یہ ایک چوری ہے :

۔ سال ۱۹۷۰ میں، گاندھا مردان بلاک۔بی، اڈیشہ مائننگ کارپوریشن (او ایم سی) کو کانکنی کے لیے پٹّے (لیز) پر دیا گیا۔

۔ سال ۲۰۱۳ میں شاہ کمیشن نے اس کان میں متعدد غیر قانونی سرگرمیوں کی نشاندہی کی، جس میں یہ بھی شامل تھا کہ سال ۲۰۰۰ سے ۲۰۰۶ کے درمیان فاریسٹ کلیئرنس حاصل کیے بغیر ۱۲ لاکھ ٹن خام لوہے کی کانکنی کی گئی۔ کیونجھار ڈسٹرکٹ کورٹ میں جنگلاتی قانون کی خلاف ورزی کے دو مقدمات چل رہے ہیں۔

۔ جنوری ۲۰۱۵ میں صوبائی حکومت نے او ایم سی کی طرف سے فاریسٹ کلیئرنس کے لیے درخواست دی، تاکہ ۱۵۹۰ ہیکٹیئر پر پیداوار کو بڑھاکر ۹۲ لاکھ ٹن کیا جا سکے۔ یہ علاقہ ۱۴۰۰ ہیکٹیئر جنگلات پر مشتمل ہے، جو سات آدیواسی گاؤوں میں پھیلا ہوا ہے۔

۔ او ایم سی نے تخمینہ لگایا ہے کہ خام لوہے کی سالانہ فروخت سے ۲۴۱۶ کروڑ روپے آئیں گے۔ اس نے اس علاقہ میں اگلے ۳۳ برسوں تک کانکنی کے ذریعہ ۳۰۰ ملین ٹن خام لوہا نکالنے کی تجویز پیش کی ہے۔

۔ وزارتِ ماحولیات و جنگلات فی الحال فاریسٹ کلیئرنس کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔

بحوالہ : غیر قانونی کانکنی پر جسٹس شاہ کمیشن انکوائری رپورٹ؛ گاندھا مردان بلاک۔بی کی فاریسٹ کلیئرنس کے لیے جمع کی گئی درخواست

PHOTO • Chitrangada Choudhury

اڈیشہ کے ہزاروں گاؤوں کی مانند، نِٹی گوتھا کی یہ برادری پوری مستعدی سے اپنے جنگلات کی حفاظت کرتی ہے

’’میں اس طرح دستخط کرتا ہوں۔ اڑیہ میں۔ میں نے اپنی زندگی میں انگریزی کبھی نہیں پڑھی۔ میں انگریزی میں بھلا دستخط کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘ حیران و پریشان گوپی ناتھ نائک اُرومنڈا گاؤں میں سائیکل سے اترتے ہوئے حیرانی سے یہ سوال کرتے ہیں۔

اپنے گاؤں کی حقوقِ جنگلات کمیٹی کے رکن، نائک نے ابھی ابھی انگریزی میں دستخط دیکھی ہے، جو اُن کی بتائی جا رہی ہے، جس کے تحت انھوں نے گرام سبھا کی قرار داد کی تصدیق کی ہے، اور یہ گرام سبھا ان کے گاؤں کی بتائی جا رہی ہے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اُرومُنڈا گاؤں کے باشندوں نے ۸۵۳ ہیکٹیئر کی جنگلاتی زمین اڈیشہ مائننگ کارپوریشن (او ایم سی) کے سپرد کرنے کی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اڈیشہ کی صوبائی حکومت اور او ایم سی کے ذریعہ فاریسٹ کلیئرنس درخواست کے حصہ کے طور پر اسی قسم کے سات گاؤوں کی گرام سبھا قراردادوں میں سے ایک قرارداد یہ بھی ہے، جسے وزارتِ ماحولیات و جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی میں جنوری ۲۰۱۵ میں جمع کیا گیا۔

Gopinath Naik, Urumunda: “I have never studied English… How would I sign in English?”
PHOTO • Chitrangada Choudhury

گوپی ناتھ نائک، اُرومُنڈا: ’’میں نے انگریزی کبھی نہیں پڑھی ۔۔۔۔۔ میں انگریزی میں کیسے دستخط کر سکتا ہوں؟‘‘

او ایم سی، جو خود کو ’’ہندوستان کی سب سے بڑی پبلک سیکٹر مائننگ کمپنی‘‘ کہتی ہے، کو اس کلیئرنس کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ وہ ۱۵۹۰ ہیکٹیئر زمین، جس میں اُرومُنڈا سمیت سات گاؤوں کے آس پاس کی ۱۴۰۹ ہیکٹیئر جنگلاتی زمین (جو کہ تقریباً۴۵ لودی گارڈین کے برابر ہے) بھی شامل ہے، کو ۳۰۰ ملین ٹن خام لوہے کی کان ’گاندھا مردان۔بی آئرن اور مائن‘ میں تبدیل کر سکے۔

او ایم سی کی تجویز ہے کہ اسے اس کان کو ۳۳ برسوں تک چلانے کی اجازت فراہم کی جائے؛ اس کی دستاویزوں میں ۹۲ لاکھ ملین ٹن خام لوہے کی فروخت قیمت سالانہ ۲۴۱۶ کروڑ روپے لگائی گئی ہے۔ اس طرح اس جنگل سے نکالے جانے والے کل خام لوہے کی مجموعی قیمت ۷۹ ہزار کروڑ روپے ہوگی۔

In Gandhamardan, the Odisha Mining Corporation wants to extract 300 million tonnes of ore across 1,590 hectares of forested land
PHOTO • Chitrangada Choudhury

گاندھا مردان میں اڈیشہ مائننگ کارپوریشن ۱۵۹۰ ہیکٹیئر زمین سے ۳۰۰ ملین ٹن خام لوہے کی کانکنی کرنا چاہتا ہے

ہم لوگ اڈیشہ کی راجدھانی بھونیشور سے ۲۵۰ کلومیٹر شمال کی جانب کیونجھار ضلع کے گاندھامردان پہاڑوں پر ہیں۔ یہ آدیواسی مُنڈا اور بھوئیان گاؤوں کا خوبصورت نظارہ ہے، برگ ریز جنگلات ہیں، اور پہاڑوں کے ارد گرد واقع کھیتوں میں مکئی، باجرا اور تِل کی کھیتی ہوتی ہے، جن کی سینچائی قدرتی چشموں سے ہوتی ہے۔ ہاتھیوں کے جھنڈ اور دیگر جنگلی جانور جنگل کے کچھ حصوں میں گھومتے پھرتے ہیں، جیسا کہ گاؤں والوں نے بتایا، اور سرکاری دستاویزوں میں درج ہے۔

یہاں پر ہندوستان کے ہیماٹائٹ کچے لوہے کا ایک تہائی ذخیرہ موجود ہے۔

بازاروں میں مال کی تیزی سے کھپت، خاص کر اونچی قیمتوں پر چین کو کی جانے والی برآمدات کی وجہ سے کیونجھار اور اس سے منسلک سندر گڑھ ضلع میں ۲۰۰۵ سے ۲۰۱۲ کے بیچ خام لوہا نکالنے کے لیے پہاڑوں اور جنگلوں کی بڑے پیمانے پر کھدائی کی گئی ہے۔ غیر قانونی کانکنی کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج ایم بی شاہ کی قیادت میں بنائے گئے شاہ کمیشن نے ۲۰۱۱ سے ۲۰۱۳ تک ان علاقوں کا دورہ کیا اور بتایا کہ اس علاقے میں بڑے پیمانے پر قانون کی خلاف ورزی اور مقامی آدیواسی برادریوں کے استحصال نے اقتصادی اور سیاسی طور پر خوشحال لوگوں کو ’’بے انتہا منافع‘‘ پہنچایا۔

لگاتار ہونے والے سوالات کی بوچھار کے سبب سال ۲۰۱۳ میں نوین پٹنائک کی قیادت والی حکومت نے تاخیر سے ریکوری نوٹس جاری کرتے ہوئے مائننگ کمپنیوں سے کہا کہ وہ غیر قانونی طریقے سے خام لوہے کی کانکنی کے لیے ۵۹۲۰۳ کروڑ روپے جمع کریں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے، تو یہ رقم صوبے کی سالانہ جی ڈی پی کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی بھی کمپنی نے ایک روپیہ تک جمع نہیں کیا ہے

In several farms of Adivasi villagers, Odisha Mining Corporation pillars mark the lease area of its proposed Gandhamardan mine
PHOTO • Chitrangada Choudhury

اڈیشہ مائننگ کارپوریشن کے ستون جو کئی کھیتوں میں لگے ہوئے ہیں، جن سے اس کے ذریعہ تجویز کردہ گاندھا مردان کان کے لیز ایریا کی نشاندہی ہوتی ہے

اڈیشہ میں بدعنوانی کے اس سب سے بڑے گھوٹالے کا جال اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس نے شاہ کمیشن کو اپنی ۲۰۱۳ کی رپورٹ کے اختتام پر یہ لکھنا پڑا کہ ’’قانون کی بالادستی وہاں پر بالکل نہیں ہے، بلکہ وہاں کا قانون وہی ہے جو کانوں کے پٹے حاصل کرنے والے یہ طاقتور لوگ فیصلہ کرتے ہیں، جس میں انھیں متعلقہ محکمہ کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔‘‘

لیکن اب یہ ۲۰۱۶ ہے، اور آدیواسیوں کے لیے، ایسا لگتا ہے کہ تھوڑی اہمیت ان کی پہلے تھی؛ اب بھی ان کی تھوڑی اہمیت ہے۔

اُرومُنڈا میں نائک، جن کا نام قرارداد میں تین بار درج ہے، کے علاوہ گاؤں کے بہت سے لوگ دستخط اور دوہرائے گئے ناموں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بیدیہ ناتھ ساہو کو ان کا نام تین جگہ ملا اور وہ مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’انھوں نے مجھے تین بار بیچ دیا۔‘‘

Baidyanath Sahoo, Urumunda: “They have sold me three times over”
PHOTO • Chitrangada Choudhury

بیدیہ ناتھ ساہو، اُرومُنڈا: ’’انھوں نے مجھے تین بار بیچ ڈالا۔‘‘

فاریسٹ کلیئرنس کے کاغذات کے مطابق، اُرومُنڈا اور گاندھا مردان جنگل کے چھ دیگر گاؤوں ۔ اوپر جگارا، ڈونلا، امبا دہارا، نٹی گوتھا، اوپر کینساری اور اِچینڈا کی گرام سبھائیں نومبر اور دسمبر ۲۰۱۱ میں بلائی گئیں۔ میں نے گاؤں گاؤں جاکر جب انھیں اِن قراردادوں کی یہ کاپیاں دکھائیں، جن پر ۲۰۰۰ دستخط اور انگوٹھے کے نشان لگے ہوئے تھے، تو ان گاؤوں والوں نے کہا کہ نہ تو انھوں نے ایسی کوئی میٹنگ بلائی تھی، نہ ہی اس قسم کی قراردادیں پاس کی تھیں۔

نٹی گوتھا میں پنچایت سمیتی کی رکن شکنتلا دیہوری نے اپنے گاؤں کے ذریعہ مبینہ طور پر پاس کی گئی قرارداد کی کاپی کو پڑھ کر گالیاں دینی شروع کر دیں۔ بقیہ چھ گاؤوں کی قراردادوں میں ایک ہی قسم کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ نٹی گوتھا کے باشندوں نے ایک میٹنگ کی، جس میں انھوں نے کہا کہ وہ جنگلات کا استعمال کھیتی باڑی، گھر بنانے یا کسی اور معاش کے طور پر نہیں کر رہے ہیں، اور انفرادی یا برادری کے طور پر اس پر ان کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ اس کے بعد قرارداد میں ہر گاؤں والا کہتا ہے کہ کان کے کھلنے سے انھیں ذریعہ معاش ملے گا، اور یہ کہ وہ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جنگلات کو اس مصرف میں استعمال کرنے کی تجویز کو نافذ کرے۔

خوبصورت شکنتلا جیسے جیسے قرارداد کو پڑھتی ہیں، اس کا متن وہاں جمع گاؤں والوں کو حیران کرتا رہتا ہے، پھر انھیں غصہ دلاتا ہے۔ ’’برائے مہرانی اُس حرامزادہ افسر کو میرے سامنے لائیے، جس نے اس بکواس اور فرضی قرارداد کو لکھا ہے،‘‘ نوجوان عورت غصے سے کہتی ہیں۔

علاقے کے دیگر گاؤوں کی طرح ہی نٹی گوتھا اور امبا دہارا، پورے اڈیشہ میں تقریباً ۱۵ ہزار گاؤوں ہیں، میں بھی اس کمیونٹی کے ذریعے جنگلات کی حفاظت کرنے کی طویل روایت رہی ہے، جس کا وزیر ماحولیات پرکاش جاوڑیکر خود سے مطالعہ کرنا چاہیں گے۔ مثال کے طور پر یہاں، گاؤں والوں نے ایک ڈیوٹی رجسٹر (روسٹر) بنا رکھا ہے، جس کے تحت پانچ گاؤں والے ہفتہ میں ہر دن اپنے گاؤں کے جنگل کی چوکیداری کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کہیں کوئی درخت نہ کاٹا جائے، ٹمبر کی کوئی اسمگلنگ نہ ہو۔

Shakuntala Dehury shows Nitigotha’s community forest protection roster
PHOTO • Chitrangada Choudhury

پنچایت سمیتی کی رکن شکنتلا دیہوری نٹی گوتھا کا کمیونٹی فاریسٹ پروٹیکشن روسٹر دکھاتے ہوئے

’’ہم جنگلوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جنگل ہماری پرورش کرتا ہے،‘‘ کوی راج دیہوری بتاتے ہیں، جو اُس دن ڈیوٹی پر مامور تھے، جب میں نے ان کے گاؤں کا دورہ کیا۔ ’’ہم گرام سبھا میں بیٹھ کر بھلا یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جنگل پر ہمارا کوئی دعویٰ نہیں ہے، اور ہم سرکار سے یہ درخواست کریں کہ وہ اسے او ایم سی کو دے دے؟‘‘

Sujit Dehury and sister Hemlata's names feature on their village's resolution. They were in Class 4 and 5 respectively when the purported gram sabha took place
PHOTO • Chitrangada Choudhury

سجیت دیہوری اور بہن ہیم لتا کے نام ان کے گاؤں کی قرارداد میں درج ہیں۔ جب یہ مبینہ گرام سبھا منعقد ہوئی، تو یہ دونوں بالترتیب چوتھی اور پانچویں کلاس میں تھے

اوپر جگارا کے لوگوں نے اپنے گاؤں کی مبینہ قرارداد کی کاپی دیکھنے کے بعد ’جعل سازی‘ ’جعل سازی‘ کہنا شروع کر دیا۔ گوبندا مُنڈا کو اپنا نام دو بار دیکھ کر کافی حیرانی ہوئی، دونوں ہی بار الگ اور فرضی دستخط کے ساتھ۔ ’’میں اصلی دستخط ایسے کرتا ہوں،‘‘ انھوں نے اپنا دستخط کرکے دکھایا۔

اپنے گاؤں کی مبینہ قرارداد میں درج ناموں کی فہرست کو پڑھنے کے بعد وہاں جمع بھیڑ نے یہ پایا کہ قرارداد میں درج آدھے سے زیادہ نام ان کے گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے نہیں ہیں۔ کھگیشور پورتی بیچ میں ٹوکتے ہیں، ’’او ایم سی مائننگ نے ہمارے کھیتوں کو برباد کر دیا، ہمارے چشموں کو چوس لیا۔ ہم نے اس کے بارے میں ضلع انتظامیہ سے کئی بار شکایت کی، لیکن ہماری کون سنتا ہے؟ اگر ہم نے ان کی تجویز پر غور کرنے کے لیے گرام سبھا بلائی، تو کیا ہم کبھی اتنی بکواس قرارداد پاس کر سکتے ہیں؟‘‘

Gobinda Munda’s name appears multiple times, with fake signatures and thumbprints
PHOTO • Chitrangada Choudhury

گوبندا مُنڈے کا نام فرضی دستخط اور انگوٹھے کے نشان کے ساتھ متعدد بار نمودار ہوتا ہے

امبا دہارا میں، سابق سرپنچ گوپال مُنڈا چار قراردادوں پر اپنا نام دیکھ کر سر ہلاتے ہیں، ان کے ماتحت چار گاؤوں میں سے ہر ایک گاؤں کی قرارداد پر۔ ہر قرارداد میں یہی کہا گیا ہے کہ میٹنگ ان کی ’’صدارت‘‘ میں ہوئی۔ ’’میرے نام پر یہ جھوٹ کون بول رہا ہے؟ مجھے بھونیشور یا دہلی کی عدالت میں لے کر چلیے، وہاں میں اپنا سر اٹھا کر یہ بات کہوں گا کہ ہم نے اپنے گاؤوں میں ایسی کوئی میٹنگ نہیں کی،‘‘ ہٹے کٹے مُنڈا کہتے ہیں۔ ’’انھیں جنگلات اور پہاڑوں کی وجہ سے ہمارے پاس پانی ہے، ہماری فصلیں ہیں۔ وہ ہماری دولت ہم سے چھین رہے ہیں اور بڑے آدمی بن رہے ہیں، جب کہ ہم پچھڑ رہے ہیں،‘‘ ان کے ارد گرد بیٹھے لوگ غصے سے کہتے ہیں۔

ڈونلا میں، تھکی ہوئی مسوری بیہرا کہتی ہیں، ’’وہ ہمارے پیٹ پر اس طرح لات کیوں مار رہے ہیں؟ ہمارے پاس پہلے سے ہی اتنا کم ہے۔‘‘ اس گاؤں کے لوگ پوچھتے ہیں، ’’اتنے لوگوں کی یہ میٹنگ کب ہوئی؟ اگر ہوتی تو کیا ہمیں پتہ نہیں چلتا؟‘‘

Masuri Behra, Donla village: “Why do they kick us in the stomach? We already have so little”
PHOTO • Chitrangada Choudhury

مسوری بیہرا، ڈونلا گاؤں: ’’وہ ہمارے پیٹ پر لات کیوں مار رہے ہیں؟ ہمارے پاس پہلے سے ہی اتنا کام ہے‘‘

گاؤوں والوں کی باتوں کو اگر الگ کر بھی دیا جائے، تو بھی ساتوں گاؤوں کی قراردادوں میں ایک ہی زبان کا استعمال یہ بتاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ اڑیہ زبان کی ان قراردادوں کے انگریزی ترجمے کا آخری لفظ بھی ایک جیسا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی (ایف اے سی) نے ستمبر ۲۰۱۵ کی اپنی میٹنگ میں او ایم سی فاریسٹ کلیئرنس میٹنگ کی تجویز پر جب غور کیا تھا، تب بھی اس حقیقت کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی سوال نہیں آیا۔

Two of the seven village resolutions. If government documents in the forest clearance submission are to be believed, seven meetings in seven different villages resulted in seven exactly identical consent resolutions
PHOTO • Chitrangada Choudhury

سات گاؤوں کی قراردادوں میں سے دو۔ اگر فاریسٹ کلیئرنس کے لیے جمع کی گئی سرکاری دستاویزوں پر بھروسہ کیا جائے، تو سات الگ الگ گاؤوں کی سات میٹنگوں میں بالکل ایک جیسی سات رضامندی والی قراردادیں ہیں

ایف اے سی کے ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے مجھ سے کہا، ’’اس دورِ حکومت میں کلیئرنس دینے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے۔ پہلے اس بات کی گنجائش ہوا کرتی تھی کہ ان چیزوں کو پھر سے دیکھا جائے اور سوالات کیے جائیں۔ لیکن اب اس کے لیے وقت نہیں ہے، نہ ہی ہم سے یہ توقع کی جاتی ہے۔‘‘

*******

بڑا سوال : گاؤں والوں کے ساتھ اس طرح کا دھوکہ کیوں؟ ہندوستان کے جنگلوں میں رہنے والے تقریباً ۱۵۰ ملین لوگوں  کے لیے بنائے گئے تاریخی قانون ، فاریسٹ رائٹس ایکٹ (ایف آر اے) کے تحت، روایتی جنگل کو ’غیر جنگلاتی‘ استعمال میں ’لانے‘ (کاٹنے) کے لیے گاؤں کے بالغوں کی ۵۰ فیصد آبادی کی رضامندی حاصل کرنی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، اس معاملے میں، او ایم سی ۱۴۰۹ ہیکٹیئر جنگلاتی زمین حاصل کرنا چاہتا ہے، اور اس کا استعمال ۳۰۰ ملین ٹن خام لوہا نکالنے کے لیے کرنا چاہتا ہے۔

ایف آر اے، گو کہ تاخیر سے بنایا گیا قانون ہے، جسے ۲۰۰۶ میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس قانون نے ان لاکھوں ہندوستانیوں کو پہچان دی ، جو روایتی طور پر جنگلوں میں یا اس کے آس پاس رہتے چلے آئے ہیں، لیکن ان کے پاس پہلے گھروں، زمینوں اور ذرائع معاش کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا۔ اس قانون کا مقصد نوآبادیاتی دور کے اس قانون کی’’تاریخی نا انصافی‘‘ کو دور کرنا ہے، جس کے تحت جنگل میں رہنے والے لوگوں کو خود اپنی زمین پر قبضہ کرنے والا قرار دے دیا گیا تھا۔

ایف آر اے کے تحت، انڈسٹریل ٹیک اووَر تبھی ہو سکتا ہے، جب جنگلوں میں رہنے والے کے حقوق، جن کا استعمال وہ روایتی طور پر کرتے آئے ہیں، کو تسلیم کر لیا گیا ہو۔ یہ کام جنگلاتی زمین کی انفرادی ملکیت کنبوں کے لیے (عورت اور مرد کے نام پر)، اور کمیونٹی ٹائٹل گاؤں کے نام پر کرکے کیا جاتا ہے۔

A graphic, based on a study by Vasundhara, an NGO in Odisha, shows community forests across Keonjhar district’s 336,615 hectares of  forest, and the potential for awarding Community Forest Rights titles to villages (Courtesy: Vasundhara)

اڈیشہ کے ایک این جی او، وسندھرا کے ذریعہ کی گئی تحقیق پر مبنی یہ گرافک کیونجھار ضلع کے ۳۳۶۶۱۵ ہیکٹیئر جنگلوں میں پھیلے ہوئے کمیونٹی فاریسٹ، اور برادریوں کو جنگلاتی حقوق کے اختیارات تفویض کرنے کی استعداد کو ظاہر کر رہا ہے (بشکریہ: وسندھرا)

یہ نہایت ہی اہم ہے، کیوں کہ یہ مقامی باشندوں کو ان مجوزہ جنگلات کو ختم کرنے کا فیصلہ لیتے وقت اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جس کو وہ روایتی طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ مقامی باشندوں کو معاوضہ حاصل کرنے کا اہل بھی بناتا ہے، اگر وہ ان علاقوں کو صنعت کو دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں، مقامی باشندوں کو خود ان کے وسائل کی وجہ سے ہونے والی نفع بخش آمدنی میں کوئی حصہ نہیں مل سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، او ایم سی نے، وہ یہاں سے جو بھی کانکنی کرے گا، اس کی فروخت قیمت ہر سال دو ہزار کروڑ روپے لگائی گئی ہے، جو کہ مائننگ کی مجوزہ مدت میں کل ۷۹ ہزار کروڑ روپے کے قریب ہوگی۔ ‘‘لیکن اس سے مقامی قبائلی لوگوں کو کیا ملے گا؟‘‘ ایک سینئر فاریسٹ آفیسر مجھ سے سوال کرتے ہیں۔

جنوری ۲۰۱۶ میں ترمیم شدہ شیڈولڈ کاسٹس اینڈ شیڈولڈ ٹرائبس (پریونشن آف ایٹروسٹیز) ایکٹ ایف آر اے قانون کو اور مضبوط بناتا ہے، جس میں جنگلاتی حقوق دینے سے انکار کرنے پر سزا کا انتظام کیا گیا ہے۔

لیکن اِن ساتوں گاؤوں میں، بہت سے لوگوں نے فاریسٹ رائٹس ٹائٹلس کے لیے درخواست دے رکھی ہے، لیکن ان میں سے کسی کو بھی ابھی تک یہ حق نہیں ملا ہے۔ جن کو مالکانہ حق ملا ہے، انھیں بھی صرف چند ٹکڑے زمین (۲۵ سے ۸۰ ڈِسمل) کے ملے ہیں، حالانکہ انھوں نے اس سے کہیں زیادہ پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔ مزید برآں، ضلع انتظامیہ نے ان میں سے دو گاؤوں کو کوئی ٹائٹل نہیں دیا ہے، یہ گاؤوں ہیں ڈونلا اور اوپر کینساری۔ کیونجھار میں ایف آر اے کے تحت دعویٰ کرنے والوں کے لیے فیلڈ ورک پروسیسنگ پر مامور ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر مجھ سے کہا کہ، ’’میرے سینئرس نے مجھ سے کہا کہ ڈونلا گاؤں کا جنگلاتی علاقہ کانکنی کے لیے او ایم سی کو دیا جانے والا ہے۔ اس لیے، ہمیں گاؤں والوں کے دعووں پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہیے۔‘‘

مزید غیر قانونی کارروائی کا عالم یہ ہے کہ انِ ساتوں گاؤوں میں سے اب تک کسی کو بھی کمیونٹی ٹائٹل نہیں ملا ہے۔ حالانکہ انھوں نے روایتی طور پر گھیرا بندی کرکے اپنے کمیونٹی جنگل بنا رکھے ہیں، جلانے کی لکڑی جیسی جنگلات کی پیداوار کا تھوڑا بہت استعمال کرتے ہیں، اور وہ جنگل کی حفاظت کرنے کی جس روایت پر عمل کرتے ہیں، اس کے ذریعے انھیں ’جنگلاتی وسائل کے حقوق‘ بھی قانوناً ملے ہوئے ہیں۔

کیونجھار کے اُس وقت کے ڈسٹرکٹ کلکٹر بشنو ساہو نے اپنے ریکارڈ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ یہاں پر کمیونٹی دعووں پر عمل کیوں نہیں کیا گیا، جب کہ ایف آر اے قانون کے تحت ایسا کیا جانا ضروری ہے ۔ بجائے اس کے، ان کے ذریعے ۱۹ جنوری، ۲۰۱۳ کو، او ایم سی کو جنگل دیے جانے کی حمایت میں تیار کیے گئے سرٹیفکیٹ میں کہا گیا ہے کہ ساتوں گاؤوں میں ایف آر اے حقوق دیے جا چکے ہیں۔

میں نے جب اڈیشہ حکومت میں جنگلات و ماحولیات کے سکریٹری کے عہدہ پر فائزہ ایس سی مہاپاترا سے رابطہ کیا، جن کے محکمہ نے او ایم سی کی طرف سے وزارتِ ماحولیات و جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی میں کلیئرنس درخواست جمع کی ہے، تو وہ کہتے ہیں، ’’میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا‘‘، اور جلدی سے فون رکھ دیتے ہیں۔ انھوں نے بعد میں میرے ذریعے کی گئی فون کال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

*******

نومبر ۲۰۱۵ کے شروع میں، جب انھیں اپنے نام پر جمع کی گئی فرضی قراردادوں کا پتہ چلا، تو سات گاؤوں میں سے دو، نٹی گوتھا اور امبا دہارا، نے ماحولیات اور قبائلی امور کی وزارتوں کو خط لکھ کر ان غیر قانونی کارروائیوں کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے اڈیشہ کے گورنر کو بھی خط لکھا، جن پر آئین کے تحت یہ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آدیواسی علاقوں میں مختلف برادریوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ تین مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی اب تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

حالت تو اور بھی خراب ہے۔ وزارتِ ماحولیات و جنگلات کی فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی کی تین رکنی ٹیم نے مجوزہ کان کے سائٹ کی جانچ کرنے کے لیے ۲۸ سے ۳۰ دسمبر، ۲۰۱۵ تک کیونجھار کا دورہ کیا۔ انھیں جن چیزوں کا معائنہ کرنا تھا، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کیا او ایم سی کے مجوزہ مائن ایریا میں ایف آر اے کا نفاذ ہوا ہے۔

میں نے ۲۹ دسمبر کو اس ٹیم کے سربراہ اور ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل، وزارتِ ماحولیات و جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی، انل کمار سے کیونجھار ہوٹل میں ملاقات کی، جہاں پر یہ ٹیم ٹھہری ہوئی تھی۔ انھوں نے اصرار کیا کہ میں ان سے او ایم سی کے اہل کاروں کی موجودگی میں بات کروں، جن کے ساتھ وہ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے۔ کمار اپنے دورے، یا ان کی ٹیم ایف آر اے کے نفاذ کی جانچ کس طرح کرنا چاہتی ہے، سے متعلق میرے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایف اے سی کا کام بصیغۂ راز ہے۔‘‘

جب ان پر دباؤ ڈالتے ہوئے میں نے پوچھا کہ کمیٹی مبینہ جعل سازیوں کے بارے میں گاؤوں کی شکایتوں کی جانچ کیسے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اور کیا ٹیم کے اراکین گاؤوں کا دورہ کریں گے، تو کمار نے جواب دینے کی بجائے مجھ سے کہا کہ وہ ان خلاف ورزیوں کے بارے میں مجھے ای میل سے مطلع کر دیں گے۔

چند دنوں قبل ہی، وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایک اخبار کو اپنی حکومت کی حصولیابیاں گناتے ہوئے کہا تھا ، ’’انوائرمنٹ کلیئرنسز ضابطوں کے مطابق دی جا رہی ہیں۔‘‘

ضلع میں تین دن گزارنے کے بعد، ۳۰ دسمبر کو ایف اے سی ٹیم کیونجھار سے واپس لوٹ گئی، لیکن اس نے ان ساتوں میں سے کسی بھی گاؤں کا دورہ نہیں کیا، نہ ہی گاؤں کے کسی باشندے سے بات کی۔

’سائٹ انسپیکشن‘ مکمل ہو چکا تھا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Chitrangada Choudhury
suarukh@gmail.com

Chitrangada Choudhury is an independent journalist, and a member of the core group of the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Chitrangada Choudhury
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez