PHOTO • Parth M.N.

دادھرے گاؤں کا وہ ہال جہاں غیر رسمی طریقے سے چلنے والے اس اسکول کی کلاسیں لگتی ہیں

یہ کہرے سے بھری ایک ٹھنڈی صبح ہے، ساتھ میں ہلکی بوندا باندی بھی ہوئی ہے۔ کچھ درختوں کا سایہ ایک کلاس میں پڑتا ہے، جہاں طلباء عملی طریقے سے بجلی کے بارے میں سیکھنے والے ہیں۔

چار آدیواسی طالبات، جن کی عمر ۱۵ سال ہے، تقریباً ۳۵ دیگر طلباء کے سامنے سیاہ اور سرخ تاروں سے کچھ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایک لڑکی تار کی اوپری سطح کو کاٹتی ہے، اور دوسری ننگے تار کو پلگ کے اندر ڈالتی ہے۔ تیسری لڑکی کے ذمہ بلب کا ہولڈر لگانا ہے، اور چوتھی لڑکی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ نگیٹو- پازیٹو نشان صحیح جگہ پر موجود ہیں۔ جلد ہی، یہ گروپ بڑے قرینے سے بجلی کا تار بنا دیتا ہے۔

PHOTO • Parth M.N.

آدیواسی طالبات دکھاتی ہیں کہ بجلی کا تار کیسے بنتا ہے

مہاراشٹر میں واقع واڈا تعلقہ کے دادھرے گاؤں کا یہ ’’غیر رسمی‘‘ ہائر سیکنڈری اسکول صرف دو سال پہلے کھلا تھا، لیکن مقامی سطح پر آج یہ تعلیم کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ سال ۲۰۱۳ میں ۳۷ سالہ ٹیچر، پرہلاد کٹھولے نے چار دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اس اسکول کو کھولا تھا، تاکہ طلباء کو تعلیم جاری رکھنے میں مدد مل سکے۔

دادھرے گاؤں میں واقع واحد ضلع پریشد اسکول (جہاں کٹھولے پڑھاتے ہیں) سے ۷ویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلباء کو سب سے نزدیکی ہائی اسکول تک پہنچنے کے لیے ۱۵ کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا تھا (حالانکہ، حال ہی میں ضلع پریشد اسکول نے ۸ویں جماعت کی پڑھائی کا انتظام بھی کر دیا ہے)۔ ٹرانسپورٹ کی خراب حالت اور اوبڑ کھابڑ سڑکوں کی وجہ سے بہت سے طلباء، خاص کر لڑکیوں کو اسکول چھوڑنا پڑا۔

اب، ان کے پاس ایک اور متبادل ہے: غیر رسمی طریقے سے چلنے والا یہ اسکول، جس میں انہیں ڈریس نہیں پہننی ہوتی ہے، اور جہاں حکومت کے ذریعے منظور شدہ نصاب کو ایک انوکھے اور عملی طریقے سے پڑھایا جاتا ہے۔

ممبئی سے ۹۰ کلومیٹر دور واقع اس دور افتادہ گاؤں کے طلباء نے پائیتھاگورس تھیورم کو کھیت میں ایک قائمہ زاویہ مثلث بنا کر سمجھا ہے؛ انہوں نے جھلائی (ویلڈنگ) کرکے ہم آہنگ زاویوں اور ہندسی تناسب کو جانا ہے۔ ایک اسائنمنٹ کے دوران انہیں کھیت میں حجم کا اصول سمجھایا گیا تھا: اس کے لیے، انہیں ۱۰۰۰ لیٹر پانی جمع کرنے کے لیے ضروری گڑھے کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی کا شمار کرنا تھا۔ کٹھولے کہتے ہیں، ’’گرمیوں میں ہم ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھائی کرتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

ٹیچر پرہلاد کٹھولے (دائیں) ایک مہمان کے ساتھ کھڑے ہیں

دادھرے میں زراعت ہی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ کٹھولے کہتے ہیں، ’’جو لوگ اپنی تعلیم جاری رکھتے ہیں وہ کھیتی چھوڑ دیتے ہیں، اور جو کھیتی کا انتخاب کرتے ہیں وہ اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارا مقصد دونوں کو ملانا ہے۔‘‘ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طلباء کے لیے کھیتی سے تعلق بنائے رکھنا کتنا ضروری ہے: ’’بہت سے لوگ شہر نہیں جا پاتے۔ اگر ان کے پاس کھیتی کرنے کا متبادل نہیں ہوتا، تو وہ چھوٹے موٹے کام کرنے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔‘‘

ضلع پریشد اسکول سے طلباء کے پاس ہونے کے بعد، کٹھولے اور ان کے چاروں ساتھی ان بچوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ گاؤں کے ایک ہال میں کلاسیں لگائی جاتی ہیں۔ ان کلاسوں کا مقصد طلباء کو ۱۰ویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے، جس کا وہ پرائیویٹ امتحان دیتے ہیں۔

اس غیر رسمی اسکول کے شروع ہونے کے دو سال بعد، ۹۲ طلباء – ۴۸ لڑکیاں اور ۴۴ لڑکے – اس میں پڑھ رہے ہیں، اور یہ تمام طلباء آدیواسی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسکول کو چلانے میں ہر سال ۳ لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے – جن میں سے زیادہ تر پیسہ دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں سے عطیہ کی شکل میں آتا ہے۔ طلباء کو لے کر کہیں کا دورہ کرنے جیسے باقی تمام اخراجات پانچوں ٹیچر سنبھالتے ہیں۔ یہ پانچوں ٹیچر ضلع کے دیگر اسکولوں میں پڑھا کر معاش کماتے ہیں۔

بورڈ کے امتحان کے لیے طلباء کو تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آپ امید کرتے ہیں کہ طلباء کو ۸ویں جماعت کے نصاب جتنی سمجھ تو ہونی چاہیے، لیکن کئی بچوں کو شروع شروع میں ایک جملہ تک بنانے میں مشکل ہوتی ہے۔ کٹھولے کہتے ہیں، ’’۱۳ سال کے کچھ بچوں کو جو چیزیں ہم پڑھاتے ہیں، وہ انہیں تبھی پڑھا دیا جانا چاہیے تھا جب وہ سات یا آٹھ سال کے تھے۔ کئی بچے تو عام گنتی بھی بہت مشکل سے کر پاتے ہیں۔ تقریباً سبھی بچوں پر انفرادی طور پر توجہ دینا ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘

گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں لائبریری نہیں ہے، اور وہاں مناسب تعداد میں تربیت یافتہ ٹیچر بھی نہیں ہیں۔ اس کی قیمت طلباء کو چکانی پڑتی ہے: نچلی سطح کی تعلیم کے طور پر۔ کٹھولے کہتے ہیں، ’’چیزوں کو سمجھنے کی بجائے انہیں رٹ کر یاد کرانے پر زور دیا جاتا ہے۔‘‘ نتیجتاً، سبھی کے مضمون ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دادھرے کی ایک دیگر ٹیچر اور پرہلاد کی بھابھی، روشنی کٹھولے کہتی ہیں کہ مثلاً، ’’سب کی ماں ہمیشہ نیلی ساڑی پہنتی ہے۔‘‘

گاؤں میں تعلیم کی بہتری کے لیے، کٹھولے کا پہلا قدم لائبریری کی تعمیر کرنا تھا۔ غیر رسمی طریقے سے چلنے والی کلاس کے ایک کونے میں اب مراٹھی، ہندی، اور انگریزی کی مختلف کتابیں رکھی ہوتی ہیں: ’ہانا کا سوٹ کیس‘ سے لے کر بیوم کیش بخشی کی کہانیوں تک۔ پڑھنے سے طلباء میں آزادانہ طور پر سوچنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ کٹھولے کہتے ہیں، ’’نصاب سے باہر کا مواد پڑھا کر ہی طلباء کو آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا سکھایا جا سکتا ہے۔‘‘

ان کوششوں کے نتائج واضح طور پر دکھائی دینے لگے ہیں: بہت مشکل سے کچھ لکھ پانے والے طلباء اب کچھ ایسے مضمون لکھنے لگے ہیں جو کافی جذباتی ہوتے ہیں، اور ان کے پیچیدہ حقائق کا اظہار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ان سے اپنے گاؤں کے بارے میں بیان کرنے کے لیے کہا گیا، تو ۱۴ سالہ ویشالی کاوٹے نے جہیز کی رسم کے بارے میں لکھا، اور شادیوں کی فضول خرچی پر سوال اٹھایا۔ اس نے لکھا، ’’اوسط آمدنی والے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کیسے کریں گے؟ اپنی استعداد سے زیادہ خرچ کرنے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

۹ویں جماعت کی طالبہ، روہنی وانگل کے ذریعے مراٹھی میں گرمیوں کی چھٹی پر لکھا گیا ایک مضمون

ایک دیگر طالب علم، ساگر داولے نے مندر میں جمع دولت پر حیرانی کا اظہار کیا۔ کچھ طلباء نے اپنے مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کیا: پہلے حصہ میں تنقید کے ساتھ حقیقت بیان کی، اور دوسرے میں اپنی رائے پیش کی۔ روپیش راوتے (۱۵ سالہ) جیسے بہت سے بچوں کا کہنا ہے کہ پہلے وہ مضمون کے بارے میں سوچ کر ہی کانپ جاتے تھے، لیکن اب انہیں لکھنے میں مزہ آتا ہے۔

اسکول نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ زیادہ تر طالب علم آسانی سے اپنا امتحان پاس کر لیں – پچھلے سال ۱۰ویں جماعت کے امتحان میں ۱۴ بچے شامل ہوئے تھے اور ۱۲ پاس ہوئے، ان میں سے کچھ ڈپلومہ کورس کرنے لگے ہیں۔

اسکول نے کم عمری کی شادی کے تئیں طلباء کے والدین کے رویہ کو بھی بدل دیا ہے، جو پہلے ہائر سیکنڈری اسکول کی کمی کا حوالہ دے کر کم عمری کی شادی کو صحیح ٹھہراتے تھے۔ حالانکہ، گاؤں میں اب بھی کم عمر میں شادیاں ہو رہی ہیں، لیکن ۱۴ سال کی روپالی براف نے ایک مثال قائم کی ہے۔ پچھلے سال اس کی شادی ہونے ہی والی تھی کہ کٹھولے کی مداخلت نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے، ’’دولہے کے والدین نے ہمیں ایک ساڑی دینی چاہی، لیکن میں نے انہیں اسے واپس لینے کے لیے کہہ دیا۔‘‘

حالانکہ، دادھرے گاؤں کے کئی لوگوں نے ابھی تک اس غیر رسمی اسکول کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ کنبی برادری گاؤں کے ذات پر مبنی مراتب میں سب سے اوپر آتی ہے، وہیں کاتکری اور وارلی یہاں کے دیگر بڑے قبائل ہیں۔ کنبی برادری کے لوگ اپنے بچوں کو غیر رسمی طریقے سے چلنے والے اس اسکول میں بھیجنے سے بچتے ہیں۔ لیکن، کٹھولے کو یقین ہے کہ آخر میں وہ بھی مان جائیں گے اور طلباء کی تعداد بڑھے گی؛ اور اس غیر رسمی اسکول کا اثر بھی بڑھتا جائے گا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez