ستمبر کے اوائل میں گھوڑا مارا جزیرہ پر مسافر بردار کشتیوں کی سرگرمی میں اچانک اضافہ ہونے لگا ہے۔ مرد، عورت، بچے، اور یہاں تک کہ مویشی بھی، اپنے اپنے دن کی شروعات کرنے کے لیے تیزی سے کشتی سے اتر رہے ہیں۔ سمندر کی اونچی لہروں کی وجہ سے کہیں اور (اکثر اپنے رشتہ داروں کے یہاں) پناہ لینے کے بعد، اب وہ جزیرے پر موجود اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، کیوں کہ پانی کی سطح کم ہو گئی ہے۔ کشتی کو کاک دویپ کے میدانی علاقوں سے سندر بن کے ڈیلٹا میں موجود اس جزیرہ تک پہنچنے میں ۴۰ منٹ لگتے ہیں، اور وہ ان مسافروں کو مہینہ میں کم از کم دو بار یہاں سے وہاں تک لاتی لے جاتی ہے۔ تاہم، یہ معمول مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع میں واقع گھوڑا مارا کے اس چھوٹے جزیرہ پر رہنے والے لوگوں کی لمبی جدوجہد کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔

ماحولیاتی تبدیلی کے سبب بار بار آنے والے طوفان، سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور موسلا دھار بارش نے گھوڑا مارا کے لوگوں کی زندگی کو کافی مشکل بنا دیا ہے ۔ کئی دہائیوں سے سیلاب اور مٹی کے کٹاؤ نے ہوگلی کے ساحل پر الگ تھلگ موجود ان کے آبائی وطن کو تیرتی ہوئی زمین کے ایک ٹکڑے میں تبدیل کر دیا ہے۔

سمندری طوفان ’یاس‘ جب مئی میں ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا، تب ساگر بلاک میں واقع گھوڑا مارا، سندربن کے سب سے زیادہ متاثر علاقوں میں سے ایک تھا۔ ۲۶ مئی کو، طوفان کے ساتھ آنے والی سمندر کی تیز لہروں نے جزیرہ کے پشتوں کو توڑ دیا تھا اور ۱۵-۲۰ منٹ کے اندر وہاں کی ہر ایک چیز پانی میں ڈوب گئی تھی۔ اس سے پہلے سمندری طوفان امفن (۲۰۲۰) اور بلبل (۲۰۱۹) کا سامنا کر چکے اس جزیرہ کے لوگوں کو ایک بار پھر تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے گھر کی چھتیں اڑ گئیں، دھان، پان اور سورج مکھی کے کھیت پانی میں بہہ گئے۔

کھاسی مارا گھاٹ کے پاس موجود عبدالرؤف کا گھر، سمندری طوفان کی وجہ سے پوری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ یہاں سے تقریباً ۹۰ کلومیٹر دور، کولکاتا میں درزی کا کام کرنے والے رؤف نے بتایا، ’’تین دنوں تک ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم لوگ بارش کے پانی پر ہی زندہ رہے، اور پلاسٹک کی شیٹ سے اپنی حفاظت کی۔‘‘ وہ اور ان کی بیوی جب بیمار پڑے، تو بقول ان کے، ’’ہر کسی کو شک ہونے لگا کہ ہمیں کووڈ ہے۔‘‘ رؤف آگے کہتے ہیں، ’’کئی لوگ گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ ہم وہیں رک گئے، کسی محفوظ جگہ جانے میں ناکام رہے۔‘‘ بعد میں لوگوں نے جب بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر (بی ڈی او) کو رؤف اور ان کی بیوی کے بارے میں بتایا، تب جا کر انہیں طبی مدد مل پائی۔ ’’بی ڈی او نے ہم سے کسی بھی طرح کاک دویپ پہنچنے کے لیے کہا۔ وہاں سے انہوں نے ایک ایمبولینس کا انتظام کروایا۔ ہمیں [طبی نگہداشت پر] تقریباً ۲۲ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔‘‘ رؤف اور ان کی فیملی تبھی سے جزیرہ پر ایک پناہ گاہ میں رہ رہے ہیں۔

جن لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے، ان میں سے کئی لوگوں کو عارضی پناہ گاہوں تک پہنچایا گیا تھا۔ مندرتلہ گاؤں کے لوگوں کو جزیرہ کے سب سے اونچے مقام، مندرتلہ بازار کے ٹینک گراؤنڈ میں ٹھہرایا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے قریب میں ہی ایک تنگ سڑک پر اپنے کیمپ لگا لیے تھے۔ جزیرہ کے ہاٹ کھولا، چُن پوری اور کھاسی مارا علاقے کے ۳۰ خاندانوں کو عارضی طور پر گھوڑا مارا کے جنوب میں واقع ساگر جزیرہ پر پناہ دی گئی تھی۔ تب سے انہیں وہیں پر رہنے کے لیے زمین دے دی گئی ہے۔

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کھاسی مارا میں رضاؤل خان کا گھر سمندری طوفان ’یاس‘ سے تباہ ہو گیا تھا۔ انہیں اور ان کی فیملی کو ساگر جزیرہ پر دوبارہ بسایا گیا ہے

انہی میں سے ایک رضاؤل خان کی فیملی ہے۔ کھاسی مارا میں ان کا گھر اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک طوفان والے دن کو، سمندری طوفان میں تباہ ہو چکی ایک مسجد کے تاریک بالا خانہ پر بیٹھے ہوئے انہوں نے مجھے بتایا تھا، ’’مجھے یہ جزیرہ چھوڑنا ہے، لیکن میں کیوں جاؤں؟ میں اپنے بچپن کے دوست گنیش پروا کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ کل ہی اس کے باغ سے کریلا آیا تھا، جو ہماری فیملی کے رات کے کھانے کے لیے پکایا گیا تھا۔‘‘

جزیرہ کے لوگ ابھی تباہی سے پوری طرح باہر نکلے بھی نہیں تھے کہ ’یاس‘ کی وجہ سے بار بار اٹھنے والی تیز لہروں کی وجہ سے جون میں گھوڑا مارا میں سیلاب آ گیا، اس کے بعد باقی کمی مانسون کی بارش نے پوری کر دی۔ ان واقعات کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے، ریاستی انتظامیہ نے جانوں کا زیاں روکنے کے لیے یہاں کے لوگوں کو کہیں اور بسانا شروع کر دیا ۔

مندرتلہ میں کیرانے کی ایک دکان کے مالک، امت ہلدر نے بتایا، ’’ان دنوں [سمندری طوفان کے بعد] میری دکان میں نمک اور تیل کے علاوہ کچھ نہیں بچا تھا۔ سمندر کی تیز لہروں میں سب کچھ ڈوب گیا تھا۔ جزیرے پر ہمارے کسی بھی بزرگ نے اس سے پہلے اتنی اونچی لہریں نہیں دیکھی تھیں۔ یہ لہریں اتنی اونچی تھیں کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے درختوں کے اوپر چڑھ کر اپنی جان بچائی۔ کچھ عورتوں کو ساڑیوں سے، [جزیرہ کے] اونچے مقامات پر موجود درختوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ وہ پانی میں بہہ نہ جائیں۔ پانی ان کی گردن تک پہنچ گیا تھا۔‘‘ ہلدر نے مزید بتایا، ’’ہم اپنے مویشیوں کو نہیں بچا سکے۔‘‘

سندربن میں ماحولیاتی تبدیلی کے بحران پر کیے گئے سال ۲۰۱۴ کے ایک مطالعہ کے مطابق، سمندر کی بڑھتی ہوئی سطحوں اور پیچیدہ ہائیڈرو-ڈائینامک حالات کے سبب گھوڑا مارا کے کئی ساحلوں کی مٹی کٹ کر بہہ گئی ہے۔ ۱۹۷۵ میں اس ساحل کا کل رقبہ ۸ اعشاریہ ۵۱ مربع کلومیٹر تھا، جو ۲۰۱۲ میں گھٹ کر ۴ اعشاریہ ۴۳ مربع کلومیٹر ہو گیا۔ مطالعہ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بار بار بے گھر کیے جانے اور ایکو سسٹم کے آہستہ آہستہ تباہ ہونے کی وجہ سے اس جزیرے پر مہاجرت کی شرح کافی زیادہ تھی۔ مصنفین نے مزید بتایا کہ گھوڑا مارا کی آبادی سال ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۱ کے درمیان ۵۲۳۶ سے گھٹ کر ۵۱۹۳ ہو گئی تھی، جس کی وجہ نقل مکانی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

خود پریشان حال ہونے کے باوجود، گھوڑا مارا کے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے کھڑے رہتے ہیں۔ ستمبر میں اُس دن، ہاٹ کھولا کی اس پناہ گاہ میں جب چھ مہینے کے آوِک کا اَنّ پراشن (بچے کو پہلی بار چاول کھلانے کی تقریب) ہوا، تو اس کی تیاری میں وہاں کے ہر شخص نے آگے بڑھ کر ہاتھ بٹایا۔ ان ماحولیاتی پناہ گزینوں کو ان کی سکڑتی ہوئی زمین اس بات کے لیے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کی غیر متوقع صورتحال سے ہم آہنگ ہو جائیں – اس لیے وہ اپنے گھر کو دوبارہ بناتے ہیں یا نئی پناہ گاہ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

PHOTO • Abhijit Chakraborty

گھوڑا مارا کے لوگ سمندر کی اونچی لہروں کے تھم جانے کے بعد کاک دویپ کے میدانی علاقہ سے، کشتی کے ذریعے اپنے گھر لوٹ رہے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

اس سال ۲۶ مئی کو، سمندری طوفان ’یاس‘ کے ساتھ اونچی لہروں نے جزیرہ کے یشتوں کو توڑ دیا اور اسے پانی میں ڈبو دیا تھا

PHOTO • Abhijit Chakraborty

سیلاب کے خطرے والے اس جزیرہ کے لوگ ایک نئی زندگی شروع کرنے کی امید میں کھلے آسمان کے نیچے رہ رہے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

شیخ سنوج، ایک اچھی زندگی کی تلاش میں گھوڑا مارا چھوڑنے اور ساگر جزیرہ پر بسنے سے پہلے، کھاسی مارا میں اپنے گھر کی یاد تازہ کر رہے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کھاسی مارا گھاٹ پر لوگ کھانے کا انتظار کر رہے ہیں؛ ’یاس‘ طوفان میں اپنا گھر کھونے کے بعد یہ لوگ راحتی امداد پر ہی زندہ ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کشتی کے ذریعے غذائی اجناس اور راشن کھاسی مارا گھاٹ پر لائے جا رہے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

مرد، خواتین، بچے اور مویشی کشتی سے اتر رہے ہیں، سبھی کو گھر واپس جانے کی جلدی ہے

PHOTO • Abhijit Chakraborty

گھوڑا مارا کے سب سے اونچے مقام، مندرتلہ بازار کے قریب ٹینک گراؤنڈ پر عارضی پناہ گاہ۔ گاؤں کے تقریباً ایک تہائی لوگوں نے یہیں پر پناہ دینے کا مطالبہ کیا تھا

PHOTO • Abhijit Chakraborty

امت ہلدر اپنے تباہ شدہ گھر کے قریب کھڑے ہیں۔ مندرتلہ بازار کے قریب ان کے کیرانے کی دکان میں جو کچھ بھی سامان تھا، وہ سب طوفان کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کھاسی مارا گھاٹ کے قریب ایک گھر کے گیلے فرش پر مٹی ڈال کر اسے رہائش کے قابل بنایا جا رہا ہے

PHOTO • Abhijit Chakraborty

ٹھاکر داسی گھوروئی، ہاٹ کھولا میں ایک عارضی پناہ گاہ کے قریب جال بُن رہی ہیں۔ انہیں اور ان کی فیملی کو حکومت کے ذریعے کہیں اور بسایا جائے گا

PHOTO • Abhijit Chakraborty

ککلی منڈل (نارنجی ساڑی میں) ہاٹ کھولا کے ایک کیمپ میں۔ ان کی فیملی ساگر جزیرہ پر منتقل کیے جا رہے ۳۰ خاندانوں میں سے ایک ہے

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کھاسی مارہ کے عبدالرؤف، ساگر جزیرے پر انہیں الاٹ کی گئی زمین کا کاغذ دکھا رہے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

چھوٹا بچہ آوِک اور اس کی ماں، ۹ ستمبر کو اس کی اَنّ پراشن تقریب سے پہلے ہاٹ کھولا کی ایک پناہ گاہ میں۔ کیمپ کے دیگر لوگ کھانا پکانے میں مدد کر رہے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

مندرتلہ بازار کے قریب واقع ٹینک گراؤنڈ کی پناہ گاہ میں، دوپہر کے کھانے کے انتظار میں لگی لوگوں کی ایک لمبی قطار

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کھاسی مارا گھاٹ پر راحتی اشیاء لے کر پہنچی ایک کشتی سے کھانے کے پیکٹ حاصل کرنے کے لیے لوگ بارش میں جمع ہو رہے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کھاسی مارا گھاٹ پر عورتیں، ایک رضاکار تنظیم کے ذریعے تقسیم کی جانے والی ساڑیاں حاصل کرتے ہوئے

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کولکاتا سے ایک میڈیکل ٹیم، مندرتلہ کے قریب واقع گھوڑا مارا کے واحد پرائمری ہیلتھ سنٹر کا ہفتہ میں ایک بار دورہ کرتی ہے۔ وہاں کے لوگ ہفتہ کے بقیہ دنوں میں، آشا کارکنوں سے طبی امداد حاصل کرتے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

۹ ستمبر کو، پی ایچ سی میں کووڈ کے ٹیکے لگا جا رہے ہیں۔ گھوڑا مارا میں لگایا گیا اس قسم کا یہ ۱۷واں کیمپ تھا

PHOTO • Abhijit Chakraborty

گھوڑا مارا کے مڈ پوائنٹ پوسٹ آفس (یہ نام انگریزوں نے دیا تھا، جو ابھی بھی برقرار ہے) کے پوسٹ ماسٹر، بروئی پور سے روزانہ ۷۵ کلومیٹر کا سفر کرکے یہاں آتے ہیں۔ بہت زیادہ نمی کی وجہ سے پوسٹ آفس کے کاغذات اور فائلیں بھیگ گئی ہیں، اسی لیے انہیں خشک کرنے کے لیے باہر رکھا گیا ہے

PHOTO • Abhijit Chakraborty

اہلیا شیشو شکسا کیندر کا ایک کمرہ، جس میں ابھی بستر لگا ہوا ہے، سبزیاں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مندرتلہ کا یہ اسکول کووڈ۔۱۹ شروع ہونے کے بعد سے ہی بند کر دیا گیا ہے

PHOTO • Abhijit Chakraborty

کھاسی مارا کی راشن کی دکان کے پیچھے، کھارے پانی سے تباہ ہو چکے پان کے ایک کھیت میں، چاول اور گیہوں کے بورے سوکھنے کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ خراب ہو رہی فصلوں کی بدبو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے

PHOTO • Abhijit Chakraborty

گاؤں والے، کھاسی مارا گھاٹ کے قریب سمندری طوفان کی وجہ سے اکھڑ چکے ایک درخت کے بقیہ حصے کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں

PHOTO • Abhijit Chakraborty

چُن پوری علاقہ کے لوگ مچھلی پکڑنے کے لیے جال پھینک رہے ہیں۔ گھوڑا مارا میں زندہ رہنے کی جدوجہد جاری ہے

مترجم: محمد قمر تبریز

Abhijit Chakraborty

Abhijit Chakraborty is a photojournalist based in Kolkata. He is associated with 'Sudhu Sundarban Charcha', a quarterly magazine in Bengali focused on the Sundarbans.

Other stories by Abhijit Chakraborty
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez