انہوں نے گہری نظر سے دیکھا اور سخت لہجے میں پوچھا، ’’ارے! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘

مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ندی کے جس کنارے پر میری انیرودھ سے ملاقات ہوئی ہے وہاں زیادہ لوگ نہیں جاتے۔

انیرودھ سنگھ پاتر، ندی میں اترتے ہوئے اچانک رکے اور مڑ کر مجھے وارننگ دی: ’’لوگ اُس جگہ پر لاشوں کو جلاتے ہیں۔ کل ہی کسی کی موت ہوئی تھی۔ چلو، وہاں کھڑے مت رہو۔ میرے پیچھے آؤ!‘‘

مجھے لگا کہ وہ صحیح تو کہہ رہے ہیں۔ مُردوں کو ان کے ذریعے حاصل کردہ سکونت میں آرام کرنے دینے میں ہی بھلائی ہے۔

میں نے انہیں مغربی بنگال کے پرولیا ضلع میں کنگسابتی ندی کے کنارے کی دو میٹر اونچی جگہ سے نیچے اتر کر، گھٹنے تک گہرے پانی میں احتیاط سے داخل ہوتے دیکھا۔ ان کے ساتھ قدم ملانے کی پوری کوشش کرتے ہوئے، میں بھی تیزی سے کنارے پر پہنچ گئی۔

ان کی چستی دیکھ کر ان کی عمر کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ میں اُس ۵۰ سالہ شخص سے پوچھنے سے خود کو نہیں روک سکی، ’’کاکا، آپ ندی میں کیا کر رہے ہیں؟‘‘

کمر میں بندھی ایک سفید پوٹلی کو ڈھیلا کرتے ہوئے، انیرودھ نے احتیاط سے ایک جھینگے کو باہر نکالا اور بچوں جیسے جوش کے ساتھ کہا، ’’ چنگری [جھینگا] دکھائی دے رہا ہے؟ آج دوپہر کے کھانے میں ہم [وہ اور ان کی فیملی] یہی کھائیں گے۔ شُکنو لونکا اور روسون کے ساتھ تلنے کے بعد، یہ جھینگے گوروم بھات کے ساتھ بہت اچھے لگتے ہیں۔‘‘ جھینگے کو سوکھی لال مرچ اور لہسن کے ساتھ پکایا جاتا ہے، اور گرما گرم چاول میں ملا کر کھایا جاتا ہے – سننے میں ہی ذائقہ دار لگ رہا ہے۔

Anirudhdha Singh Patar with his catch of prawns, which he stores in a waist pouch made of cloth
PHOTO • Smita Khator

انیرودھ سنگھ پاتر پکڑے ہوئے جھینگوں کو اپنی کمر میں بندھی سفید کپڑے کی پوٹلی میں رکھتے ہیں

بغیر جال کے مچھلی اور جھینگے پکڑنے والے آدمی نے پوری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔ انہوں نے بتایا، ’’میں نے کبھی جال کا استعمال نہیں کیا۔ میں ہاتھوں سے ہی مچھلی پکڑتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ [مچھلیاں] کہاں چھپی رہتی ہیں۔‘‘ ندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے آگے کہا، ’’پتھروں کے یہ کنارے، اور ندی کے اندر پانی میں بیٹھے وہ گھاس پھوس اور کائی نظر آ رہے ہیں؟ چنگری یہیں رہتے ہیں۔‘‘

میں نے ندی میں جھانک کر دیکھا، تو مجھے گھاس پھوس اور کائی میں چھپے جھینگے نظر آ گئے، جن کے بارے میں انیرودھ بات کر رہے تھے۔

جب ہم دوبارہ ان کے دوپہر کے کھانے کے بارے میں بات کر رہے تھے، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ کھانے کے لیے وہ چاول کا انتظام کہاں سے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر میں اپنی چھوٹی سی زمین پر کڑی محنت کرکے دھان کی کھیتی کروں، تو اپنی فیملی کی ایک سال کی خوراک کے لیے، کسی طرح کافی چاول کا انتظام کر لیتا ہوں۔‘‘

پرولیا کے پونچا بلاک کے کوئیرا گاؤں میں رہنے والی یہ فیملی، مغربی بنگال کی درج فہرست ذات، بھومج سے تعلق رکھتی ہے۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، گاؤں کی کل ۲۲۴۹ لوگوں کی آبادی میں سے آدھی سے زیادہ آبادی آدیواسیوں کی ہے۔ ان کا معاش اور کھانا، دونوں ندی پر منحصر ہے۔

انیرودھ جتنی بھی مچھلی پکڑتے ہیں، وہ انہیں بیچتے نہیں ہیں۔ یہ مچھلیاں ان کی فیملی کا خوراک ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مچھلی پکڑنا ان کے لیے کام نہیں ہے؛ اس میں انہیں مزہ آتا ہے۔ لیکن، ان کی آواز سے اداسی جھلکنے لگتی ہے، جب وہ بتاتے ہیں، ’’مجھے روزی روٹی حاصل کرنے کے لیے دور دیش جانا پڑتا ہے۔‘‘ کام کی تلاش میں وہ مہاراشٹر اور اتر پردیش مہاجرت کرتے ہیں، جہاں وہ بنیادی طور پر تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتے ہیں یا کوئی دوسرا کام پکڑ لیتے ہیں۔

سال ۲۰۲۰ کے کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران، وہ ناگپور میں پھنس گئے تھے۔ اُس دور کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ’’میں ایک بلڈنگ کی تعمیر کے لیے، ٹھیکہ دار کے ساتھ وہاں گیا تھا۔ ان دنوں میں گزارہ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ایک سال پہلے میں وہاں سے لوٹ آیا، اور اب طے کیا ہے کہ واپس نہیں جاؤں گا، کیوں کہ میری عمر ہو چلی ہے۔‘‘

کوئیرا کے ۴۰ سالہ رہائشی، امل مہتو پیشہ سے ٹیچر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پرولیا ضلع کے مرد کام کی تلاش میں مہاراشٹر، اتر پردیش، کیرالہ، اور تمام دوسری ریاستوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ بنگال کے اندر بھی یہاں وہاں مہاجرت کرتے ہیں۔ پہلے ایک مقامی اخبار کے لیے بطور رپورٹر کام کر چکے امل بتاتے ہیں کہ لوگ کھیتی کی لاگت کو برداشت کرنے کے لیے جو قرض لیتے ہیں، اسے چُکانے کی خاطر مہاجرت کرنے کو مجبور ہوتے ہیں۔ امل کے مطابق، مردوں کے گھر پر نہ رہنے کی صورت میں، گھر کی عورتیں اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے زرعی مزدوری کرتی ہیں۔ امل کہتے ہیں، ’’زمین کے بے حد چھوٹے ٹکڑوں پر مالکانہ حق رکھنے والے آدیواسی کنبوں کے لیے، یہ کسی عذاب کی طرح ہے۔ وہ مہاجنوں [ساہوکاروں] سے قرض لیتے ہیں۔‘‘

Anirudhdha pointing to places where prawns take cover in the river.
PHOTO • Smita Khator
Wading the water in search of prawns, he says, ‘My father taught me the tricks of locating and catching them with my bare hands’
PHOTO • Smita Khator

بائیں: انیرودھ ندی میں اُن جگہوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں جھینگے چھپے ہوتے ہیں۔ دائیں: جھینگے کی تلاش میں پانی میں اترتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ’میرے والد نے مجھے ہاتھ سے جھینگوں کو تلاش کرنے اور پکڑنے کے طریقے سکھائے تھے‘

انیرودھ نے کھاد اور بیج جیسی زرعی ضرورتوں کے لیے جو قرض لیا تھا، اس کی انہیں ادائیگی کرنی تھی۔ ناگپور میں، وہ سیمنٹ اور گارے کو ملانے اور بھاری سامان ڈھونے کا کام کرتے تھے، اور اس کے لیے انہیں ایک دن کا ۳۰۰ روپیہ ملتا تھا۔ لیکن، کوئیرا میں انہیں اتنی مزدوری نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا، ’’کوئی کام نہ ہونے پر ہمیں بیکار بیٹھنا پڑتا ہے۔‘‘ بوائی اور کٹائی کے سیزن میں، جب کھیتوں میں کام ملتا ہے، تو انہیں یومیہ مزدوری کے طور پر ۲۰۰ روپے یا اس سے بھی کم دیا جاتا ہے۔ ’’کبھی کبھی، جب ندیوں کی رائلٹی لینے والے لوگ یہاں [کوئیرا میں] ریت کی کھدائی کے لیے لاری لے کر آتے ہیں، تو مجھے کچھ کام مل جاتا ہے۔ ندی سے لاریوں تک ریت لے جانے کے لیے، مجھے دہاڑی کی شکل میں ۳۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔‘‘

یہاں ’رائلٹی‘ سے انیرودھ کا مطلب کنگسابتی ندی کے کنارے ریت کی کھدائی کے لیے دیے گئے پٹّہ سے ہے۔ یہاں اندھا دھند کھدائی ہوتی رہی ہے، اور لوگ اکثر ریت کی کھدائی کے گائیڈ لائنس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ سیاسی طور سے طاقتور لوگوں کی شہ پاکر، ندی کے کنارے بڑے پیمانے پر ریت کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے انیرودھ جیسے گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے لیے کچھ دنوں کی مزدوری کا انتظام ہو جاتا ہے، جنہیں اکثر معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کام غیر قانونی ہے۔

حالانکہ، انہیں ماحولیات پر اس ’’رائلٹی کاروبار‘‘ کے منفی اثرات کے بارے میں معلوم تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ’’ بشال کھوٹی نادر‘‘ تھا، یعنی ندی کے لیے بہت بڑا نقصان۔ ’’وہ اس ریت کو کھود کر لے جا رہے ہیں جسے بننے میں سالوں لگ گئے۔‘‘

انیرودھ آگے بتاتے ہیں، ’’ندی میں بہت ساری مچھلیاں ہوا کرتی تھیں، جیسے بان [ہندوستانی ماٹلڈ ایل فش ] شول [اسنیک ہیڈ مُریل]، اور مانگور [واکنگ کیٹ فش]۔ جیلے [ماہی گیر] تب مچھلی پکڑنے کے لیے جال کا استعمال کرتے تھے۔ اب وہ یہاں نہیں آتے۔ وہ یہاں سے موج کے ساتھ یا مخالف سمت میں دوسری جگہوں پر چلے گئے ہیں۔‘‘ انیرودھ وہاں ہونے والی ’’پکنک پارٹیوں‘‘ سے ناراض تھے، جب لوگ پلاسٹک، خالی بوتلوں، اور تھرموکول کی پلیٹیں پھینک کر ندی کے کناروں کو آلودہ کر رہے ہیں۔

وہ جھینگے کی تلاش میں بڑے آرام سے ندی میں ادھر سے ادھر گردش کر رہے تھے۔ انیرودھ نے کہا، ’’جب ہم بچے تھے، تب ندی میں چنگری بہت زیادہ تعداد میں تھے۔ میرے والد نے مجھے اپنے ہاتھوں سے انہیں تلاش کرنے اور پکڑنے کا ہنر سکھایا تھا۔ بابا امار براٹ ماچھو وال چھلو [میرے والد ایک بڑے ماہی گیر تھے]۔‘‘

Kangsabati river, which flows through Kaira in Puruliya's Puncha block, is a major source of food for Adivasi families in the village
PHOTO • Smita Khator

پرولیا کے پونچا بلاک میں واقع کوئیرا گاؤں سے ہو کر بہنے والی کنگسابتی ندی، گاؤں کے آدیواسی کنبوں کے لیے کھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے

ایک کے بعد ایک چنگری اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جھینگے کو صاف کرنے میں کافی محنت لگتی ہے، لیکن یہ کھانے میں کافی ذائقہ دار ہوتے ہیں۔‘‘ حالانکہ، انہوں نے آگے کہا، اب نہ تو ندی پہلے جیسی رہی اور نہ ہی چنگری۔ ’’آپ ندی کے پاس اُن کھیتوں کو دیکھ پا رہی ہیں جہاں وہ سرسوں اور دھان کی کھیتی کرتے ہیں؟ وہ فصلوں پر ہر قسم کی کھاد اور حشرہ کش کا چھڑکاؤ کرتے ہیں اور پھر ان جیری کین (پلاسٹک کے ڈبے، جن سے چھڑکاؤ کیا جاتا ہے) کو اس ندی کے پانی میں دھوتے ہیں۔ آلودہ پانی سے مچھلیوں کی موت ہو جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ چنگری نایاب ہوتے جار ہے ہیں…‘‘

کوئیرا سے ۶-۵ کلومیٹر دور واقع پرڑا گاؤں سے نادی میں نہانے آئے شوبھنکر مہتو نے انیرودھ کے الفاظ کو ہی دوہرایا۔ ’’ایک وقت تھا جب ندیاں آس پاس رہنے والے ان بے زمین، چھوٹے اور غریب آدیواسیوں کے لیے معاش کے ساتھ ساتھ پروٹین اور دیگر اہم تغذئی عناصر کا بھرپور ذریعہ ہوا کرتی تھیں – جو بحالت دیگر اناج خریدنے کی حالت میں نہیں تھے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پرولیا، ریاست کے سب سے غریب ضلعوں میں سے ایک ہے۔

سال ۲۰۲۰ کے ایک مطالعہ کے مطابق، مغربی بنگال میں پرولیا میں سب سے زیادہ غریبی ہے۔ ضلع کے ۲۶ فیصد لوگ خط افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شوبھنکر نے کہا، ’’یہاں کے کنبے کھانے کے لیے، جنگلات اور ندیوں پر منحصر ہیں۔ لیکن قدرتی سپلائی اب نایاب ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ شوبھنکر پیشہ سے ایک ٹیچر ہیں۔

جس وقت انیرودھ اور زیادہ جھینگے کی تلاش میں مصروف تھے، تب میں نے ان سے ان کی فیملی کے بارے میں پوچھا، جن کے لیے وہ اتنی کڑی محنت سے کرسٹیشنز (عموماً پانی میں رہنے والے جاندار، باہر سے جن کی کھال سخت ہوتی ہے) پکڑ رہے تھے۔ ’’میری بیوی گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں بھی کام کرتی ہے۔ میرا بیٹا بھی ہمارے کھیت میں کام کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے بچوں کے بارے میں بڑے جوش سے بتایا۔ ’’میری تینوں لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے [اور وہ دور رہتی ہیں]۔ میرے پاس ایک ہی بچہ ہے، اور میں اسے کہیں بھی [کام کرنے کے لیے] نہیں بھیجنے والا، نہ ہی میں خود اب دور دراز کی جگہوں پر کام کرنے جاؤں گا۔‘‘

انیرودھ سے وداع لیتے ہوئے، میں نے تصور میں دیکھا کہ وہ گھر پر اپنی فیملی کے ساتھ کڑی محنت سے حاصل کیے گئے کھانے کا مزہ لے رہے ہیں۔ مجھے بائبل کا وہ مصرع یاد آیا، ’’اور جہاں جہاں یہ ندی بہے گی، گروہ میں رہنے والا ہر جاندار زندہ رہے گا، اور اس کے پانی میں بہت ساری مچھلیاں ہوں گی۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Reporter : Smita Khator
smita.khator@gmail.com

Smita Khator, originally from Murshidabad district of West Bengal, is now based in Kolkata, and is Translations Editor at the People’s Archive of Rural India, as well as a Bengali translator.

Other stories by Smita Khator
Editor : Vishaka George

Vishaka George is a Bengaluru-based Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India and PARI’s Social Media Editor. She is also a member of the PARI Education team which works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Vishaka George
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez