یہ اسٹوری پاری کی ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی سیریز کا حصہ ہے، جس نے ماحولیات کی رپورٹنگ کے زمرہ میں سال ۲۰۱۹ کا رامناتھ گوئنکا ایوارڈ جیتا ہے
’’صبح کے ۱۱ بج کر ۴۰ منٹ ہو چکے ہیں، اس لیے آگے رفتار کی تازہ صورتحال کے بارے میں بتایا جا رہا ہے،‘‘ کڈل اوسئی ریڈیو اسٹیشن پر اے یشونت اعلان کرتے ہیں۔ ’’پچھلے ایک ہفتہ یا ایک مہینہ سے، کچان کاتھو [جنوبی ہوا] بہت تیز تھی۔ اس کی رفتار ۴۰ سے ۶۰ [کلومیٹر فی گھنٹہ] تھی۔ آج، گویا ماہی گیروں کی مدد کرنے کے لیے، یہ کم ہو کر ۱۵ [کلومیٹر فی گھنٹہ] پر پہنچ گئی ہے۔‘‘
تمل ناڈو کے رام ناتھ پورم ضلع کے پامبن جزیرہ کے ماہی گیروں کے لیے یہ بہت اچھی خبر ہے۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ وہ بغیر کسی خوف کے سمندر میں جا سکتے ہیں،‘‘ یشونت بتاتے ہیں جو خود ایک ماہی گیر ہیں۔ وہ اس علاقے میں رہنے والی برادری کے ایک ریڈیو اسٹیشن، کڈل اوسئی (سمندر کی آواز) میں ریڈیو جاکی بھی ہیں۔
خون کے عطیہ پر ایک مخصوص نشریہ شروع کرنے کے لیے، یشونت موسم کی رپورٹ سے متعلق اپنی بات ان الفاظ کے ساتھ ختم کرتے ہیں: ’’درجہ حرارت ۳۲ ڈگری سیلسیس پر پہنچ چکا ہے۔ اس لیے وافر مقدار میں پانی پیتے رہیں اور دھوپ میں نہ جائیں۔‘‘
یہ ایک ضروری احتیاط ہے، کیوں کہ پامبن میں اب ۱۹۹۶ کے مقابلے، جس سال یشونت کی پیدائش ہوئی تھی، کہیں زیادہ گرم دن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ تب، اس جزیرہ پر ایک سال میں کم از کم ۱۶۲ دن ایسے ہوتے تھے جب درجہ حرارت ۳۲ ڈگری سیلسیس کے نشان کو چھو لیتا تھا یا اس کے پار پہنچ جاتا تھا۔ ان کے والد انتھونی سامی واس – جو ابھی بھی ایک کل وقتی ماہی گیر ہیں – جب ۱۹۷۳ میں پیدا ہوئے تھے، تو اتنی گرمی سال میں ۱۲۵ دن سے زیادہ نہیں پڑتی تھی۔ لیکن آج، اُن گرم دنوں کی تعداد سالانہ کم از کم ۱۸۰ ہو چکی ہے، یہ کہنا ہے موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ پر ایک انٹریکٹو آلہ سے کی گئی پیمائش کا، جسے نیویارک ٹائمز نے اس سال جولائی میں آن لائن پوسٹ کیا تھا۔
اس لیے یشونت اور ان کے ساتھی نہ صرف موسم کو، بلکہ آب و ہوا کے وسیع موضوع کو بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے والد اور دیگر ماہی گیر – جن کی حقیقی تعداد اس جزیرہ کے دو بڑے قصبہ، پامبن اور رامیشورم میں ۸۳ ہزار کے آس پاس ہے – ان کی طرف اس امید کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان تبدیلیوں کا صحیح مطلب سمجھائیں گے۔
’’میں ۱۰ سال کی عمر سے مچھلی پکڑ رہا ہوں،‘‘ اینتھونی سامی کہتے ہیں۔ ’’سمندروں میں یقینی طور پر [تب سے] زبردست تبدیلی ہوئی ہے۔ پہلے، باہر نکلنے سے پہلے ہم ہواؤں اور موسم کا اندازہ لگایا کرتے تھے۔ لیکن آج، ہمارا کوئی بھی اندازہ درست نہیں نکلتا۔ اتنی زبردست تبدیلیاں ہوئی ہیں کہ وہ ہمارے علم کو غلط ثابت کر دیتی ہیں۔ پہلے، سمندر میں جاتے وقت اتنی گرمی کبھی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج، گرمی ہمارے لیے بہت زیادہ مشکلیں پیدا کر رہی ہے۔‘‘
کبھی کبھی، سامی جس سمندر کی بات کر رہے ہیں، وہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اس سال ۴ جولائی کو ہوا تھا جب یشونت – جو اپنے والد کی کشتی پر جب بھی موقع ملتا ہے، مچھلی پکڑنے چلے جاتے ہیں – رات میں ۹ بجے کے بعد یہ خبر لے کر آئے کہ سمندر میں طغیانی کے سبب چار لوگ اپنا راستہ بھٹک گئے۔ اس وقت، کڈل اوسئی بند ہو چکا تھا – اس کا نشریہ صبح ۷ بجے سے شام ۶ بجے تک ہوتا ہے – لیکن آر جے (ریڈیو جاکی) ہونے کی وجہ سے وہ ریڈیو پر آئے اور اعلان کیا کہ کچھ ماہی گیر طوفان میں پھنس گئے ہیں۔ ’’ہمارے پاس اس احاطہ میں ہمیشہ ایک آر جے ہوتا ہے، بھلے ہی یہ آفیشیل طور پر بند ہو۔‘‘ ریڈیو اسٹیشن کی سربراہ، گایتری عثمان کہتی ہیں۔ اور دیگر ملازم آس پاس ہی رہتے ہیں۔ ’’اس لیے ناگہانی حالت میں ہم ہمیشہ نشریہ کر سکتے ہیں۔‘‘ اُس دن، کڈل اوسئی کے ملازمین نے پولس، کوسٹ گارڈ، عوام اور دیگر ماہی گیروں کو محتاط کرنے کے لیے غیر یقینی طور پر کام کیا۔
بعد میں کئی رات جاگتے رہنے کے بعد، صرف دو لوگوں کو بچایا جا سکا۔ ’’وہ خستہ حال ولَّم [دیسی کشتی] سے لٹکے ہوئے تھے۔ دیگر دو نے ہاتھ میں درد ہونے کی وجہ سے، بیچ میں ہی کشتی چھوڑ دی،‘‘ گایتری کہتی ہیں۔ وداع ہوتے وقت، انھوں نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ وہ محبت کا پیغام ان کے اہل خانہ تک پہنچا دیں اور انھیں سمجھا دیں کہ وہ زیادہ دیر تک کشتی کو پکڑے نہیں رہ سکے۔ ان کی لاش ۱۰ جولائی کو سمندر کے کنارے پڑی ملی۔
’’اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے،‘‘ ۵۴ سالہ اے کے سیسوراج یا ’کیپٹن راج‘ کہتے ہیں، جنہوں نے یہ خطاب اپنی کشتی کے نام کی وجہ سے حاصل کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ نو سال کی عمر میں جب انھوں نے سمندر میں جانا شروع کیا تھا تو اس وقت ’’اس کا برتاؤ دوستانہ تھا۔ ہمیں پتہ رہتا تھا کہ مچھلی کتنی ملے گی اور موسم کیسا رہے گا۔ آج، دونوں کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔‘‘
’اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے‘، ۵۴ سالہ اے کے سیسوراج یا ’کیپٹن راج‘ کہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’سمندر کا برتاؤ دوستانہ تھا...ہمیں پتہ رہتا تھا کہ مچھلی کتنی ملے گی اور موسم کیسا رہے گا۔ آج، دونوں کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے‘
راج ان تبدیلیوں سے پس و پیش میں ہیں، لیکن کڈل اوسئی کے پاس، غیر جانبدار رہنے پر، ان کے لیے کچھ جواب ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم، نیسکّرنگل کے ذریعے ۱۵ اگست ۲۰۱۶ کو لانچ کیے جانے کے بعد سے ہی یہ اسٹیشن سمندر، موسم کے اتار چڑھاؤ اور موسمیاتی تبدیلی پر پروگرام چلاتا آ رہا ہے۔
’’ کڈل اوسئی ایک یومیہ پروگرام چلاتا ہے، جس کا نام ہے سموتھیرم پڈگو (سمندر کو جانیں)،‘‘ گایتری کہتی ہیں۔ ’’اس کا مقصد سمندروں کا تحفظ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس سے جڑے بڑے ایشوز کمیونٹی پر طویل مدتی اثر ڈالیں گے۔ سموتھیرم پڈگو موسمیاتی تبدیلی پر بات چیت کو جاری رکھنے کی ہماری ایک کوشش ہے۔ ہم سمندر کی صحت کے لیے نقصاندہ سرگرمیوں اور ان سے بچنے کے بارے میں بات کرتے ہیں [مثال کے طور پر، کشتیوں کے ذریعے حد سے زیادہ مچھلی پکڑنا، یا ڈیزل اور پیٹرول پانی کو کیسے آلودہ کر رہے ہیں]۔ پروگرام کے دوران ہمارے پاس لوگوں کے فون آتے ہیں، جو خود اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔ کبھی کبھی، وہ اپنی غلطیوں کے بارے میں بتاتے ہیں – اور وعدہ کرتے ہیں کہ انھیں دوہرائیں گے نہیں۔‘‘
’’اپنی شروعات سے ہی، کڈل اوسئی کی ٹیم ہمارے رابطے میں ہے،‘‘ کرسٹی لیما کہتی ہیں، جو ایم ایس سوامی ناتھن ریسرچ فاؤنڈیشن (MSSRF)، چنئی میں کمیونی کیشنز منیجر ہیں، یہ ادارہ اس ریڈیو اسٹیشن کی مدد کرتا ہے۔ ’’وہ اپنے پروگراموں میں ہمارے ماہرین کو بلاتے رہتے ہیں۔ لیکن مئی سے، ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ کڈل اوسئی کے توسط سے ایسا کرنا آسان ہے، کیوں کہ کمیونٹی ریڈیو کے طور پر وہ پامبن میں پہلے سے ہی کافی مقبول ہیں۔‘‘
اس ریڈیو اسٹیشن نے ’کڈل اورو ادییسیَم، الئی کاپدو نم اَوَسِیَم‘ (سمندر ایک عجوبہ ہے، ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے) عنوان سے، مئی اور جون میں خاص طور سے موسمیاتی تبدیلی کے ایشوز پر چار ایپیسوڈ نشر کیے۔ MSSRF کی کوسٹل سسٹم ریسرچ اکائی کے ماہر، اس کے صدر وی سیلوَم کی قیادت میں ان ایپیسوڈ میں شامل ہوئے۔ ’’ایسے پروگرام بے حد اہم ہیں، کیوں کہ جب ہم موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہم اعلیٰ سطح پر جاکر یا ماہرین کے ساتھ ایسا کرتے ہیں،‘‘ سیلوم کا کہنا ہے۔ ’’اس کے بارے میں زمینی سطح پر چرچہ کرنے کی ضرورت ہے، ان لوگوں کے بیچ جاکر جو درحقیقت روزانہ اس کے اثرات کو جھیل رہے ہیں۔‘‘
۱۰ مئی کو نشر ہونے والے ایک ایپیسوڈ نے پامبن کے لوگوں کو اپنے جزیرہ پر ہو رہی بڑی تبدیلی کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد کی۔ دو عشرے قبل تک، کم از کم ۱۰۰ خاندان ۲۰۶۵ میٹر لمبے پامبن پُل کے قریب رہتے تھے، جو رامیشورم شہر کو ہندوستان کی سرزمین سے جوڑتا ہے۔ لیکن سمندر کی بڑھتی سطح نے انھیں اس جگہ کو چھوڑ دوسرے مقامات پر جانے کے لیے مجبور کیا۔ ایپیسوڈ میں، سیلوم سامعین کو سمجھاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اس قسم کی نقل مکانی میں کیسے تیزی لا رہی ہے۔
نہ تو ماہرین یا ماہی گیروں نے اس ایشو کو آسان بنانے کی کوشش کی اور نہ ہی ریڈیو اسٹیشن کے نامہ نگاروں نے۔ وہ ان تبدیلیوں کے لیے ذمہ دار کوئی ایک واقعہ یا کوئی ایک سبب بیان کرنے میں بھی ناکام رہے۔ لیکن وہ اس بحران کو پھیلانے میں انسانی سرگرمیوں کے رول کی جانب ضرور اشارہ کرتے ہیں۔ کڈل اوسئی کی کوشش ہے کہ وہ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے میں اس برادری کی قیادت کرے، انھیں تلاش کے سفر پر لے جائے۔
’’پامبن ایک جزیرہ ایکولوجی ہے اور اسی لیے زیادہ غیر محفوظ ہے،‘‘ سیلوم کہتے ہیں۔ ’’لیکن ریت کے ٹیلوں کی موجودگی جزیرہ کو آب و ہوا کے کچھ اثرات سے بچاتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ جزیرہ سری لنکائی ساحل سے اٹھنے والے سمندری طوفانوں سے کچھ حد تک محفوظ ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
لیکن سمندری دولت کا نقصان حقیقی بنا ہوا ہے، جس کے پیچھے موسمیاتی اور غیر موسمیاتی اسباب کا ہاتھ ہے، وہ آگے کہتے ہیں۔ بنیادی طور پر کشیتوں کے ذریعے حد سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے کے سبب اب شکار میں کمی آ چکی ہے۔ سمندر کے گرم ہونے سے مچھلیاں اب جھنڈ میں نظر نہیں آتیں۔
’’ اورل، سیرا، ویلکمبن ... جیسی انواع پوری طرح سے غائب ہو چکی ہیں،‘‘ ماہی گیر برادری سے آنے والی اور کڈل اوسئی کی آر جے، بی مدھومیتا نے ۲۴ مئی کو نشر ایک ایپیسوڈ میں بتایا۔ ’’ پال سُرا، کلویتی، کومبن سورا جیسی کچھ انواع ابھی بھی موجود ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کیرالہ میں کسی زمانے میں کثرت سے پائی جانے والی ماتھی مچھلی، اب ہماری طرف بھاری تعداد میں موجود ہے۔‘‘
اسی ایپیسوڈ میں ایک دیگر بزرگ خاتون، لینا (جن کا پورا نام دستیاب نہیں ہے) کہتی ہیں کہ ایک دیگر قسم، منڈئی کلگو ، جو تقریباً دو دہائی پہلے یہاں ٹنوں میں دستیاب ہوا کرتی تھی، اب غائب ہو چکی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ کیسے ان کی نسل نے اس مچھلی کا منھ کھول کر اس کے انڈے نکالے اور کھا گئے۔ یہ ایک ایسا تخیل ہے جسے ایم سیلاس جیسی کم عمر کی عورتیں، جو خود اسی برادری سے ہیں (اور ایک کل وقتی کڈل اوسئی اینکر اور پروڈیوسر ہیں، جن کے پاس ایم کام کی ڈگری ہے)، ٹھیک سے سمجھ نہیں سکتیں۔
’’۱۹۸۰ کی دہائی تک، ہم ٹنوں کٹّئی سیلا، کومبن سورا اور اس قسم کی دیگر انواع حاصل کیا کرتے تھے،‘‘ لینا کہتی ہیں۔ ’’آج ہم ان مچھلیوں کو ڈسکوری چینل پر تلاش کر رہے ہیں۔ میرے دادا پردادا [جنہوں نے غیر مشینائزڈ دیشی کشتیوں کا استعمال کیا] کہا کرتے کہ انجن کی آواز مچھلیوں کو دور بھگا دیتی ہے۔ اور پیٹرول یا ڈیزل نے پانی میں زہر گھول دیا اور مچھلیوں کے ذائقہ کو بدل دیا۔‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان دنوں عورتیں بھی سمندر کے کنارے پانی میں اتر جاتیں اور جال پھینک کر مچھلیاں پکڑ لیا کرتی تھیں۔ اب چونکہ ساحل پر مچھلیاں نہیں ملتیں، اس لیے عورتوں نے بھی سمندر میں جانا کم کر دیا ہے۔
۱۷ مئی کے ایک ایپیسوڈ میں مچھلی پکڑنے کے روایتی طریقے اور نئی تکنیکوں پر بحث کی گئی – اور سمندری زندگی کو بچانے کے لیے دونوں کو کیسے جمع کیا جائے۔ ’’ماہی گیروں کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ساحلوں پر پنجرے ڈالیں اور مچھلیوں کی افزائش کریں۔ سرکار اس ’پنجرہ کلچر‘ کی حمایت کر رہی ہے، کیوں کہ یہ ختم ہوتی سمندر کی دولت کے مسئلہ کو حل کرتا ہے،‘‘ گایتری کہتی ہیں۔
پامبن کے ۲۸ سالہ ماہی گیر، اینٹونی انیگو اسے آزمانے کے خواہش مند ہیں۔ ’’پہلے، اگر ڈیوگانگ (ایک سمندری پستانیہ) ہمارے ہاتھ لگ جاتی، تو ہم انھیں سمندر میں واپس نہیں چھوڑتے تھے۔ لیکن کڈل اوسئی پر نشر ایک پروگرام کو سننے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ موسمیاتی تبدیلی اور انسانی سرگرمی نے انھیں کیسے خاتمہ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہم انھیں سمندر میں واپس چھوڑنے کے لیے اپنی مہنگی جالوں کو کاٹنے کے لیے تیار ہیں۔ کچھووں کے ساتھ بھی ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘
’’اگر ہمارے پاس آکر کوئی ماہر یہ بتاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی مچھلیوں کو کیسے متاثر کر رہی ہے، تو وہیں ہم سے کچھ ایسے ماہی گیر بھی جُڑ جاتے ہیں جو اپنے تجربے سے بتاتے ہیں کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے،‘‘ گایتری کہتی ہیں۔
مچھلیوں کے غائب ہونے کا قصوروار ہم نے دیوتاؤں اور قدرت کو ٹھہرایا۔ اپنے شو کے توسط سے ہم نے محسوس کیا ہے کہ یہ پوری طرح سے ہماری غلطی ہے،‘‘ سیلاس کہتی ہیں۔ کڈل اوسئی کے سبھی ملازم، انہی کی طرح ماہی گیر کمیونٹی سے ہیں – گایتری کو چھوڑ کر۔ وہ ایک قابل ساؤنڈ انجینئر ہیں، جو ڈیڑھ سال پہلے ان کے ساتھ شامل ہوئی تھیں اور اس کمیونٹی پلیٹ فارم کے لیے ایک واضح سمت اور مقصد لے کر آئیں۔
کڈل اوسئی کا غیر مذکور دفتر پامبن روڈ پر واقع ہے جہاں زیادہ تر دن مچھلیوں کا بھاری کاروبار ہوتا ہے۔ بورڈ پر نیلے رنگ سے اس کا نام لکھا ہے- نمدو مُنّیٹر تُکّان وانولی (ہماری ترقی کا ریڈیو)۔ دفتر کے اندر جدید ترین ریکارڈنگ اسٹوڈیو کے ساتھ ایف ایم اسٹیشن ہے۔ ان کے پاس بچوں، عورتوں اور ماہی گیروں کے لیے الگ الگ پروگرام ہیں ۔ اور بیچ بیچ میں وہ سمندر میں جانے والے ماہی گیروں کے لیے امبا گانے بجاتے رہتے ہیں۔ ریڈیو اسٹیشن کے کل ۱۱ ملازمین میں سے صرف یشونت اور ڈی ریڈیمر آج بھی سمندر میں جاتے ہیں۔
یشونت کی فیملی کئی سال پہلے توتوکُڈی سے پامبن آ گئی تھی۔ ’’وہاں پر ماہی پروری فائدے کا سودا نہیں رہ گئی تھی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میرے والد کے لیے وافر مقدار میں مچھلیاں پکڑنا مشکل ہو رہا تھا۔‘‘ رامیشورم نسبتاً بہتر تھا، لیکن ’’کچھ برسوں کے بعد، یہاں بھی مچھلیاں کم ہونے لگیں۔‘‘ کڈل اوسئی نے انھیں محسوس کرایا کہ یہ ’’دوسروں کے ذریعے کیے گئے ’کالے جادو‘ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ شاید اس ’کالے جادو‘ کا نتیجہ ہے جو خود ہم نے اس ماحولیات پر کیا ہے۔‘‘
وہ منافع کو لے کر لوگوں کے پاگل پن کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ’’کچھ بزرگوں کا ابھی بھی یہ ماننا ہے کہ وہ اس لیے غریب ہیں کیوں کہ ان کے اجداد نے مچھلیاں پکڑنے کے معاملے میں زیادہ کچھ نہیں کیا۔ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے سمندر کا زیادہ استحصال ہو رہا ہے۔ ہم میں سے کچھ نوجوان اب اس کے خطروں کو سمجھتے ہیں، اس لیے ہم اس ’کالے جادو‘ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
وہ منافع کو لے کر لوگوں کے پاگل پن کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ’کچھ بزرگوں کا ابھی بھی یہ ماننا ہے کہ وہ اس لیے غریب ہیں کیوں کہ ان کے اجداد نے مچھلیاں پکڑنے کے معاملے میں زیادہ کچھ نہیں کیا...وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے سمندر کا زیادہ استحصال ہو رہا ہے‘
پھر بھی، اس وسیع برادری کا روایتی علم سیکھنے کا ایک شاندار ذریعہ بنا ہوا ہے۔ ’’ماہرین اکثر یہی تو کرتے ہیں۔ وہ اس علم کو ثابت کرتے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں اسے کیوں استعمال کرنا چاہیے۔ ہمارا ریڈیو اسٹیشن روایتی علم کو ایک اہم پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ بدلے میں، ہماری برادری ہمارے نشریہ پر دی گئی مہارت کا استعمال کرتی ہے،‘‘ مدھومیتا کہتی ہیں۔
پامبن کے ماہی گیروں کی تنظیم (Pamban Country Boats Fishermen’s Association) کے صدر، ایس پی رایپّن اس سے متفق ہیں۔ ’’ہم نے سمندری زندگی کا حد سے زیادہ استحصال اور اس کے خطروں کے بارے میں ہمیشہ بات کی ہے۔ کڈل اوسئی کے ذریعے ماہی گیروں کے درمیان پیدا کی گئی بیداری زیادہ مؤثر ہے، ہمارے لوگ اب ڈیونگانگ یا کچھوے کو بچانے کے لیے کبھی کبھی اپنی امپورٹیڈ جال بھی قربان کر دیتے ہیں۔‘‘ اور سیلاس و مدھومیتا کو امید ہے کہ ان کا ریڈیو اسٹیشن، شاید ایک دن منڈئی کلگو کو بھی جزیرہ کے پانیوں میں واپس لانے میں مدد کرے گا۔
زیادہ تر کمیونٹی ریڈیو اسٹیشنوں کی طرح ہی، اس کا نشریہ بھی ۱۵ کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں پہنچتا ہے۔ لیکن پامبن میں لوگوں نے کڈل اوسئی کو گلے لگا لیا ہے – ’’اور ہمیں سامعین سے ایک دن میں دس خطوط موصول ہوتے ہیں،‘‘ گایتری کا کہنا ہے۔ ’’ہم نے جب شروعات کی تھی، تو لوگوں کو حیرانی ہوئی تھی کہ ہم کون ہیں اور کس ترقی کی بات کر رہے ہیں۔ اب وہ ہمارے اوپر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘
یہ صرف آب و ہوا ہے جس میں وہ اپنا اعتماد کھو رہے ہیں۔
کور فوٹو: پامبن میں ۸ جون کو اقوام متحدہ کے عالمی یومِ بحر کی تقریب میں بچوں کے ہاتھ میں ایک بورڈ ہے، جس پر لکھا ہے کڈل اوسئی (تصویر: کڈل اوسئی)
موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمر قمر تبریز)
#weather-report #kadal-osai #pamban-island #ramanathapuram-district #fishing-community #community-radio #climate-change