/media/uploads/Articles/P. Sainath/The elephant we couldnt see/01-p1020219_ps_elephant-we-couldnt-see.jpg

منالار ندی کی وہ جگہ جہاں ہمیں پیچھے لوٹنے کا مشورہ دیا گیا، جب تک کہ ہاتھی سے نمٹ نہ لیا جائے، ہم اسی جگہ پر واپس لوٹ جائیں۔ ہم نے اس پر دھیان ہی نہیں دیا تھا کہ اس پر یہ عجیب سا پل ہے، جو شاید استعمال میں ہے اور جو بانسوں، درخت کے شاخوں، بیلدار پودوں، رسیوں اور لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بنا ہوا ہے۔ تاہم، ہمیں مشورہ دیا گیا کہ اس پل کا استعمال صرف مانسون کے موسم میں ہوتا ہے اور فی الحال یہ ٹوٹا ہوا ہے


ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ آدم قد گھاسوں اور متعدد درختوں والے میدان میں گزارا۔ وہ بھی ایک نر ہاتھی کے ساتھ، جسے ہم دیکھ نہیں سکے تھے۔ یعنی، گھومنے پھرنے والے آٹھ آدمیوں پر مشتمل ہمارا قافلہ، جو کیرلہ کی دورافتارہ پنچایت، ایڈمالاکوڈی کے دورہ پر گئی تھی، کچھ بھی دیکھ نہیں سکتا تھا۔ حالانکہ باقی تمام لوگ اس کی حرکتوں کو محسوس کر رہے تھے۔ ہم صرف گاؤں والوں کی ’آنی‘ (ہاتھی) کی چیخ سن پا رہے تھے، اس ہاتھی کے بارے میں جو ہماری آنکھوں سے اوجھل تھا۔ آس پاس کی بستیوں کے لوگوں نے بلند آواز میں چیخ کر تمام لوگوں کو آگاہ کیا کہ کوئی بھی پانی کے قریب نہ جائے۔ سوسائٹی کوڈی، جہاں سے ہم ابھی واپس آر ہے تھے، کی جانب گامزن آدیواسیوں نے ہم سے کہا: ’’وہ ندی کے پاس آ چکا ہے۔ دھیان سے۔‘‘

یہ ہمارے لیے پریشانی کا سبب تھا، کیوں کہ ہم اس وقت منالار ندی کو پار کرنے جا رہے تھے۔ ہم پاس کے کھیت میں واپس لوٹ گئے۔ آوازوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہمارے ’جنگل میں راستہ دکھانے والے‘ ساتھی اچوتھن ایم، جو خود ایک موتھاوَن آدیواسی ہیں، واضح طور پر اس بات سے باخبر تھے کہ وہ موٹی کھال والا ہاتھی کہاں ہے۔ اور وہ لوگ جو شاید کچھ دوری پر درخت کے اوپر بنے ’مچان‘ پر بیٹھ کر ہاتھی کو دیکھ رہے تھے، جن مچانوں کو پچھلے روز ہم نے پار کیا تھا۔ شاید وہیں بیٹھ کر انھوں نے دیکھا تھا کہ ہاتھی کس راستہ سے وہاں پہنچا۔ اکیلے نر ہاتھی کی موجودگی ہمارے لیے بری خبر تھی۔ ممکن تھا کہ وہ جوانی کے نشہ میں ہو اور جھُنڈ نے اسے کھدیڑ دیا ہو۔


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/The elephant we couldnt see/rescaled/1024/02-p1020076_ps-elephant-we-couldn't-see_.jpg

درخت کے اوپر بنا ہوا ’مچان‘


یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آپ ہاتھیوں کے بارے میں سنی ہوئی تمام بری کہانیوں کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ یا پھر جوانی کے نشہ میں مست ہاتھی کے ٹیسٹوسٹیرون کا لیول عام دنوں کے مقابلے ۶۰ گنا زیادہ ہوتا ہے، اور جو لڑنے کے لیے بے چین رہتا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس سے لڑنے کے موڈ میں نہیں تھا (کیوں کہ ہمارے ٹیسٹوسٹیرون کا لیول اتنا نہیں تھا)، لہٰذا ہم پیچھے لوٹ کر ایک درخت کے سایہ میں کھڑے ہو گئے۔ جب بھی کوئی درختوں کے بیچ سے گزرتا، ہم چونکتے: کیا وہ ’جنگل کا چوکیدار‘ ہے؟ یا پھر نر ہاتھی؟ اس وقت ہم ایڈوکّی کے جنگلوں کی خوبصورتی کو بھول گئے۔

ہمیں سبق ملا: انجان راستوں پر کبھی ’شارٹ کٹ‘ پر بھروسہ نہ کریں۔ یہ تباہی لے کر آتا ہے۔

ہم نے اپنے سفر کی شروعات کوچی سے کی تھی، اور رات میں مونّار میں قیام کیا تھا۔ ہم صبح سویرے گاڑی سے پیٹی موڈی تک آگئے اور پھر وہاں سے ۱۸ کلومیٹر تک کا ایڈمالاکوڈی کا تھکا دینے والا اونچی نیچی پہاڑیوں والا مشکل راستہ پیدل چل کر طے کیا۔ پنچایت میں انٹرویوز ختم کرنے کے بعد، ہم نے سوچا کہ اگلی صبح ہم اپنی چالاکی استعمال کریں گے۔ دوبارہ اس مشکل گزار راستے پر ۱۸ کلومیٹر کیوں چلنا؟ ہم ’شارٹ کٹ‘ لے کر دوسری جانب جا سکتے ہیں۔ تمل ناڈو کے کوئمبٹور ضلع میں ولپرائی کی طرف۔ وہ بالکل سیدھی چڑھائی والا رستہ ہوگا، لیکن صرف ۱۰۔۸ کلومیٹر کا۔ اور ولپرائی سے کوچی تک کا راستہ مونّار کے مقابلہ زیادہ لمبا نہیں تھا۔

لیکن یہ ہاتھیوں والا علاقہ تھا اور ہم پھنس گئے۔

آخرکار، نزدیک کی ایک ’کوڈی‘ (بستی) سے تین نوجوان آدیواسی ایک قطار میں ہمارے پاس سے گزرے، ایک کے ہاتھ میں چھوٹا سا تھیلا تھا۔ چند منٹوں کے بعد چھوٹا، لیکن تیز آواز میں دھماکہ ہوا، جس سے ہمیں پتہ چلا کہ اس تھیلے میں پٹاخے رکھے ہوئے تھے۔ ہم نے ہاتھی کی کوئی آواز نہیں سنی۔ نر ہاتھی جتنی بڑی چیز آنکھوں سے اوجھل کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن چند وقفے بعد، وہی آدمی واپس ہمارے پاس سے ہوتے ہوئے گزرے۔ نر ہاتھی کو پٹاخے کی یہ آواز اچھی نہیں لگی تھی۔ ’’وہ کچھ دور چلا گیا ہے۔ اب آپ لوگ جلدی سے ندی پار کر لیں،‘‘ انھوں نے ہم سے کہا۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے اب بھی اس ہاتھی کو نہیں دیکھا تھا۔ دوسری جانب بھی نہیں۔ ہم نے آس پاس ہاتھی کے گوبر کے ڈھیر ضرور دیکھے تھے۔ لیکن ہم وہاں رک کر یہ تفتیش نہیں کرنا چاہتے تھے کہ یہ تازہ ہے یا پرانا۔

ہمیں پتہ چلا کہ جھنڈ کے بقیہ ہاتھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں، جس راستے سے ہم نے ولپرائی جانے کے بارے میں سوچا تھا۔ خود آدیواسی، جس میں ہمارا گائڈ فاریسٹ واچر بھی شامل تھا، اس راستے پر جانے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اب ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا تھا کہ ہم لمبے راستے کو چنیں، جن میں سیدھی چڑھائیاں اور ڈھلوانیں تھیں۔ ایسا لگا ہم ہمیشہ کے لیے اسی خطرناک راستے پر رینگتے رہ جائیں گے۔

(ٹِپ: آپ کے پرانے جوتے چاہے جتنے پھٹے ہوں، لمبے اور چڑھائی والے علاقوں میں نئے جوتے کا استعمال ہرگز نہ کریں۔ میں نے ایسا کیا تھا۔)


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/The elephant we couldnt see/rescaled/1024/03-p1020081_ps-elephant-we-couldn't-see.jpg

ہمارے نڈر فاریسٹ واچرس ۔ چِنپّا داس اور اچوتھن ایم۔ دونوں ہی موتھاوَن آدیواسی ہیں۔ اچوتھن، جو اُس وقت ہمارے ساتھ تھے، انھیں ہاتھی کی حرکتوں سے خود کو باخبر رکھنے میں کوئی دقت نہیں ہو رہی تھی۔ بقیہ ہم میں سے کسی نے کچھ نہیں دیکھا


ہم جسے آٹھ کلومیٹر کا پیدل راستہ سمجھ رہے تھے، وہ ہمارے لیے ۲۵ کلومیٹر کا راستہ بن گیا۔ اوپر سے بھاری بیگ اور کیمروں اور پانی کی بوتلوں کا بوجھ، جس نے اس دور کو طے کرنے میں آٹھ گھنٹے لے لیے۔ ہم ایڈملاوار ندی کے کنارے آدھا گھنٹہ آرام کرنے کے لیے رکے، جہاں آس پاس کوئی ہاتھی نہیں تھا۔ اور ہم خوش قسمت تھے کہ یہ خشک موسم تھا۔ بارش کے دنوں میں یہاں اس راستے پر خون چوسنے والی جونکوں کا راج ہوتا ہے۔ ان تمام کا مطلب یہ تھا کہ ولپرائی پہنچتے پہنچتے ہم نے ۴۰ کلومیٹر طے کیے، کیوں کہ ہم نے ۳۶ گھنٹے پہلے پیٹی موڈی سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایسا لگا کہ ہم نے سو کلومیٹر کی دوری طے کی ہے۔ اور ہم نے اب تک کوئی ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔

یہ مضمون سب سے پہلے یہاں شائع ہوا: www.psainath.org ( http://psainath.org/the-elephant-we-couldnt-see/ )

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez