’’ہر کوئی اسے کر رہا ہے، اس لیے ہم بھی کر رہے ہیں،‘‘ روپا پیریکاکا نے غیر یقینی لہجہ میں کہا۔
’یہ‘ خلقی طور پر ترمیم شدہ (جی ایم) بی ٹی کپاس کے بیج ہیں، جسے اب آسانی سے مقامی بازار میں، یا اپنے گاؤں میں بھی خریدا جا سکتا ہے۔ ’ہر کوئی‘ ان کی ہی طرح اس گاؤں اور جنوب مغربی اوڈیشہ کے رائیگڑا ضلع کے بقیہ گاؤوں کے بے شمار دیگر کسان ہیں۔
’’انہیں ہاتھوں میں پیسہ مل رہا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
چالیس سالہ پیریکاکا ایک کوندھ آدیواسی کسان ہیں۔ دو دہائیوں سے زیادہ وقت سے وہ ہر سال ڈونگر چاس – لفظی معنی، ’پہاڑی کھیتی‘ (مختلف النوع کاشتکاری) – کے لیے ایک پہاڑی ڈھلان تیار کرتی ہیں۔ اس علاقے کے کسانوں کے ذریعے صدیوں سے اپنائی گئی روایتوں پر عمل کرتے ہوئے، پیریکاکا فیملی کی فصلوں سے بچائے گئے پچھلے سال کے بیج ملے جلے کھیتوں پر بوتی ہیں۔ ان سے وافر مقدار میں غذائی فصلیں حاصل ہوں گی: منڈیا اور کنگو جیسے باجرا، ارہر اور کالے چنے جیسی دالیں، ساتھ ہی لمبی پھلیوں، رام تل (یا کالے تل) کے بیج اور تل کی روایتی قسمیں۔
اس جولائی میں، پیریکاکا نے پہلی بار بی ٹی کپاس کی بوائی کی۔ یہی وہ وقت تھا جب ہم ان سے ملے۔ تب وہ بشم کٹک بلاک کے اپنے گاؤں میں ایک پہاڑی ڈھلان پر گہرے گلابی، کیمیاوی رنگ کے بیج بو رہی تھیں۔ آدیواسیوں کی مختلف النوع کاشتکاری کی روایتوں میں کپاس کی مداخلت حیران کر دینے والی تھی، جس نے ہمیں ان سے اس تبدیلی کے بارے میں پوچھنے پر مجبور کیا۔
’’ہلدی جیسی دیگر فصلوں سے بھی پیسہ آتا ہے،‘‘ پیریکاکا تسلیم کرتی ہیں۔ ’’لیکن کوئی بھی ایسا نہیں کر رہا ہے۔ سبھی منڈیا [باجرا] کو چھوڑ رہے ہیں اور کپاس کی طرف بھاگ رہے ہیں۔‘‘
رائیگڑا ضلع میں کپاس کا رقبہ ۱۶ برسوں میں ۵۲۰۰ فیصد بڑھ گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار ۲۰۰۲-۰۳ میں کپاس کے تحت صرف ۱۶۳۱ ایکڑ زمین دکھاتا ہے۔ ضلع زرعی دفتر کے مطابق، ۲۰۱۸-۱۹ میں یہ رقبہ ۸۶۹۰۷ ایکڑ تھا۔
رائیگڑا، جہاں کی آبادی دس لاکھ کے قریب ہے، کوراپُٹ خطہ کا حصہ ہے، جو دنیا کے حیاتی تنوع والے بڑے علاقوں میں سے ایک ہے، اور چاول کی متعدد انواع والا ایک تاریخی علاقہ ہے۔ سینٹرل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ۱۹۵۹ کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ اس وقت بھی اس علاقے میں ۱۷۰۰ سے زیادہ چاول کی قسمیں تھیں۔ لیکن، اب یہ تعداد نیچے گر کر تقریباً ۲۰۰ پر پہنچ گئی ہے۔ کچھ محقق اسے چاول کی کھیتی کی جائے پیدائش مانتے ہیں۔
یہاں کے کوندھ آدیواسی، بڑے پیمانے پر گزر بسر کرنے والے کسان، جنگلات میں کھیتی کے اپنے انوکھے طریقوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ آج بھی، کئی کوندھ فیملی اس علاقے کے ہرے بھرے سیڑھی نما کھیتوں اور پہاڑی کھیتوں میں دھان اور باجرا کی مختلف قسمیں، دال اور سبزیاں اُگاتے ہیں۔ رائیگڑا کی ایک اور غیر منافع بخش تنظیم، لیونگ فارمس (Living Farms) کے حالیہ سروے میں باجرا کی ۳۶ قسموں اور ۲۵۰ جنگلاتی غذائی اشیاء کی دستاویزبندی کی گئی ہے۔
یہاں کے زیادہ تر آدیواسی کسان ۱ سے ۵ ایکڑ تک کے انفرادی یا مشترکہ ملکیت والے کھیتوں پر کام کرتے ہیں۔
ان کے بیج بڑے پیمانے پر کمیونٹی کے اندر ہی محفوظ کرکے رکھے اور آپس میں تقسیم کیے جاتے ہیں، تقریباً کسی بھی کھاد یا دیگر زرعی کیمیاؤں کا استعمال کیے بغیر۔
پھر بھی، رائیگڑا میں دھان کے بعد کپاس دوسری سب سے زیادہ اُگائی جانے والی فصل بن گئی ہے، جو اس علاقے کی اہم روایتی غذائی فصل – باجرا سے آگے نکل گئی ہے۔ یہ فصل اس ضلع میں کھیتی کی کل ۴۲۸۹۴۷ ایکڑ زمین کا پانچواں حصہ بن گئی ہے۔ کپاس کی تیزی سے توسیع اس زمین کی ہیئت کو بدل رہی ہے اور لوگ زرعی ماحولیاتی علم میں پھنسے ہوئے ہیں۔
کپاس ہندوستان کے مجموعی فصلی رقبہ کا تقریباً ۵ فیصد ہے، لیکن قومی سطح پر استعمال ہونے والی حشرہ کش، سبزہ کش اور پھپھوند کش ادویات کی کل مقدار کے ۳۶ سے ۵۰ فیصد کا استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی فصل بھی ہے جو پورے ہندوستان میں قرض اور کسانوں کی خودکشی کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔
یہاں کا منظرنامہ ۱۹۹۸ اور ۲۰۰۲ کے درمیان کے وِدربھ کی یاد دلاتا ہے – نئے کرشمائی (اور پھر غیر قانونی) بیجوں اور بھاری منافع کے خوابوں کو لیکر ابتدائی جوش، اس کے بعد ان کے اوپر پانی سے بھری قدرت کے اثرات، اخراجات اور قرض میں زبردست اضافہ، اور مختلف ماحولیاتی دباؤ۔ وِدربھ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کسانوں کی خودکشی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وہ زیادہ تر بی ٹی کپاس اُگانے والے کسان تھے۔
*****
ہم جس دکان پر کھڑے ہیں، اس کے مالک ۲۴ سالہ کوندھ چندر کُدرُکا (بدلا ہوانام) ہیں۔ بھونیشور سے ہوٹل مینیجمنٹ کی ڈگری لے کر لوٹنے کے بعد انہوں نے اس جون میں، نیامگیری پہاڑوں میں واقع اپنے گاؤں، رُکاگُڈا (بدلا ہوا نام) میں یہ دکان کھولی تھی۔ آلو، پیاز، تلے ہوئے اسنیکس، مٹھائیاں – یہ گاؤں کی کسی دوسری دکان کی طرح ہی لگ رہا تھا۔
ان کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے سامان کو چھوڑ کر – جو کاؤنٹر کے نیچے سجا کر رکھا تھا۔ کپاس کے بیجوں کے چمکدار، کئی رنگ کے پیکٹوں کی ایک بڑی بوری، جن میں سے کئی ایک پر خوشحال کسانوں کی تصویر اور ۲۰۰۰ روپے کے نوٹ چھپے ہیں۔
کُدرُکا کی دکان میں بیج کے بہت سارے پیکٹ غیر قانونی اور غیر منظورشدہ تھے۔ کچھ پیکٹوں پر تو لیبل بھی نہیں لگا تھا۔ ان میں سے کئی کو اوڈیشہ میں فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور تو اور، ان کی دکان کو بیج اور زرعی کیمیا بچینے کا لائیسنس بھی نہیں ملا تھا۔
اس کے علاوہ، ذخیرہ میں بیج کے ساتھ بیچے جانے کے لیے، متنازع نباتات کُش گلائیفوسیٹ کی ہری اور لال بوتلوں کے ڈبّے تھے۔ عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کی ۲۰۱۵ کی ایک رپورٹ (جسے صنعت کے دباؤ میں ڈبلیو ایچ او نے بعد میں پلٹ دیا) میں گلائیفوسیٹ کو ’انسان کے لیے ممکنہ طور پر کینسر کا باعث‘ مانا تھا۔ یہ پنجاب اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں ممنوع ہے، پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں اس پر پابندی ہے، اور دورِ حاضر میں اس کے ابتدائی ملک، امریکہ میں کینسر کے مریضوں کے ذریعے دائر کیے گئے کئی لاکھ ڈالر کے مقدموں کے مرکز میں ہے۔
رائیگڑا کے کسان ان سب باتوں سے لاعلم ہیں۔ گلائیفوسیٹ، جسے ’گھاس مارا‘ – یعنی گھاس کو مارنے والا – کہا جاتا ہے، انہیں اس لیے بیچا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے کھیتوں سے گھاس پھوس کو تیزی سے ختم کر سکیں۔ لیکن یہ ایک وسیع نباتات کُش ہے، جو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے خلقی طور پر ترمیم شدہ پودوں کے علاوہ باقی سبھی پودوں کو مار دیتا ہے۔ کُدرُکا نے بھی ہمیں تیزی سے کپاس کے وہ بیج دکھائے، جس پر ان کے مطابق، گلائیفوسیٹ کے چھڑکاؤ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس طرح کے ’نباتات کُش متحمل‘ (ہربیسائڈ ٹالیرنٹ) یا ’ایچ ٹی بیج‘ ہندوستان میں ممنوع ہیں۔
کُدرُکا نے ہمیں بتایا کہ وہ گزشتہ پندرہ دنوں میں کسانوں کو ان بیجوں کے ۱۵۔ پیکٹ پہلے ہی فروخت کر چکے ہیں، اور آگے کہا، ’’میں نے اور منگوائے ہیں۔ وہ کل تک آ جائیں گے۔‘‘
ایسا لگتا ہے کہ یہ کاروبار خوب کر چل رہا ہے۔
’’رائیگڑا میں اس وقت کپاس کا تقریباً ۹۹ء۹ فیصد حصہ بی ٹی کپاس کا ہے – غیر- بی ٹی بیج یہاں دستیاب نہیں ہے،‘‘ ضلع میں فصل کی کھیتی کا معائنہ کرنے والے ایک افسر نے ہمیں آف دی ریکارڈ بتایا۔ ’’سرکاری طور پر، اوڈیشہ میں بی ٹی کپاس ٹھہراؤ کی حالت میں ہے۔ اس کی نہ تو اجازت ہے، نہ ہی ممانعت۔‘‘
ہمیں اوڈیشہ ریاست میں بی ٹی کپاس جاری کرنے کی اجازت دینے کے لیے ذمہ دار مرکزی حکومت کی ایجنسی سے کوئی تصدیق حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ، وزارتِ زراعت کی ۲۰۱۶ میں کپاس کی صورتحال کی رپورٹ اوڈیشہ میں بی ٹی کپاس کے اعداد و شمار کو، سال در سال، صفر کی شکل میں ظاہر کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتیں اس کے وجود کو قبول نہیں کرتیں۔ ’’مجھے ایچ ٹی کپاس کی معلومات نہیں ہے،‘‘ ریاست کے زراعتی سکریٹری ڈاکٹر سوربھ گرگ نے ہمیں فون پر بتایا۔ ’’بی ٹی کپاس پر حکومت ہند کی جو پالیسی ہے، وہی پالیسی ہماری ہے۔ اوڈیشہ کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی الگ نہیں ہے۔‘‘
اس رویہ کے سنگین نتائج سامنے آئے ہیں۔ غیر مجاز بی ٹی اور غیر قانونی ایچ ٹی بیجوں کے ساتھ ساتھ زرعی کیمیاؤں کا کاروبار بڑھ رہا ہے، اور رائیگڑا کے نئے علاقوں میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے، جیسا کہ نیامگیری کے پہاڑوں میں کُدرُکا کی دکان میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔
عالمی سطح پر، زرعی کیمیاؤں نے مٹی کے جرثوموں کو تباہ کر دیا ہے، زرخیزی ختم کر دی ہے اور ’’زمین پر اور پانی میں اُگنے والے پودوں اور جانوروں کی بے شمار رہائش گاہوں کو‘‘ نقصان پہنچایا ہے، جیسا کہ پروفیسر شاہد نعیم نے حال ہی میں کہا۔ نعیم، جو نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں حیاتیات، ارتقا اور ماحولیاتی بایو لوجی شعبہ کے صدر ہیں، کا کہنا ہے، ’’یہ سبھی نامیات اہم ہیں، کیوں کہ مجموعی طور سے وہ صحت مند ماحولیاتی نظام کی تشکیل کرتے ہیں جو ہمارے پانی اور ہوا کو آلودہ کرنے والے مادّوں کو ہٹاتے ہیں، ہماری مٹی کو تقویت بخشتے ہیں، ہماری فصلوں کی افزائش کرتے ہیں اور ہمارے موسمی نظاموں کو ریگولرائز کرتے ہیں۔‘‘
*****
’’یہ آسان نہیں تھا، مجھے انہیں (آدیواسی کسانوں کو) کپاس کی کھیتی کے لیے آمادہ کرنے پر بہت محنت کرنی پڑی،‘‘ پرساد چندر پانڈا نے کہا۔
اپنے گاہکوں اور دیگر لوگوں کے ذریعے ’کاپّا پانڈا‘ – لغوی طور پر ’کپاس پانڈا‘ – کے نام سے مشہور وہ ہم سے رائیگڑا کے تحصیل شہر، بشم کٹک میں اپنے بیج اور کیمیاوی کھادوں کی دکان، کاماکھیا ٹریڈرز ، میں بات کر رہے تھے۔
پاندا نے یہ دکان ۲۵ سال پہلے کھولی تھی، جب کہ ان تمام برسوں میں وہ ضلع کے زرعی محکمہ میں ایک توسیعی افسر کے طور پر اپنے عہدہ پر بھی برقرار رہے۔ وہاں ۳۷ سال نوکری کرنے کے بعد، وہ ۲۰۱۷ میں ریٹائر ہوئے۔ ایک سرکاری افسر کے طور پر، انہوں نے گاؤں والوں کو اپنی ’’پس ماندہ کاشتکاری‘‘ چھوڑ کپاس کی کھیتی کرنے کے لیے آمادہ کیا، جب کہ ان کی دکان سے، جس کا لائیسنس ان کے بیٹے سُمن پانڈا کے نام سے ہے، ان کسانوں کو بیج اور متعلقہ زرعی کیمیکل فروخت کیے جاتے رہے۔
پانڈا کو اس میں مفادات کا ٹکراؤ نہیں نظر آیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’سرکار کی پالیسیوں کے تحت کپاس کی شروعات کسانوں کے لیے نقدی فصل کے طور پر کی گئی۔ فصل کو بازار کے اِن پُٹ کی ضرورت تھی، اس لیے میں نے ایک دکان کھولی۔
پانڈا کی دکان میں ہماری بات چیت دو گھنٹے تک چلی۔ اس درمیان وہاں کسان بیج اور کیمیکل خریدنے کے لیے آتے رہے اور ان سے یہ بھی پوچھتے رہے کہ کیا خریدنا ہے، کب بوائی کرنی ہے، کتنا چھڑکاؤ کرنا ہے، وغیرہ۔ وہ ہر ایک کو بے خطا عالم کی طرح جواب دیتے رہے۔ اُن کسانوں کے لیے وہ ایک ماہر سائنس داں، توسیع افسر، ان کے صلاح کار، سبھی کچھ تھے۔ ان کی ’پسند‘ ان کا حکم تھا۔
اس انحصار کا جو نظارہ ہم نے پانڈا کی دکان پر دیکھا تھا، وہی ہمیں کپاس اُگانے والے اُن سبھی گاؤوں میں نظر آیا، جہاں ہم گئے۔ ’بازار‘ کے آنے کا اثر کپاس کی فصل سے پرے جا کر ہوا ہے۔
’’قابل کاشت زمین چونکہ پوری طرح سے کپاس کے لیے مختص کی جاتی ہے، اس لیے کسانوں کو اپنی گھریلو ضروریات کا سارا سامان بازار سے خریدنا پڑتا ہے،‘‘ سائنس داں اور ننگے پاؤں رہنے والے قدرتی وسائل کے محافظ، دیبل دیب نے ہمیں بتایا۔ رائیگڑا میں ۲۰۱۱ سے مقیم، دیب ایک قابل ذکر اِن- سیٹو چاول کے تحفظ کا پروجیکٹ چلا رہے ہیں اور کسانوں کو ٹریننگ دیتے ہیں۔
’’کاشتکاری سے متعلق روایتی علم اور ساتھ ہی غیر زرعی پیشہ تیزی سے غائب ہوتا جا رہا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ایک گاؤں سے لے کر دوسرے گاؤں تک نہ تو کوئی کمہار بچا ہے، نہ بڑھئی اور نہ ہی کوئی بُنکر۔ سبھی گھریلو سامان بازار سے خریدے جاتے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر – گھڑے سے لے کر چٹائی تک – پلاسٹک سے بنے ہوتے ہیں، جو دور دراز کے شہروں سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ بانس زیادہ تر گاؤوں سے غائب ہو چکے ہیں، اور ان کے ساتھ بانس کی دستکاری بھی۔ اب ان کی جگہ جنگل کی لکڑی اور مہنگی کنکریٹ نے لے لی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک ستون گاڑنے یا باڑ بنانے کے لیے بھی، گاؤں والوں کو جنگل سے درخت کاٹنے پڑتے ہیں۔ زیادہ منافع کی لالچ میں لوگ جتنا بازار پر منحصر ہوتے جا رہے ہیں، آب و ہوا کو بھی اتنا ہی زیادہ نقصان پہنچتا جا رہا ہے۔‘‘
*****
دکاندار نے کہا تھا کہ یہ اچھے ہیں،‘‘ رام داس (وہ صرف اپنا پہلا نام استعمال کرتے ہیں) نے ہمیں ہچکچاہٹ کے ساتھ بی ٹی کپاس کے بیج والے ان تین پیکٹوں کے بارے میں بتایا، جو انہوں نے کُدرکا کی دکان سے اُدھار خریدے تھے۔ اس کوندھ آدیواسی سے ہماری ملاقات نیامگیری کی وادی میں ہوئی تھی جب وہ بشم کٹک بلاک میں واقع اپنے گاؤں، کالی پونگا لوٹ رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ بیج کے ان پیکٹوں کو خریدنے کی واحد وجہ دکاندار کے ذریعے انہیں دی گئی صلاح تھی۔
ان کے کتنے پیسے دیے تھے؟ ’’اگر میں فوراً ادا کرتا، تو ہر ایک کے ۸۰۰ روپے دینے پڑتے۔ لیکن اُس وقت میرے پاس ۲۴۰۰ روپے نہیں تھے، اس لیے دکاندار اب مجھ سے فصل کٹائی کے وقت ۳۰۰۰ روپے لے گا۔‘‘ لیکن، بھلے ہی وہ ۸۰۰ روپے فی پیکٹ ادائیگی کر رہے تھے ۱۰۰۰ روپے نہیں جو انہیں آخرکار دینا ہوگا، سب سے مہنگے کپاس کے اس بیج: بولارڈ دوئم بی ٹی کپاس کی یہ قیمت ابھی بھی اس کی لازمی قیمت، ۷۳۰ روپے سے زیادہ ہے۔
پیریکاکا، رام داس، سُنا اور دیگر کسانوں نے ہمیں بتایا کہ کپاس اُن تمام فصلوں سے بالکل الگ تھی جو وہ پہلے لگا چکے تھے: ’ہماری روایتی فصلوں کو بڑھنے کے لیے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں پڑتی...‘
رام داس نے جو پیکٹ خریدے تھے ان میں سے کسی پر بھی قیمت، مینوفیکچرنگ یا ایکسپائری تاریخ، کمپنی کا نام یا اس سے رابطہ کی تفصیل، کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ صرف کپاس کے ایک کیڑے کی تصویر کے اوپر لال رنگ سے ‘X’ کا بڑا نشان لگا تھا، لیکن بی ٹی بیجوں کا لیبل کہیں نہیں تھا۔ حالانکہ پیکٹ پر ’ایچ ٹی‘ کی ہدایت کہیں نہیں تھی، لیکن رام داس کا ماننا تھا کہ ’’گھاس مارا [نباتات کُش]‘‘ کا چھڑکاؤ فصل پر کیا جا سکتا ہے کیوں کہ دکاندار نے انہیں یہی بتایا تھا۔
جولائی کے پندرہ دنوں میں ہم نے جتنے بھی کسانوں سے انٹرویو لیا، ان سبھی کی طرح رام داس بھی اس بات سے لاعلم تھے کہ ہندوستان میں نباتات کُش کو برداشت کرنے والے بیجوں کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کمپنیاں بغیر لیبل والے بیج فروخت نہیں کر سکتی ہیں، یا یہ کہ کپاس کے بیج پر قیمت کی حد طے ہے۔ بیج کے پیکٹ اور زرعی کیمیاؤں کی بوتلوں پر اڑیہ میں چونکہ کچھ بھی لکھا ہوا نہیں تھا، اس لیے یہاں کے کسانوں کو پتہ ہی نہیں چلا ہوگا کہ اسے بنانے والے کیا دعویٰ کر رہے ہیں، بھلے ہی وہ اسے پڑھ سکتے ہوں۔
پھر بھی، پیسے کا امکان انہیں کپاس کی جانب مائل کر رہا تھا۔
’’اگر ہم اسے اُگاتے ہیں، تو شاید کچھ پیسہ مل جائے جس کی ضرورت مجھے اس سال انگریزی میڈیم کے ایک پرائیویٹ اسکول میں اپنے بیٹے کی فیس بھرنے کے لیے ہے،‘‘ – یہی شیام سندر سُنا کی امید تھی، جو بشم کٹک بلاک کے کیرندیگُڈا گاؤں کے ایک دلت بٹائی دار کسان ہیں۔ ہم نے انہیں، ان کی کوندھ آدیواسی بیوی کملا، اور ان کے دو بچوں ایلزا بیتھ اور آشیش کو کڑی محنت سے کپاس کے بیج بوتے ہوئے پایا۔ سُنا نے اپنے بیجوں میں سبھی طرح کے زرعی کیمیاؤں کا استعمال کیا تھا، جن کے بارے میں وہ بہت کم جانتے تھے۔ ’’خردہ فروش نے مجھے بتایا تھا کہ کپاس اچھی طرح اُگے گی،‘‘ انہوں نے بتایا۔
پیریکاکا، رام داس، سُنا اور دیگر کسانوں نے ہمیں بتایا کہ کپاس اُن تمام فصلوں سے بالکل الگ تھی جو وہ پہلے لگا چکے تھے۔ ’’ہماری روایتی فصلوں کو بڑھنے کے لیے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں پڑتی – کوئی کھاد نہیں، کوئی نباتات کُش نہیں،‘‘ پیریکاکا نے کہا۔ لیکن کپاس میں، رام داس نے کہا، ’’ہر ایک پیکٹ کے ساتھ مزید ۱۰ ہزار روپے لگانے پڑتے ہیں۔ اگر آپ ان بیجوں، کھادوں اور حشرہ کش دواؤں پر خرچ کر سکتے ہیں، صرف تبھی آپ کو فصل کٹائی کے وقت کچھ فائدہ مل سکتا ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے...تو آپ اپنا سارا پیسہ کھو دیں گے۔ اگر آپ کر سکتے ہیں، اور مستحکم موسم کے ساتھ چیزیں اچھی رہیں – تو آپ اسے [ان کی فصل] ۳۰-۴۰ ہزار روپے میں فروخت کر سکتے ہیں۔‘‘
یہ کسان حالانکہ پیسہ کمانے کی امید میں ہی کپاس کی کھیتی کر رہے تھے، لیکن ان میں سے کچھ نے ہی بہت زور ڈالنے کے بعد بتایا کہ اس سے انہوں نے کتنی کمائی کی۔
جنوری – فروری آتے ہی، کسانوں کو اپنی پیداوار اِن پُٹ کے خردہ فروش کے توسط سے ہی بیچنی پڑے گی، جو ان کی لاگتوں کو بہت زیادہ سود کے ساتھ واپس لے لیں گے اور جو بچے گا ان کے حوالے کر دیں گے۔ ’’میں نے ابھی ابھی گُن پور کے تاجر سے ۱۰۰ پیکٹ اُدھار منگوائے ہیں،‘‘ چندر کُدرُکار نے ہمیں بتایا۔ ’’میں اسے فصل کٹائی کے وقت ادا کروں گا، اور ہم کسانوں کے ذریعے دیے گئے سود کا بٹوارہ کریں گے۔‘‘
اگر کسانوں کی فصلیں ناکام رہیں اور وہ انہیں اُن پیکٹوں کے پیسے چکا نہیں سکے جو انہوں نے اُدھار پر بیچے تھے، تب کیا ہوگا؟ کیا یہ ایک بڑا جوکھم نہیں ہے؟
’’کیسا جوکھم؟‘‘ نوجوان نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ ’’کسان کہاں جائیں گے؟ ان کا کپاس میرے توسط سے تاجر کو بیچا جاتا ہے۔ اگر انہوں نے صرف ۱-۲ کوئنٹل فصل ہی کاٹی، تب بھی میں اس سے اپنا بقایا وصول کر لوں گا۔‘‘
جو بات کہی نہیں گئی، وہ یہ تھی کہ کسانوں کے پاس شاید کچھ بھی نہیں بچے گا۔
رائیگڑا کو بھی اس کے بیش قیمتی حیاتی تنوع سے محروم کر دیا جائے گا۔ جیسا کہ پروفیسر نعیم کہتے ہیں، عالمی سطح پر، فصل کی مختلف النوعی کو ختم کرنے کا مطلب ہے غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈالنا اور گلوبل وارمِنگ کے موافق ہونے کی صلاحیت کو کم کرنا۔ انہوں نے یہ بھی وارننگ دی کہ ماحولیاتی تبدیلی اور حیاتی تنوع کے نقصان کا گہرا تعلق ہے: ’’جو سیارہ کم ہرا اور حیاتی طور پر کم متنوع ہے، اس کے زیادہ گرم ہونے اور خشک ہونے کا امکان ہے۔‘‘
اور جیسا کہ رائیگڑا کے آدیواسی کسان بی ٹی کپاس کی یک فصلی کھیتی کے لیے حیاتی تنوع کو چھوڑ رہے ہیں، اوڈیشہ ماحولیاتی اور اقتصادیات کی طویل مدتی تبدیلی دونوں ہی سطح پر بحران پیدا ہونے لگا ہے۔ پیریکاکا، کُدرُکا، رام داس اور ’کپاس پانڈا‘ اس تبدیلی میں پھنس چکے ان کرداروں میں سے ایک ہیں جن کے سامنے آنے کا امکان کم ہے۔
’’جنوبی ایشیا روایتی کپاس اُگانے والا علاقہ کبھی نہیں تھا۔ اس کی مضبوطی کثیر فصلی کاشتکاری میں پوشیدہ ہے،‘‘ دیبل دیب نے کہا۔ ’’معاشی کپاس کی اس یک فصلی کاشتکاری نے فصلوں کے تنوع، مٹی کی ساخت، گھریلو آمدنی کا استحکام، کسانوں کی آزادی، اور آخر میں، غذائی تحفظ کو بدل دیا ہے۔‘‘ یہ زرعی بحران کے ایک اچوک علاج کی طرح لگتا ہے۔
لیکن یہ اسباب، خاص طور سے جو چیزیں زمین کے استعمال میں تبدیلی سے متعلق ہیں، ساتھ ہی پانی اور ندیوں پر ان سبھی کے کیا اثرات پڑتے ہیں، اور حیاتی تنوع کا خسارہ – خود بھی ایک اور طویل مدتی، بڑے پیمانے کی کارروائی میں اپنا تعاون دے رہے ہوں گے۔ ہم اس علاقے میں ماحولیاتی تبدیلی کے بیج کی بوائی دیکھ رہے ہیں۔
کور فوٹو: کالی پونگا گاؤں میں، کسان رام داس ایک وسیع نباتات کُش، گلائیفوسیٹ میں زمین کو پوری طرح ڈبونے کے کچھ دنوں بعد بی ٹی اور ایچ ٹی کپاس بو رہے ہیں۔ (تصویر: چِترانگدا چودھری)
موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)