رہے تھے جو انہیں ۶۰۰۰ روپے فی ٹن سے زیادہ کی پیشکش کرے۔ اس دوران ان کے پھل زیادہ پک گئے اور ان کی قیمت اور بھی کم ہوگئی۔

مارچ کے پہلے ہفتے میں جو تاجر ان سے پھل خریدنے آیا، اس نے بہت سے تربوز خارج کر دیے۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے پھل کو خارج کرنے پر تو گنیش خاموش رہے۔ لیکن ان کے کھیت کے پھلوں کی درجہ بندی کرنے والے شخص نے جیسے ہی چوتھے پھل کو خارج کیا، تو گنیش اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکے اور اس پر ایک پتھر پھینک مارا۔

گنیش کہتے ہیں، ’’میں نے اس فصل کی دیکھ بھال ایسے کی ہے جیسے کسی بچے کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ انہیں لومڑیوں سے بچانے کے لیے پورے مہینہ میں یہاں [کھیت میں] سوتا رہا۔ وہ انہیں اس طرح کیسے پھینک سکتا ہے؟ وہ ان پھلوں کو آہستہ سے زمین پر بھی رکھ سکتا تھا۔ میں کسی اور کو کم قیمت پر بیچ دیتا۔‘‘ بادل ناخواستہ انہوں نے اپنے ’بےداغ‘ پھل اس تاجر کو بیچے، اور ’باقی ماندہ‘ بالاراجو جیسے خونچہ فروش کو بیچ دیا۔

یہ سب کچھ کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن سے پہلے ہوا تھا۔

’’اس سال نلگنڈہ میں تقریباً ۵۰۰۰ ایکڑ زمیں پر [تربوزوں کی] کاشت کی جائے گی،‘‘ ایک بیج کمپنی کے سیلزمین شنکر نے مارچ کے پہلے ہفتے میں ویلیڈنڈوپاڈو بستی میں مجھ سے بات چیت کرتے ہوئے تخمینہ لگایا تھا۔ اگر اب بھی قیمت اسی طرح ۳۰۰۰ روپے فی ٹن رہی، یعنی جس رقم پر مدھو کمار نے بڈاریڈی گوڈا بستی میں بولم یادیّہ سے پھل خریدا تھا، تو تربوز کی کاشت کرنے والے نئے کسانوں کو فی ایکڑ تقریباً ۲۰ ہزار روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اپنی تین ایکڑ کی پہلی فصل میں گنیش کو کم از کم ۳۰ ہزار روپے کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گنیش اور ان جیسے دوسرے کسانوں کی حالت اور زیادہ نازک ہو گئی ہے۔ وہ بہتر قیمت کے لیے مول تول کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

Left: Chintala Yadamma and her husband Chintala Peddulu with their watermelon crop. Right: 'How can I leave it now? I have invested Rs. 150,000 so far', says Bommu Saidulu, who was spraying insecticide in his three-acre crop when I met him
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
Left: Chintala Yadamma and her husband Chintala Peddulu with their watermelon crop. Right: 'How can I leave it now? I have invested Rs. 150,000 so far', says Bommu Saidulu, who was spraying insecticide in his three-acre crop when I met him
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

بائیں: چِنتلا یادمّا اور ان کے شوہر چنتلا پیدولو اپنی تربوز کی فصل کے ساتھ۔ دائییں: بومو سیدولو کہتے ہیں، ’اب میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ میں نے اب تک اس میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔‘ جب میں سیدولو سے ملا تھا تو وہ اپنی تین ایکڑ کی فصل میں کیڑے مارنے والی دوا چھڑک رہے تھے

اس پر طرہ یہ کہ اس تجارت میں شامل تاجر بعض اوقات پھلوں کو بازار میں فروخت کرنے کے بعد ہی کسانوں کو رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ تاخیر سے ادائیگیوں کا یہ رواج لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران زیادہ وسیع ہوا ہے، جس کی وجہ سے غیر یقینی کی صورت حال میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ان سب کے باوجود کچھ کسانوں کو امید ہے کہ کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن اور مختلف رکاوٹوں کے باوجود گرمی کے مہینوں میں تربوزوں کی مانگ کے ساتھ ساتھ قیمت میں بھی بتدریج اضافہ ہوگا۔

اخراجات کو کم کرنے کی کوشش میں بہت سارے کسانوں نے اپنے کھیتوں میں کھاد ڈالنا بند کر دیا ہے۔ تربوزوں کو باقاعدگی سے کھاد کی ضرورت ہوتی ہے- لیکن وہ کیڑے مار دوا کے چھڑکاؤ اور فصل کو پانی دینے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، اس امید میں کہ کم  مقدار میں ہی سہی ’نامکمل‘ پھل کی پیداوار ہی ہاتھ لگ جائے۔

سفری پابندیوں اور ڈیلروں تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر کچھ کسان اپنی ضرورت کے مطابق کھاد اور کیڑے مارنے کی  دوا نہیں خرید سکتے۔ حالانکہ وزارت داخلہ نے کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے اپنے رہنما خطوط کے پہلے اور دوسرے ضمیمے (۲۵ مارچ اور ۲۷ مارچ) میں بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات فروخت کرنے والی دکانوں کو ان پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔

۲۸ مارچ کو جب میں بومو سیدولو سے ملا تھا تو وہ اپنی تین ایکڑ فصل پر کیڑے مارنے کی دوا کا چھڑکاؤ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اب میں فصل کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ میں اس میں اب تک ڈیڑھ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کر چکا ہوں۔‘‘

گنیش بھی، اپریل کے آخر میں اپنے دوسرے پلاٹ کی فصل کاٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے بوائی کے لیے تیسرا پلاٹ تیار کر لیا ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Harinath Rao Nagulavancha

Harinath Rao Nagulavancha is a citrus farmer and an independent journalist based in Nalgonda, Telangana.

Other stories by Harinath Rao Nagulavancha
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam