وہ اپنی برادری کے لیے لڑتی ہیں، لیکن اکثر ان کی بدگمانیوں کے خلاف۔ وہ ان کے وقار کے لیے لڑتی ہیں، مگر ان کی یومیہ نوکریوں کے خلاف۔ ان نوکریوں کو وہ ختم کر دینا چاہتی ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی پرانی نسل سے تھوڑا الگ ہو چکی ہیں، اس لیے ان کی توجہ نئی نسل پر مرکوز رہتی ہے۔ کلپنا صرف ۳۳ سال کی ہیں، لیکن گوماس پلیَم میں بچوں کے لیے مفت ٹیوشن سینٹر چلاتی ہیں۔ تمل ناڈو کے مدورئی میں واقع یہ شاید سب سے پرانی جھگی بستی ہے۔ یہ ایک ایسے شہر کے بالکل وسط میں واقع ہے جو اپنے سیاحتی مقامات کے لیے بہت مشہور رہا ہے۔ اس جھگی بستی کے محض ۲۳۰ گھروں میں تقریباً ۷۰۰ کنبے رہتے ہیں۔

یہ ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں، صفائی ملازمین (سڑک صاف کرنے والوں) یا گھریلو ملازمین اور کیئر ٹیکرز کے کنبے ہیں۔ ان تمام لوگوں کا تعلق ارون دھتیار برادری سے ہے، جو دلت سماج کے سب سے نچلے پائیدان پر شمار کیے جاتے ہیں۔ کئی لوگ، خاص طور پر یہاں کے بزرگ سوچتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ’میلا ڈھونے‘ سے چھٹکارہ حاصل کر پانا مشکل ہے۔ کلپنا کہتی ہیں، ’’میرے سماج کے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اس حالت کو بدل پانا مشکل ہے۔ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے ہیں کہ میں اس بارے میں مہم چلاتی ہوں۔ وہ کوئی نئی پریشانی مول نہیں لینا چاہتے۔‘‘

اس لیے، کلپنا نوجوانوں کے ذہن میں ایک الگ طرح کی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ اپنے دَم پر ۴۰ طلباء کے لیے ہفتے میں پانچ دن ایک ٹیوشن سینٹر چلاتی ہیں۔ کبھی کبھی، سنیچر کو بھی کلاسیں چلتی ہیں۔ یہ کوچنگ سینٹر گوماس پلیم کے کمیونٹی ہال میں چلتا ہے، اور اس کی کلاسیں شام ساڑھے ۵ بجے سے رات ساڑھے ۸ بجے تک چلتی ہیں۔ وہ لگاتا ان طلباء کو ’’اپنے والدین کی نوکری کرنے کے بارے میں نہیں سوچنے‘‘ کے لیے آمادہ کرتی ہیں اور پڑھائی میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ کلپنا کہتی ہیں، ’’میں یہ کام تین سال سے کر رہی ہوں۔ اور جب تک میں آس پاس ہوں، تب تک اسے کرتی رہوں گی۔ اس ۵۰ سال پرانی جھگی بستی میں رہنے والے لوگوں کے لیے تین سال قبل پہلی بار کنکریٹ کے گھر بنائے گئے تھے۔ اس نام نہاد جدید کاری کے بعد سے، میں بچوں کو پڑھانے کے لیے اس کمیونٹی ہال کا استعمال کرتی ہوں۔‘‘

PHOTO • Krithika Srinivasan

کلپنا کہتی ہیں، یہاں کئی لوگ سوچتے ہیں کہ ’میلا ڈھونے‘ یا صفائی کرنے کا کام چھوڑنا مشکل ہے۔ لیکن کلپنا نے اس حد کو پار کیا ہے اور دوسروں کی بھی مدد کر رہی ہیں

کلپنا کی ماں روزانہ سڑکوں کی صفائی کا کام کرتی ہیں۔ کلپنا کہتی ہیں، ’’جب میں بہت چھوٹی تھی، تب میرے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ اگر میں اپنی ماں کو اب یہ کام چھوڑنے کے لیے کہتی ہوں، تو وہ ناراض ہو جاتی ہیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ اس نوکری کی وجہ سے ہی ہماری فیملی گزارہ کر سکی ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتیں کہ یہ کتنا ہتک آمیز ہے کہ ہم ایسا صرف اس لیے کر رہے ہیں، کیوں کہ ہم ایک خاص ذات میں پیدا ہوئے ہیں۔‘‘

کلپنا کا ٹیوشن سینٹر ۱۴ سالہ کوشلیہ جیسے طالب علموں کے کام آ رہا ہے، جن کے لیے اپنے کثیر رکنی چھوٹے سے گھر میں ہوم ورک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کوشلیہ کے مطابق، ’’جب سے میں نے وہاں ٹیوشن میں جانا شروع کیا ہے، تب سے میں اسکول میں ٹاپ ۱۰ رینک میں آ گیا ہوں۔‘‘ کوشلیہ کے والد رمیش، مدورئی میں صفائی ملازم ہیں۔ کوشلیہ مزید کہتے ہیں، ’’میں اپنے والد کی طرح اپنے وقار کو داؤ پر لگا کر صرف ۶۰۰۰ روپے نہیں کمانا چاہتا، اس لیے میں بہت محنت سے پڑھتا ہوں۔ میں اپنے والد کی بہت عزت کرتا ہوں، وہ مجھے سب کچھ دیتے ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ اس گندگی والے کام سے باہر نکلیں۔‘‘

کلپنا اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے اکثر اپنی جیب سے پیسے خرچ کرتی ہیں۔ وہ مدورئی میونسپل کارپوریشن آفس کے شعبہ خواتین میں کمیونٹی آرگنائزر کے طور پر کام کرتی ہیں، اور روزانہ ۲۵۰ روپے کماتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’یہ کوئی باضابطہ نوکری نہیں ہے، اس لیے میں ۳۰۰۰ روپے ماہانہ کی تنخواہ پر لویولا انسٹی ٹیوٹ میں عورتوں کو سلائی کا کام بھی سکھاتی ہوں۔‘‘

PHOTO • Krithika Srinivasan
PHOTO • Krithika Srinivasan

۱۵ سال کی ایک طالبہ کہتی ہے، ’وہ ہمیں بہت سی ایسی چیزیں سکھاتی ہیں جو ہمیں زندگی کا سامنا بہتر طریقے سے کرنے میں مدد کرے گی‘؛ گوماس پلیم کالونی (دائیں) میں کلپنا سے ٹیوشن (بائیں) لینے کے بعد اس بچی کے گریڈ میں کافی بہتری آئی ہے

ان نوکریوں کے علاوہ، کلپنا ایک اسکول وین میں معاون کے طور پر بھی کام کرتی ہیں، جو سرکاری اسکول کے طلباء کو صبح اور شام، اسکول اور گھر پہنچاتی ہے۔ اس کام سے وہ ہر مہینے ۳۰۰۰ روپے کماتی ہیں۔ اس میں سے ۵۰۰ روپے سے وہ ہر دو مہینے بعد، کمیونٹی ہال کا بجلی بل ادا کرتی ہیں۔ کلپنا کہتی ہیں، ’’میں جس ادارہ کے لیے کام کرتی ہوں، اس کا ڈائرکٹر مجھے ہر مہینے ۱۰۰۰ روپے دیتا ہے، میں اس میں کچھ پیسے جوڑ کر بچوں کی سرگرمیوں کے لیے میٹریل خریدتی ہوں۔ کبھی کبھی میں انہیں گھمانے بھی لے جاتی ہوں۔ ان کے والدین بس کا کرایہ دیتے ہیں۔ میں دیگر اخراجات کا خیال رکھتی ہوں – جیسے کہ کھانا، کھلونے، اور پارک یا چڑیا گھر کے ٹکٹ۔‘‘

شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ٹیوشن سینٹر کے یہ ۴۰ بچے جاننے سیکھنے کے لیے ہمیشہ پرجوش رہتے ہیں۔ اکشے شری (۱۵ سال) کہتی ہیں، ’’کسی دن میں بھی کلپنا اَکّا [بڑی بہن] کی طرح ایک ٹیچر بنوں گی۔‘‘ اکشے شری کے والد الاگیری، مدورئی کے ایک ہوٹل میں صفائی کا کام کرتے ہیں۔ اکشے شری مزید کہتی ہیں، ’’وہ ہمیں اسکول کی کتابوں سے پڑھاتی ہیں، لیکن یہیں نہیں رکتیں۔ وہ ہمیں بہت سی ایسی چیزیں سکھاتی ہیں جو زندگی کا بہتر طریقے سے سامنا کرنے میں ہماری مدد کریں گی۔ جب سے میں نے ٹیوشن سینٹر آنا شروع کیا ہے، میں نے ہمیشہ اپنے اسکول میں پہلا یا دوسرا رینک حاصل کیا ہے۔‘‘

مدورئی میں واقع ایک این جی او، مہالیر شکتی (خواتین کی قوت) نے کلپنا کو اس گندگی بھرے کام سے باہر نکلنے میں مدد کی تھی، جس میں ان کی برادری پھنسی ہوئی ہے۔ اس این جی او کی بانی ایگزیکٹو، گُنا ونسینٹ کہتی ہیں، ’’ہمارا ارادہ ان بستیوں سے کلپنا جیسی مزید عورتوں کو باہر نکالنے اور ذات کے چنگل سے آزادی دلانے کا ہے۔ کئی لوگ ان حدود سے باہر نہیں نکلنا چاہتے جو ان کے سماج نے بنائی ہیں۔ لیکن کلپنا نے یہ حوصلہ دکھایا۔ لیکن وہ یہیں رکنا نہیں چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اور بھی لوگ ان حدود سے باہر نکلیں۔‘‘

کلپنا یہی امید کر رہی ہیں کہ کسی دن ان بچوں میں سے کم از کم کوئی ایک بچہ آواز بلند کرے گا اور بالٹی اور جھاڑو پکڑائے جانے پر اسے چھونے سے انکار کردے گا۔

کلپنا کی درخواست پر، ان کا اصلی نام استعمال نہیں کیا گیا ہے، اور ان کی تصویر کو دھندلا کر دیا گیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Krithika Srinivasan

Krithika Srinivasan is a Chennai-based freelance journalist with a master’s degree in sociology. She is a trained shadow puppeteer.

Other stories by Krithika Srinivasan
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez