ریشم اور بیئنت کور کہتی ہیں، یہ لڑائی صرف کسانوں کی نہیں ہے، بلکہ زرعی مزدوروں کی بھی ہے۔ اگر ان زرعی قوانین کو نافذ کیا جاتا ہے، تو اس سے نہ صرف کسان متاثر ہوں گے، بلکہ ان مزدوروں پر بھی اثر پڑے گا جن کا ذریعہ معاش کاشتکاری ہے۔

اس لیے، ۷ جنوری کو دوپہر دونوں بہنوں نے قومی راجدھانی کی سرحدوں پر ہو رہے کسانوں کے احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونے کے لیے پنجاب کے مکتسر ضلع سے دہلی تک کا سفر کیا۔

’پنجاب کھیت مزدور یونین‘ کے ذریعے کم از کم ۲۰ بسیں منگوائی گئی تھیں، جن میں تقریباً ۱۵۰۰ لوگ سوار تھے، اور اس رات مغربی دہلی واقع ٹیکری بارڈر پہنچے تھے، جو نئے زرعی قوانین کے خلاف ہو رہے احتجاج کے مقامات میں سے ایک ہے۔ وہ بھٹنڈا، فریڈ کوٹ، جالندھر، موگا، مکتسر، پٹیالہ، اور سنگرور ضلعے سے آئے تھے۔ مکتسر ضلع کے اپنے گاؤں چنّو کے پاس کے ایک مقام سے ریشم اور بیئنت نے ان بسوں میں سے ایک بس پکڑی تھی۔

کئی کسان ۲۶ نومبر سے دہلی اور اس کے آس پاس کے ٹیکری بارڈر اور دیگر احتجاج کے مقامات پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، جب کہ دوسرے لوگ کچھ دنوں کے لیے شامل ہونے آتے ہیں، پھر اپنے گاؤں لوٹ جاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو چل رہے آندولن کے بارے میں مطلع کرتے ہیں۔ ۲۴ سال کی ریشم کہتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں کئی لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ یہ نئے زرعی قوانین زرعی مزدوروں کو کس طرح متاثر کریں گے۔ دراصل، ہمارے گاؤں میں نشر ہونے والے نیوز چینلوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون کسانوں اور زرعی مزدوروں کے فائدے کے لیے ہیں، اور ان قوانین کے نافذ ہونے کے بعد مزدوروں کو زمین اور بہتر سہولیات مہیا کرائی جائیں گی۔‘‘

زرعی قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔ یہ تین قوانین ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔ ان کی تنقید اس لیے بھی کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

Resham (left) and Beant: 'If farmers' land is taken away by these laws, will our parents find work and educate their children?'
PHOTO • Sanskriti Talwar

ریشم (بائیں) اور بیئنت: ’اگر ان قوانین کے ذریعے کسانوں کی زمین چھین لی جاتی ہے، تو کیا ہمارے ماں باپ کام ڈھونڈ پائیں گے اور اپنے بچوں کو پڑھا پائیں گے؟‘

کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ یہ قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی بازار کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاستی خرید، اور کسانوں کی مدد کرنے والے دیگر طریقوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔

ریشم اور بیئنت کا تعلق دلت برادری کے بوریا گروپ سے ہے۔ چنّو گاؤں کی کل آبادی ۶۵۲۹ میں سے تقریباً ۵۸ فیصد لوگ درج فہرست ذات سے ہیں۔ ان کی فیملی نے زرعی مزدوری کے ذریعے اپنا کام کیا ہے۔ ان کی ۴۵ سالہ ماں پرم جیت کور اب بھی کھیتوں پر مزدوری کرتی ہیں، جب کہ ۵۰ سالہ والد بلویر سنگھ گاؤں میں ایک ورکشاپ چلاتے ہیں، جہاں وہ ٹرالی اور لوہے کے گیٹ بناتے ہیں۔ ۲۰ سالہ بھائی ہردیپ ۱۰ویں کلاس تک پڑھا ہوا اور شادی شدہ ہے، وہ بھی والد کے ساتھ ورکشاپ میں کام کرتا ہے۔

ریشم نے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور لاک ڈاؤن سے پہلے ایک پرائیویٹ اسکول میں ۳۰۰۰ روپے ماہانہ پر پڑھا رہی تھیں۔ اس کے بعد سے، وہ ٹیوشن کلاس لینے لگی ہیں اور ۲۰۰۰ روپے ماہانہ کماتی ہیں۔ ۲۲ سالہ بیئنت کے پاس بی اے کی ڈگری ہے اور ان کا ارادہ انوینٹری کلرک کی نوکریوں میں درخواست کرنے کا ہے۔ دونوں بہنیں گھر پر سلائی کا کام بھی کرتی ہیں، اور ۳۰۰ روپے فی سیٹ کے حساب سے شلوار قمیض کی سلائی کرتی ہیں۔ کبھی کبھی، سلائی سے ہونے والی کمائی سے انہوں نے اپنی کالج کی فیس بھی بھری ہے۔

ریشم کہتی ہیں، ’’ہم زرعی مزدوروں کی فیملی میں پیدا ہوئے تھے۔ زرعی مزدور کی فیملی میں پیدا ہوا ہر بچہ جانتا ہے کہ مزدوری کیسے کرنی ہے۔ میں نے بھی اپنے اسکول کی چھٹیوں کے دوران ماں باپ کے ساتھ ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے کی دہاڑی پر کھیتوں میں کام کیا ہے۔‘‘

سبھی زرعی مزدوروں کے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ آگے کہتی ہیں، ’’ہم اپنے اسکول کی چھٹی کے دوران کبھی بھی خالی نہیں بیٹھتے ہیں۔ دوسرے بچوں کی طرح، ہم اسکول بند ہونے پر گھومنے یا تفریح کے لیے سفر پر نہیں جاتے۔ ہم کھیتوں پر کام کرتے ہیں۔‘‘

وہ آگے کہتی ہیں، ’’یہ نئے قوانین زرعی مزدوروں کے لیے اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا مزید مشکل کر دیں گے۔ ویسے بھی یہ مانا جاتا ہے کہ مزدور کا بچہ مزدور ہی بنتا ہے۔ اگر ان قوانین کے ذریعے کسانوں کی زمین چھین لی گئی، تو کیا ہمارے ماں باپ کام ڈھونڈ پائیں گے اور اپنے بچوں کو پڑھا پائیں گے؟ سرکار غریبوں کے لیے زندگی بسر کرنا ہی مشکل بنا دے رہی ہے، انہیں بنا کام، بنا کھانا، اور بنا تعلیم کے رہنے کو مجبور کر رہی ہے۔‘‘

Many farmers have been camping at Tikri and other protest sites in and around Delhi since November 26, while others join in for a few days, then return to their villages and inform people there about the ongoing agitation
PHOTO • Sanskriti Talwar
Many farmers have been camping at Tikri and other protest sites in and around Delhi since November 26, while others join in for a few days, then return to their villages and inform people there about the ongoing agitation
PHOTO • Sanskriti Talwar

کئی کسان ۲۶ نومبر سے دہلی اور اس کے آس پاس ٹیکری اور احتجاج کے دیگر مقامات پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، جب کہ کچھ لوگ اس میں کچھ دنوں کے لیے شامل ہو کر واپس اپنے اپنے گاؤں لوٹ جاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو چل رہے آندولن کی اطلاع دیتے ہیں

۹ جنوری کی دوپہر، دونوں بہنیں یونین کے ممبران کے ساتھ ٹیکری بارڈر سے ہریانہ-دہلی سرحد پر واقع سنگھو کے احتجاجی مقام کے لیے روانہ ہوئیں۔ ان کی بسیں تقریباً ۳ کلومیٹر پہلے روک دی گئیں، اور سبھی لوگ تختی یعنی پلے کارڈ اور یونین کے جھنڈوں کے ساتھ پیدل ہی مرکزی اسٹیج کے سامنے بیٹھنے والی جگہ تک پہنچے۔ ریشم نے جو تختی پکڑی تھی اس پر لکھا تھا: سرکاری خزانہ لوگوں کے لیے کھولو، خون چوسنے والے کارپوریٹس کے لیے نہیں۔

بیئنت نے اپنی بڑی بہن کے مقابلے یونین کی میٹنگوں میں زیادہ حصہ لیا ہے۔ وہ ۷ سال سے ’پنجاب کھیت مزدور یونین‘ سے جڑی ہوئی ہیں، جب کہ ریشم ۳ سال پہلے شامل ہوئی تھیں۔ بیئنت کا کہنا ہے کہ یہ ان کے چچا اور چچی کی وجہ سے ہوا ہے، جو کھنڈے حلال گاؤں (چنّو سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور) میں رہتے ہیں اور یونین کے رکن تھے۔ انہوں نے بیئنت کو چھوٹی عمر میں ہی گود لے لیا تھا، کیوں کہ وہ ایک بیٹی چاہتے تھے۔ بیئنت کہتی ہیں، ’’اس لیے میں کم عمر میں ہی یونین سے جڑ گئی۔ (۳ سال پہلے بیئنت گریجویشن کرنے کے لیے، اپنے والدین کے گھر چنّو لوٹ آئی ہیں)۔

۵۰۰۰ ارکان پر مشتمل ’پنجاب کھیت مزدور یونین‘ روزی روٹی، دلتوں کے لیے حق اراضی، اور ذات پر مبنی بھید بھاؤ سے جڑے مسائل کو لے کر کام کرتا ہے۔ یونین کے جنرل سکریٹری لکشمن سنگھ سیوے والا کہتے ہیں، ’’کئی لوگ دیکھتے ہیں کہ کسانوں کے ذریعے زرعی قوانین کے خلاف جاری یہ آندولن ان کی زمین اور کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) سے جڑے مسائل کے لیے ہے۔ لیکن، زرعی مزدوروں کے لیے یہ آندولن ان کے غذائی تحفظ اور عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) سے جڑے مسئلہ کے لیے ہے۔‘‘

بیئنت آگے کہتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں زرعی مزدوروں کا کوئی یونین نہیں ہے، صرف کسان یونین ہے۔ اس لیے، وہاں کے کچھ زرعی مزدوروں کو معلوم نہیں ہے کہ ان کے ساتھ بھی (ان قوانین کے ذریعے) نا انصافی ہو رہی ہے۔‘‘ ریشم کہتی ہیں، لیکن ہم بیدار ہیں۔ ہم دہلی آئے ہیں، تاکہ ہم انہیں مخالفت کی ایک حقیقی تصویر دکھا سکیں، اور یہ سمجھا سکیں کہ یہ قانون صرف کسانوں کو ہی نہیں، بلکہ سبھی کو متاثر کریں گے۔

دونوں بہنوں نے ۱۰ جنوری کو اپنے گھر واپسی کا سفر شروع کیا۔ احتجاج کے مقامات پر گزارے گئے ان دو دنوں کے بعد، بیئنت کہتی ہیں کہ ان کے پاس اپنے گاؤں والوں کو بتانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ وہ پنجاب ریاستی زرعی منڈی بورڈ کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھتی ہیں کہ ’’اگر باہریلوگ کسانوں کی زمین پر کھیتی کریں گے، تو مزدور کہاں جائیں گے؟ اگر منڈی بورڈ کو تباہ کر دیا گیا اور سرکار کے ذریعے چلائی جانے والی ایجنسیوں کو ناکام کر دیا گیا، تو غریبوں کو راشن کہاں سے ملے گا؟ غریبوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ سرکار سوچتی ہے کہ ہم بیوقوف ہیں، لیکن ہم بیوقوف نہیں ہیں۔ ہم انصاف کے لیے لڑنا جانتے ہیں، اور ہم ہر دن سیکھ رہے ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Sanskriti Talwar

Sanskriti Talwar is an independent journalist based in New Delhi. She reports on gender issues.

Other stories by Sanskriti Talwar
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez