یرّا گُنٹلا ناگ راجو ڈیلٹا شوگرس فیکٹری میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے کام کر رہے تھے، لیکن تین مہینے پہلے انھیں نوکری سے نکالا جا چکا ہے۔ وہ وہاں پر ۱۸ سال کی عمر سے بطور الیکٹریشین تبھی سے کام کر رہے تھے، جب ۱۹۸۳ میں یہ فیکٹری قائم کی گئی تھی۔

نومبر ۲۰۱۷ کے آخری ہفتہ میں انھیں اور دیگر ۲۹۹ ملازمین کو، جن میں سے زیادہ تر بے زمین دلت برادریوں سے ہیں، کہا گیا کہ وہ دسمبر سے کام پر آنا بند کر دیں۔ کوئی نوٹس پیریڈ نہیں دیا گیا۔ ’’ہمیں دو مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہے، اور اب مینیجمنٹ نقصان کا بہانہ بنا کر کمپنی کو بند کرنے جا رہا ہے،‘‘ ناگ راجو نے مجھ سے کہا تھا جب میں ان سے نومبر میں ملا تھا۔ فیکٹری میں، وہ کامگاروں کی یونین کے لیڈر تھے، جو کہ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس سے ملحق ہے۔

بے روزگار کر دیے گئے یہ مزدور، فیکٹری کے سامنے بنے عارضی ٹینٹ میں، ۲۶ نومبر سے ہی باری باری سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے مطالبات میں شامل تھا ان دو مہینوں کی تنخواہ جس کے لیے وہ پہلے ہی کام کر چکے ہیں اور کام سے نکالنے کے عوض ہر ملازم کو ۲۴ مہینے کی تنخواہ کے برابر مجموعی رقم۔ زیادہ تر مزدور اپنے کنبوں کے واحد پیسہ کمانے والے ہیں، اور انھیں فیکٹری کے بند دروازے کے باہر ہفتوں تک احتجاج کرنے کے دوران اپنے گھروں کو چلانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی تھی۔ ناگ راجو، جو فیکٹری کے ایک مستقل ملازم تھے اور جس وقت انھیں نوکری سے نکالا گیا وہ ۱۴ ہزار مہینہ تنخواہ پاتے تھے، نے اپنے بچا کر رکھے گئے پیسے کو نکالنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی بیوی ایک زرعی مزدور ہیں، جب کہ بیٹا آٹو رکشہ چلاتا ہے۔

Delta Sugars factory. Work halted inside the sugar mill
PHOTO • Rahul Maganti
Man holding flag outside the gate of the Delta Sugars factory. he is protesting the closure of the company.
PHOTO • Rahul Maganti


یرّ گُنٹلا ناگ راجو (دائیں) کی ۳۰ سال سے زیادہ کی نوکری اس وقت چلی گئی، جب ڈیلٹا شوگرس کے مالکوں نے ہنومان جنکشن پر واقع فیکٹری کو اچانک بند کر دیا


دسمبر کے اخیر میں، ایک مصالحت ہوئی۔ کرشنا ضلع کے، ڈپٹی کمشنر آف لیبر، پی وی ایس سبرامنیم نے مجھ سے کہا کہ معاہدہ کے مطابق، کامگاروں نے ڈیلٹا شوگرس کے خلاف لیبر کورٹ میں (انڈسٹریل ڈسپیوٹس ایکٹ کے تحت) دائر کیے گئے کیس کو واپس لے لیا تھا۔ اس کے بدلے میں، انھیں کمپنی سے چار مہینے کی تنخواہ اور ساتھ ہی ان کی دو مہینے کی بقایا تنخواہ دے دی گئی تھی۔ انھوں نے جو معاوضہ مانگا تھا، اس سے یہ ۲۰ مہینے کی کم تنخواہ ہے۔ ’’ہمارے پاس کورٹ میں مقدمہ لڑنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ اور مقدمہ کا نمٹارہ ہونے میں برسہا برس لگ جائیں گے۔ اسی لیے، ہم سب نے ساتھ مل کر صلح کر لینے کا فیصلہ کیا تھا،‘‘ ناگ راجو بتاتے ہیں۔

مزدوروں کا الزام ہے کہ سال ۲۰۱۴ سے ہی، کمپنی نے ان کے امپلائی پرویڈنٹ فنڈ (ای پی ایف) یا امپلائیز اسٹیٹ انشیورنس (ای ایس آئی) میں پیسے جمع نہیں کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، کامگاروں اور مالکوں کے درمیان صلح ہونے کے باوجود، فیکٹری کے حال ہی میں بند ہونے کے بعد انھیں ای پی ایف اور ای ایس آئی کی کل جمع رقم ادا نہیں کی گئی ہے۔ اور (۳۰۰ میں سے) تقریباً ۵۰ مزدور، جو مستقل ملازم نہیں تھے، انھیں ای پی ایف یا ای ایس آئی ادائیگیوں کا اہل نہیں سمجھا گیا ہے۔ ’’مجھے ہر بار یہی جواب ملا [میرے پوچھے جانے پر] کہ مجھے ’اگلے سال‘ مستقل ملازم بنا دیا جائے گا،‘‘ منگلا گری رنگ ڈاسو (۳۲) کہتے ہیں، جو مل میں ٹرولی ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے۔ ’’چودہ سال آئے اور چلے گئے اور اب وہ ہم سب کو فیکٹری سے باہر نکال رہے ہیں۔‘‘

ڈیلٹا شوگرس کے اچانک بند ہونے کے بعد بنائی گئی احتجاجی کمیٹی مالکان کے ان دعووں کو ماننے سے انکار کر رہی ہے کہ فیکٹری کو خسارے کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ ’’فیکٹری کو پچھلے سال ۱ء۶ لاکھ ٹن گنّے کی پیرائی سے کم از کم آٹھ کروڑ روپے کا منافع ہوا ہے،‘‘ آل انڈیا کسان سبھا کے کسانوں کے معروف لیڈر، کیشو رائے بتاتے ہیں۔ گنّے کی پیرائی سے، چینی کے علاوہ بہت سے دوسری اشیاء بھی ملتی ہیں، جیسے پھوک، راب (جو الکحل اور سرکہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے) اور فلٹر کیک۔

(فیکٹری کے مینجمنٹ سے جواب یا وضاحت حاصل کرنے کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ سیکورٹی گارڈوں نے مجھے فیکٹری کے اندر داخل نہیں ہونے دیا، جب کہ فیکٹری منیجر، سُبّا راجو نے فون پر کسی بھی سوال کا جواب دینے سے منع کر دیا)۔

Workers protesting in front of the main entrance of the Delta Sugar Mills facing the National Highway
PHOTO • Rahul Maganti
A public meeting by political parties, trade unions and farmers organisations demanding the sugar mills to be reopened
PHOTO • Rahul Maganti


ٹریڈ یونینس اور کسان تنظیموں نے، بغیر کسی نوٹس کے ڈیلٹا شوگر کو بند کرنے پر اعتراض کیا اور اسے متعدد قوانین کی خلاف ورزی بتایا


ڈیلٹا شوگرس کی فیکٹری، آندھرا پردیش کے کرشنا ضلع میں، ہنومان جنکشن پر واقع ہے، جو کہ وجے واڑہ سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور ہے۔ ہنومان جنکشن کے علاقہ میں ۱۹۷۰ کے عشرے میں تقریباً ۱۰ کھانڈساری ملیں تھیں – چھوٹی چھوٹی اکائیاں جہاں روزانہ ۱۰۰ ٹن گنّے کی پیرائی ہوتی تھی۔ سال ۱۹۸۳ میں ان کی جگہ ہنومان شوگر کوآپریٹو مل نے لے لی، جو روزانہ ۱۲۵۰ ٹن گنّے کی پیرائی کرتی تھی (ڈیلٹا شوگرس میں ۲۵۰۰ ٹن گنے کی پیرائی کرنے کی صلاحیت تھی)۔ کوآپریٹو کا شیئر کیپیٹل علاقہ کے گنّے کے کسانوں سے آتا تھا (کل کا تقریباً ۳ فیصد، جس کے بارے میں ان کی شکایت ہے کہ فیکٹری کو پرائیویٹائز کرنے کے بعد واپس نہیں ملا)، اس کے علاوہ ریاستی حکومت سے بھی آتا تھا۔

اقتصادی لبرلائزیشن کی ۱۹۹۰ کی دہائی میں شروعات ہونے کے بعد چینی صنعت کو دھیرے دھیرے ڈی ریگولیٹ کیا جانے لگا، جس سے شوگر کوآپریٹوز کو پرائیویٹائز کرنے کا عمل آسان ہو گیا۔ لہٰذا ۱۱۶ ایکڑ میں پھیلی ہنومان شوگر کو، سال ۲۰۰۱ میں ۱۱ء۴ کروڑ میں بیچ دیا گیا۔ علاقہ میں ۲۰۰۰-۲۰۰۲ کے دوران پیسے کے لین دین والے رجسٹریشن دستاویز بتاتے ہیں کہ اُس وقت اس فیکٹری کی بازاری قیمت ۴۰۰ کروڑ روپے سے زیادہ تھی۔ اسے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ، گوکا راجو گنگا راجو نے خریدا تھا، جو تجارت سے سیاست میں آئے تھے، اور جو کرشنا ضلع سے ملحق مغربی گوداوری کے نرسا پورم پارلیمانی حلقہ سے ۲۰۱۴ میں منتخب ہوئے تھے۔

The Delta Sugars factory. Work halted inside the sugar mill
PHOTO • Rahul Maganti
The Delta Sugars factory. Work halted inside the sugar mill
PHOTO • Rahul Maganti


مل مزدور ڈیلٹا شوگرس کے اس دعوے کو نہیں مانتے کہ اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے؛ ان کا ماننا ہے کہ فیکٹری کو اس لیے بند کر دیا گیا تاکہ زمین سے زیادہ منافع کمایا جا سکے


فیکٹری کے اچانک بند ہو جانے کا اثر علاقے کے اُن کسانوں پر بھی پڑا ہے، جو اِس مل میں گنّا سپلائی کرتے ہیں (لیکن انھیں اترپردیش اور مہاراشٹر کے گناّ کسانوں کے مقابلے فی ٹن کے حساب سے بہت کم قیمت ملتی ہے، کیسو راؤ کہتے ہیں)۔ اب اِن کسانوں کو اپنا گنّا بیچنے کے لیے نئی شوگر کمپنیاں تلاش کرنی پڑیں گی اور ان کمپنیوں کے ذریعے دور دراز علاقوں میں چلائی جانے والی گنا پیرائی اکائیوں تک اپنی پیداوار بھیجنے کے نئے طریقے ڈھونڈنے ہوں گے۔ یہ مسئلہ جب ریاستی اسمبلی کے سامنے اٹھایا گیا، تو آندھرا پردیش حکومت نے دسمبر- جنوری کی فصل کٹائی کے موسم کے لیے ایک عارضی حل نکالا۔ اس نے کہا کہ کسان اپنے گنّے ڈیلٹا شوگرس یونٹ میں اتار دیں جہاں سے انھیں دو دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کو بیچ دیا جائے گا – کرشنا ضلع کے ویورو کی کے سی پی شوگرش کمپنی اور مغربی گوداوری ضلع کے بھیما ڈول منڈل کی آندھرا شوگرس کمپنی۔ یہ دونوں کمپنیاں اپنے فیکٹریوں میں گنّے کو لے جانے کا کرایہ برداشت کریں گی۔

تاہم، اب تک یہ صاف نہیں ہو پایا ہے کہ فصل کٹائی کے اگلے موسم میں کیا ہوگا۔ کسان لیڈروں کا اندازہ ہے کہ کسانوں کو اپنے کھیتوں سے پیرائی کرنے والی اکائیوں تک ہر ۴۰ ٹن گنّے کی ڈھلائی کے لیے اضافی ۲۰ ہزار روپے خرچ کرنے ہوں گے – جو کہ فی ایکڑ کی اوسط پیداوار ہے۔

اس فیکٹری کو بند کرنے کے لیے، آندھرا پردیش انڈسٹریل ڈسپیوٹس رولس، ۱۹۵۸ کے تحت جن ضابطوں پر عمل کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا گیا۔ ’’فیکٹری کو کم از کم دو سال پہلے ہی گنّا کسانوں کو اس کی اطلاع دے دینی چاہیے تھی، تاکہ وہ اگلے زرعی موسم میں گنّے کے بجائے کسی اور فصل کی بوائی کر سکیں۔ یہ کیے بغیر، مینجمنٹ فیکٹری کو اچانک کیسے بند کر سکتا ہے؟‘‘ کیشو راؤ سوال کرتے ہیں، جنہوں نے ۱۹۷۲ میں شروع کی گئی اس تحریک میں مرکزی رول نبھایا تھا، جس کی وجہ سے ریاستی حکومت ۱۹۸۳ میں اس علاقہ میں کوآپریٹو شوگر مل کھولنے پر تیار ہوئی تھی۔

’’اس مل کے بند ہو جانے سے، ہمیں ٹرانسپورٹ کی اضافی لاگت برداشت کرنی ہوگی۔ ہمارے پاس اپنی مل ہونی چاہیے تھی۔ ہم نے مل شروع کرنے کے لیے تحریک کی قیادت کی تھی، جس کے چلتے ہنومان جنکشن کے ارد گرد اقتصادیات میں اضافہ ہوا،‘‘ پڑوسی گاؤں کے پامارتھی وینکٹ ریڈیہ (۵۹) کہتے ہیں۔ انہی کی طرح، آس پاس کے چھ منڈلوں – باپولاپاڈو، اُنگوٹورو، گَنّا ورم، نُزوِڈ، مسونورو اور وِسنّاپیٹ – کے تقریباً ۲۵۰۰ کسان بھی اپنی گزر بسر کے لیے ڈیلٹا شوگرس پر ہی منحصر تھے۔

Portrait of a sugarcane farmer
PHOTO • Rahul Maganti
The defunct premises of the Delta Agro Chemical company
PHOTO • Rahul Maganti
The owner of a paan shop
PHOTO • Rahul Maganti


پامارتھی وینکٹ ریڈیہ (بائیں) اور تقریباً ۲۵۰۰ دیگر کسان اپنے گنّے بیچنے کے لیے ڈیلٹا شوگرس پر منحصر تھے۔ پاس کی ڈیلٹا ایگرو کیمیکلس (مرکز) نے بھی اپنی دکان ایک عشرہ قبل بند کر دی تھی، اور چوڈاگری ریڈی (دائیں)، جن کی نوکری تب چلی گئی تھی، اسی بند ہو چکی فیکٹری کے بغل میں پان اور چائے کی دکان چلاتے ہیں


’’آس پاس کے گاؤوں میں ہماری گائیں اور بھینسیں بھی گنا پیرائی کے بعد بچ گئے خشک فضلوں پر انحصار کرتی ہیں۔ اس سے یہاں مویشی پالنے والے لوگوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا،‘‘ یادو ذات کے آلا گوپال کرشن راؤ (۵۸) کہتے ہیں، جو اپنی تین ایکڑ زمین پر گنّے کی کھیتی کرنے کے ساتھ ساتھ دودھ کے لیے مویشی بھی پالتے ہیں۔ مویشی پالنے اور دودھ بیچنے والے زیادہ تر لوگ، یا جو لوگ مل میں کام کرتے تھے، پچھڑی ذات کے ہیں، جیسے کہ یادو، یا پھر نہایت پچھڑی ذات، جیسے کہ مالا۔

حال ہی میں بند ہوئی ڈیلٹا شوگرس کے ٹھیک سامنے پہلے ہی بند ہو چکی ڈیلٹا ایگرو کیمیکلس فیکٹری ہے (جو کچھ دنوں کے لیے اسی کمپنی نے کھولا تھا)۔ سال ۲۰۰۷ میں، اسے بھی تب بند کر دیا گیا جب اس کے مالک نے بینک کا قرض نہیں چکایا اور بینک نے اس پراپرٹی پر قبضہ کر لیا۔ ’’تقریباً ۲۰۰ مزدوروں کا ذریعہ معاش چھن گیا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ اب [ہنومان جنکشن علاقہ میں] یا تو آٹو ڈرائیور ہیں یا پھر زرعی مزدور،‘‘ شرینواس راؤ کہتے ہیں، جو اس ویران فیکٹری میں سیکورٹی گارڈ ہیں۔

چوڈا گری ریڈی گوپال راؤ (۳۶)، جو کبھی ایگرو کیمیکلس فیکٹری میں الیکٹرک آپریٹر تھے، اب ٹھیک اس کے بغل میں پان اور چائے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ ’’میں اب مشکل سے [ماہانہ] ۵۰۰۰ روپے کماتا ہوں۔ اس سے مشکل سے ہی خرچ چلتا ہے۔ میں سال ۲۰۰۷ میں ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کماتا تھا، جب میں فیکٹری میں کام کرتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

اور ڈیلٹا شوگرس میں ۳۰ سال سے زیادہ کام کرنے کے بعد ۵۴ سال کی عمر میں کوئی نوکری نہ ہونے کی وجہ سے، ناگ راجو بھی اب ایک آٹو رکشہ چلا رہے ہیں۔ وہ اور ڈیلٹا شوگرس میں کام کر چکے دیگر مزدوروں کا یہی ماننا ہے کہ فیکٹری کا مالک مل کی زمین کو ایک نہ ایک دن کسی اور کام کے لیے استعمال کرے گا، مثال کے طور پر ہاؤسنگ پروجیکٹس اور آفس کامپلیکس کے لیے، کیوں کہ یہ جگہ نئی راجدھانی کے شہر امراوتی اور وجے واڑہ کے بالکل قریب ہے، اور اس کی وجہ سے زمین کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez