ناریل کے درختوں کے نیچے لکڑی کے ڈنڈے کو زمین پر پیٹ کر، تنگمّا اے کے اپنی آمد کا اعلان کرتی ہیں۔ ان اونچے درختوں کے نیچے چاروں طرف پھیلی گھنی بیلیں، ٹوٹی ہوئی شاخوں اور جنگلی گھاس میں موجود کسی جاندار کو نقصان پہنچائے بغیر، وہ بڑے احتیاط سے اپنا راستہ بناتے ہوئے کہتی ہیں، ’’گھنی جھاڑیوں اور گھاس پھوس سے بھرے ان پلاٹوں میں، میں بڑے احتیاط سے داخل ہوتی ہوں۔ میں لکڑی کو زور سے پٹختی ہوں، تاکہ اگر کوئی سانپ ہو تو اس کی آواز سن کر وہاں سے بھاگ جائے۔‘‘

بیابان کا یہ ٹکڑا ایرناکولم کی ایک ہاؤسنگ کالونی میں زمین کا ایک خالی پلاٹ ہے۔ ’’راستے سے [اچھے] ناریل ڈھونڈ لینا خوش قسمتی کی بات ہے!‘‘ ۶۲ سالہ تنگمّا کہتی ہیں، جو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ان ویران جگہوں پر گرا ہوا ناریل اکٹھا کرکے بیچتی ہیں۔ ناریل ملیالی کھانوں کا ایک اہم جزو ہیں، جس کی وجہ سے اس پھل کی مانگ سال بھر رہتی ہے۔

لمبی گھاسوں کے درمیان آہستہ آہستہ اپنا راستہ بناتے ہوئے تنگما کہتی ہیں، ’’پہلے میں اپنا کام ختم کرنے کے بعد اس علاقہ [پُدیا روڈ جنکشن] سے ناریل اکٹھا کرتی تھی، لیکن اب اپنی بیماری کی وجہ سے میں کام پر نہیں جا پا رہی ہوں۔‘‘ دوپہر کی تیز دھوپ سے اپنی آنکھوں کو بچاتے ہوئے وہ بیچ بیچ میں کئی بار رک کر اپنی پھولی ہوئی سانس پر قابو پانے یا ناریل ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں۔

پانچ سال پہلے، تنگما کو سانس لینے میں دشواری، بہت زیادہ تھکاوٹ اور تھائیرائیڈ سے متعلق کئی دوسری پیچیدگیاں شروع ہو گئی تھیں۔ اس کی وجہ سے انہیں مجبوراً گھریلو ملازمہ کے طور پر اپنی کل وقتی نوکری چھوڑنی پڑی تھی، جس سے ان کی ۶۰۰۰ روپے ماہانہ کی کمائی بھی بند ہو گئی۔ تنگما کو آمدنی کی ضرورت تھی اور گھر پر بیٹھ جانے سے ان کا کام چلنے والا نہیں تھا، اس لیے انہوں نے اپنے آس پڑوس کے گھروں میں جھاڑو پونچھا لگانے جیسے کم جسمانی محنت والے کام کا سہارا لیا۔ لیکن کووڈ۔۱۹ کے دوران یہ کام بھی بند ہو گیا۔

Armed with a stick and a plastic bag, Thankamma searches for coconuts in overgrown plots.
PHOTO • Ria Jogy
She beats the stick (right) to make noise to ward-off snakes and other creatures that may be lurking in the dense vines
PHOTO • Ria Jogy

ہاتھ میں لکڑی کا ڈنڈا اور پلاسٹک بیگ لیے ہوئے، تنگمّا لمبی گھاس والے پلاٹوں میں ناریل ڈھونڈ رہی ہیں۔ گھنی جھاڑیوں میں چھپے سانپوں اور دیگر جانداروں کو بھگانے کے لیے وہ لکڑی کو زور سے پیٹتی ہیں (دائیں)

Right: Finding just one or two coconuts, she concludes that someone had already got their hands on the fallen fruit
PHOTO • Ria Jogy
Left: Thankamma often has to cut the lower branches of the trees to clear the way.
PHOTO • Ria Jogy

بائیں: اپنا راستہ بنانے کے لیے تنگما کو اکثر پیڑ پودوں کی نچلی شاخیں کاٹنی پڑتی ہیں۔ دائیں: ایک یا دو ناریل تلاش کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ اس گرے ہوئے پھل پر پہلے بھی کسی کا ہاتھ پڑ چکا تھا

اس کے بعد، تنگما نے زمین کے خالی پڑے کسی بھی پلاٹ سے ناریل اکٹھا کرکے اسے بیچنا شروع کیا اور اب اسی سے ان کا گزارہ چلتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں ہر مہینے ریاست کی طرف سے ۱۶۰۰ روپے کی پنشن بھی ملتی ہے۔

خالی پڑے پلاٹوں میں پابندی سے ناریل کے اچھے درختوں اور ان کے پھل ڈھونڈنے کے بارے میں بتاتے ہوئے تنگما کہتی ہیں، ’’ابھی تک ان پلاٹوں میں گھومنے سے مجھے کسی نے روکا نہیں ہے۔ مجھے ہر کوئی جانتا ہے اور میرا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔‘‘

تنگما ہمیں اپنے اس کام کے بارے میں تفصیل سے بتا رہی ہیں اور ساتھ ہی راستے سے گھنی جھاڑیوں اور شاخوں کو ہٹا بھی رہی ہیں تاکہ درختوں کے نیچے جا کر وہاں گرا ہوا ناریل تلاش کر سکیں۔ جب کوئی ناریل انہیں مل جاتا ہے، تو وہ اسے پاس کی ایک دیوار پر رکھ دیتی ہیں اور اگلے ناریل کی تلاش میں آگے بڑھ جاتی ہیں۔

تنگما اسی طرح ایک گھنٹہ تک ناریل اکٹھا کرتی ہیں۔ اس کے بعد، وہ دیوار پر چڑھ کر دوسرے احاطہ میں پہنچتی ہیں جہاں اس گھر کا مالک انہیں ایک گلاس پانی پینے کے لیے دیتا ہے؛ پہلے وہ اسی گھر میں کام کرتی تھیں۔

تھوڑی ترو تازہ ہو چکیں تنگما اب اپنے جسم اور کپڑوں سے پتیاں اور گھاس پھوس صاف کرتی ہیں اور پھر ناریل کو چھانٹنے کا کام شروع کر دیتی ہیں۔ وہ انہیں الگ الگ بوریوں میں رکھ کر قریبی ہوٹل یا پڑوس کے گھروں میں بیچتی ہیں۔ ریگولر سائز کا ناریل ۲۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے، جب کہ بڑے ناریل کی قیمت ۳۰ روپے ملتی ہے۔

چھنٹائی کا کام پورا ہو جانے کے بعد، تنگما تازہ دم ہوتی ہیں، کام کے دوران استعمال کیے گئے اپنے کپڑے – جو کہ ایک پرانی نائٹی ہے – کو بدل کر ساڑی پہنتی ہیں اور پدیا روڈ جنکشن جانے والی بس پکڑنے کے لیے بھاگتی ہیں، جہاں وہ ان پھلوں کو ایک ہوٹل میں بیچتی ہیں۔

Left: Thankamma has a drink of water and rests for a while
PHOTO • Ria Jogy
Right: She gathers all the coconuts and begins sorting them on the wall
PHOTO • Ria Jogy

بائیں: تنگما ایک گلاس پانی پیتی ہیں اور تھوڑی دیر آرام کرتی ہیں۔ دائیں: وہ سارے ناریل کو دیوار پر اکٹھا کرکے ان کی چھنٹائی کرتی ہیں

Left: After collecting the coconuts, Thankamma packs her working clothes and quickly changes into a saree to make it for the bus on time.
PHOTO • Ria Jogy
Right: The fresh coconuts are sorted and sold to a local hotel around the corner or to the houses in the neighbourhood
PHOTO • Ria Jogy

بائیں: ناریل اکٹھا کرنے کے بعد، تنگما کام کے دوران پہنے گئے اپنے کپڑے کو پیک کرکے تیزی سے ساڑی پہنتی ہیں اور وقت پر بس پکڑنے پہنچ جاتی ہیں۔ دائیں: تازہ ناریل کو چھانٹ کر وہ انہیں پاس کے کسی مقامی ہوٹل میں یا پڑوس کے گھروں میں فروخت کرتی ہیں

وہ بتاتی ہیں، ’’ایسا نہیں ہے کہ ہر بار مجھے کوئی ناریل مل ہی جائے۔ یہ آپ کی قسمت پر منحصر ہے۔ کبھی تو بہت سارے مل جاتے ہیں اور کبھی ایک بھی نہیں ملتا۔‘‘

تنگما مایوسی سے کہتی ہیں کہ اب ناریل کے اونچے درختوں کو دیکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، سانس پھولنے کی وجہ سے ان کی آواز کانپنے لگتی ہے، ’’میرا سر چکرانے لگتا ہے۔‘‘ اپنی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کے لیے وہ اپنے گھر کے آس پاس کی فیکٹریوں سے ہونے والی آلودگی کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ خود تنگما کو اپنے کھانے میں ناریل پسند نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے ناریل سے بنائے ہوئے کھانے پسند نہیں ہے۔ میں ناریل کا استعمال صرف پُتّ [ابلے ہوئے چاول کے کیک] یا آئیلا [سرمئی مچھلی] کا شوربہ بنانے میں ہی کرتی ہوں۔‘‘ اس کے چھلکے کو وہ ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہیں، جب کہ اس کے خول کے عوض مل (چکی یا کارخانہ) سے ناریل کا تیل لاتی ہیں۔ پھوٹے ہوئے بیج کو بونسائی کی کاشت کے لیے وہ اپنے بیٹے کنّن کے حوالے کر دیتی ہیں۔

جب تنگمّا کی صحت اچھی تھی، تو وہ ناریل کا پھل تیار ہونے کے حساب سے – ۴۰ دن میں ایک بار اسے تلاش کرنے جاتی تھیں۔ اُس وقت انہیں تازہ ناریل ملنے کا امکان کافی زیادہ ہوا کرتا تھا۔ اب وہ اتنے چکر نہیں لگا پاتی ہیں کیوں کہ ایلور میں واقع اپنے گھر سے پُدیا روڈ تک کا بار بار سفر کرنا اب ان کے لیے کافی تھکا دینے والا کام ہے۔ بس کا انتظار کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’جب میں پدیا روڈ میں رہتی تھی، تب یہ آسان تھا۔ اب بس سے ۲۰ منٹ کا سفر، اس کے بعد ۱۵ منٹ پیدل چلنے سے کافی تھک جاتی ہوں۔‘‘

تنگما اپنے پانچ بھائی بہنوں کے ساتھ پدیا روڈ جنکشن علاقے میں ہی پلی بڑھی ہیں۔ جس زمین پر ان کا آبائی گھر بنا ہوا تھا، اسے بعد میں ان کے بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس میں سے تنگما کو جو حصہ ملا، اسے ان کے آنجہانی شوہر ویلایوتھن نے بیچ دیا تھا۔ اب چونکہ ان کے پاس رہنے کے لیے اپنا کوئی گھر نہیں بچا تھا، اس لیے کبھی وہ پدیا روڈ پر اپنی بہن کے گھر رہنے چلی جاتیں اور کبھی ایک پُل کے نیچے زندگی گزارتیں۔ ان کا موجودہ گھر ایلور کی ایس سی کالونی میں تین سینٹ زمین (۸ء۱۳۰۶ مربع فٹ) پر بنا ہوا ہے، جسے پنچایت نے بے گھر لوگوں کی مدد کے لیے پٹّایم (زمین کا مالکانہ حق) کے طور پر دیا تھا۔

Left: Due to frequent episodes of light-headedness, looking up at the coconut trees is getting hard for Thankamma who says: ' I don't get coconuts on every visit. It depends on luck. Sometimes it's a lot, other times, nothing'
PHOTO • Ria Jogy
Left: Due to frequent episodes of light-headedness, looking up at the coconut trees is getting hard for Thankamma who says: ' I don't get coconuts on every visit. It depends on luck. Sometimes it's a lot, other times, nothing'
PHOTO • Ria Jogy

بار بار سر چکرانے کی وجہ سے تنگما کے لیے اب ناریل کے اونچے درختوں کی طرف دیکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’ ایسا نہیں ہے کہ ہر بار مجھے کوئی ناریل مل ہی جائے۔ یہ آپ کی قسمت پر منحصر ہے۔ کبھی تو بہت سارے مل جاتے ہیں اور کبھی ایک بھی نہیں ملتا‘

Left: At home, Thankamma is greeted by her daughter Karthika, grandchild Vaishnavi and a pet parrot, Thathu.
PHOTO • Ria Jogy
Right: Thankamma and her granddaughter Vaishnavi
PHOTO • Ria Jogy

بائیں: گھر پر، تنگما کا استقبال ان کی بیٹی کارتیگا، نواسی ویشنوی اور پالتو طوطا، تاتو کرتے ہیں۔ دائیں: تنگما اور ویشنوی، جسے وہ پیار سے ’تکّاڑی‘ (ٹماٹر) کہتی ہیں

تنگما کے شوہر ویلایوتھن، پدیا روڈ اور اس کے ارد گرد ناریل کے درختوں پر چڑھنے کا کام کرتے تھے۔ ان کے دو بچے ہیں – ۳۴ سالہ کنّن اور ۳۶ سالہ کارتیگا۔ کنّن اب تریشور میں رہتے ہیں اور کھیتی باڑی میں اپنے سسرال والوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کارتیگا اپنی تین سال کی بیٹی ویشنوی کے ساتھ اسی علاقے میں رہتی ہیں۔ تنگما اپنی نواسی کو پیار سے تکّاڑی (ٹماٹر) کہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’بچوں کے ساتھ رہنے میں بہت مزہ آتا ہے، لیکن یہ بہت مشکل اور تھکا دینے والا بھی ہوتا ہے۔‘‘

*****

وہ اپنے بستر پر کپڑوں کا گٹھر، کچھ کاغذات اور پالتو طوطے کا کریٹ رکھتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میری نظر کمزور ہو گئی ہے، اس لیے اب میں ناریل تلاش کرنے نہیں جاتی ہوں۔‘‘ تنہائی دور کرنے کے لیے تنگما اپنے پالتو طوطے، تاتو، کے ساتھ اکیلے رہتی ہیں۔ اسے انہوں نے اچھی طرح ٹریننگ دی ہے، جو کسی اجنبی کو دیکھتے ہی آواز لگانے لگتا ہے۔

اپنے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ایک بار سانپ کو اپنے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھ کر میں بالکل ساکت کھڑی ہو گئی تھی۔ وہ میری پھٹی ہوئی چپل کے بغل میں رینگ رہا تھا۔ اب تو میں سانپ کو یا ناریل کو بھی نہیں دیکھ پاؤں گی!‘‘ ان کی بینائی اب کافی کمزور ہو گئی ہے۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے اب نہ تو وہ اپنے لیے دوائیں خرید سکتی ہیں اور نہ ہی کھانے کا کوئی انتظام کر سکتی ہیں۔

اپنے ایک بہی خواہ کے گھر جاتے ہوئے تنگما کہتی ہیں، ’’میں نے جتنے لوگوں کے لیے کام کیا ہے وہ آج بھی نقدی اور دیگر سامان سے میری مدد کر رہے ہیں۔ لیکن ان سے ملنا اب میرے لیے بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ ایسے ہی ایک گھر کی طرف جاتے ہوئے، وہ کافی تھکان محسوس کرنے لگتی ہیں اور ایک ٹافی نکال کر کھاتی ہیں، اس امید میں کہ شکر سے شاید ان کی یہ تھکان دور ہو جائے اور وہ اُس آدمی کے گھر تک پہنچ سکیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ria Jogy

Ria Jogy is a documentary photographer and freelance writer based out of Kochi, Kerala. She currently works as an assistant director in feature films and a communication consultant for organizations.

Other stories by Ria Jogy
Editor : Vishaka George

Vishaka George is a Bengaluru-based Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India and PARI’s Social Media Editor. She is also a member of the PARI Education team which works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Vishaka George
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez