دھڑگاؤں علاقے کے اکرانی تعلقہ میں، تپتی دوپہر میں شیونتا تڑوی اپنے سر پر ساڑی کا پلّو ڈالے بکریوں کے ایک چھوٹے سے ریوڑ کے پیچھے بھاگتی ہیں۔ جب بکری کا کوئی بچہ جھاڑیوں میں گھُستا ہے یا پھر کسی کے کھیت میں گھُسنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ اپنی چھڑی زمین پر پٹخ کر اسے جھُنڈ میں واپس لاتی ہیں۔ ’’مجھے ان پر کڑی نظر رکھنی پڑتی ہے۔ چھوٹے والے زیادہ شیطان ہیں۔ وہ کہیں بھی بھاگ جاتے ہیں،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’اب یہ میرے بچوں جیسے ہیں۔‘‘
وہ جنگل کی طرف روانہ ہو چکی ہیں، جو کہ نندُربار ضلع میں ہرن کھُری گاؤں کی ایک بستی، مہاراج پاڑہ میں واقع ان کے گھر سے تقریباً چار کلومیٹر دور ہے۔ یہاں وہ اپنی بکریوں، چہچہاتی چڑیوں اور ہوا سے جھومتے درختوں کے درمیان اکیلی اور مست ہیں۔ وہ ونزوٹی (بانجھ عورت)، دَل بھدری (منحسوس عورت) اور دُشٹ (شیطان) جیسے طعنوں سے بھی آزاد ہیں، جو شادی کے بعد ۱۲ برسوں تک انہیں روز سنائے جاتے رہے۔
’’جن آدمیوں کے بچہ نہیں ہوتا، ان کے لیے ایسے ہتک آمیز لفظ کیوں نہیں بنے ہیں؟‘‘ شیونتا پوچھتی ہیں۔
شیونتا (بدلا ہوا نام)، جو اب ۲۵ سال کی ہو چکی ہیں، شادی کے وقت ۱۴ سال کی تھیں۔ ان کے ۳۲ سالہ شوہر، روی ایک زرعی مزدور ہیں، جو کام ملنے پر یومیہ ۱۵۰ روپے کما لیتے ہیں۔ وہ شرابی بھی ہیں۔ یہ لوگ بھیلوں کی آدیواسی برادریوں سے ہیں، جو مہاراشٹر کے آدیواسیوں کے غلبہ والے اس ضلع میں رہتے ہیں۔ شیونتا بتاتی ہیں کہ روی (بدلا ہوا نام) نے انہیں گزشتہ شب بھی پیٹا تھا۔ ’’کوئی نئی بات نہیں ہے،‘‘ وہ کندھا اُچکاتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’میں اسے بچہ نہیں دے سکتی۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ میری بچہ دانی میں نقص ہے اس لیے میں دوبارہ ماں نہیں بن سکتی۔‘‘
۲۰۱۰ میں دھڑگاؤں کے دیہی اسپتال میں شیونتا کے اسقاطِ حمل کے وقت یہ پایا گیا تھا کہ شیونتا کو پالی سسٹک اوویریَن سنڈروم (پی سی او ایس) ہے، جس کا مطلب شیونتا کے حساب سے خراب بچہ دانی ہوتی ہے۔ وہ اس وقت صرف ۱۵ سال کی تھیں اور ان کو تین مہینے کا حمل تھا۔
پی سی او ایس ہارمون سے جڑی ایک خرابی ہے، جو حمل ٹھہرنے کی عمر میں کچھ عورتوں میں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کو غیر معمولی، بے ترتیب یا لمبی مدت کے حیض آتے ہیں، بڑھے ہوئے اینڈروجن (نر ہارمون) کی سطح اور بیضہ دانی کے ساتھ انڈے کے آس پاس رحمِ مادر کے غدود (فولیکل) ہوتے ہیں۔ اس خرابی کی وجہ سے بانجھ پن، اسقاط حمل اور وقت سے پہلے زچگی ہو سکتی ہے۔
’’پی سی او ایس کے علاوہ، خون کی کمی، سکل سیل مرض، صفائی کی کمی اور جنسی بیماری بھی عورتوں میں بانجھ پن کا سبب بنتی ہے،‘‘ ڈاکٹر کومل چوہان بتاتی ہیں، جو ممبئی واقع فیڈریشن آف آبسٹیٹرک اینڈ گاینے کولاجیکل سوسائٹیز آف انڈیا کی صدر ہیں۔
شیونتا کو مئی ۲۰۱۰ کا وہ دن آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے – جب ان کا اسقاط حمل ہوا تھا اور ان کو پی سی او ایس کا پتہ چلا تھا۔ وہ کڑی دھوپ میں اپنا کھیت جوت رہی تھیں۔ ’’میرے پیٹ میں صبح سے ہی درد تھا،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’میرے شوہر نے میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانے سے منع کر دیا تھا، اس لیے میں درد پر دھیان نہ دے کر کام پر چلی گئی۔‘‘ دوپہر تک، درد ناقابل برداشت ہو گیا تھا۔ ’’خون نکلنے لگا۔ میری ساڑی خون سے لت پت ہو گئی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ جب وہ بیہوش ہو گئیں، تو دوسرے زرعی مزدور انہیں دھڑگاؤں کے اسپتال لے گئے، جو وہاں سے دو کلومیٹر دور ہے۔
پی سی او ایس کا پتہ لگنے کے بعد، ان کی زندگی ہی بدل گئی۔
شیونتا کے شوہر یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ شیونتا کو ایسی کوئی جسمانی بیماری ہے، جس سے بانجھ پن ہوتا ہے۔ ’’اگر وہ میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس ہی نہیں جائے گا، تو اسے کیسے پتہ چلے گا کہ میں ماں کیوں نہیں بن سکتی؟‘‘ شیونتا سوال کرتی ہیں۔ اس کی بجائے، وہ شیونتا کے ساتھ اکثر غیر محفوظ ہم بستری کرتا ہے، اور کبھی کبھی جنسی تشدد بھی کرتا ہے۔ ’’بار بار کی کوشش کے بعد بھی جب مجھے حیض آتا ہے، تو وہ جھنجھلا جاتا ہے، اور اس کی وجہ سے وہ ِ[مباشرت کے وقت] اور بھی حملہ آور ہو جاتا ہے،‘‘ شیونتا بتاتی ہیں۔ ’’مجھے یہ ِ[مباشرت] پسند نہیں ہے،‘‘ وہ چپکے سے بتاتی ہیں۔ ’’مجھے بہت درد ہوتا ہے، کبھی جلن اور کبھی کھجلی بھی ہوتی ہے۔ یہ سب پچھلے ۱۰ سالوں سے چل رہا ہے۔ شروعات میں میں روتی تھی، لیکن دھیرے دھیرے میں نے رونا بند کر دیا۔‘‘
اب انہیں لگتا ہے کہ بانجھ پن، اور اس کے ساتھ سماجی بدنامی، عدم تحفظ اور تنہائی کی ان کی قسمت میں ہے۔ ’’شادی سے پہلے میں بہت باتونی تھی۔ جب میں پہلی بار یہاں آئی تھی، تب محلہ کی عورتیں دوستانہ برتاؤ کرتی تھیں۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ شادی کے دو سال بعد بھی بچہ نہیں ہوا، تو انہوں نے مجھے نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے نوزائیدہ بچوں کو مجھ سے دور رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں پاپی (گنہگار) ہوں۔‘‘
اپنی فیملی کے ایک کمرے کے اینٹ کے مکان میں کچھ برتنوں اور اینٹ کے چولہے کے درمیان تھکی ہوئی اور اکیلی شیونتا کو یہ ڈر بھی ستاتا ہے کہ ان کا شوہر دوسری شادی کر لے گا۔ ’’میں کہیں اور نہیں جا سکتی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میرے ماں باپ کچی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور دوسرے کے کھیتوں پر کام کرکے دن میں ۱۰۰ روپے کماتے ہیں۔ میری چار چھوٹی بہنیں بھی اپنی اپنی دنیا میں مصروف ہیں۔ میرے سسرال والے میرے شوہر کو شادی کے لیے لڑکیاں دکھاتے رہتے ہیں۔ اگر اس نے مجھے چھوڑ دیا، تو میں کہاں جاؤں گی؟‘‘
شیونتا کو زرعی مزدوری میں سال کے تقریباً ۱۶۰ دن ۱۰۰ روپے روزانہ کی مزدوری پر کام مل جاتا ہے۔ کسی کسی مہینے قسمت اچھی رہی، تو ہزار ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ بھی کما لیتی ہیں، لیکن یہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ’’میرے پاس راشن کارڈ نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میں مہینے میں تقریباً ۵۰۰ روپے چاول، جوار آٹا، تیل اور مرچ پاؤڈر پر خرچ کرتی ہوں۔ باقی روپے میرا شوہر چھین لیتا ہے... وہ مجھے گھر چلانے کے لیے بھی پیسے نہیں دیتا، علاج تو دور کی بات ہے، اور اگر میں مانگتی ہوں تو مجھے مارتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنی کبھی کبھار کی کمائی سے شراب پینے کے علاوہ اور کیا کرتا ہے۔‘‘
ان کے پاس کبھی ۲۰ بکریاں ہوا کرتی تھیں، لیکن ان کا شوہر ایک ایک کرکے بکریاں بیچے جا رہا ہے، اور اب ان کے پاس صرف ۱۲ بکریاں بچی ہیں۔
خراب مالی حالت کے باوجود، شیونتا نے اپنی بستی سے ۶۱ کلومیٹر دور، شہاڈے شہر کے ایک پرائیویٹ ڈاکٹر سے اپنے بانجھ پن کا علاج کروانے کے لیے روپے بچائے ہیں۔ انہوں نے بیض ریزی کے علاج کے لیے ۲۰۱۵ میں تین مہینے اور ۲۰۱۶ میں مزید تین مہینوں کے لیے کلومیفین تھیراپی کروانے کے لیے ۶۰۰۰ روپے دیے۔ ’’تب دھڑگاؤں کے اسپتال میں کوئی دوا موجود نہیں تھی، اس لیے میں اپنی ماں کے ساتھ شہاڈے کے پرائیویٹ کلینک میں علاج کروانے گئی،‘‘ وہ مجھے بتاتی ہیں۔
سال ۲۰۱۸ میں انہیں وہی علاج دھڑگاؤں دیہی اسپتال میں مفت میں مہیا کرایا گیا، لیکن تیسری بار بھی کامیابی نہیں ملی۔ ’’اس کے بعد میں نے علاج کروانے کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا،‘‘ مایوس شیونتا کہتی ہیں۔ ’’اب میری بکریاں ہی میرے بچے ہیں۔‘‘
دھڑگاؤں دیہی اسپتال، جہاں آس پاس کے ۱۵۰ گاؤں سے مریض آتے ہیں اور جہاں روزانہ تقریباً ۴۰۰ باہری مریض آتے ہیں، وہاں عورتوں کے مرض کے ماہر اور دیہی طبی افسر، ڈاکٹر سنتوش پرمار بتاتے ہیں کہ کوئی بھی علاج معاملے کے حساب سے الگ الگ ہوتا ہے۔ ’’کلومی فین سٹریٹ، گونیڈوٹراپنس اور بروموکرپٹین جیسی دوائیں کچھ ہی لوگوں پر کام کرتی ہیں۔ دوسرے معاملوں میں مصنوعی بارآوری (آئی وی ایف) اور بین حمل بارآوری (آئی یو آئی) جیسی ترقی یافتہ تولیدی تکنیکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
پرمار بتاتے ہیں کہ دھڑگاؤں کے اسپتال میں بنیادی جانچ جیسے مادّہ منویہ کی جانچ، مادّہ منویہ کا شمار، خون اور پیشاب کی جانچ اور اعضائے تناسل کی جانچ ممکن ہے، لیکن بانجھ پن کا جدید علاج یہاں تو کیا نندُربار سول اسپتال میں بھی موجود نہیں ہے۔ ’’اس لیے، بانجھ جوڑے ایسے علاج کے لیے زیادہ تر پرائیویٹ کلنکوں پر ہی منحصر رہتے ہیں، جہاں انہیں ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اسپتال میں پرمار واحد گاینے کولاجسٹ ہیں، جو مانع حمل خدمات سے لیکر زچہ کی صحت اور نوزائیدوں کی دیکھ بھال تک، سب دیکھتے ہیں۔
سال ۲۰۰۹ میں ہیلتھ پالیسی اینڈ پلاننگ نامی رسالہ میں شائع ایک تحقیقی مقالہ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں بانجھ پن کے پھیلاؤ کے بارے میں ثبوت ’’بہت کم اور پرانے ہیں‘‘۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ( NFHS-4 ؛ ۲۰۱۵-۱۶) کے حوالے سے ۴۰-۴۴ سال کی عورتوں میں سے ۳ء۶ فیصد کو کبھی بچہ نہیں ہوا ہے۔ آبادی کے استحکام پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے، بانجھ پن کی روک تھام اور دیکھ بھال، صحت عامہ کا کم ترجیح والا اور نظرانداز کیا گیا حصہ ہے۔
شیونتا کا یہ سوال بالکل درست لگتا ہے، جب وہ کہتی ہیں، ’’سرکار مانع حمل کے لیے کنڈوم اور دوائیں بھیجتی ہے؛ کیا سرکار بانجھ پن کے لیے یہاں مفت علاج مہیا نہیں کروا سکتی؟‘‘
انڈین جرنل آف کمیونٹی میڈیسن میں ۲۰۱۲-۱۳ میں شائع، ۱۲ ریاستوں میں کیے گئے ایک مطالعہ میں پتہ چلا کہ زیادہ تر ضلع اسپتالوں میں روک تھام اور نظم و نسق کی ترجیحی ڈھانچہ پر مبنی اور معالجاتی سہولیات دستیاب تھیں، لیکن زیادہ تر عوامی صحت مراکز (سی ایچ سی)، ابتدائی طبی مراکز (پی ایچ سی) میں نہیں تھیں۔ مادّہ منویہ کی جانچ کی خدمت ۹۴ فیصد پی ایچ سی اور ۷۹ فیصد پی ایچ سی میں دستیاب نہیں تھی۔ ایڈوانسڈ لیباریٹری سروسز ۴۲ فیصد ضلع اسپتالوں میں لیکن صرف ۸ فیصد سی ایچ سی میں ہی دستیاب تھیں۔ معالجاتی لیپروسکوپی صرف ۲۵ فیصد ضلع اسپتالوں میں تھی اور ہسٹیروسکوپی ان میں سے صرف ۸ فیصد میں ہی تھی۔ کلومی فین کے ذریعے اویولیشن انڈکشن کی سہولت ۸۳ فیصد ضلع اسپتالوں میں اور گونیڈروٹراپنس کے ذریعے ان میں سے صرف ۳۳ فیصد میں ہی تھی۔ اس سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سروے کیے گئے مراکز کے ملازمین میں سے کسی کو بھی ان کے مراکز کے ذریعے بانجھ پن کے نظم کی تربیت نہیں ملی تھی۔
’’علاج تک رسائی تو ایک ایشو ہے ہی، لیکن دیہی طبی ڈھانچہ میں عورتوں کے امراض کے ماہرین کی کمی اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری ایشو ہے،‘‘ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کے ناسک چیپٹر کے سابق صدر، ڈاکٹر چندرکانت سنکلیچا کہتے ہیں۔ ’’بانجھ پن کے علاج میں تربیت یافتہ اور قابل عملہ اور اعلی تکنیکی آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ سرکار کے لیے زچہ کی صحت اور نوزائیدہ کی دیکھ بھال ترجیح ہے، اس لیے سول اسپتالوں اور پی ایچ سی میں بانجھ پن کا سستا علاج مہیا کروا پانا اقتصادی طور پر مشکل ہے۔‘‘
شیونتا کے گاؤں سے پانچ کلومیٹر دور، برِس پاڑہ میں گیتا ولوی اپنی جھونپڑی کے باہر کھاٹ (چارپائی) پر راجما سکھا رہی ہیں۔ گیتا (۳۰) کی شادی ۱۷ سال پہلے سورج (۴۵) سے ہوئی تھی، جو ایک زرعی مزدور ہے۔ وہ بہت زیادہ شراب پیتا ہے۔ یہ لوگ بھی بھیل آدیواسی برادری سے ہیں۔ آشا (منظور شدہ سماجی طبی کارکن) کے متعدد بار کہنے پر سورج (بدلا ہوا نام) نے ۲۰۱۰ میں جانچ کروائی اور پایا کہ اس میں مادّہ منویہ کی کمی ہے۔ اس کے کچھ سال پہلے، ۲۰۰۵ میں، اس جوڑے نے ایک لڑکی کو گود لیا تھا، لیکن گیتا کی ساس اور ان کا شوہر بچہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تکلیفیں دیتے رہتے ہیں۔ ’’وہ بچہ نہ ہونے کا قصوروار مجھ کو ٹھہراتا ہے، جب کہ کمی اس میں ہے، مجھ میں نہیں۔ لیکن میں ایک عورت ہوں، اس لیے دوسری شادی نہیں کر سکتی،‘‘ گیتا کہتی ہیں۔
گیتا (بدلا ہوا نام) نے، ۲۰۱۹ میں اپنے ایک ایکڑ کھیت میں ۲۰ کلوگرام راجما اور ایک کوئنٹل جوار اُگائے۔ ’’یہ سب گھر پر کھانے کے لیے ہے۔ میرا شوہر کھیت میں کچھ نہیں کرتا۔ وہ کھیتوں پر مزدوری کرکے جو کچھ بھی کماتا ہے، اسے شراب اور جوئے میں اُڑا دیتا ہے،‘‘ اپنے بھینچے ہوئے دانتوں سے غصہ ظاہر کرتے ہوئے گیتا کہتی ہیں۔ ’’وہ مفت کا کھاتا ہے!‘‘
’’وہ جب شراب پی کر گھر آتا ہے، تو مجھے لاتیں مارتا ہے، اور کبھی کبھی ڈنڈے سے پیٹتا ہے۔ نشہ کی حالت میں نہیں ہونے پر وہ مجھ سے بات نہیں کرتا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اتنے سالوں تک گھریلو تشدد کی وجہ سے ان کو لگاتار پیٹھ، کندھوں اور گردن میں درد رہتا ہے۔
’’ہم نے میرے دیور کی لڑکی کو گود لیا تھا، لیکن میرے شوہر کو اپنا بچہ چاہیے، وہ بھی لڑکا، اس لیے وہ آشا تائی کے کہنے کے باوجود بھی کنڈوم کا استعمال اور شراب پینا بند کرنے سے انکار کرتا ہے،‘‘ گیتا کہتی ہیں۔ آشا کارکن ہر ہفتہ ان کی خبر خیریت پوچھنے جاتی ہیں اور صلاح دی ہے کہ ان کا شوہر کنڈوم استعمال کرے، کیوں کہ گیتا کو مباشرت کے وقت درد، زخم، پیشاب میں جلن، سفید پانی اور پیٹ کے نچلے حصہ میں درد کی شکایت رہتی ہے، یہ سب جنسی طور پر پھیلنے والے مرض کے یا تناسلی راستے کے انفیکشن کے اشارے ہیں۔
طبی کارکن نے گیتا کو علاج کروانے کی بھی صلاح دی ہے، لیکن انہوں نے دھیان دینا بند کر دیا ہے، وہ علاج نہیں کروانا چاہتی ہیں۔ ’’اب ڈاکٹر سے ملنے یا علاج کروانے کا کیا فائدہ ہے؟‘‘ گیتا پوچھتی ہیں۔ ’’دواؤں سے شاید میرا جسمانی درد چلا جائے گا، لیکن کیا میرا شوہر شراب پینا بند کر دے گا؟ کیا وہ مجھے پریشان کرنا بند کر دے گا؟‘‘
ڈاکٹر پرمار کا کہنا ہے کہ وہ ہر ہفتہ کم از کم چار سے پانچ ایسے جوڑوں کو دیکھتے ہیں، جہاں شوہر کی شراب پینے کی عدات کی وجہ سے ہونے والی مادّہ منویہ کی کمی، بانجھ پن کا بنیادی سبب ہے۔ ’’بانجھ پن میں مردوں کی جسمانی خرابیوں کے بارے میں لاعلمی کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ تشدد برتا جاتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’لیکن زیادہ تر عورتیں اکیلے ہی آتی ہیں۔ عورتوں پر ہی سارا قصور تھوپنے کی بجائے، یہ ضروری ہے کہ مرد اس بات کو سمجھیں اور اپنی جانچ کروائیں۔‘‘
آبادی کے استحکام پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے، بانجھ پن کی روک تھام اور دیکھ بھال، پبلک ہیلتھ سروس کا کم ترجیح والا اور نظر اندازہ کیے جانے والا حصہ ہے۔ بانجھ پن میں مردوں کی جسمانی خرابیوں کے بارے میں لاعلمی کے سبب عورتوں کے ساتھ تشدد برتا جاتا ہے
ڈاکٹر رانی بانگ، جو پچھلے تیس سالوں سے مشرقی مہاراشٹر کے گڑھ چرولی آدیواسی حلقہ میں حمل سے متعلق طبی مسائل پر کام کرتی آئی ہیں، بتاتی ہیں کہ بانجھ پن طبی مسائل سے زیادہ سماجی مسئلہ ہے۔ ’’مردوں میں بانجھ پن ایک بڑا مسئلہ ہے، لیکن بانجھ پن صرف عورتوں کا مسئلہ مانا جاتا ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ہیلتھ پالیسی اینڈ پلاننگ رسالہ میں شائع مضمون میں، مضمون نگاروں کا کہنا ہے: ’’حالانکہ بہت کم عورتیں اور جوڑے ہی بانجھ پن سے متاثر ہوتے ہیں، یہ ایک بہت ہی اہم صحت اور حقوق سے متعلق ایشو ہے۔‘‘ مضمون کے مطابق حالانکہ بانجھ پن کے بنیادی اور اہم اسباب مردوں اور عورتوں دونوں سے متعلق ہیں، ’’بانجھ پن کا خوف عورتوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے، ان کی شناخت، ان کا درجہ اور تحفظ سب پر اثر پڑتا ہے اور ان کو قصوروار اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور عورتیں خاندان اور سماج میں خود مختار ہوکر اور اپنی شرطوں پر جینے کا موقع کھو دیتی ہیں۔‘‘
گیتا – ۸ویں کلاس تک تعلیم یافتہ اور ۲۰۰۳ میں ۱۳ سال کی عمر میں شادہ شدہ – نے کبھی گریجویٹ ہونے کا خواب دیکھا تھا۔ اب وہ اپنی ۲۰ سال کی بیٹی، لتا (بدلا ہوا نام) کو اپنا خواب پورا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں – وہ ابھی دھڑگاؤں جونیئر کالج میں ۱۲ویں کلاس کی طالبہ ہیں۔ ’’یہ میری کوکھ سے نہیں پیدا ہوئی ہے تو کیا ہوا؛ میں نہیں چاہتی کہ اس کی زندگی بھی میری طرح برباد ہو،‘‘ گیتا کہتی ہیں۔
کسی زمانے میں گیتا کو آرائش زیبائش پسند تھی۔ ’’مجھے بالوں میں تیل لگانا، ان کا شکا کائی سے دھونا اور شیشہ میں خود کو دیر تک دیکھتے رہنا بہت اچھا لگتا تھا۔‘‘ ان کو چہرے پر پاؤڈر لگانے، بال سنوارنے اور سلیقہ سے ساڑی پہننے کے لیے کوئی خاص موقع کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن شادی کے ۲ سال بعد بھی بچے کا کوئی نام و نشان نہ ہونے پر، سجنے سنورنے کی وجہ سے ساس اور شوہر نے ان کو ’’بے شرم‘‘ کہنا شروع کر دیا، اور گیتا نے اپنے اوپر دھیان دینا بند کر دیا۔ ’’مجھے اپنا بچہ نہ ہونے کا کوئی غم نہیں ہے؛ مجھے اب اپنا بچہ چاہیے بھی نہیں۔ لیکن خوبصورت لگنے میں کیا برائی ہے؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔
دھیرے دھیرے رشتہ داروں نے انہیں شادیوں، نام رکھنے کی تقریبات اور گھریلو پروگراموں میں بلانا بند کر دیا، اور اس طرح ان کا پوری طرح سے سماجی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ ’’لوگ میرے شوہر اور سسرال والوں کو ہی بلاتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ میرے شوہر میں مادّہ منویہ کی کمی ہے۔ میں بانجھ نہیں ہوں۔ اگر انہیں پتہ ہوتا، تو کیا وہ اسے بھی بلانا بند کر دیتے؟‘‘ گیتا پوچھتی ہیں۔
کور کا خاکہ: پرینکابورار نئے میڈیا کی ایک آرٹسٹ ہیں جو معنی اور اظہار کی نئی شکلوں کو تلاش کرنے کے لیے تکنیک کا تجربہ کر رہی ہیں۔ وہ سیکھنے اور کھیلنے کے لیے تجربات کو ڈیزائن کرتی ہیں، باہم مربوط میڈیا کے ساتھ ہاتھ آزماتی ہیں، اور روایتی قلم اور کاغذ کے ساتھ بھی آسانی محسوس کرتی ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گرہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)