سبھی ہینڈلومس ہال

لاشوں کے کمرے میں

پوری طرح تبدیل کیے جا رہے ہیں

اس ناقابل توضیح غم کو!

(ڈاکٹر یو رادھے یا، جن کا تعلق ایک بُنکر فیملی سے ہے، کی رزمیہ نظم ’ مگّم باتھوکو‘ سے؛ مترجم ڈاکٹر پی رمیش نارائنا )


دوسرے زمانے میں، ریشمی ساڑیاں بُننے کا شنکر دھننجے کا جنون اور مختلف قسم کے ہتھ کرگھوں میں ان کی مہارت کی وجہ سے لوگ ان کی عزت کرتے، ان کا مقام بلند ہوتا اور وہ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہوتے۔

لیکن دھننجے کی پیدائش ۱۹۸۱ میں ہوئی، اور جب وہ ۱۸ سال کے ہوئے تب ہتھ کرگھا صنعت پہلے ہی دھیمی رفتار سے زوال آمادہ ہو چکی تھی۔ اور ۲۰۱۶ میں جب وہ ۳۵ سال کے ہوئے، تو پالیسیوں میں بڑی تبدیلی کے درمیان بڑھتے ہوئے قرض اور ٹوٹتے ہوئے خوابوں نے انھیں اپنی جان لینے پر مجبور کر دیا۔

02-RM-Without Khadi,I am not there.png

دھننجے کی بیوی ایس چندرکلا، ان کی ماں وینکٹا لکشمی، اور ان کی بیٹیاں وجیہ لکشمی اور جنایتھری


دھننجے کی پیدائش آندھرا پردیش کے اننتا پور ضلع کے دھرماوَرَم قصبہ میں ہوئی۔ یہ شہر ۱۹ویں صدی میں بھی اپنے پٹّو چیرا (ریشمی ساڑیوں) کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس شہر نے مہاجرین کو اپنی جانب راغب کیا، جو یہاں آکر بُنکر کے طور پر رہائش پذیر ہوگئے۔ انہی میں سے ایک دھننجے کے والدین، شنکر وینکٹپا اور شنکر وینکٹا لکشمی بھی تھے، جو اننتا پور کے مرالا گاؤں میں زرعی مزدور کا کام چھوڑ کر دھرما ورم آگئے۔

دھننجے کے بچپن میں، بُنائی کا کام سب سے زیادہ پسندیدہ پیشہ تھا۔ ’’بنکروں کو تمام پروگراموں اور تہواروں کے دوران سب سے پہلی قطار میں بیٹھنے کے لیے کہا جاتا تھا،‘‘ دھرماورم کے ایک بنکر، پولا رمن جنے یولو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ رمن جنے یولو، جن کی عمر ۶۴ سال ہے، بنکروں کی ایک تنظیم، آندھرا پردیش چنیتھا کارمک سنگھم کے صدر ہیں۔ ’’سبھی ذات کے لوگ ہماری عزت کرتے تھے، کیوں کہ ہم نے سب کو بُننا سکھایا۔‘‘

بنکروں کو فنکار مانا جاتا تھا، اور ان کے لیے باقاعدہ اسکولنگ ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ ’’پڑھنے کا سوال ہی نہیں تھا،‘‘ دھننجے کی ساس گُڈّم چودَمّا بتاتی ہیں جو ایک ریٹائرڈ بنکر ہیں۔ ’’ہم بہت کم پڑھائی کرتے تھے۔ صرف اتنا کہ ہینڈلوم کے لیے ریشم حاصل کرنا سیکھ سکیں یا پھر استاد بنکر کو کھاتوں کی دیکھ ریکھ میں مدد کر سکیں۔‘‘

دھننجے نے بُنائی سیکھنے کے لیے ساتویں کلاس میں اسکول جانا چھوڑ دیا۔ چونکہ اس دستکاری کا ہنر ان کے پاس پیدائشی تھا، اس لیے وہ تیزی سے سیکھنے لگے۔ لیکن تب تک ہینڈلوم سیکٹر گزشتہ ایک دہائی سے زوال پذیر تھا۔

۱۹۸۰ کی دہائی کے شروع میں، وزارتِ صنعت و کاروبار نے ہینڈلوموں کو ایک علاحدہ اور ترجیحی سیکٹر کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ سخت قوانین نافذ ہوئے، اور پاورلوموں کو مضبوطی سے ریگولیٹ کیا جانے لگا۔ حکومت میں بیٹھے بہت سے لوگوں نے یہ تسلیم کیا کہ ہینڈلوم صنعت نے آزاد ہندوستان میں بے روزگاری کے مسئلہ کو کافی حد تک حل کیا ہے۔

03-dharmavaram-3-RM-Without Khadi,I am not there.jpg

دھنُنجے کا شناختی کارڈ، مقامی طور پر اسے ’دہلی کارڈ‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ اسے مرکزی حکومت جاری کرتی ہے


ہینڈلومس (ریزرویشن آف آرٹیکلس فار پروڈکشن) ایکٹ، ۱۹۸۵ کے ذریعے کپڑوں کی صنعتی پیداوار سے پابندی ہٹا دی گئی، جب کہ بعض پیداواروں کو محفوظ کر لیا گیا۔ لیکن اسے بھی دھیرے دھیرے تبدیل کر دیا گیا، اور جس ۲۲ ہینڈلوم پیداواروں کی لسٹ کو اس ایکٹ کے تحت محفوظ کیا گیا تھا، اسے گھٹا کر ۱۹۹۰ کی دہائی میں ۱۱ کر دیا گیا۔ ہینڈلومس ٹیکسٹائل منسٹری میں چلے گئے، جس کے ماتحت پاورلومس اور کپڑے کی ملیں بھی آتی تھیں۔ بجائے اس پالیسی کے جس کے تحت ہینڈلوموں کو ترجیح دی جاتی تھی، وزارت نے اس سیکٹر کو پاورلوموں کے حساب سے دیکھنا شروع کردیا۔

سال ۱۹۸۵ میں اِکناموک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں شائع ایک مضمون ’۱۹۸۵ ٹیکسٹائل پالیسی ۔ ہینڈلوم صنعت کا خاتمہ‘ میں پلاننگ کمیشن کے سابق ممبر، ایل سی جین نے لکھا: ’’انھوں نے (پاورلوم اور مل لابیز) اسے (پالیسیوں میں تبدیلی) ’امید‘ اور ماضی سے ’بولڈ‘ رخصتی کا پیش خیمہ سمجھا ہے۔ اس میں کچھ بولڈنیس کی ضرورت تھی، اگر ہم واقعی اسے درست سمجھتے ہیں، اس نے نہ صرف جنگ آزادی کی جڑوں میں پیوست ٹیکسٹائل پالیسی سے انحراف کیا ہے جس کی پرورش گاندھی جی اور راجا جی نے کی تھی، بلکہ یہ ہندوستان کے ان سماجی و اقتصادی حقائق سے بھی انحران ہے جسے ماضی میں پنج سالہ منصوبہ کی شکل میں تسلیم کیا گیا۔‘‘

04-dharmavaram-4-RM-Without Khadi,I am not there.jpg

دھرماورم کا داخلی دروازہ، یہ کبھی بنکروں کو ہجرت کرکے اقامت اختیار کرنے کا مرکز ہوا کرتا تھا


۱۹۹۶ کے آس پاس، دھننجے جن کی عمر ۱۵ سال ہوا کرتی تھی، پِٹ لوم لاتو مگّم سیکھنے کے لیے دھرماورم سے ۵۰ کلومیٹر دور، سومن دیپلّی گاؤں آ گئے۔ تب ہینڈلوموں کے مقابلے پِٹ لومس زیادہ کارگر تھے، لیکن اس میں زیادہ مشقت بھی کرنی پڑتی تھی۔ دھننجے اس لوم پر بُنائی کے ذریعے خوشحالی حاصل کرنا چاہتے تھے۔

ان کے بھائی کمار، ان سے نو سال سے چھوٹے، کو بُنائی کا اتنا شوق نہیں تھا۔ ’’ہم کچھ اور نہیں جانتے،‘‘ انھوں نے بتایا۔ ’’ہمارے بزرگوں نے ہمیں صرف یہی کام سکھایا۔‘‘ کمار نے جب بنکر کی ٹریننگ مکمل کرلی، تو وہ دھننجے کی مدد کرنے کے لیے چلے جایا کرتے تھے۔ ’’وہ کافی باصلاحیت تھے اور تمام تکنیکوں اور ڈیزائن کے بارے میں جانتے تھے۔‘‘

05-dharmavaram-7-RM-Without Khadi,I am not there.jpg

شنکر کمار اپنے بھائی دھننجے کمار کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے


نیچے کی جانب کا زوال دھننجے کے لیے آہستہ رو تھا۔ سال ۲۰۰۵ میں جب ان کی شادی ہوئی، تب انھیں وراثت میں ۳۰ ہزار روپے کا قرض ملا جو اُن کے والد نے ان کی شادی کے لیے لیا تھا۔ اس نے بنائی کرنے اور اچھا کرنے کی دھننجے کی خواہش کو ڈگمگایا نہیں۔

لیکن ۱۹۹۰ کی دہائی کے اخیر میں، پاورلومس دھرماورم کے آس پاس کے گاؤوں میں پیر پسارنے لگے، اور ۲۰۰۵ تک ان سے ریشمی سامان تیار ہونے لگے جو بنکروں کے لیے ریزرو تھے۔ چند سالوں کے اندر، بازاروں میں چاروں طرف پاورلوموں سے تیار مال ہی دکھائی دینے لگے۔ اسی وقت، پاورلوموں کی طرف سے زیادہ ڈیمانڈ کی وجہ سے خام مال کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھنے لگیں۔ ان بنکروں کے برعکس جو ایک وقت میں چند کلو ریشم ہی خریدتے تھے، پاورلوم مالکوں نے ٹنوں میں ریشم خریدنا شروع کر دیا۔

اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ سال ۲۰۰۰ کے آس پاس دھرماورم میں چاروں طرف ’ہینڈلوم عمارتیں‘ پھیل گئیں۔ بنکر ان عمارتوں میں کام کرنے اور رہنے لگے، جو ہتھ کرگھوں سے بھرے ہوئے تھے اور جہاں ان پر سی سی ٹی وی کیمروں اور سیکورٹی گارڈوں سے نظر رکھی جاتی تھی۔

06-dharmavaram-1-RM-Without Khadi,I am not there.jpg

پاورلومس، جن کے لیے پہلے سخت قوانین ہوا کرتے تھے، اب دھرماورم میں کھلے عام چلنے لگے


کمار اور دیگر بہت سے لوگوں نے اپنے ہتھ کرگھوں کو بیچ دیا اور دوسرے کے کرگھوں پر کام کرنے لگے۔ ’’میرے خیال سے خود اپنے ہت کرگھوں پر کام کرنے کے بجائے دوسروں کے کرگھوں پر بطور مزدور کام کرنا زیادہ بہتر ہے،‘‘ ۲۰ سالہ بنکر، ایس امرناتھ کہتے ہیں۔ ’’اگر آپ کے پاس صرف ایک کرگھا ہے تو خطرہ بھی بڑا ہے، لیکن اگر ۱۰ کرگھے ہیں تو خطرات بھی ان میں تقسیم ہو جائیں گے۔‘‘

اب بُنکروں کی یونین بھی کمزور ہو چکی تھی اور ریشمی مال کے تھوک خریداروں سے قیمتوں سے متعلق مول بھاؤ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ چونکہ اب بات چیت کا کوئی موقع نہیں بچا تھا، ’’بنکروں کو اجتجاج کے لیے جمع کرپانا اب زیادہ مشکل ہوتا جا رہا تھا،‘‘ رمن جانے یولو کہتے ہیں۔

07-dharmavaram-5-RM-Without Khadi,I am not there.jpg

بُنکروں کی تنظیم کے صدر، پولا راماجینے یولو کہتے ہیں کہ ماضی میں ’ہر ذات کے لوگ ہماری عزت کرتے تھے، کیوں کہ ہم نے سب کو بُننا سکھایا‘۔ دائیں: دھرماورم کی جیوگریفیکلک انڈی کیشن رجسٹری، جس کا مقصد یہاں کی مخصوص ریشمی ساڑیوں کی نقل کو روکنا ہے


کچھ ہی دنوں میں، پاورلوموں نے ہتھ کرگھوں سے تیار ساڑیوں کی نقل کرنا اور انھیں ہینڈلوم پروڈکٹس کے ہی بازاروں میں بیچنے لگے، جب کہ دھرماورم کی ہینڈلوم پٹّو ساڑیاں اور پاوڑاس (’آدھی ساڑی‘) کو ریاستی حکومت نے سال ۲۰۱۰ میں جی آئی (جغرافیائی نشان) عطا کیا تھا۔ جی آئی نقالی کو روکتا ہے اور صرف روایتی طور پر دھرماورم ریشمی ساڑیوں کو تیار کرنے کی اجازت فراہم کرتا ہے۔

نقصان بڑھنے لگا۔ وہ بنکر جو اپنے فیملی ممبران کی مدد سے ۴ سے ۷ دنوں میں ریشم کی ایک ساڑی تیار کر لیتے تھے، وہ اُن پاورلوموں کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہوگئے جس سے ایک آدمی ایک دن میں ۲ سے ۳ ساڑیاں تیار کر لیتا ہے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی کے اخیر تک، بنکروں نے چند برسوں میں ایک بار اپنا ڈیزائن بدلتے تھے۔ اب، انھیں ہر ۴ ۔ ۳ مہینے میں ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑا، کیوں کہ پاورلومس کمیوٹرائزڈ چِپ میں ۶۴ ڈیزائن تک جمع کر سکتے تھے؛ اس کے لیے انھیں کرگھے کو ۲۰ دنوں کے لیے منجمد کرنا پڑتا تھا اور ٹیمپلیٹس کے لیے پانچ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے تھے۔

زندہ رہنے کے لیے بنکروں نے قرض لینا شروع کیا۔ بہت سے بنکر، جو قرض کی رقم واپس نہیں کر سکتے تھے وہ بینک ریکارڈ میں ڈیفالٹر بن گئے یا اب بھی بنے ہوئے ہیں۔ متعدد سیاسی پارٹیوں کے ذریعے قرض معافی کی اسکیمیوں کے نفاذ میں اب بھی دیری ہو رہی ہے۔

’’ہم نے ۶ ۔ ۵ برسوں کے لیے (غیر روایتی ذرائع سے) قرض لیے ہیں،‘‘ امرناتھ بتاتے ہیں۔ ’’میں جب بھی قرض لینے کے لیے بینک جاتا، مجھ سے کہا جاتا کہ میں کسی سیاست داں یا کسی معروف آدمی کی طرف سے اپنے لیے سفارش لے کر آؤں۔ ہم ایسے کسی بھی آدمی کو نہیں جانتے۔‘‘ امرناتھ کے والد، ایس جگن ناتھ نے ساہوکاروں اور رشتہ داروں سے ۶ لاکھ روپے کا قرض لیا۔ اس قرض کے دباؤ میں آکر انھوں نے ۲۶ فروری، ۲۰۱۷ کو دھرماورم میں پھانسی لگا کر خودکشی کر لی۔

دھننجے کی فیملی کو ڈیولپمنٹ کمشنر (ہینڈلوم) کے دفتر نے ۲۰۱۲ کے آس پاس ایک نوٹس بھیجا کہ وہ بُنکر کریڈٹ کارڈ اسکیم کے تحت قرض لے سکتے ہیں۔ لیکن، بینک نے قرض کو منظوری نہیں دی۔ ’’بینک منیجر سمجھتے ہیں کہ ہم قرض کی رقم واپس نہیں کر پائیں گے،‘‘ دھننجے کی بیوی کا بھائی، گدام شیو شنکر بتاتے ہیں، انہوں نے بھی پچھلے سال لون کے لیے اپلائی کیا تھا۔

08-dharmavaram-1-RM-Without Khadi,I am not there.jpg

دھننجے کا سالا، گدام شیو شنکر، دھرماورم میں اپنے گھر پر پِٹ لوم پر بُنائی کرتے ہیں


حکومت کی ایک اندرونی رپورٹ کے مطابق، اننتاپور ضلع کے بینکوں نے سال ۱۳ ۔ ۲۰۱۲ میں ۴۸۵۷ بنکروں کے لیے ۱۸۰۸ اعشاریہ ۵۱ لاکھ روپے کے قرض کو منظوری دی۔ لیکن، ۲۰۱۶ میں جب اس کی جگہ ایک نئی اسکیم آئی تو، اس سے پہلے ہی قرض کی اس رقم کو گھٹا کر صرف ۴۷ لاکھ روپے کر دیا گیا، جو ۲۰۱۶ میں صرف ۶۵ بنکروں کو ملا۔

دھرماورم میں جب پاورلومس لگائے گئے، تب دھننجے نے وقت کی رفتار سے چلنے کے لیے مزید ہتھ کرگھے خریدنے شروع کر دیے۔ ۲۰۱۳ تک ان کے پاس چار ہینڈ لوم ہو گئے (ایک ہینڈلوم کی قیمت تب ۵۰ ہزار روپے تھی)، اور انھوں نے اپنی بیوی، ایس چندر لیکھا کی سیزیرین سرجری پر کافی پیسے خرچ کر دیے۔ ان سب کا سامنا کرنے کے لیے انھوں نے بھی مقامی ساہوکاروں سے پیسے قرض لیے۔

۲۰۱۵ میں دھننجے کو اپنے تین کرگھوں کو بیچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اور اس وقت وہ کافی شراب بھی پینے لگے، شاید ساہوکاروں کے دباؤ اور پریشانی کے عالم میں۔ رمن جانے یولو کے مطابق، دھرماورم کے بنکروں میں شراب نوشی کی عادت بڑھنے لگی ہے۔

اکتوبر ۲۰۱۶ میں، شراب نوشی چھوڑنے کا عہد کرکے، دھننجے بھگوان اَیَپّا کے مندر میں گئے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی خواہشات کو پورا کرتے ہیں جو ایک تہذیب یافتہ، مذہبی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ ’’میں نے ایپا مالا (ایک ۴۱ روزہ عہد) اختیار کی ہے۔ اب ہماری تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی،‘‘ انھوں نے اپنی ماں سے کہا تھا۔

لیکن دسمبر میں، جب قرض کا بوجھ زیادہ بڑھ گیا، دھننجے نے پھر شراب پینا شروع کر دیا۔ ’’مزید برآں، نوٹ بندی کے بعد قرض کا لین دین مشکل ہوگیا،‘‘ کمار نے بتایا۔ گاؤوں کے لوگ اکثر اپنے دوستوں یا رشتہ داروں سے پیسے لے کر اپنے پرانے قرضداروں کا پیسہ چکاتے ہیں، تاکہ ساہوکاروں کے اعتماد کو بحال رکھ سکیں۔

’’لوگوں نے انھیں شراب پیتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگا۔ انھیں شاید ’ مالا پر شراب پیتے ہوئے‘ شرمندگی محسوس ہوتی ہوگی،‘‘ ۷۰ سالہ ان کی ماں کہتی ہیں۔ ۱۶ دسمبر کی رات کو، دھننجے گھر واپس لوٹے، جب کہ ان کی بیوی اپنی ماں کے گھر پر تھیں، اور اپنے گھر میں رکھے ایک ہتھ کرگھے پر لٹک کر جان دے دی۔

دھرماورم میں ان کے گھر کے قریب ہی، چرخہ کاتتے ہوئے گاندھی جی کا ایک مجسمہ ہے۔ اس کے نیچے یہ لکھا ہے: ’کھادی کے بغیر، میں یہاں نہیں ہوتا‘۔

09-dharmavaram-5-RM-Without Khadi,I am not there.jpg

تمام تصویریں: راہل ایم

Rahul M.

Rahul M. is an independent journalist based in Andhra Pradesh, and a 2017 PARI Fellow.

Other stories by Rahul M.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez