جے رام ساگری کی راگی کی پہلی کھیپ کو لینے سے جب منع کر دیا گیا، تو وہ مایوس ہو گئے تھے۔ ’’انھوں نے کہا کہ یہ صاف نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ان کے اناج میں بھوسی تھی۔

جنوری ۲۰۱۹ میں جے رام کوراپُٹ ضلع کے سملی گُڈا بلاک میں واقع اپنے گاؤں، باڑا ٹیما سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور، کنڈلی گاؤں کے ایک گودام میں ۵۰ کلوگرام وزن کے ۱۲ بورے لے گئے تھے۔ وہاں پر وہ چار ایکڑ میں کھیتی کرتے ہیں – ایک ایک ایکڑ میں راگی اور ٹماٹر اور کھیرا جیسی سبزیاں اور ۲ ایکڑ میں یوکولپٹس کے پودھے اُگاتے ہیں۔

سال ۲۰۱۸ میں ستمبر-اکتوبر کے آس پاس خریف کے موسم میں، ۶۵ سالہ جے رام نے کنڈلی کی بڑے سائز کی زرعی کثیر مقاصد کوآپریٹو سوسائٹی (LAMPS) کے ساتھ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر راگی بیچنے کے لیے معاہدہ کیا تھا۔

’’پچھلے سال، بازار کی قیمت ۱۵-۱۶ روپے فی کلو تھی، لیکن اس سال یہ تقریباً ۲۰-۲۲ روپے ہے۔ حالانکہ LAMPS ۲۹ روپے فی کلو دے رہا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ یا ۲۰۱۸ میں خریف کے لیے مرکزی حکومت کے ذریعے مجوزہ ایم ایس پی ۲۸۹۷ روپے فی کوئنٹل – جو کہ ۲۰۱۷ کے خریف موسم کے دوران ۱۹۰۰ روپے کی قیمت سے زیادہ ہے۔

یہ پہلا زرعی موسم تھا، جب ریاست کے محکمہ زراعت کی قومی غذائی تحفظ مشن اکائی LAMPS (جو آدیواسی ترقیاتی کوآپریٹو کارپوریشن اوڈیشہ لمیٹڈ کے ذریعے چلائی جا رہی ہے)، اور ساتھ ہی اوڈیشہ سرکار کے کوآپریٹو محکمہ کی پرائمری ایگریکلچرل کریڈٹ سوسائٹی، دونوں کے ہی توسط سے وافر مقدار میں راگی خرید رہی تھی۔

یہ خرید اوڈیشہ سرکار کے ذریعے باجرے میں پھر سے جان پھونکنے اور اسے فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ ہے، خاص کر آدیواسی علاقوں میں۔ کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ کی دسمبر ۲۰۱۸ کی ہدایات کے مطابق ’’باجرے کے تغذئی فوائد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس نے [ریاستی حکومت نے] اوڈیشہ کا پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس)، انٹیگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ اسکیم (آئی سی ڈی ایس) اور مڈ ڈے میل (ایم ڈی ایم) اسکیموں میں باجرے کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

Jairam Galari shows the difference between the grain with husk [left hand] and polished grain [right hand].
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
Nabeena Sagiri prefers to sell grain in the local market whenever her family needs money. She has five daughters and wants her children to be healthy and study well.
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

بائیں: جس اناج کو (ان کے بائیں ہاتھ میں) جے رام ساگری و دیگر کسانوں نے سمجھا تھا کہ یہ صاف ہے، وہ سرکار کے پالش کیے ہوئے اناج (ان کے دائیں ہاتھ میں) کے پیمانہ پر کھرا نہیں اترتا۔ دائیں: ان کی بہو، نبینا راگی کے تغذئی فوائد کو جانتی ہیں

راگی پروٹین، معدنیات، فائبر، آئرن اور دیگر تغذئی عناصر سے بھرپور ہوتا ہے۔ اوڈیشہ کی کئی کاشتکار فیملی اپنے ذریعے پیدا کی گئی راگی کا تھوڑا حصہ اپنے کھانے میں استعمال کرتے ہیں اور باقی بازار میں فروخت کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ نبینا ساگری کرتی ہیں – وہ اور ان کے شوہر، جے رام کے ۴۵ سالہ بیٹے دیتری، مشترکہ خاندان کی زمین کے ایک اور ٹکڑے پر کھیتی کرتے ہیں۔ ’’ہمیں ڈیڑھ ایکڑ سے ۱۰ کوئنٹل [راگی] ملا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہمارے لیے دو کوئنٹل کافی ہے اور باقی ہم بیچ دیتے ہیں۔‘‘ نبینا اپنے بچوں کے لیے دلیا اور ٹکّی کے مقامی پکوان جیسے جہو، اونڈا، پیٹھا اور مانڈرو بناتی ہیں، یہ سب راگی سے بنتے ہیں۔

LAMPS کے ذریعے راگی کے لیے دیا جا رہا ایم ایس پی، ریاستی حکومت کے ذریعے اس تغذئی اناج کے فروغ کی نئی مہم کا حصہ تھا۔ یہ ایک دلکش قیمت تھی۔ اس لیے جے رام نے اپنے ایک ایکڑ کھیت میں پیدا ہوئے آٹھ کوئنٹل راگی میں سے چھ کوئنٹل بیچنے کی تیاری کی۔ LAMPS کے ساتھ رجسٹرڈ کسانوں سے راگی کی خرید ۱ء۲ کوئنٹل فی ایکڑ تک محدود ہے، لیکن ایکڑ کی تعداد متعین نہیں ہے – اور جے رام نے جس اہلکار سے رابطہ کیا، اس نے غلطی سے ان کے نام پر پانچ ایکڑ درج کر لیا تھا۔

’’ایک بوری کو لانے لے جانے میں ایک طرف کا خرچ ۲۰ روپے آتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ آٹو رکشہ سے آنے جانے پر انھوں نے تقریباً ۵۰۰ روپے – ایک کوئنٹل راگی کی ایم ایس پی کا چھٹا حصہ – خرچ کر دیا، جب کہ راگی ایک کلو بھی فروخت نہیں ہوئی۔

باڑا ٹیما سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور، ۴۲ سالہ سُکدیب سلپاڈیہ ڈیڑھ کوئنٹل راگی کے ساتھ تیار تھے۔ ان کے پاس کوراپُٹ ضلع کے بوئیپاریگُڈا بلاک کے پالی گُڈا گاؤں میں سات ایکڑ زمین ہے۔ وہ اونچائی پر واقع ایک ایکڑ کھیت میں راگی اور باقی زمین پر دھان و ٹماٹر، بینگن، مرچ اور کریلے جیسی سبزیاں اُگاتے ہیں۔ سُکدیب اپنے گاؤں سے تقریباً چار کلومیٹر دور، بوئیپاریگُڈا بلاک کے خرید مرکز پر راگی لے گئے۔

ان کی بوریوں کو بھی لینے سے منع کر دیا گیا – خرید مرکز پر موجود اہلکاروں نے کہا کہ راگی صاف نہیں ہے۔ حالانکہ، جے رام اور سُکدیب کو اپنی راگی ٹھیک لگی۔ وہ طویل عرصے سے اپنے اناج کو اسی طرح صاف کر رہے تھے، اور اسے مقامی بازار میں تاجروں کو بیچ رہے تھے۔

کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ کے ذریعے ۲۰۱۸-۱۹ کے خریف موسم (دسمبر سے مارچ تک) کے لیے جاری کی گئی گائڈ لائنس کے مطابق، راگی کی خرید کی ’مناسب اوسط کوالٹی‘ کے حساب سے ’’اناج میٹھا، سخت، صاف اور ثابوت ہونا چاہیے؛ اس کے اندر پھپھوند، گھُن، بدبو، میکسیکن کانٹے دار خس خس اور کھیساری مٹر کی کوئی بھی شکل، رنگ اور نقصاندہ اجزا کی ملاوٹ، گندگی جیسے کہ باہری چیزیں، دیگر اناج، ٹوٹے اور کمزور اناج اور نمی بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے‘‘ – سبھی متعینہ مقدار میں ہو۔

لیکن یہاں کے کسان جس اناج کو صاف ستھرا مانتے ہیں، وہ سرکار کے ذریعے مقرر کردہ صفائی کے اس پیمانے پر کھرے نہیں اترتے۔

Bada Tema village, Hataguda GP, Similiguda block
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
Sukdeb Silpadia used his rice milling machine to polish the ragi grain and make it free from chaff.
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

سُکدیب سِلپاڈیہ (دائیں) نے آخرکار باڑا ٹیما گاؤں (بائیں) کے پاس ہی، راگی کے اناج کو اپنی دھان کی چکّی میں پالش کیا اور بھوسی نکالی

فصل کاٹنے کے بعد، کسان روایتی طریقے سے اس کی صفائی کرتے ہیں – مقدار کے مطابق فصل کے اوپر آٹورکشہ، ٹریکٹر یا مویشیوں کو چلا کر۔ اگر صفائی کی جانے والی فصل کی مقدار کم ہوئی، تو وہ لکڑی کے ڈنڈے سے اسے بار بار پیٹتے ہیں۔  آخرکار ڈنٹھل سے اناج الگ ہو جاتا ہے اور صرف ایک پتلی سفید پرت – یعنی بھوسی – باقی رہ جاتی ہے۔ ’’یہ [بھوسی] اناج کی زندگی طے کرتی ہے،‘‘ سُکدیب کہتے ہیں۔ ’’بھوسی کے ساتھ، ہم اناج کو کئی سالوں تک ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ ورنہ یہ نم ہو جاتے ہیں اور اس میں پھپھوند لگ جاتی ہے۔ اگر بھوسی کو ہٹا دیا جائے، تو اناج کو ۶-۱۲ مہینوں کے اندر ہی کھا کر ختم کرنا پڑے گا۔‘‘

اناج کی روایتی صفائی اور پروسیسنگ اور ریاست کی گائڈ لائنس کے درمیان تال میل کی اس کمی کے سبب ہی جے رام اور سُکدیب کے اناج کو لینے سے منع کر دیا گیا تھا۔

’’ہم نے کسانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اناج کو اپنے گاؤں واپس لے جانے کی بجائے اس کی کنڈُلی میں ہی پروسیسنگ کروا سکتے ہیں۔ اس سے ان کا وقت اور پیسہ بچ سکتا تھا،‘‘ کنڈلی میں LAMPS کی شاخ کے انچارج، این رمن کہتے ہیں۔

سُکدیب نے اناج کو دوبارہ ٹھیک کرنے کے لیے خود اپنی دھان کی چکّی کا استعمال کیا – جو ایک گھنٹہ میں تقریباً ۱۰۰ کلوگرام اناج کی پروسیسنگ کر سکتی ہے – اور اسے پتلا بنایا۔ ’’ہم نے اپنی چکّی میں ہی بھوسی کو ہٹانے کا استعمال کیا اور یہ کام کر گیا۔ ہم نے اناج کو خریدے جانے کے مطابق بنایا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

ایک طرف جہاں یہ سخت ہدایات تھیں جن کے سبب کئی کسانوں کے ذریعے لائے گئے اناج کو لینے سے منع کر دیا گیا، وہیں دوسری طرف ریاست کی راگی کو فروغ دینے کا منصوبہ بھی متوقع طور پر ہمہ گیر نہیں ہے۔ ریاست نے ویسے تو (۳۰ ضلعوں میں سے) ۱۴ ضلعوں میں خرید کی تیاری کی تھی، لیکن دسمبر ۲۰۱۸ سے مارچ ۲۰۱۹ کی خرید مدت کے دوران اس میں صرف آٹھ ضلعوں کو شامل کیا گیا – سندر گڑھ، ملکان گری، رائے گڑھ، گج پتی، نواپاڑہ، کالا ہانڈی، کندھمال اور کوراپُٹ۔

ریاست حکومت کے دستاویزوں کے مطابق، سندر گڑھ ضلع سے خریدی گئی راگی کا استعمال آئی سی ڈی ایس اور ایم ڈی ایم اسکیموں میں پائلٹ بنیاد پر کیا جائے گا، جب کہ سات دیگر ضلعوں میں پیدا شدہ اناج کو پی ڈی ایس کے تحت تقسیم کیا جائے گا۔

لیکن بغیر بھوسی والے اناج سے متعلق سخت ہدایات کے سبب صرف آٹھ ضلعوں میں اس منصوبہ کی تعمیل، اور فی ایکڑ ۱ء۲ کوئنٹل کی شرط کے نتیجہ میں، خریف کی خرید مدت (دسمبر ۲۰۱۸ سے مارچ ۲۰۱۹ تک) میں اوڈیشہ کی کل خرید محض ۱۷۹۸۵ کوئنٹل تھی – LAMPS کے ذریعے اس مدت میں مقررہ ہدف (۱۸۵۰۰۰ کوئنٹل) کا صرف ۱۰ فیصد۔ اور کل ۲۶۴۹۵ رجسٹرڈ کسانوں میں سے صرف ۵۷۴۰ کسانوں نے LAMPS اور PACS کو راگی بیچی۔

Kunduli LAMPS Godown [100 MT]. This is where Jairam Sagiri had brought his produce to sell at minimum support price.
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha
Sadhu Ayal, besides farming, also does masonry work. He says, by applying farmyard manure and fertilisers, around 12 quintals of ragi can produced in an acre.
PHOTO • Harinath Rao Nagulavancha

بائیں: جے رام ساگری اپنی راگی کنڈلی کے اس LAMPS گودام میں لے گئے۔ دائیں: سادھو ایال کہتے ہیں کہ ایک ایکڑ میں ۱۲ کوئنٹل راگی بھی پیدا کی جا سکتی ہے

قومی غذائی تحفظ قانون ۲۰۱۳ اوڈیشہ کو ہر سال ۲۱ لاکھ ٹن اناج مختص کرتا ہے – ریاست کے ذریعے پی ڈی ایس، آئی سی ڈی ایس و دیگر اسکیموں کے تحت چاول، گیہوں اور موٹے اناج (جوار، باجرا، مکئی اور راگی) تقسیم کرنے کے لیے۔ قانون کے مطابق، ریاستوں کو کل مختص اناج فراہم کرنے کے لیے مرکزی حکومت ذمہ دار ہے، لیکن ان کی خرید مختلف مرکزی اور ریاستی ایجنسیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔

سال ۲۰۱۸ میں مرکزی غذائی اناج ذخیرہ میں موٹا اناج ۱ فیصد سے کم تھا – یعنی چاول کا ۰ء۵۸ فیصد، گیہوں کا ۰ء۳۹ فیصد اور دھان کا ۱ فیصد موٹا اناج تھا۔ خریدے گئے موٹے اناج میں مکئی کی مقدار سب سے زیادہ تھی۔

اب تک، اوڈیشہ نے بھی ہمہ گیر طور پر کسی موٹے اناج کی خرید نہیں کی تھی، حالانکہ ریاست میں دیگر موٹے اناجوں کے مقابلے راگی کی زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ سال ۲۰۱۶-۱۷ میں، اوڈیشہ نے (ریاست کے زرعی و غذائی پیداوار ڈائریکٹوریٹ کے مطابق) ۳۴۴۴ ٹن جوار اور ۱۱۳۰ ٹن باجرا کے مقابلے میں ۱۲۱۰۰۰ ٹن راگی کی پیداوار کی۔

راگی خرید مہم کا مقصد اسی فرق کو دور کرنا تھا۔ لیکن اب تک خریدی گئی ۱۷۹۸۵ کوئنٹل راگی، ریاست کی کل ۲۱ لاکھ ٹن اناج کی ضرورت کا صرف ۰ء۰۸۵ فیصد ہے۔

LAMPS کے ذریعے رجسٹرڈ کسانوں سے فی ایکڑ ۱ء۲ کوئنٹل خرید کی شرط لگا دینے کے سبب راگی کی کافی فصل کھلے بازار میں بھی بیچی جاتی ہے۔ کوراپُٹ ضلع کے پوٹّانگی بلاک کے اوپری حصہ میں واقع، گیلا گُڈا بستی میں رہنے والے گڈابا برادری کے ۴۵ سالہ آدیواسی کسان، سادھو ایال کہتے ہیں کہ کئی معاملوں میں ایک ایکڑ میں جتنی پیداوار کی جا سکتی ہے، ۱ء۲ کوئنٹل اس سے بہت کم ہے۔ جولائی-نومبر ۲۰۱۸ کے خریف موسم میں ایال نے آدھے ایکڑ میں راگی بوئی اور چھ کوئنٹل فصل کاٹی۔

جے رام کو بھی ایک ایکڑ سے تقریباً آٹھ کوئنٹل ملا تھا۔ لیکن مقامی LAMPS اہلکار نے فارم میں ایک ایکڑ کی بجائے پانچ ایکڑ درج کر لیا۔ ’’ہم نے دو کوئنٹل اپنی کھپت کے لیے رکھا اور [بعد میں] چھ کوئنٹل LAMPS کو بیچ دیا،‘‘ جے رام بتاتے ہیں۔ یہ کام انھوں نے اپنی راگی کو چکّی میں صاف کرانے اور کنڈلی گاؤں کے گودام کا دوبارہ چکر لگانے کے بعد، اور انھیں جتنا بیچنا تھا اس سے پانچ گنا زیادہ بیچ کر کیا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Harinath Rao Nagulavancha

Harinath Rao Nagulavancha is a citrus farmer and an independent journalist based in Nalgonda, Telangana.

Other stories by Harinath Rao Nagulavancha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez