بدھو رام چِندا خوف کے مارے کانپ رہے تھے۔ وہ جس جگہ کھڑے تھے وہاں سے محض چند گز کے فاصلے پر، چاندنی رات میں انہیں سیاہ رنگ کی ایک بڑی شکل نظر آئی، جو کسی دیوہیکل کے سایہ جیسی تھی۔ ۶۰ سال کے یہ بھونجیا آدیواسی کسان، کتھافر گاؤں میں اس وقت اپنے گھر کے ادھ کھلے دروازے سے باہر جھانک رہے تھے۔

اوڈیشہ کی سُنابیڑا وائلڈ لائف سینکچوری کے قلبی اور حائلی علاقوں میں آباد ۵۲ بستیوں میں شامل اس گاؤں میں رہنے والوں کسانوں کے لیے کسی بڑے ممالیہ کو اس طرح دیکھنا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔

باوجود اس کے، انہوں نے کہا، ’’میں یہ سوچ کر کانپ رہا تھا کہ وہ مجھے اور میرے اس کچے مکان کو کچھ ہی منٹوں میں روند دیں گے۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر کے پیچھے چلے گئے اور تلسی کے ایک پودے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے: ’’میں نے دیوی لکشمی اور ان بڑے ممالیہ جانوروں سے پرارتھنا کی۔ ہاتھیوں کے اس جھنڈ نے شاید مجھے دیکھ لیا تھا۔‘‘

بدھو رام کی بیوی، ۵۵ سالہ سولکشمی چِندا نے بھی ان ہاتھیوں کی چنگھاڑ سنی تھی۔ وہ اس وقت وہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر دور، گاؤں میں ہی اپنے بیٹوں اور ان کے کنبوں کے ساتھ ان کے گھر میں مقیم تھیں۔

تقریباً ایک گھنٹہ بعد ہاتھیوں کا یہ جھنڈ وہاں سے چلا گیا۔

دسمبر ۲۰۲۰ کے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے، انہیں لگتا ہے کہ اس دن انہوں نے جو پرارتھنا (دعا) کی تھی، شاید اسی کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔

لہٰذا، دسمبر ۲۰۲۰ میں ہاتھیوں کے اس جھنڈ نے جب اپنا راستہ بدل لیا، تو اس سے نہ صرف بدھو رام نے سکون کی سانس لی، بلکہ نواپاڑہ ضلع کے ۳۰ آدیواسی گاؤوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی راحت محسوس ہوئی۔

PHOTO • Ajit Panda
PHOTO • Ajit Panda

اوڈیشہ کی سُنابیڑا وائلڈ لائف سینکچوری کے قریب واقع کتھافر گاؤں کا وہ گھر جس میں بدھو رام اور سولکشمی اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں

سولکشمی اور بدھو رام کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ یہ پوری فیملی تقریباً ۱۰ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتی ہے۔ ان کے دو بڑے بیٹے شادی شدہ ہیں، جو کتھافر گاؤں میں ہی اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ رہتے ہیں؛ بدھو رام اور سولکشمی ایک دہائی قبل کھیتوں کے قریب واقع گھر میں رہنے کے لیے آ گئے تھے۔

اسی گھر کے آس پاس ہاتھیوں کا وہ جھنڈ اُس دن کھانے کی تلاش میں گھوم رہا تھا۔

اگلی صبح جب بدھو رام اپنے دھان کے کھیت میں ہوئے نقصان کا معائنہ کرنے کے لیے گئے، تو دیکھا کہ آدھا ایکڑ میں کھڑی فصل تباہ ہو چکی تھی۔ یہ کھمونڈا تھا (یعنی پشتہ بنا کر موسمی ندی سے نکالا گیا ایک کھیت)۔ یہ کھیت ان کے بڑے پلاٹوں میں سے ایک ہے جس میں ہر سال تقریباً ۲۰ بورے (تقریباً ایک ٹن) دھان کی پیداوار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے پانچ مہینے تک چلنے والے دھان کا نقصان ہو گیا، میں کس سے شکایت کرتا؟‘‘

یہاں پر ایک پینچ ہے: بدھو رام جس کھیت کو اپنا کہہ رہے ہیں اور جس پر سولکشمی کے ساتھ کھیتی کرتے ہیں، وہ کھیت ان کے نام پر نہیں ہے۔ وہ اور ان کے ساتھ دیگر کئی کسان، جو ۶۰۰ مربع کلومیٹر میں پھیلی اس سینکچوری کے حائلی اور قلبی علاقے کے اندر کھیتی کرتے ہیں، ان کے نام پر زمین کے کاغذات نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان زمینوں کا کوئی کرایہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’میں جس زمین پر کھیتی کرتا ہوں، ان میں سے زیادہ تر زمینیں محکمہ جنگلی حیات کی ہیں۔ مجھے حقوق جنگلات قانون [ درج فہرست قبائل اور روایتی طور پر جنگلوں میں رہنے والے دیگر افراد (جنگل کی پہچان) کے حقوق کا قانون ] کا پٹّہ (سرکاری طور پر زمین کا مالکانہ حق) نہیں ملا ہے۔‘‘

بدھو رام اور سولکشمی کا تعلق بھونجیا برادری سے ہے؛ کتھافر گاؤں میں اس برادری کے ۳۰ خاندان آباد ہیں (مردم شماری ۲۰۲۱)۔ ان کے علاوہ یہاں پر گونڈ اور پہاڑیا آدیواسی برادریوں کے لوگ بھی رہتے ہیں۔ ان کا گاؤں اوڈیشہ کے نواپاڑہ ضلع کے بوڈین بلاک میں، پڑوسی چھتیس گڑھ کے قریب، سُنابیڑا سطح مرتفع کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔

ہاتھیوں کا جھنڈ ہر سال سینکچوری تک جانے کے لیے اسی راستے کا استعمال کرتا ہے۔

PHOTO • Ajit Panda
PHOTO • Ajit Panda

بائیں: کھیتوں کے بغل میں بنے اپنے گھر میں بدھو رام اور سولکشمی (دائیں)

وزارت ماحولیات و جنگلات کی سال ۲۰۰۹-۲۰۰۸ کی سالانہ رپورٹ میں، سُنابیڑا کی نشاندہی چار نئے ٹائیگر ریزرو میں سے ایک کے طور پر کی گئی تھی۔ شیر (ٹائیگر) کے علاوہ اس جنگل میں تیندوے، ہاتھی، کالے رنگ کا بھالو (ریچھ)، ہندوستانی بھیڑیا، جنگلی سور، گور (جنگلی بھینس) اور جنگلی کتے رہتے ہیں۔

محکمہ جنگلی حیات کے عہدیداروں نے کتھافر سمیت سُنابیڑا اور پٹدرہا سطح مرتفع کے الگ الگ گاؤوں کا دورہ کیا اور کئی غیر رسمی ملاقاتیں کرکے قلبی علاقے میں رہنے والے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ یہاں سے کہیں اور منتقل ہو جائیں۔ سال ۲۰۲۲ میں، دو گاؤوں – ڈھیکُن پانی اور گتی بیڑا کے لوگ نقل مکانی کرنے کو تیار ہو گئے۔

جو لوگ نقل مکانی کو تیار نہیں ہوئے، انہیں ممالیہ جانوروں یعنی ہاتھیوں کے اس جھنڈ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سال ۱۷-۲۰۱۶ کی جنگلی حیات کی گنتی بتاتی ہے کہ اوڈیشہ میں اس وقت ہاتھیوں کی تعداد ۱۹۷۶ تھی۔ ریاست کا تقریباً ۳۴ فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے، جو کہ ان جانوروں کے لیے کھانے کی سب سے پسندیدہ جگہ ہے۔ مایادھر سراف کہتے ہیں کہ سُنابیڑا سینکچوری کے بانس انہیں سب سے زیادہ متوجہ کرتے ہیں: ’’وہ سُنابیڑا- پٹدرہا سے ہو کر گزرتے ہیں جہاں پر بانسوں کی بہتات ہے۔‘‘ وائلڈ لائف وارڈن رہ چکے مایادھر مزید کہتے ہیں، ’’وہ نواپاڑہ میں داخل ہوتے ہیں اور ضلع کے اندر تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر گھومنے کے بعد مغرب کی طرف سے نکلتے ہوئے چھتیس گڑھ چلے جاتے ہیں۔‘‘

تقریباً ایک مہینہ تک گھومنے کے بعد جب ان کا پیٹ پوری طرح بھر جاتا ہے، تو یہ ہاتھی کم و بیش اسی راستے کا استعمال کرتے ہوئے بلانگیر کی طرف لوٹ آتے ہیں۔

سال میں دو بار کیا جانے والا ان کا یہ سفر اسی راستے سے طے ہوتا ہے، جہاں بھونجیا، گونڈ اور پہاڑیا آدیواسی رہتے ہیں اور بدھو رام جیسے کسان سُنابیڑا سینکچوری کے اندر اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں بارش پر منحصر اپنی چھوٹی چھوٹی زمینوں پر کھیتی کرتے ہیں۔ اوڈیشہ میں آدیواسیوں کو حاصل زمین کی ملکیت پر مبنی ایک رپورٹ، آدیواسیوں کے معاش کی حالت سے متعلق رپورٹ ۲۰۲۱ کے مطابق، ’’اوڈیشہ میں جتنے بھی آدیواسی گھروں کا سروے کیا گیا، ان میں سے ۵ء۱۴ فیصد کے پاس اپنی زمین نہیں تھی اور ۷ء۶۹ فیصد کے پاس بہت کم زمینیں تھیں۔‘‘

PHOTO • Ajit Panda
PHOTO • Ajit Panda

بدھو رام اور سولکشمی اپنے گھر (بائیں) کے سامنے والی زمین پر سبزیاں اگاتے ہیں اور گھر کے پیچھے (دائیں) کیلا کی کھیتی کرتے ہیں

کومنا رینج کے ڈپٹی رینجر، شِب پرساد کھامری بتاتے ہیں کہ موٹی کھال والے یہ جانور سال میں دو بار اس علاقے میں آتے ہیں – پہلی بار مانسون کی بارش شروع ہونے پر [جولائی میں] اور دوسری بار دسمبر میں۔ کھامری کی ڈیوٹی اس سینکچوری میں گشت لگانے کی ہے، اسی لیے انہیں ان ہاتھیوں کے آنے جانے کی پوری خبر رہتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ راستے میں یہ جانور، مختلف قسم کی گھاس کے علاوہ زرعی فصلوں، خاص کر خریف دھان کو بھی چر جاتے ہیں۔ دسمبر ۲۰۲۰ کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’یہ ہاتھی ہر سال الگ الگ گاؤں میں جا کر وہاں کی فصلوں اور گھروں کو تباہ کر دیتے ہیں۔‘‘

اس طرح دیکھا جائے تو، ہاتھیوں کے جھنڈ کے ذریعے کھڑی فصل کو کھو دینے کا بدھو رام کا تجربہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔

پی سی سی ایف (وائلڈ لائف) کی سرکاری ویب سائٹ اور اوڈیشہ کے چیف وائلڈ لائف وارڈن کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں کے ذریعے اگر کسی کسان کی فصل تباہ ہو جائے، تو وہ نقدی فصلوں کے عوض ۱۲ ہزار روپے اور دھان اور موٹے اناج کے عوض ۱۰ ہزار روپے فی ایکڑ پانے کے حقدار ہیں۔ اس میں جنگلی حیات (تحفظ) (اوڈیشہ) کے ضوابط ۱۹۷۴ کو نقل کیا گیا ہے۔

لیکن بدھو رام کے نام پر چونکہ زمین کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، اس لیے وہ معاوضہ کے لیے کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے۔

بدھو رام کا کہنا تھا، ’’مجھے یہ [زمین] میرے آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ہے، لیکن جنگل کے تحفظ کا قانون، ۱۹۸۰ کے مطابق، سب کچھ سرکار [حکومت] کا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’محکمہ جنگلی حیات ہماری نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ اپنی زمین اور زراعت کو آگے بڑھانے کی کوششوں پر بھی پابندی عائد کر دیتا ہے۔‘‘

وہ کیندو کے پتّوں کو جمع کرنے کا حوالہ دے رہے ہیں – جو کہ جنگل میں رہنے والے لوگوں کے لیے آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ ہے۔ حقوق جنگلات قانون (ایف آر اے)، ۲۰۰۶ کے تحت ’’ملکیت کا حق، جنگل کی معمولی پیداوار کو جمع کرنے، استعمال کرنے، اور اسے ٹھکانہ لگانے کے لیے رسائی‘‘ کی اجازت ہے۔ مگر، جنگل میں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ ان سے یہ حق چھین لیا گیا ہے۔

ان کے گاؤں سے تقریباً ۲۲ کلومیٹر دور، بوڈین کے بازار میں مہوا کے پھول اور پھل، چار ، ہریڈا اور آنلا جیسی جنگل کی پیداوار کی اچھی قیمت ملتی ہے۔ یہاں پر چونکہ نقل و حمل کے وسائل موجود نہیں ہیں، اس لیے بدھو رام ہمیشہ بازار نہیں جا سکتے۔ تاجر گاؤں والوں کو ان پیداوار کی قیمت پیشگی ادا کر دیتے ہیں، لیکن یہ رقم اس سے کہیں کم ہے جو بدھو رام کو بازار جا کر بیچنے پر مل سکتی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’لیکن ہمارے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہے۔‘‘

*****

PHOTO • Ajit Panda
PHOTO • Ajit Panda

بائیں: آوارہ مرغیوں سے بچانے کے لیے مرچ کے پودوں کو مچھردانی سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ دائیں: بدھو رام اور ان کی فیملی کے پاس ۵۰ مویشی اور کچھ بکریاں ہیں

اپنے فارم ہاؤس کے سامنے والے آٹ (اونچی زمین) پر، بدھو رام اور سولکشمی مکئی، بینگن، مرچ، قلیل مدتی دھان اور دال جیسے کہ کلوتھ (چنا) اور ارہر کی کھیتی کرتے ہیں۔ درمیانی اور نچلی زمین پر (جسے مقامی زبان میں بہل کہتے ہیں) یہ لوگ دھان کی دونوں قسمیں – درمیانی اور طویل مدتی – اگاتے ہیں۔

سولکشمی، خریف کے موسم میں پٹدرہا جنگل کے قریب اپنے کھیتوں پر کام کرتی ہیں – جیسے گھاس پھوس نکالنا، پودوں کی رکھوالی کرنا، سبز پتّے اور قند جمع کرنا۔ انہوں نے بتایا، ’’تین سال پہلے جب میرے سب سے بڑے بیٹے کی شادی ہوئی تھی، اس کے بعد ہی مجھے کھانا پکانے کے کام سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اب میری بہو یہ کام سنبھالتی ہے۔‘‘

فیملی کے پاس تقریباً ۵۰ مویشی ہیں، جن میں تین جوڑی بیل اور ایک جوڑی بھینس بھی ہے۔ بیل کھیت جوتنے میں مدد کرتے ہیں – فیملی کے پاس کھیتی کرنے کا کوئی مشینی آلہ نہیں ہے۔

بدھو رام گائے کا دودھ نکالتے ہیں اور بھیڑ بکریوں کو چرانے لے جاتے ہیں۔ وہ اپنے کھانے کے لیے بھی کچھ بکریاں پال رہے ہیں۔ اگرچہ ان کی نو بکریوں کو جنگلی جانور کھا چکے ہیں، پھر بھی یہ فیملی بکریاں پالنے کا کام نہیں چھوڑنا چاہتی۔

پچھلے خریف سیزن میں بدھو رام نے پانچ ایکڑ کھیت میں دھان لگایا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پھلیوں کی دو قسمیں، مونگ، بیری (کالا چنا)، کلوتھ (چنا)، مونگ پھلی، مرچ، مکئی، اور کیلے کی کھیتی کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ انہوں نے بتایا، ’’پچھلے سال مجھے مونگ کا ایک بھی بیج نہیں مل سکا کیوں کہ بہت زیادہ سردی پڑنے کی وجہ سے فصل برباد ہو گئی تھی، لیکن دوسری دالوں سے اس کی بھرپائی ہو گئی تھی۔‘‘

وہیں لکشمی نے بتایا، ’’ہمیں اپنے کھانے کے لیے تقریباً دو ٹن دھان اور کافی مقدار میں دال، جوار، سبزیاں اور تلہن مل گیا تھا۔‘‘ میاں بیوی نے بتایا کہ وہ نہ تو کسی کیمیاوی کھاد کا استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی حشرہ کش کا؛ وہ کھاد کے لیے مویشیوں کا گوبر اور پیشاب اور فصل کی باقیات سے کام چلاتے ہیں۔ بدھو رام کا کہنا تھا، ’’اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں دقت ہو رہی ہے یا خوراک کی کمی ہے، تو یہ زمین پر الزام لگانے کے مترادف ہوگا۔‘‘ سولکشمی نے کہا، ’’اگر آپ اس کا حصہ نہیں بنیں گے، تو مادر زمین کھانا کیسے فراہم کرے گی؟‘‘

پودوں کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے، گھاس پھوس نکالنے اور فصل کی کٹائی کے مصروف سیزن کے دوران پوری فیملی ساتھ مل کر کام کرتی ہے، اور یہ لوگ دوسرے کے کھیتوں پر بھی کام کرتے ہیں؛ اجرت کے طور پر انہیں اکثر کام کے عوض دھان ملتا ہے۔

PHOTO • Ajit Panda

سال ۲۰۲۰ میں ہاتھیوں کے ذریعے تباہ کیے گئے دھان کے کھیت۔ اگلے سال، یعنی ۲۰۲۱ میں بغیر کسی بوائی کے دھان کے پودے نکل آئے تھے۔ بدھو رام نے بتایا، ’میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے ذریعے روندنے کی وجہ سے بیج زمین پر گر گئے تھے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ان سے نئے پودے نکل آئیں گے‘

ہاتھیوں نے جب ان کی کھڑی فصل کو روند دیا، تو اس کے اگلے سال، یعنی ۲۰۲۱ میں بدھو رام نے اُس کھیت پر بوائی نہیں کی تھی۔ ان کے اس فیصلہ کا اچھا نتیجہ نکلا۔ انہوں نے بتایا، ’’میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے ذریعے روندنے کی وجہ سے بیج زمین پر گر گئے تھے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ان سے نئے پودے نکل آئیں گے۔‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ ’’مانسون کی پہلی بارش کے دوران بیج پھوٹ کر باہر نکل آئے، اور میں نے ان کی رکھوالی کی۔ بغیر کچھ [پیسہ] لگائے مجھے ۲۰ بورے [ایک ٹن] دھان مل گئے۔‘‘

اس آدیواسی کسان کو لگتا ہے کہ سرکار، ’’اس بات کو نہیں سمجھ پائے گی کہ ہماری زندگی کو قدرت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مٹی، پانی اور درخت، مویشی، پرندے اور کیڑے – یہ سبھی خود کو زندہ رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘‘

*****

ہاتھیوں کی نقل و حرکت اس علاقے میں ایک اور مسئلہ کا باعث بنتی ہے۔ جہاں جہاں بجلی کے تار کھلے ہوئے ہیں، یہ جانور انہیں توڑ کر نیچے گرا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کومنا اور بوڈین بلاک کے لوگوں کو کئی دنوں تک بغیر بجلی کے رہنا پڑتا ہے جب تک کہ ان کی مرمت نہ ہو جائے۔

سال ۲۰۲۱ میں، ۳۰ ہاتھیوں کا ایک جھنڈ اوڈیشہ کے گندھ ماردن جنگل سے سیتا ندی سینکچوری ہوتے ہوئے پڑوس کے چھتیس گڑھ کی طرف گیا تھا۔ محکمہ جنگلات نے جب ان کے شمال مشرق کی طرف جانے والے راستہ کی پیمائش کی، تو پتہ چلا کہ ہاتھیوں کا یہ جھنڈ بولانگیر ضلع سے ہوتے ہوئے نوا پاڑہ ضلع کے کھولی گاؤں کی طرف گیا تھا۔ ان میں سے دو ہاتھی دسمبر ۲۰۲۰ میں اسی راستے سے واپس لوٹے تھے۔

اپنے سالانہ سفر کے دوران یہ ہاتھی سُنابیڑا پنچایت کے ۳۰ گاؤوں سے ہو کر گزرنے کی بجائے، سیدھے سُنابیڑا وائلڈ لائف سینکچوری میں داخل ہوئے اور اسی راستے سے واپس لوٹ گئے۔

اسے دیکھ کر سبھی نے سکون کی سانس لی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ajit Panda

Ajit Panda is based in Khariar town, Odisha. He is the Nuapada district correspondent of the Bhubaneswar edition of 'The Pioneer’. He writes for various publications on sustainable agriculture, land and forest rights of Adivasis, folk songs and festivals.

Other stories by Ajit Panda
Editor : Sarbajaya Bhattacharya
sarbajaya.b@gmail.com

Sarbajaya Bhattacharya is from Kolkata. She is pursuing her Ph.D from Jadavpur University. She is interested in the history of Kolkata and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. A journalist and teacher, she also heads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum, and with young people to document the issues of our times.

Other stories by Priti David
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez