مئی کے آغاز میں، اجے کمار سا نے دیکھا کہ انہیں بخار آ رہا ہے۔ لہٰذا وہ جھارکھنڈ کے چَترا ضلع میں واقع اپنے گاؤں، اسڑھیا سے تقریباً آٹھ کلومیٹر دور، اِتھکوری ٹاؤن کے ایک پرائیویٹ کلینک کے ڈاکٹر کو دکھانے پہنچے۔

ڈاکٹر نے ان کا کووڈ ٹیسٹ کرنے کی بجائے، کپڑا بیچنے والے ۲۵ سالہ اجے (سب سے اوپر کے کور فوٹو میں اپنے بیٹے کے ساتھ) کو بتایا کہ انہیں ٹائیفائیڈ اور ملیریا ہے۔ البتہ انہوں نے اجے کے خون میں آکسیجن کی سطح کی جانچ کی – جو ۷۵ سے ۸۰ فیصد کے درمیان تھی۔ (عام طور پر یہ حد ۹۵ سے ۱۰۰ کے درمیان ہونی چاہیے)۔ اس کے بعد اجے کو گھر بھیج دیا گیا۔

دو تین گھنٹے کے بعد اجے کو سانس لینے میں کافی پریشانی ہونے لگی اور وہ فکرمند ہو گئے۔ اسی دن وہ کسی اور ڈاکٹر کو دکھانے گئے، لیکن اس بار (اسڑھیا سے تقریباً ۴۵ کلومیٹر دور) ہزاری باغ کے کسی دوسرے پرائیویٹ کلینک میں۔ یہاں بھی، ان کا ٹائیفائیڈ اور ملیریا کا ٹیسٹ کیا گیا، کووڈ۔۱۹ کا نہیں۔

تاہم، اجے اُسی گاؤں میں رہنے والے ایک ویڈیو ایڈیٹر، حی الرحمن انصاری کو بتاتے ہیں کہ بھلے ہی ان کا کووڈ ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا لیکن ’’ڈاکٹر نے مجھے دیکھا اور کہا کہ مجھے کورونا ہے۔ انہوں نے مجھ سے صدر اسپتال [ہزاری باغ کا سرکاری اسپتال] جانے کو کہا کیوں کہ اگر وہ میرا علاج کرتے، تو ہمیں کافی پیسہ خرچ کرنا پڑتا۔ خوف کے مارے، ہم نے کہا کہ جو بھی خرچ آئے گا ہم دینے کو تیار ہیں۔ ہمیں سرکاری اسپتالوں پر اعتماد نہیں ہے۔ وہاں [کووڈ کے] علاج کے لیے جو بھی جاتا ہے، زندہ نہیں بچتا۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: اسڑھیا میں: کووڈ سے مقابلہ، قرض کا سامنا

وبائی مرض سے قبل، اجے کپڑا بیچنے کے لیے اپنی ماروتی گاڑی سے گاؤں گاؤں جاتے تھے اور ہر مہینے ۵-۶ ہزار روپے کماتے تھے

اس اسٹوری کو مشترکہ طور پر تحریر کرنے والے حی الرحمن انصاری ایک سال کے اندر دو بار، اپریل میں اسڑھیا لوٹے تھے۔ وہ اُسی مہینے ممبئی میں بطور ویڈیو ایڈیٹر ایک نئی نوکری شروع کرنے ہی والے تھے کہ مہاراشٹر میں ۲۰۲۱ کے لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا۔ وہ کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن کے دوران پہلی بار مئی ۲۰۲۱ میں اپنے گھر چلے گئے تھے (ان کے اوپر پاری کی اسٹوری یہاں دیکھیں)۔ انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ اپنے ۱۰ ایکڑ کھیت سے حاصل ہونے والی دھان کی فصل پر گزارہ کیا، اس کا کچھ حصہ اپنے کھانے کے لیے رکھا اور باقی حصہ بازار میں فروخت کر دیا۔

اسڑھیا میں، ۳۳ سالہ رحمن کو کوئی کام نہیں ملا۔ گاؤں میں ان کا ویڈیو ایڈٹنگ کا ہنر کوئی معنی نہیں رکھتا، اور ان کی فیملی کے ۱۰ ایکڑ کھیت میں چاول اور مکئی کی بوائی کا کام وسط جون میں شروع ہوا تھا۔ تب تک ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں تھا۔ ان کے پاس ماس کمیونی کیشن میں بی اے کی ڈگری ہے اور وہ ممبئی میں بطور ویڈیو ایڈیٹر ۱۰ سال تک کام کر چکے ہیں۔ لہٰذا، اُن کے اس میڈیا بیک گراؤنڈ کو دیکھتے ہوئے ہم نے ان سے کہا کہ کیا وہ وبائی مرض کی وجہ سے متاثر ہونے والے اسڑھیا کے لوگوں پر رپورٹ کرنا چاہیں گے۔ اس خیال سے وہ کافی خوش ہوئے۔

اس ویڈیو میں، رحمن ہمیں اجے کمار سا کے ذریعے کووڈ کا سامنا کرنے اور ان کے بڑھتے ہوئے قرض کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں سے خوف زدہ اجے اور ان کی فیملی نے جب ہزاری باغ کے پرائیویٹ کلینک / نرسنگ ہوم میں ان کا علاج کرانے کا فیصلہ کیا، تو وہاں انہیں آکسیجن کے سپورٹ پر رکھا گیا اور انہیں کووڈ کی دوائیں دی گئیں۔ انہیں وہاں ۱۳ مئی تک، سات دن گزارنے پڑے۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا خرچ آئے گا۔ اس خرچ کو برداشت کرنے کے لیے اجے کی فیملی کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ متعدد ذرائع سے قرض حاصل کریں – مثلاً ساہوکار سے، خواتین کے اُس گروپ سے ان کی ماں جس کی ممبر ہیں، اور اپنی دادی کی فیملی سے۔

وبائی مرض سے قبل، اجے کپڑے بیچنے کے لیے اپنی ماروتی وین سے گاؤں گاؤں جاتے اور ہر مہینے ۵-۶ ہزار روپے کماتے تھے۔ انہیں پچھلے سال کے لاک ڈاؤن اور پھر دوبارہ اس سال کے شٹ ڈاؤن کے دوران اس کاروبار کو بند کرنا پڑا۔ دسمبر ۲۰۱۸ میں، انہوں نے ۳ لاکھ روپے کا قرض لیکر یہ گاڑی خریدی تھی، جس کا کچھ پیسہ لوٹانا ابھی باقی ہے۔ پچھلے سال ان کی فیملی نے اپنے ایک ایکڑ کھیت سے حاصل ہونے والی دھان کی فصل پر، اور مزید قرض لیکر گزارہ کیا تھا۔ وہ رحمن سے کہتے ہیں، ’’کمائی شروع ہوتے ہی، ہم آہستہ آہستہ کرکے پیسے لوٹا دیں گے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Subuhi Jiwani

Subuhi Jiwani is a writer and video-maker based in Mumbai. She was a senior editor at PARI from 2017 to 2019.

Other stories by Subuhi Jiwani
Haiyul Rahman Ansari

Haiyul Rahman Ansari, originally from Asarhia village in Jharkhand’s Chatra district, has worked as a video editor in Mumbai for a decade.

Other stories by Haiyul Rahman Ansari
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez