گائے کے بچھڑے کو اس کی ماں کا دودھ پلانے کے لیے کھولنے سے پہلے ۱۵ سالہ کرن کہتی ہے، ’’اسکول جانے سے پہلے مجھے یہ کام نمٹانے ہیں، ورنہ انہیں کون کرے گا؟‘‘ ابھی صبح کے ۵ بجے ہیں۔ اس کی بیمار ماں اور چھوٹا بھائی روی ابھی تک اپنے ایک کمرے کے گھر میں سو رہے ہیں۔ گھر کی صفائی سے پہلے اسے بچھڑے کو واپس شیڈ میں باندھنا پڑے گا۔ پھر اس کے دادا گائے کا دودھ نکالیں گے۔

کرن ہمیشہ کی طرح جلدی اٹھ گئی تھی، لیکن آج وہ کام یا اسکول جانے کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہے۔ یہ اس کے حیض کا پہلا دن ہے، یہ ان دنوں میں سے ایک ہے جب تھکاوٹ زیادہ ہوتی ہے۔ وبائی مرض کے بعد سے اس کے پیٹ میں اٹھنے والی مروڑ نے شدت اختیار کر لی ہے۔ باوجود اس کے، اسے صبح ساڑھے چار بجے سے پہلے اپنے کام ختم کرنے ہوں گے۔ وہ بتاتی ہے، ’’صبح کی اسمبلی ۷ بجے شروع ہوتی ہے اور مجھے اسکول جانے میں ۲۰ سے ۲۵ منٹ لگتے ہیں۔‘‘

کرن دیوی جس سرکاری اسکول میں ۱۱ ویں جماعت کی طالبہ ہے، وہ اتر پردیش کے چترکوٹ ضلع کی کروی تحصیل میں اس کے گھر سے ۲ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ یہاں اپنے بھائی روی، ماں پونم دیوی (۴۰ سالہ) اور دادا خوشی رام (۶۷ سالہ) کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے دادا اپنے گھر کے بالکل پیچھے اپنی ۸۰۰ مربع فٹ زمین  پر گندم، چنا اور بعض اوقات موسمی سبزیاں اگاتے ہیں۔ پونم کو ان کی کلائی اور گھٹنوں میں خوفناک درد رہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ گھر کا کام کرنے سے قاصر ہیں اور اس کے نتیجے میں، کرن پر مزید ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

کرن کے لیے جو چیز اس کے معمولات میں شامل ہوتی وہ ایک اذیت ناک تجربہ بن گئی ہے۔ ’’مجھے یہ چھوٹے موٹے کام کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ صرف اس وقت ایک مسئلہ بن جاتے ہیں جب مجھے حیض کے دوران شدید درد ہوتا ہے۔‘‘

Kiran Devi, 15, gets up long before dawn to tend to the calves in the shed
PHOTO • Jigyasa Mishra
Kiran Devi, 15, gets up long before dawn to tend to the calves in the shed
PHOTO • Jigyasa Mishra

شیڈ میں موجود بچھڑوں کی دیکھ بھال کے لیے ۱۵ سالہ کرن دیوی صبح پو پھٹنے سے بہت پہلے اٹھ جاتی ہے

کرن اتر پردیش کی ایک کروڑ سے زیادہ لڑکیوں میں سے ایک ہے، جو مفت سینیٹری پیڈ حاصل کرنے کی اہل ہیں اور جو کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے دوران ’کشوری سُرکشا یوجنا‘ (کے ایس وائی) کے نفاذ میں آئے خلل کی وجہ سے متاثر ہوئی ہیں۔ کے ایس وائی یوپی حکومت کا ایک منصوبہ ہے، جو مرکزی حکومت کی حیضی حفظان صحت اسکیم کے تحت ریاست بھر میں درجہ ۶ سے ۱۲ تک کی لڑکیوں کو مفت پیڈ فراہم کرتی ہے۔ ریاستی پروگرام ، جس کا افتتاح ۲۰۱۵ میں اس وقت کے یوپی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے کیا تھا، کے ایک حصے کے طور پر ہر لڑکی کو ۱۰ سینیٹری نیپکن کا ایک پیکٹ دیا جانا ہے۔

یوپی میں پیڈ کی حقدار کتنی لڑکیوں کو اس پروگرام کے تحت پیڈ مل رہے تھے، اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا۔ لیکن اگر یہ ان کی تعداد کا دسواں حصہ بھی ہوگا تو بھی یہ غریب کنبوں کی دس لاکھ سے زیادہ لڑکیاں ہوں گی، جو وبائی مرض کے آنے کے بعد ڈیڑھ سال سے مفت سینیٹری نیپکن حاصل کرنے سے محروم تھیں۔

علاوہ از ایں، پروگرام کی کامیاب بحالی کا دعویٰ قابل اعتماد نہیں ہے۔ حالانکہ کچھ شہری علاقوں میں اس کی بحالی ہوئی ہے، لیکن کرن کو اب بھی مفت سینیٹری پیڈ نہیں ملتے ہیں۔ اور کرن ان ہزاروں لڑکیوں میں سے ایک ہے جو کسی تجارتی برانڈ کے پیڈ خریدنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ہیں۔

کرن نے گھر، مویشیوں کے شیڈ (باڑے) اور اپنے گھر کے باہر کے پورے احاطے میں سڑک تک جھاڑو لگانے کا کام مکمل کر لیا ہے۔ وہ ریک پر رکھی پرانی دیوار گھڑی کو دیکھنے کے لیے اندر بھاگتی ہے اور گھبرا کر کہتی ہے، ’’افوہ، ۶ بج کر ۱۰ منٹ ہو چکے ہیں! ماں، جلدی سے میری چوٹیاں بنا دو، میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ پھر تیزی سے سڑک کے کنارے، تقریباً کھلی جگہ نہانے کے لیے گھر سے باہر پلاسٹک کے ٹینک کی طرف چلی جاتی ہے۔

غسل خانہ سے متعلق میرے سوال پر وہ ہنس دیتی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’کیسا باتھ روم؟ ہمارے ٹوائلٹ (بیت الخلاء) تک میں پانی نہیں ہوتا ہے، پھر ہم غسل خانہ کیسے بنوائیں؟ میں اپنے گندے کپڑے بدلنے کے لیے بیت الخلاء کا استعمال کرتی ہوں۔‘‘ کرن یہ کہتے ہوئے جھجکتی ہے کہ وہ سوتی کپڑا استعمال کرتی ہے کیونکہ کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے پہلے لاک ڈاؤن کے بعد اسکول سے ملنے والے سینیٹری نیپکن ملنے بند ہو گئے تھے۔ وبائی مرض کے دو سال بعد یوپی کے کئی اضلاع میں سرکاری اسکول سینیٹری نیپکن کی تقسیم کا کام دوبارہ شروع نہیں کر پائے ہیں۔

No matter what, Kiran has to clean the house and cow shed by 6:30 every morning and get to school by 7 a.m.
PHOTO • Jigyasa Mishra
No matter what, Kiran has to clean the house and cow shed by 6:30 every morning and get to school by 7 a.m.
PHOTO • Jigyasa Mishra

کرن کو کسی بھی حالت میں روزانہ صبح کو ساڑھ ۶ بجے تک گھر اور گائے کے شیڈ کو صاف کرنا اور صبح ۷ بجے تک اسکول پہنچنا پڑتا ہے

کرن بتاتی ہے، ’’جب حال ہی میں کلاس کے دوران میری ایک ہم جماعت کا خون بہنا شروع ہو گیا تھا، تو اس نے ٹیچر سے پیڈ کی درخواست کی تھی، لیکن اسے بتایا گیا کہ ابھی تک کوئی اسٹاک نہیں ہے۔ پھر ہماری ایک دوسری دوست نے اپنا رومال دیا تھا۔‘‘ کرن مزید کہتی ہے، ’’پہلے جب بھی ہمیں اسکول میں پیڈ کی ضرورت پیش آتی تھی، ہم اپنی ٹیچر سے مانگ لیتے تھے۔ پھر لاک ڈاؤن آیا اور اسکول بند ہو گئے۔ اس کے بعد جب اسکول دوبارہ کھلے تو پیڈ نہیں تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اب اسکول میں سپلائی نہیں ہے۔‘‘

کرن کا حیض دردناک ہونے لگا ہے۔ پچھلے دو برسوں کے دوران جب سے وبائی مرض شروع ہوا ہے، اسے پہلے دن ہی شدید درد ہو رہا ہے۔ اگرچہ اس کی فیملی کے کسی بھی فرد کا کووڈ۔۱۹ ٹیسٹ مثبت نہیں آیا تھا، لیکن پورا چترکوٹ ضلع اس سے شدید طور پر متاثر ہوا تھا۔ اس کے کئی پڑوسی بھی متاثر ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ کچھ کو ۳ کلومیٹر دور ضلع ہسپتال میں داخل کرانا پڑا تھا۔

یونیسیف کے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ کووڈ۔۱۹ حیض کے دوران خون کے زیادہ تکلیف دہ بہاؤ کا براہ راست سبب بن سکتا ہے، لیکن ’’تناؤ، اضطراب، غذائیت کی کمی اور نیند اور جسمانی ورزش میں آئی تبدیلیاں بالواسطہ طور پر تولیدی صحت اور حیض کو متاثر کر سکتی ہیں۔‘‘ اکتوبر ۲۰۲۰ میں شائع ایک تحقیقی مقالہ، جس کا عنوان ’حیض کی صحت اور حفظان صحت پر کووڈ۔۱۹ کے اثرات کو کم کرنا‘ تھا، اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ’’اس وبا کے بعد ایام حیض کی بے قاعدگیاں اس کے شروع ہونے سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ عام ہو گئی ہیں۔‘‘

کرن کے گھر سے تقریباً ۴ کلومیٹر دور رہنے والی پھول وتیا کو اسکول سے سینیٹری نیپکن ملنا بند ہوگیا تھا۔ انہوں نے ۲۰۲۰ میں پاری کو بتایا تھا ، ’’ [وبائی مرض کی وجہ سے] میرے اسکول کے بند ہونے کے فوراً بعد میں نے کپڑا استعمال کرنا، کپڑے کے ٹکڑوں کو دھونا اور گھر کے اندر خشک کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ انہیں اور دیہی چترکوٹ میں ہزاروں دیگر لڑکیوں کو عطیات کی شکل میں اس وقت کم از کم ۳ سے ۴ ماہ تک سینیٹری نیپکن ملے تھے۔ اس کے بعد دو سال گزر چکے ہیں جب سے وہ ایک بار پھر کپڑا استعمال کرنے لگی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں صرف کپڑا استعمال کرتی ہوں کیونکہ اسکول اب پیڈ فراہم نہیں کرتا ہے۔ میرے خیال میں اب ہمارے لیے یہ سہولت ختم ہو چکی ہے۔‘‘

Kiran preparing the cow feed.
PHOTO • Jigyasa Mishra
Her grandfather, Khushiram, milks the cow in the morning. Her mother, Poonam Devi (in the blue saree), suffers from pain in her wrist and knees, which limits her ability to work around the house
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: کرن گائے کا چارہ تیار کر رہی ہے۔ دائیں: اس کے دادا، خوشی رام صبح میں گائے کا دودھ نکالتے ہیں۔ اس کی ماں، پونم دیوی (نیلی ساڑی میں) کلائی اور گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہیں، جس کی وجہ سے گھر یلو کام کرنے میں انہیں دشواری پیش آتی ہے

تاہم، سویتا شکلا، جو لکھنؤ ضلع کے کاکوری بلاک کے سروسہ بھروسہ میں کمپوزٹ اسکول کی ٹیچر ہیں، کا دعویٰ ہے کہ ریاستی دارالحکومت میں صورتحال بہتر ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمارے اسکول کی طالبات کو ہر ماہ باقاعدگی سے پیڈ ملتے ہیں۔ ہمیں ایک رجسٹر رکھنا ہوتا ہے اور پیڈز کی سپلائی کو تقسیم کرنا پڑتا ہے۔‘‘ لیکن دیہی یوپی کے حالات کے بارے میں سن کر وہ حیران نہیں ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال سرکاری اسکولوں میں عام ہے اور ہم اس میں کچھ نہیں کر سکتے، خاص طور پر جب ہم اپنے بچوں کے لیے نجی اسکولوں اور بہتر ماحول کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘

پونم دیوی اور ان کے شوہر ہمیشہ اپنے بچوں، کرن اور روی کو پرائیویٹ اسکول بھیجنے کا خواب دیکھتے تھے۔ وہ پوچھتی ہیں، ’’میرے بچے پڑھائی میں اچھے ہیں۔ کیا ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ میں اپنے بچوں کو کیندریہ ودیالیہ جیسے اسکول میں بھیج سکوں؟‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’اگرچہ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے، لیکن ان کے والد ہمیشہ چاہتے تھے کہ ہمارے بچے اچھے اسکولوں میں جائیں، تاکہ وہ شہروں میں جا کر کام کر سکیں، اور عیش و آرام کی زندگی گزار سکیں۔‘‘ لیکن تقریباً ۱۰ سال پہلے جب کرن بمشکل پانچ سال کی تھی تو اس کے والد، جو ایک الیکٹریشین تھے، کی کام کے دوران موت ہو گئی تھی۔ پونم کے بیمار رہنے کی وجہ سے چیزیں زیادہ مشکل ہو گئی ہیں۔ خاندانی زمین سے ہونے والی آمدنی ان کی کفالت کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں اسکول کی جانب سے حیضی حفظان صحت کی ضرورت کو پورا کرنا کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔

تاہم، کرن جیسی ہزاروں لڑکیاں حیض کے دوران غیر صحت مندانہ طریقوں کو پھر سے اپنا رہی ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کی ۲۰۱۶-۱۷ کی ہندوستان میں اسکولی تعلیم کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش میں ۱۰ لاکھ ۸۶ ہزار لڑکیاں کلاس ۶ سے ۱۲ تک میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ سینیٹری نیپکن کی تقسیم کی اسکیم اسکول کی ایسی طالبات کی مدد کے لیے متعارف کرائی گئی تھی جو ہر ماہ حیض کے دوران اپنی کلاسوں سے غیر حاضر رہتی تھیں۔ سال ۲۰۱۵ میں ریاست میں یہ تعداد ۲۸ لاکھ تھی۔ اب کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس اسکیم کے نہ ہونے سے یوپی میں خواتین کی صحت اور حفظان صحت کی کیا حالت ہوگی۔

چترکوٹ کے ضلع مجسٹریٹ، شبھرانت کمار شکلا، صورتحال کا ایک آسان نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے یقین ہے کہ وبائی مرض کے بعد سپلائی کے کچھ مسائل ہوں گے، ورنہ لڑکیوں کو سینیٹری نیپکن ملنا چاہیے۔ لیکن مسئلے کے فوری حل کے لیے ہر ضرورت مند لڑکی اپنے قریبی آنگن واڑی مرکز سے رجوع کر سکتی ہے اور وہاں سے سینیٹری پیڈ لے سکتی ہے۔ وہ وہاں فولک ایسڈ سپلیمنٹس بھی حاصل کر سکتی ہے۔‘‘ تاہم کرن اور اس کے پڑوس کی دوستوں کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ اور چترکوٹ کی آنگن واڑیوں میں سینیٹری نیپکن کی جو سپلائی ہے، وہ صرف نئی ماؤں کے لیے ہے، جیسا کہ سیتا پور بلاک کی ایک آنگن واڑی کارکن نے ہمیں بتایا۔

After finishing all her chores, Kiran gets ready for school.
PHOTO • Jigyasa Mishra
She says bye to the calf before heading to school
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: اپنے تمام معمول کے کام ختم کرنے کے بعد کرن اسکول کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ دائیں: وہ اسکول جانے سے پہلے بچھڑے کو الوداع کہتی ہے

وزیر اعظم مودی نے ۲۰۲۰ میں لال قلعہ کے اپنے یوم آزادی کے خطاب میں خواتین کی حفظان صحت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا تھا کہ ان کی حکومت نے ’’ جَن اوشدھی کیندروں سے ایک روپیہ میں سینیٹری پیڈ فراہم کر کے ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔ بہت کم وقت میں، ان ۶۰۰۰ جَن اوشدھی کیندروں سے غریب خواتین کو ۵ کروڑ سے زیادہ سینیٹری پیڈ مہیا کرائے گئے ہیں۔‘‘

پردھان منتری بھارتیہ جَن اوشدھی پریوجنا کے تحت یہ جَن اوشدھی کیندر سستی قیمتوں پر عام ادویات فراہم کرتے ہیں۔ کیمکل اور کھاد کی مرکزی وزارت کے مطابق، اگست ۲۰۲۱ تک ملک میں ۸۰۱۲ جن اوشدھی کیندر کام کر رہے تھے۔ ان میں ۱۶۱۶ ادویات اور ۲۵۰ جراحی کی اشیاء فروخت کی جا رہی تھیں۔

لیکن کرن کے گھر سے ۵ کلومیٹر کے اندر کہیں بھی جَن اوشدھی کیندر نہیں ہے۔ وہ واحد جگہ جہاں سے وہ ۴۵ روپے میں ایک پیکٹ سینیٹری نیپکن خرید سکتی ہے، گھر سے تقریباً ۲ کلومیٹر دور ایک دوا کی دکان ہے۔ اس کی قیمت وہ برداشت نہیں کر سکتی۔

سینیٹری نیپکن تک رسائی کے فقدان کے علاوہ حائضہ لڑکیوں کے لیے اسکول میں سہولیات انتہائی ناقص ہیں۔ کرن کہتی ہے، ’’اور جب میں اسکول میں ہوتی ہوں، تو مجھے [پیڈ] تبدیل کرنے کے لیے گھر پہنچنے تک کا انتظار کرنا پڑتا ہے، کیونکہ وہاں مناسب کوڑے دان نہیں ہیں۔ کبھی کبھی جب میں اسکول میں ہوتی ہوں تو پیڈ زیادہ بھر جاتا ہے اور میرے یونیفارم پر داغ لگ جاتے ہیں۔ اسکول بند ہونے سے پہلے میں اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔‘‘ یہاں تک کہ بیت الخلاء بھی صاف نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہے، ’’انہیں صرف اتوار کو صاف کیا جاتا ہے، اس لیے ہمیں صرف پیر کو ہی صاف ٹوائلٹ ملتا ہے، اور جیسے جیسے دن گزرتے ہیں یہ گندا ہوتا جاتا ہے۔‘‘

Poonam Devi braids Kiran’s hair before she goes to school in the morning.
PHOTO • Jigyasa Mishra
Kiran and her friend Reena walk to school together
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: پونم دیوی صبح اسکول جانے سے پہلے کرن کے بالوں کی چوٹی باندھتی ہیں۔ دائیں: کرن اور اس کی دوست رینا ایک ساتھ اسکول جاتے ہوتے

ایک جریدہ میں شائع ایک مضمون میں لکھنؤ شہر کی کچی آبادیوں میں رہنے والی نوعمر خواتین کے حیض سے متعلق چیلنجز کی وضاحت متعدد سطحوں (انفرادی، سماجی اور ادارہ جاتی) پر کی گئی ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے، ’’انفرادی سطح پر نوعمر خواتین میں علم کی کمی ہے۔ سماجی سطح پر نوعمر خواتین کو حیض سے متعلق بدگمانی، اس پر بات کرنے کے مواقع کی کمی، حیض کے دوران نقل و حرکت اور دیگر سرگرمیوں پر بندشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ادارہ جاتی سطح پر، مثال کے طور پر اسکول میں، حیض والی نوعمر خواتین کی مدد کے لیے بہت کم وسائل دستیاب ہیں کیونکہ بیت الخلاء گندے ہیں اور دروازے ٹوٹے ہوئے ہیں۔‘‘

لکھیم پور کھیری ضلع کے راجہ پور گاؤں کے ایک پرائمری اسکول کی پرنسپل ریتو اوستھی کی دلیل ہے کہ یوپی کے اسکوں میں اصل مسئلہ صفائی کے عملے کا ہے، نہ کہ تقسیم کے ناقص انتظام کا۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہاں لڑکیوں کو سینیٹری نیپکن فراہم کیے جا رہے ہیں اور بیت الخلا ء میں بھی انسینریٹرز ہیں، لیکن صفائی کے عملے کی وجہ سے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے مقرر کیے گئے صفائی والے گرام پردھان [گاؤں کے سربراہ] کے ماتحت کام کرتے ہیں، اس لیے وہ صرف ان کی ہی بات سنتے ہیں۔ اسکولوں میں روزانہ صفائی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ ہفتے میں صرف دو بار آتے ہیں۔‘‘

سورج کی پہلی چند کرنیں جیسے ہی اندر رکھی لکڑی کی تین چارپائیوں سے گزرتی ہوئی کرن کے گھر میں داخل ہوئیں، وہ اپنے معمولات سے فارغ ہو کر اسکول کے لیے تیار ہو گئی۔ پونم نے اپنی بیٹی کے بالوں کی دو خوبصورت چوٹیاں بنائی ہیں، انہیں چمکدار ربن سے سجایا ہے۔ رینا سنگھ باہر سے آواز لگاتی ہے، ’’کرن، جلدی آجا میں یہاں رکی ہوئی ہوں۔‘‘ وہ کرن کی ہم جماعت اور ہم سفر ہے۔ کرن باہر بھاگتی ہے اور دونوں لڑکیاں تیزی سے اپنے اسکول کی جانب چل پڑتی ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a poet and a translator who works across Gujarati and English. She also writes and translates for PARI.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam