01-OH5dsc00943-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

ابھوج ماریا عورتیں اورچھا کے ہفتہ وار بازار میں آ رہی ہیں


گھر واپس جانا کافی مشکل ہوتا ہے۔ یہ عورتیں رات میں بھٹ بیڑا میں رکیں گی، جہاں سے اگلی صبح دوبارہ چلنا شروع کریں گی، اور پہاڑی کے اوپر واقع راج نیری بستی میں دیر شام کو پہنچیں گی۔ ہاٹ (ہفتہ وار بازار) سے انھیں اپنے گاؤں واپس لوٹنے میں پورے دو دن لگ جائیں گے، ٹھیک اسی طرح جیسے اورچھا کے اس ہفتہ وار بازار تک پہنچنے میں انھیں مشکل گزار راستوں پر دو دنوں تک چلنا پڑا تھا۔


02-OH1dsc02020(Crop)-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

سبھی گھر واپس جانے والے لمبے راستے پر نکل پڑی ہیں، جس پر انھیں دو دنوں تک چلنا پڑے گا


اس راستے سے گزرتے ہوئے ابھوج ماریا قبیلہ کی عورتوں کو دھول بھرے راستے پر ۴۰ کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑے گا، جو کہ وسطی ہندوستان کے صوبہ چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع کے گھنے جنگلوں سے گزرتا ہے۔ ان کا مسکن، ابھوج ماڑھ، ایک ایسے علاقے میں ۴،۰۰۰ مربع کلومیٹر کا احاطہ کرتا ہے، جہاں ماؤنواز گوریلاؤں اور ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے درمیان اکثر پرتشدد جھڑپیں ہوتی ہیں۔ اس ٹکراؤ کی وجہ سے لوگ آسانی سے دوسروں پر شک کرنے لگتے ہیں اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں، اس لیے ہم نے اپنی پہچان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔


03-OH4dsc00977-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

اتنی لمبی مسافت پر مختلف قسم کے رنگوں کی جھلک اور سروں پر توازن بنائے رکھنے کا نظارہ دیکھنے لائق ہوتا ہے


پہلے، ہم نے اورچھا کے پرہجوم ہفتہ وار بازار میں، ان چند عورتوں سے بات کی جو مختلف قسم کے کپڑوں میں ملبوس تھیں، جیسے بدن کے چاروں طرف لپیٹنے والا کپڑا اور ان کے بلاؤز کے چاروں جانب تولیے جیسا لپیٹا گیا کپڑا، اور چمکدار سفید دھات یا چاندی کے زیورات پہنے ہوئے۔ کچھ نے کپڑے سے اپنے بچوں کو جسم پر باندھ رکھا تھا۔ زیادہ تر مرد شرٹ اور کمر سے نیچے لنگی باندھتے ہیں۔ دوسرے، جو پینٹ اور شرٹ پہنے ہوئے ہیں، وہ یا تو مقامی سرکاری اہل کار ہیں، باہری ہیں، کاروباری یا پھر سادے کپڑوں میں سیکورٹی اہل کار ہیں۔


04-OH7dsc00846-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

ابھوج ماریا عورتیں عام طور پر اپنے بچوں کو کپڑے کے جھولے میں باندھے رہتی ہیں؛ مردوں کا عام لباس شرٹ اور لنگی ہے


عورتوں نے شرماتے ہوئے ہم سے گونڈی میں بات کی۔ دو گونڈ قبائلی لڑکے، جو ہمارے ساتھ تھے، وہ اسے ہندی میں ترجمہ کرکے ہماری مدد کر رہے تھے۔ عورتوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھروں کے پاس موجود جنگلوں کی پیداوار بازار میں بیچنے کے لیے لاتی ہیں، جیسے بانس کے جھاڑو، چرولی کے بیج، املی، کیلے کی مقامی قسمیں اور ٹماٹر، یہ سبھی چھوٹی مقدار میں۔


05-OH3dsc01019-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

ایک ابھوج ماریا ماں اپنے بچوں اور ایک چھوٹے تھیلے کے ساتھ ہاٹ میں سامان بیچنے کے لیے جاتے ہوئے


وہ ابریشم کے کویے بھی بیچنے کے لیے لاتی ہیں۔ ابھوج ماڑھ میں ابریشم کے کویے بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں؛ یہ اُن کوسا سلک (ریشم) ساڑیوں کے لیے کچا مال ہے، جسے چھتیس گڑھ کے شمالی علاقوں، بلاس پور، رائے گڑھ اور کوربا میں بنایا جاتا ہے۔

ان سامانوں کو بیچ کر یہ عورتیں جو ۵۰ روپے یا اس سے زیادہ کماتی ہیں، ان سے وہ تیل، صابن، مرچیں، نمک، آلو، پیاز اور دیگر اشیائے ضروریہ خریدتی ہیں۔ جس طرح وہ کم مقدار میں بیچنے کے لیے سامان لائی تھیں، اسی طرح وہ یہ چیزیں بھی کم مقدار میں ہی خریدتی ہیں، تاکہ وہ ان کے چھوٹے تھیلے میں آسانی سے آ جائے۔

اورچھا کے بازار میں آپ کو نہ صرف موسمی جڑ والی سبزیاں، ہرے پتّے اور مختلف قسم کے جنگلی پھل مل جائیں گے، بلکہ سستے موبائل ہینڈ سیٹ، سولر لائٹس، بیٹری سے جلنے والے ٹارچ اور بلب، ٹیبل لیمپ اور سرچ لائٹس بھی مل جائیں گی۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار استعمال ہونے والا چھوٹا اِنورٹر بھی یہاں پر مل جاتا ہے، کیوں کہ ماڑھ کے بہت سے گاؤوں میں اب بھی بجلی نہیں پہنچی ہے۔


06-OH12dsc_0292-PT-A-day-at-Orchha-Haat-Op2.jpg

ننگے پیر چلنے والی خریدار عورتیں بازار کا چکّر لگاتی ہیں، تاکہ اپنی ضروریات کی چیزیں اس بازار سے ڈھونڈ سکیں، جہاں حیرت انگیز طور پر مختلف قسم کی اشیا بیچی جا رہی ہیں


اور چونکہ دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں کوئی سیلولر نیٹ ورک نہیں ہے، لہذا ایک مقامی دکاندار نے ہمیں بتایا کہ یہ آدیواسی موبائل فون کا استعمال گانے سننے، تصویریں کھینچے، ویڈیو بنانے اور اسے ٹارچ کے طور پر کرتی ہیں۔

ابھوج ماڑھ، جس کا مطلب ہے ایک انجان یا پر اسرار پہاڑی، مغرب میں مہاراشٹر کے گڑھ چرولی ضلع سے، جنوب میں چھتیس گڑھ کے بیجاپور اور مشرق میں بستر ضلعوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں ہندوستان کی بہت سی آدیواسی برادریاں رہتی ہیں، بشمول گونڈ، ماریا، ابھوج ماریا اور ہلبا۔ ایک آزاد اور سرکاری اندازے کے مطابق، ابھوج ماریا کمیونٹی کی آبادی گھٹ رہی ہے۔

یہ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے، جہاں پانی کے بہت سے چشمے اور جنگلات موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز ہوتے ہیں اور گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں۔ لیکن یہ علاقہ سفر کرنے یا رہنے لائق نہیں ہے۔ سووجیت باگچی، جنھوں نے ایک نامہ نگار کے طور پر بی بی سی کے لیے ابھوج ماڑھ کی کئی بار رپورٹنگ کی ہے، کہتے ہیں، ’’یہ علاقہ بارش کے دنوں میں چار مہینے تک بقیہ علاقوں سے کٹ جاتا ہے، اور ہم نہیں جان پاتے کہ اس مدت میں ڈائریا سے اس علاقے میں کتنے لوگوں کی موت ہوئی ہے۔۔۔۔ یہاں کے ہر دوسرے آدمی کو سال بھر ملیریا کی بیماری ہوتی رہتی ہے۔ میں نے یہاں کبھی کوئی اسکول چلتا ہوا نہیں دیکھا جہاں ٹیچرس پڑھاتے ہوں، یہاں کوئی اسپتال بھی نہیں ہے، اور بعض دفعہ یہاں بیماروں کا علاج ماؤنوازوں کے موبائل اسکواڈ اور چند مقامی نیم حکیموں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔‘‘


07-OH2dsc01140-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

بعض عورتیں ہاٹ میں اپنے بچوں کا علاج کراتی ہیں، اکثر نیم حکیموں سے


’’ہر کسی کو دور دراز کے علاقوں میں پولس کی کارروائیوں کا ڈر لگا رہتا ہے، اور اگر گاؤوں کی منظر کشی دلکش طریقے سے کی گئی ہو، تو یہ صرف ماہر بشریات کی پرانی ڈائریوں میں ہوگا، حقیقی زندگی میں نہیں،‘‘ باگچی کہتے ہیں۔

ابھوج ماڑھ کی سڑکیں اورچھا میں ختم ہوتی ہیں۔ مقامی باشندوں کو ہاٹ تک پہنچنے کے لیے تقریباً ۷۰ کلومیٹر کی دوری طے کرنی پڑتی ہے، کیوں کہ یہ اس وسیع علاقے کا واحد بازار ہے۔ آدیواسیوں کو پبلک ڈسٹری بیوشن سٹم کے تحت اپنا راشن بھی اسی بازار سے ملتا ہے اور اسکول کے بچے اپنے مڈ ڈے میل کا چاول اور دال لینے کے لیے یہیں آتے ہیں۔


08-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

اورچھا جاتے ہوئے، جو کہ اس بڑے علاقے کا واحد بازار ہے، بعض سروں پر بڑا بوجھ اٹھائے ہوئے ایک قطار میں چلتی ہیں


کچھ دنوں تک، رام کرشن مشن کے رضاکاروں کی رسائی اس علاقے تک تھی، لیکن حکومت نے انھیں آدیواسیوں کے درمیان اناج تقسیم کرنے سے روک دیا۔

بازار میں زیادہ تر بچے کم غذائیت کے شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ہم بھی مقامی آدیواسی آشرم اسکول میں پڑھنے والی چھوٹی لڑکیوں کو سبزیاں خریدتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اور ہم یونیسیف کے رضاکاروں کو بچوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، جو ابھوج ماڑھ کی دور دراز بستی سے اپنے والدین کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ عورتیں، خاص طور سے مائیں، بھی کم غذائیت کی شکار ہیں۔ یونیسیف ورکرس کہتے ہیں کہ وہ ہفتہ وار بازار کو ہیلتھ چیک اَپ کے ایک موقع کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جو اگر نہ ہوتا تو یہ مشکل کام تھا، کیوں کہ گاؤوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔


09-OH10dsc_0340-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

وہ بچہ جانتا ہے کہ اسے کیا چاہیے، لیکن اس کی ماں اس نمکین اور مٹھائیوں کو خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے، جس کی طرف وہ اشارہ کر رہا ہے


اورچھا ہاٹ میں دیگر اشیا بھی توجہ کا باعث ہیں: چاول کی شراب ( لونڈا سُلفی، تاڑی، مہوا اور دیگر مقامی مشروبات ایک ایسے کونے میں بیچی جاتی ہیں، جسے لونڈا بازار کہتے ہیں۔

یہ بازار گاؤں کے ان لوگوں کے لیے دن کے اخیر میں آرام کرنے اور شراب پینے کی بھی جگہ ہے۔ نوجوان اور بوڑھے اپنی فیملی کے ممبران کے ساتھ برابر مقدار میں شراب پیتے ہیں اور اپنی کھٹی میٹھی یادوں کو ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں۔


10-DSC01252-PT-A-day-at-Orchha-Haat.jpg

دن کے اخیر میں، یہ بازار لوگوں کے لیے آرام کرنے اور شراب پینے کی ایک جگہ بھی فراہم کرتا ہے


میرے جیسے صحافیوں کے لیے، یہ ہاٹ ان خبروں کو جمع کرنے کی ایک مجموعی جگہ ہے، جنھیں ہر گاؤں سے آسانی سے حاصل نہیں کیا جاسکتا، مثال کے طور پر زرعی پیداوار، امپورٹ کی گئی پیداوار، اور بیچنے، خریدنے، ادلا بدلی کرنے اور زندہ رہنے کی لوگوں کی بدلتی ہوئی صلاحیتوں سے متعلق جانکاری۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Purusottam Thakur
purusottam25@gmail.com

Purusottam Thakur is a 2015 PARI Fellow. He is a journalist and documentary filmmaker. At present, he is working with the Azim Premji Foundation and writing stories for social change.

Other stories by Purusottam Thakur
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez