’’پڑھائی ختم ہونے کے بعد، میں ایک افسر بننا چاہتی ہوں – ایک ہوم گارڈ،‘‘ ۱۴ سالہ سندھیا سنگھ نے کہا۔ اس کا ۱۶ سال کا بھائی، شیوم، فوج میں نوکری حاصل کرنے کی امید کر رہا ہے، اور جب وہ اس کی عمر کا تھا تب سے اس کے لیے ’ٹریننگ‘ لے رہا ہے۔ ’’میں صبح ۴ بجے اٹھتا ہوں اور روزانہ اپنی ورزش کرتا ہوں،‘‘ اس نے بتایا، ’’میں یو ٹیوب سے فوج کی ٹریننگ کے بارے میں جو کچھ بھی پوچھتا ہوں، وہ مجھے بتا دیتا ہے – جیسے کہ [بار سے] لٹکنا کیسے ہے، پُش اَپ کیسے کرنا ہے، اس طرح کی چیزیں – اور میں اسے کرتا ہوں۔‘‘

وہ مجھ سے اتر پردیش کے جالون ضلع کے بنورا گاؤں میں اپنے گھر کی چھت سے فون پر بات کر رہے تھے۔ بھائی بہن ۲۱ مئی کو آندھرا پردیش کے کلیکیری گاؤں سے، جہاں ان کے والدین کام کرتے تھے، سے یہاں واپس آئے ہیں۔ ’’جب ہم گھر پہنچے، تو یہاں کچھ بھی نہیں تھا، اور ہم بھی کچھ لیکر نہیں آئے تھے،‘‘ ان کی ماں، ۳۲ سالہ رامدے کلی نے کہا۔ ’’اس رات ہم خالی پیٹ سوئے تھے...‘‘

۸ جولائی کو، رامدے کلی نے مجھے فخر سے مطلع کیا کہ شیوم نے اپنی ۱۰ویں کلاس کا بورڈ امتحان ۷۱ فیصد نمبرات کے ساتھ پاس کر لیا ہے۔ جب میں نے کلاس ۱۱ اور ۱۲ میں داخلہ کی کارروائی کے بارے میں پوچھا، تو ان کا لہجہ بدل گیا۔ ’’ہمارے بچے اس بات کو لیکر فکرمند ہیں کہ وہ آن لائن اسکول میں کیسے شریک ہوں گے۔ اگر ہم واپس [آندھرا پردیش] جاتے ہیں، تو فون ہمارے ساتھ چلا جائے گا۔ یوپی میں شیوم آن لائن کیسے پڑھائی کرے گا؟ اور اگر ہم یہاں رکتے ہیں، تو ہم ان کی فیس کیسے جمع کریں گے؟‘‘ انہوں نے سوال کیا۔ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے دونوں بچوں میں سے ہر ایک کی سالانہ فیس ۱۵ ہزار روپے ہے۔

کچھ مہینے پہلے تک، رامدے کلی اور ان کے شوہر، ۳۷ سالہ بیریندر سنگھ، آندھرا پردیش کے چتور ضلع کے کلیکیری گاؤں میں پانی پوری کے تین ٹھیلے لگاتے تھے۔ سندھیا ان کے ساتھ رہتی تھی، جب کہ شیوم جالون ضلع کے بردار گاؤں میں اپنے نانا کے ساتھ تھا۔ فیملی کا تعلق پال برادری سے ہے، جسے خانہ بدوش قبیلہ کے طور پر درج فہرست کیا گیا ہے۔

'She is worried about how her studies in Andhra Pradesh will continue, now that we are here [in UP],' Ramdekali said about her daughter Sandhya
PHOTO • Shivam Singh
'She is worried about how her studies in Andhra Pradesh will continue, now that we are here [in UP],' Ramdekali said about her daughter Sandhya
PHOTO • Birendra Singh

’وہ فکرمند ہے کہ آندھرا پردیش میں اس کی پڑھائی کیسے جاری رہے گی، جب کہ اب ہم یہاں [یوپی میں] ہیں‘، رامدے کلی نے اپنی بیٹی سندھیا کے بارے میں کہا

ایک فون شیوم کے پاس بھی ہے (جس کا استعمال وہ اپنے والدین سے دور رہنے کے دوران کرتا تھا)، لیکن فیملی اب دو فون ریچارج نہیں کر سکتی۔ ’’ہمیں فون کو بھی ریچارج کرنے میں مشکل ہو رہی ہے،‘‘ رامدے کلی نے کہا۔

’’کم از کم آندھرا پردیش میں لائٹ [بجلی] تو تھی،‘‘ بیریندر سنگھ نے کہا۔ ’’یہاں، ہم نہیں جانتے کہ یہ کب آئے گی۔ کبھی کبھی یہ اتنی دیر ضرور رہتی ہے کہ فون چارج ہو جائے۔ لیکن کبھی، اتنی دیر بھی نہیں رہتی۔‘‘

بیریندر کی آمدنی میں کمی لاک ڈاؤن سے پہلے شروع ہوئی۔ ۲۴ مارچ – جب مرکزی حکومت نے کووڈ- ۱۹ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا – سے دو مہینے پہلے وہ اپنی ماں کی آخری رسومات ادا کرنے، اور اپنے بیمار والد کی دیکھ بھال کرنے کے لیے بنورا آئے تھے۔

سنگھ ۲۰ مارچ کو شیوم کے ساتھ آندھرا پردیش کے کلیکیری گاؤں کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ رامدے کلی اور سندھیا پہلے سے ہی وہاں موجود تھیں۔ پھر لاک ڈاؤن شروع ہو گیا۔

۶ اپریل کو، بیریندر نے آندھرا پردیش میں کئی عوامی گروہوں کے ذریعے چلائی جا رہی کووڈ- ۱۹ ہیلپ لائن کو کال کیا۔ تب تک، یہ فیملی رامدے کلی کے بھائی، اوپیندر سنگھ کے گھر جا چکی تھی، جو اننت پور ضلع کے کوکّنتی گاؤں میں رہتے ہیں۔ اوپیندر بھی ٹھیلہ لگاکر چاٹ بیچتے ہیں۔ ہیلپ لائن سے، نو لوگوں کی اس مشترکہ فیملی کو اپریل میں دو بار آٹا، دال، تیل اور دیگر ضروری اشیاء حاصل ہوئی تھیں۔

ویڈیو دیکھیں: ’کیا ہوگا، کب ہوگا، مجھے نہیں معلوم...‘

’اگر ہم واپس [آندھرا پردیش] جاتے ہیں، تو فون ہمارے ساتھ چلا جائے گا۔ یوپی میں شیوم آن لائن کیسے پڑھائی کرے گا؟ اور اگر ہم یہاں رکتے ہیں، تو ہم ان کی فیس کیسے جمع کریں گے؟‘ رامدے کلی نے سوال کیا

’’کچھ سرکاری اہلکار آئے اور ہم نے ان سے کہا کہ ۱-۲ دن میں ہماری گیس ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ لکڑی سے کسی طرح کام چلاؤ۔ اس لیے ہم کام چلا رہے ہیں،‘‘ بیریندر نے مجھے ۱۳ اپریل کو فون پر بتایا تھا۔ ’’ہمیں اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ملی ہے کہ ہم گھر کیسے لوٹیں – نہ تو آندھرا پردیش یا اتر پردیش کی حکومتوں سے اور نہ ہی مودی جی کی سرکار سے۔‘‘

فیملی نے ۲ مئی کو، سرکار کے ذریعے چلائی جانے والی شرمک اسپیشل ٹرینوں میں سیٹ بُک کرانے کے لیے فارم بھرا تھا، اور ۶ مئی کو انہوں نے سفر کے لیے لازمی میڈیکل ٹیسٹ بھی کرایا تھا۔ ’’میں ایک ہفتہ بعد واپس گیا اور اہلکاروں سے کہا کہ رپورٹ اب تک آ جانی چاہیے،‘‘ سنگھ نے بتایا۔ کچھ دنوں بعد، انہوں نے پھر پتا کیا؛ ایک مہینہ گزر گیا۔ دریں اثنا، جس ہیلپ لائن سے فیملی کو راشن مل رہا تھا، وہ ۱۰ مئی کو بند ہو گئی۔

’’[لاک ڈاؤن] کی شروعات میں، جب ہمارے پاس کھانا تھا، تب کئی نمبروں [این جی او، عوامی گروہوں اور دیگر] سے مجھے فون آیا کہ کیا ہمیں راشن چاہیے۔ ہم نے سچ بولا اور کہا کہ ہم ٹھیک ہیں۔ اب کوئی بھی فون نہیں کر رہا ہے،‘‘ بیریندر نے مجھے ۱۱ مئی کو بتایا۔

پانچ دن بعد، یہ نو رکنی مشترکہ فیملی یوپی میں واقع اپنے گھر واپس لوٹنے لگی۔ ان میں اوپیندر اور ان کی بیوی ریکھا دیوی کا بیٹا کارتک بھی شامل تھا، جو ابھی تین سال کا بھی نہیں ہے۔

وہ تین دنوں میں تقریباً ۳۶ گھنٹے تک چلے۔ ’’موٹر سائیکل پر سوار لوگ کھانا دے رہے تھے،‘‘ بیریندر نے یاد کرتے ہوئے بتایا۔ گروپ میں چونکہ بچے بھی تھے، اس لیے انہیں راستے میں کئی بار رک کر سڑک کے کنارے اور دکانوں کے سایہ میں آرام کرنا پڑا۔ اپنا سامان – عام طور سے کپڑے – ڈھونے کے لیے فیملی نے کوکّنتی گاؤں میں ایک سائیکل کرایے پر لی تھی۔ بیریندر نے بتایا کہ ان کا زیادہ تر سامان ابھی بھی کلیکیری میں ان کے کمرے میں رکھا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ مکان مالک ان کے ساتھ کیا کرنے والا ہے، کیوں کہ انہوں نے مارچ سے کرایہ نہیں دیا ہے۔

Birendra Singh and his wife Ramdekali ran three paani puri carts in Kalikiri village of Andhra’s Chittoor district
PHOTO • Birendra Singh
Birendra Singh and his wife Ramdekali ran three paani puri carts in Kalikiri village of Andhra’s Chittoor district
PHOTO • Sandhya Singh

بیریندر سنگھ اور ان کی بیوی رامدے کلی آندھرا پردیش کے چتور ضلع کے کلیکیری گاؤں میں پانی پوری کے تین ٹھیلے لگاتے تھے

پیدل ۱۵۰ کلومیٹر سے زیادہ دوری طے کرنے کے بعد، فیملی یوپی جا رہے ایک ٹرک پر سوار ہو گئی۔ ٹرک میں ۴۱ بالغ اور کئی بچے بھی تھے۔ ہر ایک کو اپنے سفر کے لیے ۲۵۰۰ روپے دینے کے لیے کہا گیا۔ بیریندر کے پاس صرف ۷ ہزار روپے تھے، اس لیے انہیں چار سیٹوں کا پیسہ دینے کے لیے اپنے شناساؤں سے قرض لینا پڑا۔ آٹھ دنوں کے اس سفر کے دوران، بیریندر کی فیملی کو روزانہ کھانا اور پانی پر ۴۵۰-۵۰۰ روپے خرچ کرنے پڑے – وہ بھی تب، جب ٹرک ڈرائیور گاڑی کو روکنے پر راضی ہوتا۔

لاک ڈاؤن سے پہلے، بیریندر اور رامدے کلی مہینہ میں ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے کماتے تھے۔ وہ پانی پوری کے تین ٹھیلے لگاتے تھے، اور ۲۰۱۹ کے آخر میں انہوں نے اپنے دو رشتہ داروں (دونوں کا نام راہل پال) کو اپنے ساتھ لگائے جانے والے دو ٹھیلوں پر کام پر رکھا تھا۔ (ایک راہل دیوالی کے آس پاس یوپی میں اپنے گھر لوٹ آیا، دوسرا دسمبر میں لوٹا تھا)۔

رامدے کلی اور بیریندر روزانہ صبح کو ۴ بجے کام کرنا شروع کرتے تھے اور وہ عام طور پر آدھی رات کے بعد ہی سوتے تھے۔ کرایہ، گھریلو اور کاروباری خرچ، اسکول کی فیس وغیرہ ادا کرنے کے بعد، ان کے پاس بہت کم پیسے بچتے تھے۔ ’’ہمارے پاس زیادہ پیسہ نہیں تھا۔ گھر لوٹنے کے لیے ۱۰ ہزار روپے سے زیادہ کا انتظام کرنے کے سبب میری پہلے سے ہی کم بچت ختم ہو گئی،‘‘ سنگھ نے مجھے ۲۶ جون کو بتایا تھا۔

’’سفر کے دوسرے یا تیسرے دن، اتنی زبردست بارش ہونے لگی کہ ٹرک کو روکنا پڑا۔ ہم بھیگ گئے تھے۔ ہمیں ٹرک کی صفائی کرنے کے بعد اسی گیلے پن میں سفر کو جاری رکھنا پڑا،‘‘ سندھیا نے کہا۔ کئی لوگ سفر کے دوران گھنٹوں تک کھڑے رہے؛ وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھی جنہیں بیٹھنے کے لیے جگہ مل گئی تھی۔

'It’s very difficult to work outside the house [in UP] because I have to wear a purdah', Ramdekali said – here, with Shivam (right) and Birendra Singh
PHOTO • Sandhya Singh

’[یوپی میں] گھر کے باہر کام کرنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ مجھے گھونگھٹ کرنا پڑتا ہے‘، رامدے کلی نے کہا – یہاں شیوم (دائیں) اور بیریندر سنگھ کے ساتھ

بنورا گاؤں میں اپنے گھر پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد سندھیا کو بخار ہو گیا۔ ’’یہ اس کے ساتھ تب ہوتا ہے، جب وہ تناؤ میں ہوتی ہے۔ وہ فکرمند ہے کہ ہم یہاں پر ہیں، تو آندھرا پردیش میں اس کی پڑھائی کیسے جاری رہے گی۔ میری بیٹی، وہ پڑھائی میں بہت اچھی ہے، وہ آدھا کرناٹک اور آدھا آندھرا پردیش جانتی ہے،‘‘ رامدے کلی نے کنڑ اور تیلگو زبان میں اپنی بیٹی کی مہارت کے بارے میں کہا۔

سال ۲۰۱۸ میں آندھرا پردیش کے کلیکیری گاؤں آنے سے پہلے، یہ فیملی ۱۰ سال تک کرناٹک کے گڈگ شہر میں رہی۔ ’’میں شام کو گلی گلی جاکر گوبھی منچورین [تلی ہوئی پھول گوبھی کی ڈش] بیچتا تھا،‘‘ بیریندر کہتے ہیں۔ دن میں، رامدے کلی سامان تیار کرتی تھیں۔ ’’کئی بار، لوگ کھانے کے بعد پیسے نہیں دیتے تھے۔ پھر وہ گالیاں بھی دیتے تھے،‘‘ بیریندر نے کہا۔ ’’میں ان سے لڑ نہیں سکتا تھا – میں دوسرے گاؤں میں تھا۔ کسی طرح، ہم نے کام چلایا۔‘‘

۸ جولائی کو جب سنگھ سے میری بات ہوئی تھی، تب تک فیملی کو گھر لوٹے ہوئے ایک مہینہ سے زیادہ ہو گیا تھا۔ ’’میں [آندھرا پردیش] واپس جانے کے لیے تیار ہوں،‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا۔ ’’لیکن [کووڈ- ۱۹] مریضوں کی تعداد میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے، مجھے نہیں معلوم کہ گاہک [پانی پوری کھانے کے لیے] آئیں گے بھی۔‘‘

بیریندر کی طرح، ۹۹ فیصد خود روزگار افراد (جس میں سڑک پر اور گلیوں میں ٹھیلہ لگاکر سامان بیچنے والے بھی شامل ہیں) کی لاک ڈاؤن کے دوران کوئی کمائی نہیں ہوئی ہے، اسٹرینڈیڈ ورکرز ایکشن نیٹ ورک کا کہنا ہے۔ (یہ نیٹ ورک ۲۷ مارچ کو بنایا گیا تھا، تاکہ بحران میں پھنسے جو مہاجر مزدور کال کر رہے تھے ان کی مدد کی جا سکے، اور اس نے تقریباً ۱۷۵۰ فون کال پر مبنی تین رپورٹ جاری کی ہے۔)

دریں اثنا، بیریندر چھوٹے موٹے کام کرتے رہے، جیسے بنورا اور اس کے آس پاس لوگوں کے کچے گھروں کو ٹھیک کرنا۔ اس کام سے وہ ایک دن میں ۲۰۰ روپے کماتے ہیں، اور کسی ہفتے میں انہیں ۲-۳ دن کا کام مل جاتا ہے، کبھی کبھی وہ بھی نہیں ملتا۔ رامدے کلی گھر کا کام کر رہی ہیں – یعنی کھانا بنانا، کپڑے دھونا، صفائی کرنا۔ ’’گھر سے باہر کام کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ مجھے گھونگھٹ کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے میرے لیے کھیت پر کام کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن جب بھی مجھے وقت ملتا ہے، میں جاتی ہوں،‘‘ انہوں نے مجھے ۳۰ جولائی کو بتایا تھا۔

Shivam (left) and Birendra: On the family 2.5 acres of land in Binaura village, they are cultivating til, bhindi and urad dal
PHOTO • Sandhya Singh
Shivam (left) and Birendra: On the family 2.5 acres of land in Binaura village, they are cultivating til, bhindi and urad dal
PHOTO • Shivam Singh

شیوم (بائیں) اور بیرندر: بنورا گاؤں میں فیملی کی ۲ء۵ ایکڑ زمین پر، وہ تل، بھنڈی اور اڑد کی دال اگاتے ہیں

’’ہم سڑ رہے ہیں، یہاں بیکار بیٹھے ہیں۔ اور قرض بڑھتا جا رہا ہے...‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ہمیں فون ریچارج کرنے کے لیے بھی پوچھنا پڑتا ہے۔‘‘ ان کے اوپر فیملی اور دوستوں کا ۳۰ ہزار روپے سے زیادہ کا قرض ہے، بیریندر نے اندازہ لگایا، وہ بھی صرف لاک ڈاؤن کے دوران ہوئے خرچ کے لیے۔ ۳۰ جولائی کو، جب ان کا گیس سیلنڈر ختم ہو گیا تو، رامدے کلی نے بتایا، ’’مجھے کھانا بنانے کے لیے کسی اور کے گھر جانا پڑا۔ ہم اب صرف پیٹ کے لیے کما رہے ہیں، پہلے ایسا نہیں تھا۔‘‘

بنورا گاؤں میں فیملی کے پاس تقریباً ۲ء۵ ایکڑ زمین ہے۔ دو مہینے سے زیادہ تک بارش کا انتظار کرنے کے بعد، ۲۹ جولائی کو اچھی بارش ہوئی، تب جاکر وہ تل کی بوائی کر سکے۔ بیریندر بھنڈی اور اڑد کی دال بھی اگا رہے ہیں۔ وہ جب آندھرا پردیش میں تھے، تو ان کے چچا زمین کی دیکھ بھال کرتے تھے، اورپچھلے سال انہوں نے گیہوں، سرسوں اور مٹر اگائے تھے۔ وہ اپنی کچھ پیداوار فروخت کر دیتے ہیں، باقی فیملی کے لیے رکھ لیتے ہیں۔

بنورا پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد، بیریندر نے پردھان منتری کسان سمّان ندھی یوجنا کے لیے رجسٹریشن کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس سے مرکزی حکومت کی طرف سے سالانہ، اہل چھوٹے اور غریب کسانوں کے بینک کھاتے میں سیدھے ۶ ہزار روپے بھیجے جاتے ہیں۔ لیکن وہ رجسٹریشن کی آخری تاریخ سے چوک گئے۔ البتہ، وہ راشن کارڈ کے لیے رجسٹریشن کرانے میں کامیاب رہے۔

ہم نے جب پچھلی بار ۳۰ جولائی کو بات کی تھی، تو بیریندر اس سال کھیت کی پیداوار کے بارے میں پر اعتماد نہیں تھے: ’’اگر بارش پھر سے ہوتی ہے، تو فصل بڑھے گی۔ لیکن بارش کب ہوگی، اور کیا یہ فصل بڑھے گی، مجھے نہیں معلوم۔‘‘

وہ پانی پوری کا اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرنے کا انتظار کر رہے تھے، اور کہا، ’’جس کسی کو پانی چاہیے، اسے خود ہی ڈھونڈنا ہوگا۔ پانی آپ کے پاس نہیں آتا ہے۔‘‘

رپورٹر اپریل اور مئی، ۲۰۲۰ میں آندھرا پردیش کووڈ لاک ڈاؤن ریلیف اینڈ ایکشن کلیکٹو میں ایک رضاکار تھیں، جو اس اسٹوری میں مذکور ہیلپ لائن چلا رہا تھا۔

کور فوٹو: اوپیندر سنگھ

مترجم: محمد قمر تبریز

Riya Behl

Riya Behl is a journalist and photographer with the People’s Archive of Rural India (PARI). As Content Editor at PARI Education, she works with students to document the lives of people from marginalised communities.

Other stories by Riya Behl
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez