’’یہ تہوار ہمیں امید بخشتا ہے،‘‘ بالابتی مانجھی نے کہا۔ وہ اور کُٹیا کھونڈ برادری کی دیگر آدیواسی عورتیں مقامی دیسی بیج کے تہوار میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی تھیں۔ پہاڑیوں اور گھنے جنگلات سے گھرا ان کا گاؤں، برلوبرو پوری طرح سے تیاریوں میں مصروف تھا۔ عورتیں اپنے سر پر دیسی بیجوں سے بھرے مٹی کے چھوٹے برتن رکھے، روایتی ڈھول، ڈھپ اور تمک کی تھاپ پر ناچ گا رہی تھیں۔

وہ اپنے گاؤں کے بیچ میں واقع دھرنی پینو (پرتھوی دیوی) کے مندر میں جمع ہوئیں۔ گاؤں کے پجاری کے ذریعے پوجا کی رسم پوری ہونے کے بعد، وہ جلوس کی شکل میں جشن کے مقام – اوڈیشہ کے کندھمال ضلع کے تمودی بندھ بلاک میں ان کے گاؤں کے پاس ایک کھلا میدان – کی طرف چل پڑیں۔

’’ہم اچھی فصل کے لیے پوجا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی، ہم اپنی دیوی کو بکری اور مرغی بھی چڑھاتے ہیں۔ اچھی فصل ہمیں پورے سال کھلاتی ہے۔ تہوار میں، ہم دوسروں کے ساتھ بیج کا لین دین کرتے ہیں، اس لیے ہم ان لوگوں کے لیے بھی اچھی فصل کی دعا کرتے ہیں، جو ہم سے بیج لیتے ہیں،‘‘ ۴۳ سالہ بالابتی نے کہا، جن کی فیملی دو ایکڑ کھیت میں باجرا اور مکئی اگاتی ہے۔

بالابتی اور کوٹا گڑھ، فرنگیا اور تمودی بندھ بلاک کے گاؤوں کی تقریباً ۷۰۰ آدیواسی عورتیں اس سال بیج کے سالانہ تہوار میں شامل ہوئیں۔ مارچ میں فصل کی کٹائی کے آس پاس منعقد ہونے والا یہ پروگرام روایتی بیجوں کی نمائش اور ان کا لین دین کرنے، کھوئی قسموں کو دوبارہ حاصل کرنے اور کھیتی کے طور طریقوں پر بات کرنے کا موقع ہوتا ہے۔

Balabati and other Adivasi women farmers attended the annual seeds festival this year
PHOTO • Rakhi Ghosh
Balabati and other Adivasi women farmers attended the annual seeds festival this year
PHOTO • Rakhi Ghosh

اس سال بالابتی اور دیگر آدیواسی خواتین کسانوں نے بیج کے سالانہ تہوار میں شرکت کی

برلوبرو گاؤں (بیل گھر پنچایت) کے کُٹیا کھونڈ برادری کی ۴۸ سالہ خاتون، کلیلاڈو جانی نے بتایا کہ ماضی میں وہ اپنے گاؤں میں ہی یہ تہوار مناتی تھیں، اور دیگر گاؤوں میں رہ رہے اپنے رشتہ داروں کے گھر جاکر بیجوں کا لین دین کرتی تھیں۔ ’’ہم نے بازار سے کبھی بیج نہیں خریدا،‘‘ انہوں نے کہا۔ تہوار کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے، انہوں نے کئی قسموں کے باجرا کے بیج جمع کیے اور انہیں اپنے دو ایکڑ کھیت میں اگایا ہے۔

۲۰۱۲ کے آس پاس یہ تہوار دوبارہ زندہ ہوا اور ایک بڑی مجلس – برلانگ یاترا – میں تبدیل ہو گیا جب ہندوستان کے باجرا نیٹ ورک کے محققین، مقامی تنظیموں اور انتظامیہ نے یہاں کے نوجوانوں اور دیہی باشندوں کے ساتھ مل کر اس پروگرام کو منعقد کرنا شروع کیا۔

’یاترا‘ کے دوران، کسان مختلف قسم کے دھان، کھانے والی جنگلی قند اور مقامی سطح پر اگائی جانے والی جڑی بوٹیوں کے علاوہ، راگی، کنگنی، باجرا، جوار، مکئی، تلہن، دالوں اور سبزیوں کے بیجوں کی نمائش کرتے ہیں۔ ان کا لین دین جشن کی شکل میں دن کے آخر میں کیا جاتا ہے۔ یہ اعلی معیار کے بیج ہیں، جو کیڑوں اور بیماروں کے لیے مزاحمتی، اور غذائیت اور پیداوار سے بھرپور ہوتے ہیں، نند بلی گاؤں کی ۳۸ سالہ پرمیتی مانجھی نے بتایا۔

’’ہمارے وراثتی بیج کو بڑھنے کے لیے کسی بھی کھاد کی ضرورت نہیں ہوتی ہے،‘‘ کلیلاڈو نے کہا۔ ’’ہم گوبر کا استعمال کرتے ہیں، اور ہماری فصلیں اچھی طرح سے اگتی ہیں، پیداوار [بازار سے خریدے گئے بیج سے اگائی گئی فصلوں کے مقابلے] ذائقہ دار ہوتی ہے، اور ہم اگلے بوائی کے موسم کے لیے کچھ بیج بچا سکتے ہیں۔‘‘

Kuleladu Jani (left) speaks of seed preservation in her home. Pramiti Majhi (centre) and other farmers (right) collecting seeds before returning home
PHOTO • Rakhi Ghosh
Kuleladu Jani (left) speaks of seed preservation in her home. Pramiti Majhi (centre) and other farmers (right) collecting seeds before returning home
PHOTO • Rakhi Ghosh
Kuleladu Jani (left) speaks of seed preservation in her home. Pramiti Majhi (centre) and other farmers (right) collecting seeds before returning home
PHOTO • Rakhi Ghosh

کلیلاڈو جانی (بائیں) اپنے گھر میں بیج محفوظ کرنے کی بات کرتی ہیں۔ پرمیتی مانجھی (درمیان میں) اور دیگر کسان عورتیں (دائیں) گھر لوٹنے سے پہلے بیج جمع کر رہی ہیں

تہوار میں، عورتوں نے بیجوں کو محفوظ کرنے کے طریقے اور بوائی کی تکنیک کے تجربات کے بارے میں بھی بتایا۔ کئی آدیواسی اور دیہی برادریوں میں، بوائی سے لیکر کٹائی تک، اپنے مختلف دیگر رول نبھانے کے علاوہ عورتیں ہی دیسی اور وراثتی بیج کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ’’یہ وہ علم ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل میں جاتا ہے۔ عورتیں بیج جمع کرتی ہیں، انہیں محفوظ کرتی ہیں اور ان کی بوائی کا منصوبہ بناتی ہیں،‘‘ مجھی گڈا کی پرنتی مانجھی نے کہا، جو باجرا، جوار اور مکئی کی کھیتی کرتی ہیں۔

’’فصل کٹائی کے بعد، ہم کچھ پودوں کو سورج کی سیدھی دھوپ میں خشک کرنے کے لیے انہیں کھیت میں ہی چھوڑ دیتے ہیں،‘‘ کوٹاگڑھ بلاک کی پرملا بستی کی پاربتی مانجھی نے کہا۔ ’’خشک ہو جانے کے بعد ہم ان بیجوں کو الگ کر لیتے ہیں اور انہیں مٹی کے برتن میں ذخیرہ کرتے ہیں۔ اسے کیڑوں سے بچانے کے لیے ہم برتن کی باہری پرت پر گوبر کا لیپ لگا دیتے ہیں۔‘‘

یہاں کے کئی گاؤوں میں، کٹیا کھونڈ برادری کے لوگ زیادہ تر باجرا پر مبنی ملی جلی کھیتی کرتے ہیں۔ کندھمال کی آدیواسی برادری روایتی طور سے کھانے میں باجرا کا استعمال کرتی ہے، لیکن اب وہ اس چاول کو کھانے لگے ہیں جو انہیں پی ڈی ایس کے تحت ملتا ہے – حالانکہ یہاں کے کئی گاؤوں میں باجرا سے بھرپور غذائی اشیاء آج بھی مقبول ہیں۔ ’’ہمیں جو چاول [پی ڈی ایس] سے ملتا ہے، اس میں کوئی ذائقہ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی طاقت،‘‘ باری پنگ گاؤں کی ۴۵ سالہ دھین پاڈی مانجھی نے کہا، ’’لیکن باجرا آپ کو طاقت دیتا ہے اور لمبے وقت تک کے لیے آپ کا پیٹ بھرتا ہے۔‘‘ جھری گھاٹی گاؤں کی ۴۶ سالہ ساسونتی باڈا مانجھی نے کہا کہ باجرا ’’ہمیں پہاڑیوں پر چڑھنے اور لمبے گھنٹے تک کام کرنے کے لیے طاقت دیتا ہے۔‘‘

دن بھر کے تہوار کے آخر میں، ڈھول، نقاروں اور جھانجھ کی تھاپوں کے درمیان ناچنے گانے کے بعد، عورتیں منتر پڑھتے ہوئے میدان کے درمیان میں جمع ہو جاتی ہیں، جہاں دیسی بیج رکھے ہوتے ہیں۔ ایک روایتی لین دین کے بعد، سال کے پتّے، کاغذ کے چھوٹے ٹکڑے میں لپیٹے یا اپنی ساڑی کے پلّو میں بندھے ہوئے الگ الگ قسموں کے بیج کے ساتھ، وہ گھر کی طرف لوٹنا شروع کرتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Rakhi Ghosh

Rakhi Ghosh is a freelance journalist based in Bhubaneswar, Odisha. She is a former full-time print and television journalist, and focuses on health, education, migration and climate change.

Other stories by Rakhi Ghosh
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez