ایک کتبہ پر درج ہے، ’’كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ‘‘ یعنی، ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ نئی دہلی کے سب سے بڑے مدفن، جدید قبرستان اہل اسلام کی زیادہ تر قبروں پر یہی الفاظ کندہ ہیں۔ یہ دراصل قرآن کی ایک آیت ہے، جو مسلمانوں کے اس قبرستان کی خاموش اور غمگین فضا کو مزید سوگوار بناتی ہے۔ اسی درمیان وہاں ایمبولینس سے ایک اور شخص کی لاش پہنچتی ہے، جس کے عزیز و اقارب اس کی نمازِ جنازہ ادا کرتے ہیں۔ جلد ہی وہ گاڑی خالی ہو جاتی ہے اور قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ پھر مشین سے قبر پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔

نئی دہلی کے بہادر شاہ ظفر مارگ پر، میڈیا ہاؤسز کی عمارتوں سے متصل اس قبرستان کے ایک کونے میں، ۶۲ سالہ نظام اختر بیٹھے ہوئے ہیں اور کتبوں پر – جنہیں وہ ’محراب‘ کہتے ہیں – مرنے والے کا نام لکھ رہے ہیں۔ اپنی انگلیوں کے درمیان پرکزہ (خطاطی کا برش) پوری نزاکت سے پکڑے ہوئے، وہ اردو کے چند حروف پر نقطہ لگا رہے ہیں۔ ابھی وہ کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے ہلاک ہونے والی ایک خاتون، ’دُردانہ‘ کا نام لکھ رہے ہیں۔

نظام دراصل، کتبوں پر خطاطی کے خوبصورت اور پیچیدہ انداز میں ناموں کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ دیگر متن کو پینٹ کر رہے ہیں۔ بعد میں ان کا ایک ساتھی ہتھوڑی اور چھینی کی مدد سے ان کے ذریعے تحریر کردہ متن کو نمایاں کرنے کے لیے اس پر کندہ کاری کرے گا – ایسا کرتے وقت وہ پینٹ غائب ہو جاتا ہے۔

بطور کاتب یا خطاط، نظام گزشتہ ۴۰ برسوں سے بھی زیادہ عرصے سے قبروں کے کتبے لکھ رہے ہیں۔ ’’مجھے یاد نہیں کہ میں نے کتنے کتبوں پر کام کیا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اس سال اپریل اور مئی میں، میں نے تقریباً ۱۵۰ لوگوں کے نام لکھے جن کی موت کووڈ کی وجہ سے ہوئی تھی، اور اتنی ہی تعداد میں ان لوگوں کے نام لکھے جن کا فطری طور پر انتقال ہوا تھا۔ میں روزانہ، تقریباً تین سے پانچ کتبے تحریر کرتا ہوں۔ پتھر کے ایک جانب لکھنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ یہ تحریر اردو میں ہوتی ہے، جب کہ دوسری جانب عام طور سے انگریزی میں متوفی کا صرف نام لکھا جاتا ہے۔ ’’یہ سیکنڈوں میں صفحہ کو پُر کرنے جیسا نہیں ہے،‘‘ ان کی باتوں کو اپنی کاپی میں نوٹ کرتے ہوئے دیکھ کر، مجھ پر ہلکا سا طنز کرتے ہوئے وہ مسکراتے ہیں۔

Left: One of the gates to the qabristan; on this side only those who died of Covid are buried. Right: Nizam Akhtar writing the names of the deceased on gravestones
PHOTO • Amir Malik
Left: One of the gates to the qabristan; on this side only those who died of Covid are buried. Right: Nizam Akhtar writing the names of the deceased on gravestones
PHOTO • Q. Naqvi

بائیں: قبرستان کا ایک دروازہ؛ اِس طرف صرف وہی لوگ دفن ہیں جن کی موت کووڈ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ دائیں: نظام اختر کتبے پر مرنے والوں کے نام لکھ رہے ہیں

وبائی مرض شروع ہونے سے پہلے، جدید قبرستان اہل اسلام میں ہر دن صرف ایک یا دو قبروں کے لیے کتبے لکھوائے جاتے تھے۔ لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر یومیہ چار سے پانچ ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ سے کام کا بوجھ ۲۰۰ فیصد بڑھ گیا ہے۔ یہ کام چار لوگ مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔ اس ہفتہ، وہ کوئی نیا آرڈر نہیں لے رہے ہیں۔ ان کے پاس پہلے سے ہی کافی کام پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے ۱۲۰ کتبوں پر صرف آدھا کام کیا ہے، جب کہ ۵۰ پر کام شروع کرنا ابھی باقی ہے۔

یہ کاروبار کافی پھل پھول رہا ہے – لیکن یہ ایسا کام ہے جس میں تیزی سے اضافہ ہونے کی وجہ سے اس کے پیشہ وروں کو اتنا ہی افسوس بھی ہو رہا ہے۔ ’’بہت سارے انسان اس دنیا سے چلے گئے، اور ان کے ساتھ انسانیت بھی۔ موت کا منظر دیکھ کر میرا دل گھنٹوں روتا ہے۔‘‘ اس قبرستان میں کام کرنے والوں کی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے محمد شمیم کہتے ہیں۔

’’جس طرح زندگی ایک سچائی ہے – کہ جو لوگ اس دنیا میں آئے ہیں، زندگی بسر کریں گے – ویسے ہی موت بھی ایک حقیقت ہے – کہ سبھی کو یہاں سے جانا ہے،‘‘ نظام کہتے ہیں۔ ’’لوگوں کے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور مجھے کتبے ملتے جا رہے ہیں،‘‘ وہ موت کے ایک فلسفی کی طرح کہتے ہیں۔ ’’لیکن ایسا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔‘‘

کام میں یہ اضافہ اس حقیقت کے باوجود دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہر کوئی کتبہ نہیں لکھواتا۔ جو لوگ اس کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے، وہ صرف لوہے کی ایک تختی پر نام لکھواکر صبر کر لیتے ہیں، جس کی قیمت کافی کم ہے۔ بہت سی قبریں ایسی بھی ہیں، جن پر کچھ نہیں لکھا ہے۔ ’’اور کچھ لوگ تدفین کے ۱۵ سے ۴۵ دنوں کے بعد کتبے لکھواتے ہیں،‘‘ نظام بتاتے ہیں۔ ’’ہم جو بھی آرڈر لیتے ہیں، اس کے لیے اُس فیملی کو کم از کم ۲۰ دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے،‘‘ ان کے ساتھ کام کرنے والے عاصم کہتے ہیں (جن کی درخواست پر ان کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے)، جو بلّب گڑھ، ضلع فرید آباد، ہریانہ کے رہنے والے ہیں۔

پچھلے سال، ۳۵ سالہ عاصم اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے کہ کورونا وائرس کا کوئی وجود ہے، لیکن اب انہیں اس پر یقین ہو چلا ہے۔ ’’لاشیں جھوٹ نہیں بولتیں۔ میں نے بہت سی لاشیں دیکھی ہیں۔ اس لیے اب اس پر یقین کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔‘‘ کچھ لوگ اپنے عزیزوں کی قبریں خود ہی کھودتے ہیں۔ ’’کئی بار زیادہ گورکن دستیاب نہیں ہوتے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

’’وبائی مرض شروع ہونے سے پہلے، اس قبرستان میں پابندی سے روزانہ تقریباً چار سے پانچ لاشیں آتی تھیں۔ یعنی ہر مہینے تقریباً ۱۵۰،‘‘ قبرستان کی نگراں کمیٹی کے ایک رکن نے ہمیں بتایا۔

Asim, Aas and Waseem (left to right) engraving the mehrab: 'Every order that we take, the family has to wait for at least 20 days'
PHOTO • Q. Naqvi
Asim, Aas and Waseem (left to right) engraving the mehrab: 'Every order that we take, the family has to wait for at least 20 days'
PHOTO • Amir Malik

عاصم اور آس (بائیں سے دائیں) محراب پر کندہ کاری کر رہے ہیں: ’ہم جو بھی آرڈر لیتے ہیں، اس کے لیے اُس فیملی کو کم از کم ۲۰ دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے‘

اس سال اپریل اور مئی میں، صرف دو مہینوں کے اندر اس قبرستان میں ۱۰۶۸ لاشیں آئیں – جن میں سے ۴۵۳ کی کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے اور ۶۱۵ کی دیگر اسباب سے موت ہوئی تھی۔ حالانکہ، یہ قبرستان کی آفیشیل تعداد ہے۔ یہاں کام کرنے والے – جو اپنا نام ظاہرنہیں کرنا چاہتے – کہتے ہیں کہ حقیقی تعداد شاید اس سے ۵۰ فیصد زیادہ ہو۔

عاصم بتاتے ہیں کہ ’’ایک خاتون اپنے ڈیڑھ سال کے بچے کے ساتھ قبرستان آئی تھیں۔ ان کے شوہر، جو ایک مہاجر اور کسی اور ریاست کے رہنے والے تھے، کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ یہاں پر اُس خاتون کا جاننے والا کوئی نہیں تھا۔ ہم نے ان کے شوہر کی تدفین کا انتظام کیا۔ بچہ اپنے والد کی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا۔‘‘ ایک مقولہ ہے کہ جب کوئی بچی مرتی ہے، تو وہ اپنے ماں باپ کے دلوں میں دفن ہو جاتی ہے۔ بچی جب اپنے والدین کی تدفین میں مدد کرے تب کیا ہوتا ہے، کیا ایسا بھی کوئی مقولہ ہے؟

عاصم اور ان کی فیملی بھی کووڈ۔۱۹ سے متاثر ہوئی تھی۔ وہ، ان کی دو بیویاں، اور ان کے والدین، سبھی میں اس کی علامتیں تھیں۔ البتہ، ان کے پانچوں بچے محفوظ رہے۔ فیملی کا کوئی بھی رکن ٹیسٹ کرانے نہیں گیا تھا – لیکن سبھی زندہ بچ گئے۔ ’’میں اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے یہاں پتھر توڑتا ہوں،‘‘ وہ کتبے پر کندہ کاری کے متعلق کہتے ہیں۔ عاصم – جو جدید قبرستان میں ۹۰۰۰ روپے ماہانہ کماتے ہیں – سینکڑوں لوگوں کی نماز جنازہ پڑھا چکے ہیں، جن میں کووڈ اور غیر کووڈ دونوں قسم کے متوفی شامل ہیں۔

عاصم کہتے ہیں، ’’میری فیملی یہاں کام کرنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کرتی ہے، کیوں کہ آخری سفر میں انسانوں کی خدمت کرنے کا بعد از مرگ بہت بڑا اجر ملے گا۔‘‘ ایسا ہی عقیدہ رکھنے والے نظام کی فیملی نے بھی یہاں آنے پر ان کی حمایت کی تھی۔ شروع میں دونوں ہی اس نوکری سے ڈرتے تھے، لیکن جلد ہی انہوں نے اپنے خوف پر قابو پا لیا۔ عاصم کہتے ہیں، ’’زمین پر جب کوئی لاش پڑی ہو، تو آپ ڈر کے بارے میں نہیں بلکہ اسے دفنانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘‘

جدید قبرستان آل اسلام میں کتبہ تیار کروانے کی اجرت ۱۵۰۰ روپے ہے۔ نظام کو اپنی کتابت کے لیے اس میں سے ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے ملتے ہیں۔ پتھر کی جس تختی پر وہ کام کرتے ہیں، وہ ۶ فٹ لمبی اور ۳ فٹ چوڑی ہوتی ہے۔ اس میں سے، ۳ فٹ لمبائی اور ڈیڑھ فٹ چوڑائی والے چار کتبے کاٹ کر نکالے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہر پتھر کے اوپری سرے کو محرابی شکل دی جاتی ہے۔ جب یہ پوری طرح تیار ہو جاتا ہے، تو اسے محراب کہتے ہیں۔ کچھ لوگ تھوڑا بہت سنگ مرمر کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ پتھر کی بجائے لوہے کے بورڈ کا استعمال کرنے والوں کو صرف ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ محراب پر ہونے والے خرچ کے تقریباً چھٹویں حصہ کے برابر ہے۔

ویڈیو دیکھیں: قبرستان کے کاتب

ہر آرڈر لینے کے بعد، نظام اُس فیملی کے کسی رکن سے ایک کاغذ پر تمام ضروری تفصیلات صاف صاف لکھنے کے لیے کہتے ہیں۔ اس میں متوفی کا نام، شوہر یا والد کا نام (اگر وہ کوئی خاتون ہیں)، پیدائش اور موت کی تاریخ، اور پتہ شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُس فیملی کی خواہش کے مطابق قرآن کی کوئی آیت بھی لکھی جاتی ہے۔ ’’اس سے دو مقصد پورے ہوتے ہیں۔ پہلا، رشتہ دار کو اپنے مرحوم کا نام لکھنے کا موقع ملتا ہے اور دوسرا، کسی قسم کی غلطی سے بچنے میں مدد ملتی ہے،‘‘ نظام کہتے ہیں۔ بعض دفعہ، متن میں اردو کا کوئی شعر بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ نیچے درج ہے، جسے جہاں آرا حسن کے کتبہ پر لکھا جائے گا۔ ان کی فیملی نے اس کا آرڈر ابھی ابھی دیا ہے۔

ابرِ رحمت اُن کی مرقد پر گُہر باری کرے
حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے

نظام نے ۱۹۷۵ میں کتابت کی شروعات کی تھی۔ ان کے والد ایک پینٹر تھے، جن کا ۱۹۷۵ میں انتقال ہو گیا، جس کے بعد نظام نے قبر کے کتبے لکھنے کا کام شروع کیا۔ ’’میرے والد ایک فنکار تھے، لیکن میں نے ان سے کچھ نہیں سیکھا۔ میں انہیں صرف پینٹنگ کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ مجھے یہ خوبصورت تحفہ قدرتی طور پر ملا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

نظام نے ۱۹۸۰ میں دہلی یونیورسٹی کے کروڑی مل کالج سے اردو میں گریجویشن کیا تھا۔ اس کے بعد کتابت کا یہ کام شروع کیا اور سنگل اسکرین مووی تھیٹر – جگت سنیما کے سامنے ایک دکان کھولی۔ کسی زمانے میں ’پاکیزہ‘ اور ’مغل اعظم‘ جیسی تاریخی فلمیں دکھانے والا یہ تھیٹر اب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ نظام نے سال ۱۹۸۶ میں نسیم آرہ سے شادی کر لی۔ اس ماہر خطاط نے اپنی بیوی کو کبھی کوئی خط نہیں لکھا۔ انہیں اس کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ ’’وہ اپنے ماں باپ کے پاس جاتی تھیں اور جلد ہی واپس آ جاتی تھیں، کیوں کہ ان کا گھر پڑوس میں ہی تھا۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور چھ پوتے پوتیاں ہیں۔ وہ پرانی دہلی میں جامع مسجد کے پاس رہتےہیں۔

Left: From across the graveyard, you can see the building of the Delhi police headquarters at ITO. Right: Nizam has been printing names of the deceased on these gravestones for over 40 years
PHOTO • Amir Malik
Left: From across the graveyard, you can see the building of the Delhi police headquarters at ITO. Right: Nizam has been printing names of the deceased on these gravestones for over 40 years
PHOTO • Amir Malik

بائیں: قبرستان کے اُس پار، آپ آئی ٹی او پر دہلی پولیس کا ہیڈ کوارٹر دیکھ سکتے ہیں۔ دائیں: نظام گزشتہ ۴۰ برسوں سے قبروں کے ان کتبوں پر مرحومین کے نام لکھ رہے ہیں

’’اُس زمانے میں، میں مشاعرہ، کانفرنس، تجارتی اشتہارات، سیمیناروں، مذہبی اور سیاسی میٹنگوں کے لیے ہورڈنگ پینٹ کرتا تھا۔‘‘ اپنی دکان پر وہ محراب پینٹنگ کے آرڈر بھی لیتے تھے۔ دکان میں احتجاجی مواد سے پُر بہت سارے بینر، ہورڈنگ، اور تختیاں بھی بنائی جاتی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم، راجیو گاندھی نے ۱۹۸۰ کی دہائی کے وسط میں بابری مسجد کا تالا کھولنے کی اجازت دی تھی۔ ’’اس کی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر افراد کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔ میں کپڑے پر مخالفت کے بینر پینٹ کرتا، اور احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونے کی دعوت دینے والے پوسٹر بناتا تھا۔ ۱۹۹۲ میں بابری مسجد کو مسمار کرنے کے بعد، یہ احتجاج دھیرے دھیرے ختم ہو گیا،‘‘ نظام کہتے ہیں۔ ’’لوگوں میں [مسجد کو مسمار کیے جانے کے خلاف] غصہ تھا، لیکن اس بار وہ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے۔‘‘ اُن کا ماننا ہے کہ سماج میں اس قسم کی سیاسی سرگرمیاں کم ہونے لگیں، جس میں اس کام کی ضرورت پڑتی ہے۔ ’’میں نے آٹھ لوگوں کو کام پر رکھا تھا۔ اُن سبھی کو دھیرے دھیرے جانا پڑا۔ ان کی تنخواہ دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ اب کہاں ہیں، مجھے نہیں معلوم۔ یہ سوچ کر مجھے کافی تکلیف ہوتی ہے،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔

’’سال ۲۰۰۹-۱۰ میں، حلق میں انفیکشن ہو جانے کی وجہ سے میری آواز چلی گئی تھی۔ تقریباً ۱۸ مہینے کے بعد میں صرف آدھی آواز حاصل کر سکا۔ آپ میری بات سمجھ سکیں، اس کے لیے یہ کافی ہے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ اُسی سال نظام کی دکان بھی بند ہو گئی۔ ’’لیکن میں نے محراب پر نام لکھنا کبھی بند نہیں کیا۔‘‘

’’پھر، ہندوستان میں جیسے ہی کووڈ۔۱۹ مرض آیا، اس قبرستان کے لوگوں کو میری ضرورت محسوس ہوئی اور میں انکار نہیں کر سکا۔ میں پچھلے سال جون میں یہاں آیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے اپنا گھر چلانا تھا۔‘‘ جامع مسجد کے پاس نظام کے بیٹے کی جوتے چپل کی ایک چھوٹی سی دکان ہے۔ لیکن وبائی مرض اور لاک ڈاؤن نے ان کی آمدنی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

جس طرح ۲۰۰۴ میں جگت سنیما بند ہو گیا، ویسے ہی نظام کی پرانی دکان کے ارد گرد کی تمام چیزیں اب صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ وہ ساحر لدھیانوی کی شاعری کو پسند کرتے ہیں اور ان کے گانے سنتے ہیں۔ جس سال نظام نے گریجویشن مکمل کیا، اسی سال اس عظیم شاعر کا انتقال ہوگیا تھا۔ ساحر کا یہ گانا انہیں خاص طور سے پسند ہے: ’چلو اک بار پھر سے، اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘۔ دوسرے لفظوں میں، موت و حیات کی ایک دوسرے سے کبھی بنی نہیں۔

Nandkishore, an expert in cutting stones and shaping them with hammer and chisel, says, 'The graveyard has never seen such a horrible situation as it does now'
PHOTO • Amir Malik
Nandkishore, an expert in cutting stones and shaping them with hammer and chisel, says, 'The graveyard has never seen such a horrible situation as it does now'
PHOTO • Amir Malik

پتھروں کو کاٹنے اور انہیں ہتھوڑی اور چھینی سے تراشنے میں ماہر، نند کشور کہتے ہیں، ’اس قبرستان کی حالت اتنی وحشت ناک کبھی نہیں رہی جتنی کہ آج ہے‘

’’اُن دنوں ایسے کئی کاتب تھے جو اردو میں لکھ سکتے تھے۔ لیکن اب جو لوگ ہیں، وہ صرف ہندی اور انگریزی میں ہی کتبے لکھ سکتے ہیں۔ دہلی میں ایسے کسی شخص کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہے، جو محراب پر اردو میں نام لکھ سکتا ہو،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ زبان سیاست کی شکار ہو گئی، جس سے اسے کافی نقصان ہوا۔ جھوٹ پھیلایا گیا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ اردو کی کتابت میں پہلے کے مقابلے آج روزگار کے مواقع بہت کم ہیں۔‘‘

نظام جب محراب پر کتابت کا کام مکمل کر لیتے ہیں، تو پینٹ کو خشک ہونے کے لیے تھوڑی دیر چھوڑ دیا جاتا ہے، اس کے بعد عاصم، سلیمان اور نند کشور اس پر کندہ کاری کرتے ہیں۔ نند کشور، جو اب ۵۰ سال کے ہو چکے ہیں، اس قبرستان میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ وہ پتھروں کو کاٹنے اور اپنی ہتھوڑی اور چھینی کی مدد سے انہیں محراب کی شکل دینے میں ماہر ہیں۔ انہوں نے اس کام کے لیے کبھی مشین کا استعمال نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس قبرستان کی حالت اتنی وحشت ناک کبھی نہیں رہی جتنی کہ آج ہے۔‘‘

نند کشور کورونا کی وجہ سے مرنے والوں کی قبر کے پتھر نہیں تراشتے۔ وہ جدید قبرستان کے دوسرے کونے میں بیٹھ جاتے ہیں، اس امید میں کہ ایسا کرنے سے وہ وائرس سے بچ جائیں گے۔ ’’مجھے ایک پتھر کو کاٹنے، تراشنے، دھونے اور مکمل کرنے کے ۵۰۰ روپے ملتے ہیں۔ یہ انگریزوں کے زمانے کا قبرستان ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ جب میں سوالیہ انداز میں کہتا ہوں کہ انگریزوں نے ہمارے لیے صرف قبرستان ہی تو چھوڑے ہیں؟ تو اس پر وہ ہنسنے لگتے ہیں۔

’’نند کشور مسلم قبرستان میں کام کر رہا ہے، یہ دیکھ کر کبھی کبھی کچھ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے۔ ایسے میں، میں صرف ان کے چہرے کو دیکھتا ہوں اور مسکرا دیتا ہوں؛ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں۔ حالانکہ، کبھی کبھی میں ان سے کہہ دیتا ہوں: ’میں آپ کے لیے قرآنی آیات کندہ کرتا ہوں۔ آپ نے مسلمان ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں یہ کام کبھی نہیں کیا۔‘ پھر وہ میرا شکریہ ادا کرتے ہیں، مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، جس سے مجھے یہاں اپنے گھر جیسا محسوس ہوتا ہے،‘‘ نند کشور کہتے ہیں، جن کے تین بچے ہیں، جو شمالی دہلی کے صدر بازار میں رہتے ہیں۔

’’ان قبروں میں آرام کر رہے لوگ میرے اپنے جیسے ہیں۔ میں جب یہاں سے باہر جاتا ہوں، تو دنیا مجھے اپنی نہیں لگتی۔ یہاں مجھے سکون ملتا ہے،‘‘ نند کشور کہتے ہیں۔

Pawan Kumar and Aas Mohammad: the dust from the stone work often covers them entirely
PHOTO • Amir Malik
Pawan Kumar and Aas Mohammad: the dust from the stone work often covers them entirely
PHOTO • Amir Malik
Pawan Kumar and Aas Mohammad: the dust from the stone work often covers them entirely
PHOTO • Amir Malik

پون کمار اور آس محمد: پتھر تراشتے وقت وہ اکثر پوری طرح غبار آلودہ ہو جاتے ہیں

دو مہینے قبل ایک نئے آدمی کو یہاں کام پر رکھا گیا تھا۔ ان کا نام ہے پون کمار، جو بہار کے بیگو سرائے ضلع کے رہنے والے ہیں۔ ان کی بیوی اور تین بچے بہار میں ہی رہتے ہیں۔ ۳۱ سالہ پون بھی پتھر کاٹتے ہیں۔ پتھر کاٹنے والی ایک چھوٹی مشین کی مدد سے ۲۰ تختیوں کو کاٹنے کے بعد وہ کہتے ہیں، ’’میرا چہرہ سرخ ہو گیا ہے۔‘‘ پتھر کاٹتے وقت اڑنے والا غبار ان کے پورے جسم پر بیٹھ گیا ہے۔ ’’کووڈ ہو یا نہ ہو، مجھے اپنی فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے سال بھر کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں پر، مجھے کبھی کبھی ایک دن میں ۷۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔‘‘ پہلے ان کے پاس کوئی مستقل روزگار نہیں تھا۔ نند کشور اور شمیم کی طرح ہی، انہیں کبھی اسکول جانے کا موقع نہیں ملا۔

اتر پردیش کے علی گڑھ کے رہنے والے، ۲۷ سالہ آس محمد بھی یہاں مزدوری کرتے ہیں۔ وہ آل راؤنڈر ہیں اور قبرستان کے ہر کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ انہیں یہاں کام کرتے ہوئے اب چھ سال ہو چکے ہیں۔ آس کی فیملی نے اتر پردیش کے کاس گنج ضلع میں ایک دور کے رشتہ دار کی بیٹی سے ان کی شادی طے کر دی تھی۔

’’مجھے اس سے پیار ہو گیا تھا۔ لیکن پچھلے سال لاک ڈاؤن کے دوران کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے اس کا انتقال ہو گیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی فیملی نے کہیں اور رشتہ طے کیا۔ ’’اِس لڑکی نے اس سال مارچ میں رشتہ ٹھکرا دیا کیوں کہ وہ کسی ایسے آدمی سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، جو قبرستان میں کام کرتا ہو۔

’’اس غم میں، میں نے اور تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ مزید قبریں کھودنے لگا، مزید پتھر تراشنے لگا۔ اور اب، میں شادی نہیں کرنا چاہتا،‘‘ آس محمد کہتے ہیں۔ بات کرتے وقت وہ پتھروں کی تختیاں بھی کاٹ رہے ہیں۔ وہ بھی سر سے لیکر پیر تک غبار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہیں ماہانہ ۸ ہزار روپے ملتے ہیں۔

پاس میں، پیلے رنگ کی ایک تتلی قبروں پر منڈلا رہی ہے، شاید اس پس و پیش میں کہ قبروں پر رکھے پھولوں کو چوموں یا پتھروں کو۔

کتبہ لکھنے والے نظام کہتے ہیں، ’’جن کی موت ہوتی ہے، وہ تو مر جاتے ہیں۔ اللہ کی مدد سے، میں ہی انہیں آخری بار ان کا نام دیتا ہوں۔ دنیا کو بتاتا ہوں کہ یہاں کوئی تھا، کسی کا عزیز۔‘‘ سفید اور کالے پینٹ میں ڈوبا ہوا برش نظام کے اشارے پر، محراب پر چل رہا ہے۔ وہ آخری لفظ کے آخری حرف پر نقطہ لگاتے ہوئے ایک اور پتھر پر عربی میں قرآن کی وہ آیت لکھ رہے ہیں، جس کا مطلب ہے: ’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amir Malik

Amir Malik is an independent journalist, and a 2022 PARI Fellow.

Other stories by Amir Malik
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez