شمالی کولکاتا کی کُمہار ٹولی کی تنگ گلیوں میں، جہاں ہاتھ سے کھینچے جانے والے رکشہ کو بھی مشکل سے ہی چلایا جا سکتا ہے، آپ کو چاروں طرف صرف کُمہار نظر آئیں گے، جو شہر کے لیے مورتیاں بناتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے، جہاں سے دیوی دُرگا اور دیگر دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں ہر سال کولکاتا پہنچتی ہیں۔

PHOTO • Sinchita Maaji

کمہار ٹولی میں اپنے ورکشاپ میں مصروف کارتک پال

کارتک پال کا یہاں ایک ورکشاپ ہے، جو بانس اور پلاسٹک کی چادروں سے بنا ہوا ہے اور اس کے اوپر لکھا ہوا ہے ’برجیشور اور سنس‘ (جو اُن کے والد کے نام سے منسوب ہے)۔ وہ ہمیں تفصیل سے بتاتے ہیں کہ مورتیاں کیسے بنائی جاتی ہیں اور اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔ مورتیاں بناتے وقت، الگ الگ مرحلوں میں مختلف قسم کی مٹیوں کا آمیزہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے گنگا ماٹی (گنگا ندی کے کنارے سے نکالی گئی مٹی) اور پاتھ ماٹی (جوٹ کے ٹکڑوں اور گنگا کی مٹی کا آمیزہ)۔

PHOTO • Sinchita Maaji

کاریگر گوندھی ہوئی مٹی تیار کر رہے ہیں، جو جوٹ کے ٹکڑوں اور گنگا سے نکالی گئی ’اتیل ماٹی‘ کا آمیزہ ہے اور جسے ’پاتھ ماٹی‘ کہا جاتا ہے

PHOTO • Sinchita Maaji

مورتی بنانے کا عمل ’کتھامو‘ سے شروع ہوتا ہے، جو کہ مورتی کو سہارا دینے کے لیے بانس سے بنایا جاتا ہے

PHOTO • Sinchita Maaji

بانس کا ڈھانچہ تیار ہونے کے بعد، مونج کی گھاس کو باندھ کر مورتی کی شکل کا بنایا جاتا ہے؛ اس کے لیے خام مال پاس کے باغ بازار سے لایا جاتا ہے

PHOTO • Sinchita Maaji

ایک کاریگر گھاس سے بنائے گئے ڈھانچہ پر کالی مٹی لگا رہا ہے، تاکہ اسے حتمی شکل دی جا سکے؛ اس کے بعد مٹی سے بنے ڈھانچہ کو سوکھنے کے لیے دھوپ میں ۳ سے ۴ دنوں تک رکھ دیا جاتا ہے

ہم جس وقت بات کر رہے ہیں، پال گیلی مٹی سے بھگوان کارتِک کا چہرہ درست کر رہے ہیں اور اسے اپنے ماہر ہاتھوں سے خوبصورت شکل دے رہے ہیں۔ وہ اس کے لیے ایک پینٹ برش اور چیاری کا استعمال کر رہے ہیں، جو کہ بانس کی لکڑی سے ہاتھ سے تیار کیا گیا مورتی بنانے کا اوزار ہے۔

PHOTO • Sinchita Maaji

مورتی کو خوبصورت بنانے کے لیے پینٹ برش اور بانس سے بنائے گئے اوزار کا استعمال ہوتا ہے

پاس کے ہی ایک دوسرے ورکشاپ میں، گوپال پال نے گوند تیار کیا ہے، تاکہ تولیہ جیسے میٹریل کو مٹی کے ڈھانچہ سے چپکایا جا سکے اور اسے جلد جیسی شکل عطا کی جا سکے۔ گوپال کا تعلق شمالی کولکاتا سے تقریباً ۱۲۰ کلومیٹر دور، ناڈیا ضلع کے کرشنا نگر سے ہے۔ یہاں کے زیادہ تر کاریگر، جو سارے کے سارے مرد ہیں، اسی ضلع کے رہنے والے ہیں؛ ان میں سے زیادہ تر لوگ ورکشاپ مالکوں کے ذریعہ فراہم کردہ اسی علاقہ میں کوارٹروں میں رہتے ہیں۔ ان کاریگروں کو دُرگا پوجا کا موسم شروع ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی کرایہ پر رکھ لیا جاتا ہے۔ یہ روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں، لیکن موسمِ خزاں کے تہوار سے ٹھیک پہلے یہ کاریگر رات بھر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں، جس کے لیے انھیں الگ سے پیسے دیے جاتے ہیں۔

PHOTO • Sinchita Maaji

پاس کے ایک دوسرے ورکشاپ میں، گوپال پال تولیہ جیسا میٹریل استعمال کرکے مورتیوں کو جلد جیسی شکل دے رہے ہیں

کمہار ٹولی میں ہجرت کرکے آنے والے اولین کاریگر کرشنا نگر کے ہی تھے، جو یہاں ۳۰۰ سال قبل آئے تھے۔ تب وہ اس وقت باغ بازار گھاٹ کے قریب نئی بن رہی کمہار ٹولی میں چند مہینے رُکے تھے، تاکہ ندی کی مٹی آسانی سے حاصل کی جا سکے۔ اس وقت وہ دُرگا پوجا تہوار شروع ہونے سے ہفتوں پہلے زمینداروں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے، جہاں وہ ’ٹھاکر دالانوں‘ (زمیندار جن گھروں میں رہتے تھے، ان گھروں کے اندر مذہبی تہوار منانے کے لیے ایک مخصوص جگہ اسی نام سے موجود ہوتی تھی) کے لیے مورتیاں بناتے تھے۔

سال ۱۹۰۵ میں بنگال کی تقسیم کے دوران اور اس سے پہلے، بنگلہ دیش کے ماہر کاریگر ڈھاکہ، برکامپور، فرید پور وغیرہ سے کُمہار ٹولی آیا کرتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد جب زمینداری نظام ختم ہونے لگا، تو یہاں ’سربو جونین‘ کے نام سے مشہور عوامی پوجا مقبول ہونے لگی۔ یہی وہ وقت تھا، جب ماں دُرگا کو ’ٹھاکردالانوں‘ سے نکال کر سڑکوں پر بنے لمبے چوڑے پنڈال میں رکھا جانے لگا، جہاں دیویوں اور دیگر مورتیوں کے لیے الگ الگ اور اونچے پلیٹ فارم بنائے جاتے ہیں۔

PHOTO • Sinchita Maaji

مہالیہ کے مقدس دن پر جب ماں دُرگا کی آنکھوں کی پینٹنگ کی جاتی ہے، تو ان مورتیوں میں ایک طرح سے جان پڑ جاتی ہے

دُرگا پوجا مغربی بنگال کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اس کی شروعات مہالیہ سے ہوتی ہے، جو عام طور پر ستمبر کے اخیر میں یا اکتوبر کے شروع میں پڑتا ہے۔ اس دن، ہزاروں کی تعداد میں لوگ گنگا ندی کے کنارے اپنے آباء و اجداد (پُروَجوں) کے لیے دعا کرتے ہیں، اس رسم کو ’ترپن‘ کہا جاتا ہے۔ مورتی کی نقاب کشائی چوتھی، پنچمی یا ششٹھی کو ہوتی ہے۔ بڑی پوجا تین دن ہوتی ہے: مہا سپتمی، مہا اشٹمی اور مہا نومی کو۔ پوجا کے طریقے لمبے اور تفصیلی ہیں۔ ان تین دنوں کے بعد، دشمی کو (آخری دن)، کولکاتا کے بہت سارے لوگ اس دیوی کو جذباتیت سے بھرپور وداعی دیتے ہیں اور ان مورتیوں کو ہُگلی کے بابو گھاٹ اور دوسری جگہوں پر غرقاب کرتے ہیں۔

کمہار ٹولی میں اپنے ورکشاپ میں، ایک مورتی کو حتمی شککل دیتے ہوئے کارتک ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کے کاریگر رنگ خود ہی تیار کرتے ہیں۔ وہ کھوری ماٹی (جو سمندر کے جھاگ سے تیار کی گئی ایک مخصوص گیلی مٹی ہے) کو کیمیاوی رنگ اور کھائی بیچی (املی کے بیج) سے تیار کی گئی گوند سے ملاتے ہیں۔ املی کے بیج کا پاؤڈر رنگوں کو مٹی کی مورتیوں پر لمبے وقت تک برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

مورتیاں جب پوری طرح تیار ہوجاتی ہیں، تو انھیں ایک جگہ جمع کر دیا جاتا ہے، جہاں سے وہ شہر کو چلی جاتی ہیں۔ کمار ٹولی کے نیم روشن اسٹوڈیو جلد ہی اپنے ان شاہکاروں کو گُڈ بائی کہہ دیں گے، جنہیں کولکاتا کے چمکتے دمکتے پنڈالوں میں لگا دیا جائے گا۔

دیکھیں: کمہار ٹولی کے شب و روز سلائڈ شو

یہ ویڈیو اور اسٹوری سنچیتا مانجی کی ۲۰۱۵-۱۶ پاری فیلوشپ کے حصہ کے طور پر کی گئی تھی۔

Sinchita Maji

Sinchita Maji is a Senior Video Editor at the People’s Archive of Rural India, and a freelance photographer and documentary filmmaker.

Other stories by Sinchita Maji
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez