کلیاسیری کے پاس واقع پارَسِّنی کڑاؤ ایک انوکھا مندر ہے۔ یہ سبھی ذاتوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ یہاں کے پجاری پس ماندہ برادریوں سے ہیں۔ اس کے دیوتا، موتھپن کو ’غریبوں کا بھگوان‘ کہا جاتا ہے۔ انہیں پرساد کے طور پر تاڑی اور گوشت بھی چڑھایا جاتا ہے۔ کئی مندروں میں کانسی (پیتل) کے کتّوں کو وہاں رکھی مورتیوں میں نہیں شمار کیا جاتا۔ لیکن، کیرالہ کے کنّور ضلع میں واقع اس مندر میں ایسا کیا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ موتھپن شکاریوں کے بھگوان ہیں۔

۱۹۳۰ کی دہائی میں، موتھپن شکار کے بھی دیوتا تھے۔ خاص کر بایاں محاذ سے وابستہ ان قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کے لیے جو انگریزوں سے چھپتے پھر رہے تھے۔ کے پی آر رائے رپّن بتاتے ہیں، ’’یہاں کے جنمیوں (زمینداروں) کے خلاف لڑائی تک میں اس مندر نے ہمارے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔‘‘ وہ اس پورے علاقے میں ۱۹۴۷ اور اس کے بعد لڑی جانے والی سبھی لڑائیوں میں سرگرم تھے۔ ’’آزادی کی لڑائی کے دوران بایاں محاذ کے زیادہ تر بڑے لیڈروں نے کبھی نہ کبھی اس مندر میں پناہ ضرور لی تھی۔‘‘

بھگوان کو ماننے والے اور اس کے منکر کے درمیان اس انوکھے اتحاد کی منطقی بنیاد تھی۔ ذات کی بنیاد پر دونوں میں گہرا تعلق تھا۔ دونوں ہی اونچی ذاتوں کے مظالم کے خلاف تھے۔ دونوں کو زمینداروں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور، اس زمانے کی زبردست قوم پرستی کے ماحول میں، ہر شخص انگریزوں کے خلاف تھا۔

رائے رَپّن بتاتے ہیں، ’’یہاں کا ایک بڑا جنمی اس مندر پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ مندر کی موٹی آمدنی پر اس کی بری نظر تھی۔‘‘ اس پر آسانی سے یقین کیا جا سکتا ہے۔ موتھپن مندر آج بھی ۴  ہزار لوگوں کو روزانہ اور ۶ ہزار لوگوں کو ہفتہ کے آخری دنوں میں کھانا کھلاتا ہے۔ وہ اس علاقے کے سبھی اسکولی بچوں کو ہر دن کھانا کھلاتا ہے۔

مندر نے ۳۰ اور ۴۰ کی دہائی میں اُنہیں پناہ دیکر ایک بڑا خطرہ مول لیا تھا۔ لیکن، کلیاسیری اور اس کے پڑوس میں رہنے والے لوگ انوکھے ہیں۔ ان کی سیاسی سمجھ کافی پرانی ہے۔ مثال کے طور پر، پَپّی نیسری کی کپڑا مل کو ہی لے لیجیے، جہاں آس پاس کے گاؤوں کے لوگ کام کرتے تھے۔ یہاں ۴۰ کی دہائی میں انگریزوں کے خلاف لمبی لڑائی چلی تھی۔ ۱۹۴۶ میں ہونے والی ایک ہڑتال تو ۱۰۰ دنوں تک چلی تھی۔ یہ تب ہوا تھا، جب کیرالہ کے اس گاؤں کے لوگوں نے بامبے میں رائل انڈین نیوی کی بغاوت کو اپنی حمایت دیتے ہوئے یہاں ہڑتال کر دی تھی۔

۸۱ سال کی پایندن یشودا کہتی ہیں، ’’اس علاقے میں ایک سال تک دفعہ ۱۴۴ (جس کے تحت لوگوں کا مجمع کسی ایک جگہ اکٹھا نہیں ہو سکتا) نافذ رہی۔ اس کے باوجود ہم لوگ سرگرم تھے۔‘‘ ۳۰ کی دہائی اور اس کے بعد، یشودا ٹیچروں کی اس تحریک کی لیڈر بن گئیں، جس نے مالابار کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

کس چیز نے یہاں کی لڑائی کو دوسری جگہوں کی لڑائی سے الگ بنایا؟ یشودا کہتی ہیں، ’’ہم منظم تھے۔ ہم نے سیاسی طریقے سے کام کیا۔ ہمارا مقصد واضح تھا۔ لوگ پوری طرح بیدار تھے اور تحریک میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ ہم قومی تحریک میں شامل تھے۔ ہم سماجی اصلاح اور ذات پات کے خلاف بھی مہم چھیڑے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ، زمین کو لیکر بھی لڑائی چل رہی تھی۔ سب کچھ ایک دوسرے سے جڑا ہوا تھا۔‘‘

کلیاسیری اور اس کے پڑوسی گاؤوں نے اپنی آزادی کے ۵۰ سالوں کا اچھا استعمال کیا ہے۔ یہاں تقریباً سو فیصد خواندگی ہے اور ہر بچہ اسکول جاتا ہے۔ کچھ دوسری چیزیں بھی یہاں ایسی ہیں جن کا موازنہ مغربی معاشروں سے کیا جا سکتا ہے۔ یشودا ان سب کو منظم عوامی سیاسی سرگرمی کا نتیجہ مانتی ہیں۔

لیکن یہ کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی نہیں ہے؟ خاص کر، منظم سیاسی تحریکوں کا رول؟ آخر، کیرالہ میں تو پہلے بھی شرحِ خواندگی اونچی تھی۔ یشودا، جو اپنے تعلقہ کی پہلی خاتون ٹیچر تھیں، اس سے انکار کرتی ہیں۔ ’’۱۹۳۰ کی دہائی میں، مالابار میں شرحِ خواندگی تقریباً ۸ فیصد تھی۔ تراونکور میں یہ ۴۰ فیصد تھی۔ ہم نے یہ کامیابی اصل میں اپنی کوششوں سے حاصل کی ہے۔‘‘

اس لحاظ سے دیکھیں تو، مالابار ہندوستان کا ایک انوکھا معاملہ ہے۔ علاقائی فرق دراصل مختصر مدت میں کم ہوا ہے۔ تراونکور اور کوچین میں تو یہ فرق دوسرے معنوں میں بھی رہا۔ رائے رپن کہتے ہیں، ’’ہماری منظم سیاسی سرگرمی نے یہ تبدیلی پیدا کی۔ ۱۹۵۰ اور ۶۰ کی دہائی میں اصلاح اراضی کو لیکر جو تحریکیں چلیں، اس نے ذات پات سمیت کئی ڈھانچوں کو اکھاڑ پھینکا۔‘‘ تعلیم اور طبی سہولیات میں تیزی سے بہتری آئی۔ سال ۱۹۲۸ میں، کلیاسیری میں صرف ۲۴ کنبوں کے پاس ۴۳ فیصد زمینیں تھیں۔ آج، صرف ۱۳ کنبوں کے پاس پانچ ایکڑ سے زیادہ زمین ہے۔ اس کے علاوہ، کل زمین میں ان کا حصہ صرف چھ فیصد ہے۔

کلیاسیری کے لوگوں کے کھانے پینے میں بھی کافی بہتری آئی ہے۔ یہاں دودھ اور گوشت کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں کے مزدور مرد و عورت جس طرح کپڑے پہنتے ہیں، اسے دیکھ کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مزدور ہیں۔

۱۹۸۰ کی دہائی میں ریاست میں بڑے پیمانے پر خواندگی کی مہم سے اور بھی فائدے ہوئے۔ ’کیرالہ سستر ساہتیہ پریشد‘ جیسی تنظیموں کی کوششوں نے نئے دروازے کھولے۔ ان تمام کے آپسی تعلقات نے، جیسا کہ وہ پہلے بھی تھے، علاقے کی سیاسی روایات کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کی۔ مالابار، کلیاسیری سمیت، دوسرے معنوں میں بھی پہل کرنے والا علاقہ ثابت ہوا۔

کنّور کے کرشنا مینن کالج میں لکچرر، موہن داس بتاتے ہیں، ’’کلیاسیری ۳۰ اور ۴۰ کی دہائی کے آخر میں ہی تجربات کے دور سے گزر رہا تھا۔ یہاں پروڈیوسر اور کنزیومر کوآپریٹو کی شروعات ہوئی۔ ان کی وجہ سے مناسب قیمتوں والی دکانوں کو حوصلہ ملا، جو بہت بعد میں کھلیں۔‘‘

’’یہ سب قحط اور فاقہ کشی کے دور میں ہوا۔ کسانوں کے اناج پر جنمیوں کا مطالبہ بڑھتا جا رہا تھا۔ شاید جنمیوں کو خود بھی انگریزوں کے ذریعے اس معاملے میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ پہلے، قحط کے دنوں میں کسانوں سے کم اناج وصول کیے جاتے تھے۔ لیکن، ۴۰ کی دہائی میں یہ روایت ختم ہو گئی۔‘‘

دسمبر ۱۹۴۶ میں ایک بڑا بحران آیا، ریٹائرڈ ٹیچر اگنی شرمن نمبودری بتاتے ہیں، ’’ جنمیوں نے جب کریویلور گاؤں میں اناج پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، تو وہاں کے لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران وہاں فائرنگ ہوئی، جس میں دو لوگ مارے گئے۔ وہاں دہشت پھیل چکی تھی۔ لیکن اس نے جنمیوں کے خلاف چنگاری کو ہوا دے دی۔‘‘ اسی کی وجہ سے یہاں اصلاح اراضی کی تحریک کامیاب رہی۔

آج، کلیاسیری کی کامیابی کے ساتھ ساتھ خطرناک مسائل بھی ہیں۔ رائے رپّن کہتے ہیں، ’’زراعت تباہ ہو چکی ہے۔ پیداوار کم ہو رہی ہے۔ زرعی مزدوروں کو اب کام کم ملتا ہے۔‘‘

موہن داس کے مطابق، ’’دھان کے کھیتوں کو مکان بنانے اور نقدی فصل میں تبدیل کرنے سے بھاری تباہی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، جنمی کے ہی ایک بڑے کھیت کو لے لیجیے۔ کلیاسیری کا تقریباً ۵۰ فیصد دھان اسی کھیت پر اُگایا جاتا تھا۔ اب اس پر مکان اور نقدی فصلیں ہیں۔ اس تباہی کو لیکر لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے۔ لیکن کافی نقصان پہلے ہی ہو چکا ہے۔‘‘

بے روزگاری پھیلی ہوئی ہے۔ اور کام کاج میں عورتوں کی شراکت داری کی شرح، جیسا کہ ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے، مردوں کے مقابلے آدھے سے بھی کم ہے۔ مزدور طبقہ کی تقریباً ۵۰ فیصد عورتیں بے روزگار ہیں۔ عورتیں زیادہ تر کم ہنر مندی والے کام کرتی ہیں۔ اور اس میں بھی، وہ مردوں سے کم ہی کما پاتی ہیں۔

یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں کسی قسم کی مایوسی نظر نہیں آتی ہے۔ اگر کیرالہ کے پنچایتی راج کے تجرے کو دیکھیں تو، کلیاسیری میں ایک مثالی پنچایت ہے۔ ریاست کی ۹۰۰ سے زیادہ پنچایتوں کی طرح ہی، اس نے بھی اپنا خود کا ترقیاتی منصوبہ تیار کیا ہے۔ اسے خود یہاں کے لوگوں کے ذریعے جمع کیے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ زیادہ تر سرگرمیاں مقامی ذرائع اور رضاکارانہ مزدوری پر منحصر ہیں۔ رائے رپن بتاتے ہیں، ’’یہاں کے لوگوں نے کئی دوسرے کاموں کے علاوہ اس پنچایت میں ۶۲ کلومیٹر لمبی سڑک بھی بنائی ہے۔‘‘

گرام سبھا کی میٹنگوں میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور اپنی بات کھل کر رکھتے ہیں۔ اور، تقریباً ۱۲۰۰ رضاکاروں کی فوج نے کلیاسیری کو ایک اور نیا مقام عطا کیا ہے: یہ ملک کی پہلی پنچایت تھی، جس نے پیپلز رِسورس میپنگ پروگرام کو اپنایا۔ گاؤں کی قدرتی اور انسانی وسائل سے متعلق صورتحال کی صحیح تصویر مقامی لوگوں کے ذریعے سامنے آئی، جس میں باہر سے ماہرین نے ان کی مدد کی۔ گاؤں کے منصوبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے پروجیکٹوں کے ماحولیاتی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔

ریٹائرڈ لوگوں – انجینئروں، سرکاری اہلکاروں کی ایک ’رضاکارانہ تکنیکی ٹکڑی‘ (وی ٹی سی) ان پروجیکٹوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس وقت پوری ریاست میں وی ٹی سی ممبران کی تعداد ۵ ہزار سے زیادہ ہے۔

چیلنجز بڑے ہیں۔ اور گاؤں کے زیادہ تر مسائل کی جڑیں اس کی سرحد کے باہر پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن کلیاسیری کو خود پر مکمل اعتماد ہے۔ جیسا کہ رائے رپّن کہتے ہیں: ’’ہم نے لڑنا کبھی نہیں چھوڑا۔‘‘

۱۹۴۷ کے بعد بھی نہیں۔

تصاویر: پی سائی ناتھ

یہ اسٹوری سب سے پہلے ٹائمز آف انڈیا کے ۲۹ اگست، ۱۹۹۷ کے شمارہ میں شائع ہوئی۔

تصاویر: پی سائی ناتھ

اس سیریز کی دیگر کہانیاں:

جب ’سالیہان‘ نے برطانوی حکومت سے لوہا لیا

پَنی مارہ کے آزادی کے پیدل سپاہی – ۱

پَنی مارہ کے آزادی کے پیدل سپاہی – ۲

لکشمی پانڈا کی آخری لڑائی

عدم تشدد اور ستیہ گرہ کی شاندار نَو دہائیاں

شیرپور: جن کی قربانیاں فراموش کر دی گئیں

گوداوری: اور پولیس کو اب بھی حملے کا انتظار ہے

سوناکھن: دو بار ہوا ویر نارائن کا قتل

کَلِّیاسِّیری: سومُکن کی تلاش میں

کلیا سیری کے قریب واقع پارسِّنی کڑاوو  کے مندر نے ۳۰ اور ۴۰ کی دہائی میں انگریزوں کے چنگل سے بچنے کے لیے چھپتے پھر رہے قوم پرستوں کو اپنے یہاں پناہ دی تھی۔ یہاں پر رکھی گئی مورتیوں میں شکاریوں کے دیوتا، بھگوان موتھپن، اور کانسی کے بنے کتّے شامل ہیں

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez