نہیں، پینٹنگ مکانوں کو سجانے کے لیے نہیں بنائی جاتی ہے۔ یہ دشمن کے خلاف ایک جارحانہ اور دفاعی ہتھیار ہے۔
–  پابلو پیکاسو

مراٹھی زبان میں ایک کہاوت ہے: ’’ बामना घरी लिहनं, कुणब्या घरी दानं आणि मांगा-महारा घरी गाणं ‘‘ برہمن کے گھر میں حرف (یعنی علم) ہوتا ہے، کنبی کے گھر میں اناج، اور مانگ-مہار کے گھروں میں میوزک ہوتا ہے۔ روایتی دیہی سماج میں مانگ کمیونٹی کے لوگ ہلگی بجاتے تھے، گوندھلی لوگ سمبل، دھنگر لوگ ڈھول، اور مہار ایک تاری بجانے میں مہارت رکھتے تھے۔ علم، کاشتکاری، فن اور موسیقی کے کلچر کو ذات کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تھا۔ مزید برآں،’اچھوت‘ سمجھی جانے والی زیادہ تر ذاتوں کے لیے گانا اور آلات موسیقی بجانا معاش کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ صدیوں سے ظلم و جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتے آ رہے دلتوں نے اپنی تاریخ، شجاعت، درد، خوشی اور فلسفہ کو جاتیاورچی اووی (چکّی کے گانے یا شاعری)، زبانی داستانوں، گیت اور فوک میوزک کی شکل میں محفوظ کرکے رکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے قومی سطح پر نمودار ہونے سے پہلے، مہار لوگ کبیر کے دوہوں (نظموں) پر ایک تاری بجاتے تھے، اور وٹھّل اور دوسرے دیوتاؤں کی پوجا کے لیے بھجن اور بھکتی کے گیت گانے کا کام کرتے تھے۔

ڈاکٹر امبیڈکر، جب ۱۹۲۰ کے بعد دلت سیاست کے افق پر نمودار ہوئے، تو فن کی ان شکلوں اور اس سے وابستہ فنکاروں نے اُن کے ذریعے شروع کی گئی علم و آگہی کی تحریک کو عام کرنے اور اسے پھیلانے میں اہم رول ادا کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی تبدیلیوں، روزمرہ کے واقعات، اور ڈاکٹر امبیڈکر کے رول، ان کے پیغام، زندگی اور جدوجہد – ان تمام چیزوں کو ایسی زبان میں بیان کرنا شروع کیا، جسے اَن پڑھ اور نا واقف لوگ آسانی سے سمجھ سکیں۔ ایک بار، جب ڈاکٹر امبیڈکر نے ممبئی کے نائیگاؤں علاقے میں واقع ویلفیئر گراؤنڈ میں بھیم راؤ کرڈک اور ان کی ٹیم کو جلسہ (گیتوں کے ذریعے ثقافتی احتجاج) کرتے ہوئے دیکھا، تو انہوں نے کہا، ’’میری دس میٹنگیں اور مجمع، کرڈک اور ان کی ٹیم کے ایک جلسہ کے برابر ہیں۔‘‘

ڈاکٹر امبیڈکر کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے، شاہیر (شاعر) بھیگڈے نے کہا تھا:

महाराचा पोरगा बिट्या लई हुशार
बिट्या लई हुशार
साऱ्या जगात नाही असं होणार
अंधारात आम्हास्नी वाट दाखविली
भोळी जनता त्याने जागृत केली

وہ مہار لڑکا [امبیڈکر] بہت ہوشیار تھا
واقعی، بہت ہوشیار
ایسا پوری دنیا میں نہیں ہوا ہوگا
اس نے ہمیں اندھیرے میں بھی راستہ دکھایا
اس نے معصوم لوگوں کو خبردار کیا

PHOTO • Keshav Waghmare
PHOTO • Keshav Waghmare

بائیں: بیڈ کے ایک گھر میں بابا صاحب کی پینٹنگ نمایاں جگہ پر لگی ہوئی ہے۔ امبیڈکر کے بعد والے دور کے شاعروں (شاہیر)، جیسے کہ آتما رام سالوے، کو کتابوں کے ذریعے ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریک کے بارے میں پتہ چلا۔ دائیں: آتما رام سالوے کی ایک نایاب تصویر

ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریک نے دلتوں کے درمیان بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ جلسہ اس تحریک کا بنیادی آلہ تھا، اور شاہیری (شاعرانہ پیشکش) میڈیم (ذریعہ) تھا – جس سے ہزاروں معلوم اور نا معلوم فنکار جڑے ہوئے تھے۔

امبیڈکر کی تحریک جب گاؤوں میں پہنچی، تو دلت وستیوں (بستیوں) میں ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملتا تھا – بستیوں میں آدھے گھروں کی چھت ٹن کی اور بقیہ چھپروں کی ہوتی تھی۔ بستی کے بیچوں بیچ ایک پلیٹ فارم بنا ہوتا تھا جس پر ایک نیلا پرچم لہراتا رہتا تھا۔ اور نیلے پرچم تلے، بچے، عورتیں، مرد، اور بزرگ لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے تھے۔ پھر جلسے ہوتے، اور ان جلسوں میں بدھ-بھیم کے گیت گائے جاتے تھے۔ ممبئی کی چیتنیہ بھومی، ناگپور کی دیکشا بھومی اور دوسرے بڑے شہروں کے چھوٹے بڑے شاعروں کے گیتوں کی کتابیں لائی جاتی تھیں۔ حالانکہ، دلت وستیوں کے مرد و عورت زیادہ تر اَن پڑھ ہوتے تھے، اس لیے وہ اسکولی بچوں سے اُن گیتوں کو پڑھوا کر سنتے تھے، اور انہیں بعد میں خود گانے کے لیے یاد کرتے تھے۔ یا پھر وہ انہی وستیوں میں آئے کسی شاہیر کی پیشکش کو سن کر انہیں یاد کرتے تھے۔ کھیتوں میں دن بھر کڑی محنت کرنے کے بعد تھکی ہاری کچھ عورتیں شام کو لوٹنے کے بعد ان گیتوں کو گاتی تھیں۔ گانے سے پہلے وہ کہتی تھیں، ’’بھیم راجا کی جے! بدھ بھگوان کی جے!‘‘ گیتوں کو باقاعدہ طور پر گانے کا سلسلہ اس کے بعد ہی شروع ہوتا تھا۔ گیتوں کو گانے اور سننے سے وستی کے لوگوں میں ایک خوشی، جوش، اور امید کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ یہ گیت گاؤوں کے دلتوں کو باخبر کرنے کا واحد ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ ان گیتوں کے ذریعے ہی اگلی نسل کے لوگ بھگوان بدھ کے فلسفہ اور پھُلے اور امبیڈکر کے انقلابی نظریات سے واقف ہوئے۔ ان گلوکاروں اور شاہیروں کی بول چال کی زبان نے گیتوں میں موجود نظریات و خیالات کو بھول پانا ناممکن بنا دیا۔ شاہیروں نے ایک پوری نسل کے سماجی اور ثقافتی شعور کو نئی شکل عطا کی۔ آتما رام سالوے ایسے ہی ایک شاہیر تھے، جنہوں نے مراٹھواڑہ کی سماجی و ثقافتی بیداری کو مثبت شکل عطا کرنے میں اہم رول نبھایا۔

۹ جون، ۱۹۵۳ کو بیڈ ضلع کے ماجلگاؤں بلاک کے چھوٹے سے گاؤں، بھات واڈ گاؤں میں پیدا ہوئے شاہیر سالوے ۱۹۷۰ کی دہائی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اورنگ آباد چلے آئے۔

اُس وقت مراٹھواڑہ نظام حکومت کے ماتحت تھا اور ترقی کے متعدد محاذ پر پس ماندگی کا سامنا کر رہا تھا۔ ان میں ایک محاذ تعلیمی پس ماندگی کا بھی تھا۔ اسی پس ماندگی سے لڑنے کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر نے ۱۹۴۲ میں ’پیپلز ایجوکیشن سوسائٹی‘ کے بینر تلے اورنگ آباد کے ناگ سینون علاقے میں ملند مہا ودیالیہ شروع کیا۔ ناگ سینون کا کیمپس دلت طلباء کی اعلیٰ تعلیم کے مرکز کے طور پر تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ پورے مراٹھواڑہ میں ملند کالج سے پہلے صرف ایک سرکاری کالج تھا جو اورنگ آباد میں تھا اور وہاں بھی صرف انٹر تک کی پڑھائی ہوتی تھی۔ انٹر کا مطلب انٹرمیڈیٹ ڈگری – ایک پری ڈگری کورس کی پڑھائی سے تھا۔ ملند مراٹھواڑہ کا پہلا کالج تھا جہاں انڈر گریجویٹ کی تعلیم کی سہولت تھی۔ اس نئے کالج نے اس علاقے میں تعلیم کا ماحول تیار کرنے میں اہم رول نبھایا اور ساتھ ہی سیاسی، سماجی اور ثقافتی ماحول کو تخلیقی طور پر بدلنے کا کام کیا۔ اس نے ایک مردہ ہوتے سماج کو دوبارہ زندہ کیا اور علاقے میں ایک نئی روح پھونکی، اور اپنی پہچان اور عزت نفس کے تئیں ایک نئی بیداری پیدا کی۔ ملند میں نہ صرف پورے مہاراشٹر کے کونے کونے سے، بلکہ کرناٹک، آندھرا پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں سے بھی طالب علم پڑھنے کے لیے آنے لگے۔ اسی زمانے میں آتما رام نے بھی ملند میں ایک طالب علم کے طور پر داخلہ لیا۔ اورنگ آباد کی مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام بدلنے کی تحریک جو اسی کیمپس سے شروع ہوئی، ان کی اثر انگیز شاعری کی بدولت ہی دو دہائیوں تک پھلتی پھولتی رہی۔ اس طرح وہ نامانتر اور دلت پینتھر تحریکوں کی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے اکیلے ذمہ دار رہے۔

PHOTO • Labani Jangi

آتما رام سالوے نے دلتوں کے خلاف ذات کے نام پر چھیڑی گئی لڑائی سے مقابلے کرنے کے لیے اپنی شاہیری، اپنی آواز، اور اپنے الفاظ کا استعمال کیا

۱۹۷۰ کی دہائی والا دور بدامنی اور بدنظمی والا دور تھا۔ یہ آزاد ہندوستان کے نوجوان مرد و خواتین کی پہلی نسل کا دور تھا۔ ان نوجوانوں میں ان کی ایک بڑی تعداد تھی جن کے ہاتھوں میں ڈگریاں تھیں، لیکن ۱۹۴۷ میں ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ اقتدار اور سماجی نظام کی بے مقصدیت کے سبب خود پس و پیش اور غیر یقینی کی حالت سے دوچار تھے۔ ان پر متعدد سماجی و سیاسی واقعات کا گہرا اثر پڑا تھا: جیسے کہ ایمرجنسی، مغربی بنگال کا نکسل باڑی، تلنگانہ ریاست کی تحریک، بہار میں جے پرکاش نارائن کی نو نرمان تحریک، گجرات اور بہار میں او بی سی ریزرویشن کے لیے تحریک، حالیہ سمیُکت مہاراشٹر تحریک، ممبئی کے مل مزدوروں کی تحریک، شہادا تحریک، سبز انقلاب، مراٹھواڑہ مُکتی آندولن ، مراٹھواڑہ کی خشک سالی وغیرہ۔

مراٹھواڑہ رپبلکن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بینر تلے اور ڈاکٹر مچھندر موہل کی قیادت میں ناگ سینون کیمپس کے بیدار طالب علموں نے ۲۶ جون، ۱۹۷۴ کو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا کہ مراٹھواڑہ میں واقع دو یونیورسٹیوں میں سے ایک کا نام ڈاکٹر امبیڈکر کے نام پر رکھا جائے۔ لیکن نام بدلنے (’نامانتر‘) کی اس مہم نے ایک منظم شکل تب اختیار کر لی، جب بھارتیہ دلت پینتھرس اس میں شامل ہوئے۔ نامدیو ڈھسال اور راجا ڈھالے کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ڈھالے نے دلت پینتھرس کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن، اس کے ایک گروہ نے پروفیسر ارون کامبلے، رام داس اٹھاولے، گنگا دھر گاڑے، اور ایس ایم پردھان کی قیادت میں ’بھارت دلت پینتھرس‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی، تاکہ مہاراشٹر میں دلت پینتھرس کے کاموں کو جاری رکھا جا سکے۔

آتما رام سالوے نے نوتشکیل بھارتیہ دلت پینتھرس کے بارے میں لکھا:

मी पॅंथरचा सैनिक,
कांबळे अरुण सरदार
आम्ही सारे जय भीम वाले
अन्यायाशी लढणार
सैनिक भियाचे
नाही कुणा भिणार
अन्याय संपवून
पुढे पुढे जाणार
दलित, शेतकरी, कामगारा उठ,
करूनी एकजूट, उगारून मूठ

میں ایک پینتھر سپاہی ہوں
کامبلے ارون سردار
ہم سبھی جے بھیم والے ہیں
جو انصاف کے لیے لڑتے ہیں
سپاہی ڈرتے نہیں
ہم بھی اب کسی سے نہیں ڈرتے
ہم نا انصافی کو جڑ سے مٹا دیں گے
اور آگے بڑھیں گے
دلت، کسان، مزدور، اٹھو – آگے بڑھو
آؤ ہم متحد ہو کر مٹھی ہوا میں لہرائیں

اس گیت کے ساتھ سالوے نے نئے پینتھروں کا استقبال کیا اور ساتھ ہی مراٹھواڑہ کے نائب صدر کی کمان بھی سنبھال لی۔ ۷ جولائی، ۱۹۷۷ کو نوتشکیل بھارتیہ دلت پینتھرس کے جنرل سکریٹری گنگا دھر گاڑے نے اعلانیہ طور پر پہلی بار مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام ڈاکٹر امبیڈکر پر رکھنے کا مطالبہ کیا۔

PHOTO • Keshav Waghmare
PHOTO • Keshav Waghmare

بائیں: مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلع کے مکھیڈ کے رہنے والے تیجے راؤ بھدرے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک شاہیر آتما رام سالوے کی ٹیم میں ہارمونیم اور ڈھولکی بجانے والے رکن تھے۔ دائیں: امبیڈکر تحریک میں بھدرے کے ثقافتی تعاون کے لیے انہیں ملا انعام

۱۸ جولائی، ۱۹۷۷ کو تمام کالج بند کر دیے گئے اور آل پارٹی اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی نے مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام بدلنے کے مطالبہ میں ایک بڑے مارچ کی قیادت کی۔ جواب میں ۲۱ جولائی، ۱۹۷۷ کو اورنگ آباد انجینئرنگ کالج، سرسوتی بھوون کالج، دیوگیری کالج اور وویکانند کالج کے سورن [اونچی ذات کے] طلباء نے نام بدلنے کی مخالفت میں پہلی بار احتجاج کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ’نامانتر‘ کی حمایت اور مخالفت دونوں میں احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور ریلیوں کا سیلاب آ گیا۔ آنے والی دو دہائیوں تک مراٹھواڑہ دلتوں اور غیر دلتوں کے درمیان نا اتفاقی اور زور آزمائش کا میدان جنگ بنا رہا۔ اس میدان جنگ میں آتما رام نے اپنی شاہیری، اپنی آواز اور اپنے الفاظ کے ہتھیاروں کو خود انہی کی زبان میں، ’’دلتوں پر ذات کے نام پر تھوپی گئی جنگ کے خلاف‘‘ استعمال کیا۔

آتما رام سالوے ایک ایسے دور میں نمودار ہوئے جب امبیڈکر تحریک کے گواہ رہے انّا بھاؤ ساٹھے، بھیم راؤ کرڈک، شاہیر گھیگڑے، بھاؤ پھکڑ، راجانند گاڈپایلے، اور وامن کرڈک جیسے شاہیر سماجی و ثقافتی منظرنامے سے غائب ہو چکے تھے۔

امبیڈکر کے بعد والے دور کے شاہیر مثلاً ولاس گھوگرے، دلتانند موہنا جی ہٹکر، اور وجیانند جادھو نے ڈاکٹر امبیڈکر کی تحریک یا مذہبی تبدیلی کا دور نہیں دیکھا تھا۔ دوسرے الفاظ میں، ذاتی تجربات کے معاملے میں وہ بالکل صفر تھے۔ یہ شاہیر دیہی علاقوں میں رہتے تھے اور بابا صاحب (ڈاکٹر امبیڈکر) اور ان کی تحریک سے ان کا تعارف کتابوں کے توسط سے ہوا تھا۔ اس لیے ان کی شاہیری میں شعلہ بیانی نظر آتی ہے۔ آتما رام کے گیت بھی ان اثرات سے اچھوتے نہیں تھے۔

نامانتر کا تعلق صرف نام کی تبدیلی سے نہیں تھا۔ اس کا گہرا تعلق اپنی ذات کی پہچان اور اپنے انسان ہونے کے ایک نئے احساس سے بھی تھا۔

جب وزیر اعلیٰ وسنت دادا پاٹل نے نامانتر تحریک کی حمایت کرنے سے منہ موڑنے کی کوشش کی، تو آتما رام سالوے نے لکھا:

वसंत दादा, पॅंथरच्या लागू नको नादा
अन्यथा तू मुकशील गादीला
हे दलित आता घेतील सत्ता
आणि तू पडशील सांदीला
तुला सत्तेचा चढलाय माज
सोड तुझीबही तानाशाही
नाही चालणार हे तुझे जुलमी राज

وسنت دادا، ہم سے الجھنے کی کوشش مت کرو
ورنہ کرسی گنوانی ہوگی
یہ دلت اقتدار پر قبضہ کر لیں گے
آپ دھول بھرے کونے میں رہ جائیں گے
آپ طاقت کے نشے میں چور ہیں
یہاں دیکھئے، اپنی تانا شاہی سے باز آئیے
آپ کی من مرضی کی حکومت اب نہیں چلے گی

پولیس اکثر سماجی ہم آہنگی بگاڑنے کے الزام میں ان کے پروگراموں کو بند کر دیتی تھی، لیکن آتما رام نے پرفارم کرنا کبھی بند نہیں کیا

کیسر بائی گھوٹ مکھے کی آواز میں سنیں: ’وسنت دادا، ہم سے الجھنے کی کوشش مت کرو‘

آتما رام سالوے نے صرف اس گیت کو لکھا ہی نہیں، بلکہ جس وقت وسنت دادا پاٹل ناندیڑ آئے، تو ہزاروں لوگوں کے مجمع کے سامنے اس گیت کو شاندار طریقے سے پیش بھی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ان پر زندگی بھر سیاسی جرم کے معاملے چلتے رہے۔ سال ۱۹۷۸ سے ۱۹۹۱ میں سالوے کے انتقال تک، پورے مہاراشٹر میں ان کے خلاف پولیس اسٹیشنوں میں مقدمے درج کیے جاتے رہے، اور ان پر تشدد پھیلانے، سرکاری کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرنے، فساد برپا کرنے اور سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے کے الزام لگائے جاتے رہے۔ ان پر متعدد جان لیوا حملے بھی کیے گئے۔ آتما رام سالوے کے قریبی دوست اور معاون، دیگلور کے رہنے والے چندر کانت تھانیکر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’سال ۱۹۸۰ میں دیگلور بلاک [ضلع – ناندیڑ] کے مرکھیل گاؤں میں ان پر حملہ کیا گیا تھا۔ سالوے پر ڈاکٹر نول کے قتل کی کوشش کرنے کا الزام لگا تھا، کیوں کہ ان کے مطابق ڈاکٹر نے بینّال گاؤں می ایک دلت مزدور، کالے کے قتل کے معاملے میں ایک فرضی ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ اس جرم میں انہیں، مجھے، اور رام کھڈگے کو دو دو سال کی قید با مشقت اور ۵۰۰-۵۰۰ روپے کا جرمانہ بھرنے کی سزا سنائی گئی۔ بعد میں ایک اعلیٰ عدالت نے ہمیں بری کر دیا۔‘‘

اسی مرکھیل گاؤں میں ۷۰ سال کی ایک بزرگ خاتون، ناگر بائی سوپان وجھرکر نے مجھے آتما رام سالوے کی ایک نوٹ بک دی، جس میں ان کے ہی ہاتھ سے لکھی تحریر میں ان کے گیت لکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے وہ نوٹ بک مٹی کے ایک برتن سے نکال کر دکھایا تھا، جہاں وہ گزشتہ چالیس سالوں سے محفوظ رکھی ہوئی تھی۔ یہ ناگر بائی ہی تھیں جنہوں نے مرکھیل میں ہوئے حملے میں آتما رام کی جان بچائی تھی۔ ایک دوسرے واقعہ میں ماجلگاؤں کے تاجروں نے پینتھروں کے ذریعے بند کی کال کی مخالفت کرتے ہوئے آتما رام سالوے کو ضلع بدر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی ریلی نکالی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ان کے بیڈ ضلع میں داخلہ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ آتما رام کی فنی پیشکش میں ان کے گیتوں پر ہارمونیم بجا کر ساتھ دینے والے مکھیڈ کے تیجے راؤ بھدرے کہتے ہیں: ’’آتما رام اپنی تقریروں میں جوش سے بھرے ہوتے تھے اور ان کے گیت سن کر لوگوں کا خون گرم ہو جاتا تھا۔ دلتوں کو ان کے گیت بہت اچھے لگتے تھے، لیکن اونچی ذات والوں کو وہی گیت چوٹ پہنچاتے تھے۔ وہ ان کو گاتا ہوا سن کر اسٹیج پر پتھربازی کرنے لگتے تھے۔ جب آتما رام گاتے، تو اگلی قطار میں بیٹھے سننے والے ان کی طرف سکوں کی بوچھار کرنے لگتے، جب کہ جن لوگوں کو ان کے گیت سے تکلیف ہوتی تھی وہ پتھر پھینک کر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے تھے۔ ایک شاہیر کے طور پر وہ ایک ہی وقت پسند اور ناپسند دونوں کیے جاتے تھے – اور یہ ایک عام بات تھی۔ لیکن پتھر کے حملے بھی آتما رام کو گانے سے نہیں روک پائے۔ وہ اپنا سارا غصہ اور ناراضگی اپنے گیتوں میں ڈال دیتے تھے اور لوگوں سے ان کے عز و وقار کے لیے لڑنے کی اپیل کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ عوام نا انصافی کے خلاف لڑیں۔‘‘

پولیس اکثر سماجی ہم آہنگی کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگا کر ان کے پروگراموں کو درمیان میں ہی روک دیتی تھی، لیکن آتما رام اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ پروگراموں میں آتما رام کا ساتھ دینے والے پھُلے پمپل گاؤں کے شاہیر بھیم سین سالوے یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’آتمام رام کو بیڈ ضلع میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا، لیکن ایک رات ان کو ضلع کی سرحد کے اندر ہی اپنی شاہیری کی پیشکش کرنی تھی۔ کسی نے پولیس کو اس کی اطلاع کر دی۔ پولیس آئی اور اسنے آتما رام سے پروگرام کو روک دینے کے لیے کہا۔ اس کے بعد آتما رام گاؤں میں بہتی ندی کو پار کرکے دوسرے کنارے پہنچ گئے۔ ندی کا وہ کنارہ بیڈ ضلع کے باہر پڑتا تھا۔ ان کو سننے آئے لوگ اندھیرے میں ہی ندی کے اس پار بیٹھے رہے، اور آتما رام کے گیت سنتے رہے۔ گلوکار ضلع کے باہر تھا اور سامعین ضلع کے اندر تھے۔ پولیس بے یار و مددگار دیکھتی رہی۔ یہ سچ میں ایک مزیدار واقعہ تھا۔‘‘ آتما رام نے اپنی زندگی میں ایسے کئی حالات کا سامنا کیا تھا، لیکن گانا انہوں نے کبھی بند نہیں کیا۔ گانا ان کی زندگی کو ضروری توانائی دیتا تھا۔

شاہیر اشوک نارائن چورے گاتے ہیں: ’نامانتر کے لیے لڑو، میرے ساتھیوں‘

مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام بدلنے کو لے کر ہوئی تحریک میں دو دہائیوں تک آتما رام سالوے کی شاعری نے قہر برپا کر دیا

بیڈ کے مانوی ہکّ ابھیان کے بانی صدر، ایڈووکیٹ ایکناتھ آوہاڈ نے اپنی خود نوشت، ’جگ بدل گھالونی گاؤ‘ ( اسٹرائک اے بلو ٹو چینج دی ورلڈ ؛ مترجم: جیری پنٹو) میں آتمام رام سالوے سے متعلق ایک واقعہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے اور عوام میں اپنی شاہیری کے ذریعے بد امنی بھڑکانے کے ’جرم‘ میں آتما رام کو بیڈ سے بے دخل کر دیا گیا تھا، اور اس لیے وہ ناندیڑ میں تھے۔ وہاں انہوں نے پینتھروں کی ایک ضلع اکائی بنائی اور اپنے جلسہ کا اہتمام کیا۔ امبا جوگائی کے پرلی ویس میں بڑی تعداد میں دلت تھے، اس لیے جلسہ وہیں منعقد کیا گیا۔ آتما رام کو بیڈ میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا تھا، اس لیے پولیس بہت محتاط تھی۔ کدم نام کا ایک پی ایس آئی آتما رام کو گرفتار کرنے ہی والا تھا۔ ہم اس کے پاس گئے۔ ہم نے کہا، ’اسے گانے کے بعد گرفتار کیجئے۔‘ وہ مان گیا۔ آتما رام نے پوری جان لگا کر اپنی پیشکش دی۔ اس کے گیتوں میں بار بار نامانتر کی مانگ دوہرائی گئی۔ پی ایس آئی کدم نے بھی گیتوں کا مزہ لیا اور ایک انقلابی شاہیر کے طور پر ان کی خوب تعریف بھی کی۔ لیکن ان تعریفوں کے بعد بھی وہ ان کو گرفتار کرنے کے لیے پر عزم تھا۔ آتما رام کو اس کی بھنک لگ گئی۔ انہوں نے اسٹیج پر اپنی جگہ کسی دوسرے آدمی کو بیٹھا دیا، اور خود بھاگ نکلے۔ پی ایس آئی کدم، آتما رام کو گرفتار کرنے اسٹیج پر چڑھا بھی، لیکن اسے آتمام رام کہیں نہیں ملے۔‘‘

۲۷ جولائی، ۱۹۷۸ کو جیسے ہی مہاراشٹر اسمبلی میں مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام بدلنے سے متعلق تجویز پاس ہوئی، پورا مراٹھواڑہ علاقہ دلتوں کے لیے قتل گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ ایک دن کے اندر آمد و رفت اور نقل و حمل کے تمام ذرائع بند کر دیے گئے، ہزاروں دلتوں کے گھر دروازے اور سامانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ کچھ جگہوں پر ان کی جھونپڑیاں تک پھونک ڈالی گئیں اور اس میں چھپی عورتوں اور بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ ناندیڑ ضلع کے سوگاؤں کے جناردن میواڑے اور تیمبھورنی گاؤں کے نائب سرپنچ، پوچی رام کامبلے کا بھی قتل کر دیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں میں پربھنی ضلع کے دھامن گاؤں کے دلت پولیس آفیسر، سمبھاجی سوماجی اور گووند بھوریوار بھی شامل تھے۔ اس تشدد میں ہزاروں کی تعداد میں دلت زخمی بھی ہوئے۔ کروڑوں روپے کی پراپرٹی لوٹ لی گئی۔ کھیت کی پکی ہوئی فصلیں برباد کر دی گئیں۔ بے شمار گاؤوں میں دلتوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور انہیں کھانا اور پینے کے پانی سے محروم کر دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ گاؤوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر گئے۔ کل ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ قیمت کی پرائیویٹ اور سرکاری پراپرٹی کو نقصان پہنچا۔ متعدد جگہوں پر ڈاکٹر امبیڈکر کی مورتیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا مراٹھواڑہ ذات پر مبنی جنگ کے میدان میں تبدیل ہو گیا۔

مراٹھواڑہ میں ذات پر مبنی اس تشدد کی شدت اور سنگینی کو بیان کرتے ہوئے آتما رام سالوے نے ایک گیت لکھا:

खेडोपाडी भडकला जाळ
नळगीरला जाळली बाळ
जीव घेऊन रानोमाळ
दलितांची झाली पळापळ
जातिवाद्यांनी केला छळ
दलितांना काम नाही, पेटेना चूल
थोडंसं शरीर झिजवा की रं
पेटलेली घरं ती विझवा की रं
पाट रक्ताचे भले वाहू द्या
मला उभं रक्ताने न्हाऊ द्या
अखेरची लढाई लढवा की रं
जरा क्रांतीचे बीज हे रुजवा की रं

گاؤوں اور جھونپڑیوں سے، آگ کی لپٹیں اٹھتی تھیں
نلگیر میں ایک نو زائیدہ بچی کو مار ڈالا گیا
اپنی زندگیوں کو بچانے کی فکر میں جنگل بھاگے لوگ
دلت جہاں نظر آئے مار ڈالے گئے
ذات وادیوں نے ان کی زندگی کو جہنم بنا ڈالا تھا
دلتوں کی کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں بچا،
ان کے باورچی خانوں کی انگیٹھی ٹھنڈی پڑ گئی تھی
اٹھو جاگو بھائیوں تم سن رہے ہو نا؟
ان جلتے گھروں کی لپٹیں بجھاؤ تم سن رہے ہو نا؟
خون کا فوارہ بہتا ہے، تو بہنے دو
اس آخری لڑائی میں میرا ساتھ دو، تم سن رہے ہو نا؟
انقلاب کی اس چنگاری کو ہوا دو، تم سن رہے ہو نا؟

دلتوں کے خلاف یہ ماحول کوئی ایک دن میں نہیں بنا تھا۔ اس کے بیج دراصل نظام کی حکومت کے وقت ہی بوئے جا چکے تھے۔ نظاموں کے خلاف لڑنے والوں میں سوامی رامانند تیرتھ کا نام سر فہرست ہے۔ وہ آریہ سماج سے تعلق رکھتے تھے۔ حالانکہ، آریہ سماج برہمنوں کے ظلم و جبر کی مخالفت کرنے کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا، لیکن اس کی پوری قیادت برہمن وادی ہی تھی۔ اور، رضاکاروں کے خلاف جدوجہد کے دوران، برہمن وادی قیادت نے دلتوں کے خلاف کئی قسم کی بدگمانیاں پیدا کر دیں۔ ’دلت نظام کے حامی ہیں‘، ’دلت بستیاں رضاکاروں کی پناہ گاہ ہیں‘ وغیرہ جیسے گمراہ کن اور غلط تصور نے امبیڈکر مخالف سورن (اونچی ذات کے) لوگوں کے ذہن میں غصہ پیدا کرنے کا کام کیا۔ اس لیے، رضاکاروں پر پولیس کی کارروائی کے دوران دلتوں کو بھی خطرناک قسم کے جبر و استحصال کا شکار ہونا پڑا۔ ان مظالم پر مراٹھواڑہ شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن کے اس زمانے کے صدر، بھاؤ صاحب مورے نے ایک رپورٹ بنائی تھی، جسے انہوں نے ڈاکٹر امبیڈکر اور حکومت ہند کو بھیج دیا تھا۔

PHOTO • Keshav Waghmare
PHOTO • Keshav Waghmare

ناندیڑ سے تعلق رکھنے والی کیسر بائی گھوٹ مُکھے، بھارتیہ دلت پینتھرس کی خواتین وِنگ کی نائب صدر کے طور پر ریٹائر ہوئیں۔ ’آتما رام سالوے ہمارے تمام احتجاجی مظاہروں میں ساتھ تھے۔ وہ بڑی تیزی سے گیت لکھتے تھے، اور ہم ان کے ساتھ کورس میں گاتے تھے۔‘ دائیں: شاہیر اشوک نارائن چورے کہتے ہیں کہ نامانتر تحریک نے سبھی تعلیم یافتہ دلت نوجوانوں پر اپنا اثر ڈالا۔ ’ہماری پوری نسل نے کافی جھیلا‘

ڈاکٹر امبیڈکر کے بعد زمین کے حق کی لڑائی دادا صاحب گائکواڑ کی قیادت میں لڑی گئی۔ اس لڑائی میں ان کا نعرہ تھا ’کسیل تیاچی زمین، نسیل تیاچے کائے؟‘ (ہل چلانے والوں کی زمین، لیکن بے زمینوں کے لیے کیا؟) مراٹھواڑہ کے دلت اس لڑائی میں سب سے آگے تھے، اور اس تحریک میں لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین جیل میں گئے۔ دلتوں نے اپنے معاش کے لیے لاکھوں ہیکٹیئر زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ اونچی ذات کے لوگ دلتوں کے ذریعے مویشیوں کے چرنے کی زمین پر جبراً قبضہ کر لینے سے بہت ناخوش تھے۔ وسنت دادا پاٹل اور شرد پوار کے درمیان کی لڑائی نے بھی اس تحریک میں بڑا رول ادا کیا۔ گاؤں کے گاؤں میں اونچی ذات کے لوگوں کا غصہ نفرت اور تشدد کی شکل میں ظاہر ہو رہا تھا۔ نامانتر تحریک کے دوران طرح طرح کی افواہیں بھی پھیلنے لگی تھیں، مثلاً ’’یونیورسٹی کی پوتائی نیلے رنگ سے کی جائے گی،‘‘ ’’ڈگری سرٹیفکیٹ پر ڈاکٹر امبیڈکر کی فوٹو لگی ہوگی،‘‘ ’’ڈاکٹر امبیڈکر بین ذات شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اس لیے تعلیم یافتہ دلت نوجوانوں سے ہماری بیٹیوں کو خطرہ ہے‘‘، وغیرہ وغیرہ۔

’’مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے نامانتر کا ایشو نیو بدھسٹ تحریک کے نظریہ میں شامل ہے۔ یہ ایک اصلی علیحدگی پسند تحریک ہے جو آزاد دلت کے وجود پر منحصر ہے، اور اس کے لیے وہ بدھسٹ ممالک سے مدد کی امید بھی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ضرورت پڑی تو وہ ہندوستانی شہریت کو چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کے خلاف جلد از جلد سیدھی اور براہ راست کارروائی کی جائے۔‘‘ یہ تجویز نامانتر وِرودھی کریتی سمیتی کے ذریعے ان کے لاتور اجلاس میں پاس کی گئی تھی، اور دلتوں کو ان کے مادر وطن سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ نامانتر تحریک کو ہندوؤں اور بدھسٹوں کے درمیان کی لڑائی کے طور پر کافی مشہور کیا گیا، اور یہ تصور آہستہ آہستہ عام ہو گیا۔ اور اس لیے، نامانتر تحریک کے شروع ہونے تک مراٹھواڑہ جلتا رہا، اور اس کے بعد بھی وہاں پوری طرح امن قائم نہیں ہوا۔ نامانتر تحریک کے دوران کل ۲۷ دلت شہید ہوئے۔

یہ تحریک صرف پہچان اور وجود جیسے بنیادی سوالات سے متعلق نہیں تھی، بلکہ سماجی و ثقافتی رشتوں کا بھی اس تحریک سے گہرا تعلق تھا۔ جلد ہی پیدائش، وفات اور شادی جیسی تقریبوں پر اس کے اثرات نظر آنے لگے۔ شادی اور موت کے بعد آخری رسومات ادا کرنے پر لوگوں نے ’ڈاکٹر امبیڈکر وجے اسو‘ (ڈاکٹر امبیڈکر زندہ باد) اور ’مراٹھواڑہ ودیاپیٹھاچے نامانتر جھلیچ پاہیجے‘ (مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام جلد از جلد بدلا جائے) جیسے نعرے دیے۔ شاہیر آتما رام سالوے نے لوگوں کو نامانتر اور سماجی و ثقافتی شعور کے تئیں زیادہ محتاط ہونے کے لیے بیدار کرنے میں اہم رول نبھایا۔

PHOTO • Keshav Waghmare

بیڈ کے طالب علم سُمت سالوے، آتما رام سالوے کے کئی گیت گاتے ہیں۔ ’شاہیر کے گیت نوجوانوں نسل کو حوصلہ بخشتے ہیں‘

آتما رام کی پوری زندگی امبیڈکر اور نامانتر کو وقف تھی۔ وہ کہا کرتے تھے، ’’جب یونیورسٹی کا نام باضابطہ طور پر بدل جائے گا، تب میں اپنا گھر اور اپنے کھیت بیچ دوں گا، اور ان پیسوں کو یونیورسٹی کے داخلہ دروازہ کی محراب پر ڈاکٹر امبیڈکر کا نام سونے کے حروف سے لکھوانے پر خرچ کروں گا۔‘‘ اپنے الفاظ، آواز اور شاہیری کے ساتھ انہوں نے ظلم و جبر کے خلاف مشعل جلانے کا کام کیا۔ نامانتر کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دو دہائیوں تک اپنے صرف دو پیروں کے سہارے مہاراشٹر کے دور دراز کے گاؤوں میں گھومتے رہے۔ ان کو یاد کرتے ہوئے اورنگ آباد کے ڈاکٹر اشوک گائکواڑ کہتے ہیں، ’’ناندیڑ ضلع کے میرے گاؤں بوندا گاوہن میں آج بھی کوئی سڑک نہیں جاتی ہے، اور کوئی سواری گاڑی وہاں نہیں پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد بھی آتما رام ۱۹۷۹ میں ہمارے گاؤں آئے اور شاہیری جلسہ کیا۔ انہوں نے شاہیری کے ذریعے ہماری زندگی میں روشنی لانے کا کام کیا، اور ان کے گیتوں نے دلتوں کو اپنے حق کی لڑائی لڑنے کا حوصلہ دیا۔ وہ ذات پات کو ماننے والے لوگوں کو کھلے عام برا بھلا کہتے تھے۔ جب وہ اپنی اثردار آواز میں گانا شروع کرتے تھے، تو لوگ ان کو سننے کے لیے ایسے امنڈ پڑتے تھے جیسے شہد کی مکھیاں اپنے چھتّے پر منڈلاتی ہیں۔ ان کے گیت سنتے ہی ہمارے کانوں میں رس گھل جاتا تھا، ان کے الفاظ سوئی ہوئی روح کو بھی جگا دیتے تھے اور ظالموں سے لڑنے کا حوصلہ دیتے تھے۔‘‘

ناندیڑ ضلع کے ہی کِنوٹچے کے دادا راؤ کیاپک کے پاس بھی سالوے کی دلچسپ اور مزیدار یادیں ہیں۔ ’’سال ۱۹۷۸ میں گوکل کونڈے گاؤں کے دلتوں کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ اس کی مخالفت کرنے کے لیے میں نے ایس ایم پردھان، سریش گائکواڑ، منوہر بھگت، اور ایڈووکیٹ ملند سرپے نے ایک مورچہ نکالا۔ پولیس نے دفعہ ۱۴۴ (سی آر پی سی) لگا رکھا تھا اور کسی بھی طرح کی بھیڑ لگانا ممنوع تھا۔ سورن لوگ، شاہیر سالوے اور پینتھر کارکنوں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انہوں نے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شرنگار ویل اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ایس پی خان کا گھیراؤ بھی کیا، اور پولیس گیسٹ ہاؤس کے احاطہ کی دیواروں میں آگ بھی لگا دی۔ ماحول بہت ہی تناؤ بھرا تھا اور کانگریس رکن پارلیمنٹ اتم راؤ راٹھوڑ کے ایک قریبی ساتھی جے ناگو راؤ اور ایک دلت صفائی ملازم کی موت ہو گئی۔‘‘

شاہیر آتمام رام سالوے کے گیت برابری، آزادی، بھائی چارہ اور انصاف جیسے انسانیت نواز خیالات سے بھرپور تھے۔ لڑائی، ٹھنگی (چنگاری)، انقلاب، آگ، جنگ، اسلحہ، توپ، نئی تاریخ جیسے الفاظ ان کے گیتوں میں عام طور پر استعمال ہوتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر انہی الفاظ کا سامنا کیا۔ ان کا تحریر کردہ ہر ایک گیت حقیقت میں ایک جنگی گیت تھا۔

डागुणी तोफ, घेतली ही झेप
मनूची अवलाद गाढायला
चला नवा इतिहास घडवायला
क्रांतीचे रुजवूनी रोप
बंदुकीची गोळी, आज पेटविल होळी
मनूचा हा किल्ला उडवायला

توپ خریدا، جوکھم اٹھایا
تاکہ منو کی نسل کو دفن کیا جا سکے
چلو ہم ایک نئی تاریخ رقم کریں
اور انقلاب کے نئے پودے لگائیں
آج بندوق سے نکلی ایک گولی ہی ہولی کو آگ لگائے گی
تاکہ منو کے قلع کو مسمار کیا جا سکے

آتما رام سالوے نے تفریح، پیسہ، شہرت یا نام کے لیے پرفارم نہیں کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ آرٹ معتدل نہیں ہوتا، بلکہ تبدیلی کی لڑائی میں ایک اہم اوزار ہے

تیجے راؤ بھدرے کی آواز میں یہ نظم سنیں: ’میرے دلت بھائیوں، اپنے اندر کی آگ جلاؤ‘

ایک فنکار اور شاہیر کے طور پر آتما رام معتدل نہیں تھے۔ لیکن، وہ علاقائیت پسند اور محدود ذہنیت کے مالک بھی نہیں تھے۔ سال ۱۹۷۷ میں بہار کے بیلچھی میں دلتوں کا قتل عام ہوا۔ وہ بیلچھی گئے اور وہاں انہوں نے عوامی تحریک شروع کی۔ اس کی وجہ سے انہیں ۱۰ دنوں کے لیے جیل میں بھی ڈال دیا گیا۔ اس قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا:

हिंदू देशात या, बेलचीला इथे
बंधू माझे जळालेले मी पाहिले
आया-बहिणी सवे, लहान बाळे
जीव घेऊन पळालेले मी पाहिले

اس ہندو ملک کے بیلچھی میں
میرے بھائیوں کو جلایا، میں نے دیکھا
ماؤں، بہنوں اور بچوں کو بھی
جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا، میں نے دیکھا

اسی گیت میں انہوں نے خود غرض دلت لیڈروں کے کھوکھلے اصولوں پر حملہ بھی کیا:

कोणी काँग्रेसची झाली इथे बाहुले
कोणी “जनताला” तनमन वाहिले
वेळ आल्यावर ढोंगी गवई परी
त्या शत्रूशी मिळालेले मी पाहिले

کچھ لیڈر کانگریس کی کٹھ پتلی بن گئے
کچھ نے اپنا جسم اور جان ’’عوام‘‘ [پارٹی] کو گروی رکھ دیا
اس مشکل وقت میں منافق گوئی کی طرح
ہم نے انہیں دشمنوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے دیکھا

۱۹۸۱ میں ریزرویشن مخالفین کے ایک گروپ نے طالب علم ہونے کے جھوٹے بہانے کی آڑ میں گجرات میں جم کر ہنگامہ کیا۔ وہ پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لوگوں کو ریزرویشن دینے کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس ہنگامے کے دوران آگ زنی، لوٹ، چھرے بازی، آنسو گیس، اور فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے۔ زیادہ تر حملوں میں نشانے پر دلت تھے۔ احمد آباد میں دلت مزدوروں کی بستیوں میں آگ لگا دی گئی۔ شمالی گجرات اور سوراشٹر کے دیہی علاقوں میں بھی سورن ذات کے لوگوں نے دلتوں کی بستیوں پر حملے کیے۔ بڑی تعداد میں ڈرے ہوئے دلت گاؤوں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔

اس پر آتما رام سالوے نے اپنے گیت میں کہا:

आज राखीव जागेमुळे
दीन-दुबळ्यांना छळता कश्याला
लोकशाहीचे पाईक तुम्ही
नीच मार्गाने वळता कश्याला
आज गुजरात हे पेटले
देश पेटेल सारा उद्या
हा भडकलेला वणवा
त्या आगीत जळता कश्याला!"

آج، ریزروڈ سیٹوں کی خاطر
کمزوروں کو کیوں ستاتے ہو
تمہیں جمہوریت کا فائدہ ملا
اتنا نفرت انگیز کام کیوں کرتے ہو
آج، پورا گجرات جل رہا ہے
کل آگ ملک میں پھیلے گی
یہ چمکدار آگ سب کو خاک کر دے گی
تم اس میں کیوں جل رہے ہو

آتما رام سالوے تفریح، پیسے، نام اور شہرت کے لیے نہیں گاتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ آرٹ معتدل نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ تفریح کے لیے ہوتا ہے، بلکہ یہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی تبدیلی کی لڑائی کا ایک اہم اوزار ہے۔ انہوں نے ۳۰۰ سے بھی زیادہ گیت لکھے۔ ان میں سے ۲۰۰ گیت ہمارے پاس آج بھی تحریری شکل میں محفوظ ہیں۔

بھوکر کے لکشمن ہیرے، مرکھیل کے ناگر بائی وجارکر، مُکھیڈ کے تیجے راؤ بھدرے (سبھی ناندیڑ ضلع)، اور پھُلے پمپل گاؤں کے شاہیر مہندر سالوے (بیڈ ضلع) کے پاس ان کے گیتوں کے مجموعے ہیں۔ آدھے ادھورے بہت سے گیت لوگوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ ان گیتوں کو کس نے لکھا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن، لوگ انہیں آج بھی گنگناتے ہیں۔

आम्ही सारे जयभीम वाले
आमचा सरदार राजा ढाले

ہم ہیں جے بھیم والے
ہمارے سردار ہیں راجا ڈھالے

آتما رام سالوے کا تحریر کردہ ’دلت پینتھر کا یہ اجتماعی گیت‘ اُس زمانے میں سبھی پینتھروں کی زبان پر تھا۔ یہ گیت آج بھی مراٹھواڑہ کے دل و دماغ میں بجتا رہتا ہے۔

क्रांतीच्या या पेरून ठिणग्या
भडकू दे ही आग
कुठवर सोसू आबाळ
ह्रदयी भडकला जाळ
देऊ लागले ढुसण्या आईला
गर्भामधले बाळ
पाहून पुढचा काळ
भीमबाच्या शूर जवाना
येवू दे रे तुला जाग

انقلاب کی چنگاری کو ہوا دے کر
اس آگ کو دور تک پھیلانا ہے
ہم بے عزتی کب تک برداشت کریں گے
ہمارے دل میں ایک لو سلگتی ہے
حمل میں بچہ ماں کو
ننھے پیروں سے لات مار رہا ہے
آنے والے وقت کا اندازہ لگاتے ہوئے
بھیم راؤ کے بہادر سپاہی
تم سب کو جگانے کے لیے خود بھی جاگ رہا ہے

PHOTO • Labani Jangi

جب بھی آتما رام پرفارم کرتے تھے، تو پیدل لمبی لمبی دوری طے کرکے دلت انہیں سننے آتے تھے

اس مقبول گیت (اوپر) کو آتما رام نے لکھا ہے۔ مراٹھواڑہ نامانتر پوواڈہ بھی انہوں نے ہی لکھا تھا۔ یہ ان کے مخطوطہ کے ضمیمہ میں درج ہے، لیکن ہمارے پاس اس کی تحریری کاپی موجود نہیں ہے۔ بہرحال، پونہ کے رپبلکن پارٹی آف انڈیا کے لیڈر، روہیداس گائکواڑ اور امبیڈکر وادی تحریک کے ایک سینئر مشنری لیڈر وسنت سالوے نے میرے لیے اس کی کچھ لائنیں گا کر سنائیں۔ انداپور تعلقہ کے باوڈا گاؤں میں بڑی ذات کے لوگوں کے ذریعے دلتوں کے بائیکاٹ کے دوران آتما رام خود پونہ گئے اور آس پاس کی متعدد جھگی بستیوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان کے گیت اجتماعی جذبات اور کوششوں جیسے موضوعات پر مرکوز ہوتے تھے۔ آتما رام جب بھی گاتے تھے، تو اس جگہ اور آس پاس کے علاقوں کے دلت ان کے گیتوں کو سننے کے لیے بھاکری کی پوٹلی لے کر اور میلوں پیدل چل کر اکٹھا ہوتے تھے۔ ان کے گانے کے بعد پینتھر کارکن وہاں موجود سامعین سے خطاب کرتے تھے۔ نامانتر تحریک کے دوران پینتھروں کے لیے وہ ’’مجمع کو اپنی جانب کھینچنے میں سب سے ماہر فنکار‘ تھے۔ جیسے نام دیو ڈھسال، پینتھر دور کے نمائندے دلت شاعر ہیں، ٹھیک اسی طرح آتما رام بھی پینتھر دور کے نمائندہ علاقائی گلوکار ہیں۔ جس طرح نام دیو نے اپنی شاعری میں نئے معیار قائم کیے ہیں، اسی طرح آتما رام نے بھی امبیڈکر کے بعد والے دور کی تحریک میں اپنی شاہیری کے ذریعے علاقائی گلوکاری کے میدان میں کیا ہے۔ جس طرح نام دیو کے اشعار پینتھر دور کے عکاس ہیں، ٹھیک اسی طرح آتما رام کی شاہیری اپنے دور کا آئینہ ہے۔ اور، جس طرح نام دیو کی نظمیں ذات اور طبقہ کی تقسیم جیسے مسائل سے لڑتی ہیں، اسی طرح آتما رام کی شاہیری بھی ذات، طبقہ اور جنسی تفریق اور تعصب سے ایک ساتھ سوال جواب کرتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پینتھروں نے ان پر اثر ڈالا، اور انہوں نے پینتھروں اور عوام پر گہرا اثر ڈالا۔ اسی اثر کے سبب انہوں نے سب چیز ترک کر دی – اعلیٰ تعلیم، گھر، نوکری، اپنا سب کچھ – اور اپنے منتخب کردہ راستے پر بلا خوف و خطر اور بے غرض ہو کر آگے بڑھتے رہے۔

سمت سالوے گاتے ہیں: ’تم کب تک فرسودہ خیالات کی چادر میں لپٹے رہو گے؟‘

جس طرح نام دیو ڈھسال دلت پینتھر دور کے نمائندہ شاعر رہے ہیں، اسی طرح آتما رام سالوے پینتھر دور کے نمائندہ علاقائی گلوکار ہیں

وویک پنڈت، جو وسئی کے سابق رکن اسمبلی رہ چکے ہیں، دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے تک آتما رام سالوے کے گہرے دوست تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’خوف اور خود غرضی – یہ دو لفظ آتما رام کی ڈکشنری میں کبھی نہیں رہے۔‘‘ سالوے کا اپنے الفاظ اور سُروں پر جادوئی کنٹرول تھا۔ وہ جو کچھ بھی بولتے تھے، اس کے بارے میں ان کی معلومات پختہ اور گہری تھی۔ مراٹھی کے علاوہ وہ ہندی، اردو اور انگریزی زبان کے بھی اچھے جانکار تھے۔ انہوں نے اردو اور ہندی میں بھی کچھ گیت لکھے۔ انہوں نے کچھ قوالیاں بھی لکھیں اور گائیں۔ لیکن انہوں نے اپنے فن کا کبھی کاروبار نہیں کیا، اسے بازاروں میں کبھی نہیں لے گئے۔ اپنے فن، اپنے الفاظ، اور اپنی مضبوط آواز کو انہوں نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، اور ذات، طبقہ، صنف پر مبنی استحصال کے خلاف ایک جنگجو کی شکل میں نمودار ہوئے – اور اپنی موت کے آنے تک اکیلے لڑنا جاری رکھا۔

فیملی، تحریک اور پیشہ کسی بھی کارکن کی ذہنی طاقت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ان سب کو ایک دھاگے میں باندھ کر ہی عوامی تحریک کے لیے ایک متبادل جگہ بنائی جا سکتی ہے، جہاں کارکن اور علاقائی فنکار دونوں اپنے وجود کی حفاظت کرتے ہوئے زندہ رہ سکتے ہیں – جہاں دونوں تنہا اور سماج سے کٹا ہوا محسوس نہ کریں۔

امبیڈکر وادی تحریک کے کارکنوں اور فوک آرٹسٹوں کے لیے ایسا کوئی تخلیقی اور تنظیمی قدم کبھی نہیں اٹھایا گیا کہ انہیں مایوسی میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے یا مایوس ہونے کی حالت میں انہیں اس سے باہر نکالا جا سکے۔ لہٰذا آتما رام کے ساتھ بھی وہی ہوا، جو ایسی حالت میں دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے۔

اپنی زندگی کے آخری وقت میں وہ بھی تینوں سطحوں پر مایوسی میں مبتلا ہو چکے تھے۔ تحریک کی وجہ سے ان کی فیملی بکھر چکی تھی۔ شراب کی لت نے ان کی حالت کو قابل رحم بنا دیا تھا۔ بعد کے سالوں میں وہ بے سدھ اور ذہنی طور پر پریشان رہنے لگے۔ وہ کہیں بھی ایک شاہیر کی طرح کھڑے ہو جاتے اور گانے لگتے تھے – کسی سڑک کے بالکل بیچ میں، شہر کے چوراہوں پر، کسی کی بھی مانگ پر۔ نامانتر کے لیے اتنی زبردست جدوجہد کرنے والا شاہیر نشہ کی اپنی عادت کے سبب ۱۹۹۱ میں شہید ہو گیا۔ یونیورسٹی کے داخلی دروازہ کی محراب پر سونے کے حروف میں اس کا نیا نام لکھنے کا ان کا خواب بھی ادھورا رہ گیا۔

اس اسٹوری کو سب سے پہلے مراٹھی میں لکھا گیا تھا۔

مضمون نگار اس اسٹوری کو تیار کرنے میں مدد کرنے کے لیے بھوکر کے لکشمن ہیرے، ناندیڑ کے راہل پردھان، اور پونہ کے دیانند کنک دانڈے کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔

یہ ملٹی میڈیا اسٹوری، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے تعاون سے انڈیا فاؤنڈیشن فار آرٹس کے ذریعے آرکائیوز اینڈ میوزیمس پروگرام کے تحت چلائے جا رہے ایک پروجیکٹ ’انفلوینشیل شاہیرس، نریٹوز فرام مراٹھواڑہ‘ کا ایک حصہ ہے۔ اس پروجیکٹ کو نئی دہلی میں واقع گیٹے انسٹی ٹیوٹ (میکس مولر بھون) سے بھی جزوی تعاون حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Keshav Waghmare
keshavwaghmare14@gmail.com

Keshav Waghmare is a writer and researcher based in Pune, Maharashtra. He is a founder member of the Dalit Adivasi Adhikar Andolan (DAAA), formed in 2012, and has been documenting the Marathwada communities for several years.

Other stories by Keshav Waghmare
Illustrations : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez