محمد شمیم کی فیملی میں ویسے تو تین لوگ ہیں، لیکن وہ ریلوے ٹکٹ بنانے والے ایجنٹ سے گڑگڑاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ ویٹنگ لسٹ والے ان کے کسی ایک ٹکٹ کو کنفرم کرا دے۔ ’’بس میری بیوی کو سیٹ مل جائے،‘‘ شمیم کہتے ہیں، جو اترپردیش میں واقع اپنے گاؤں پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’میں کسی بھی طرح سوار ہو جاؤں گا۔ میں کسی بھی حالت میں سفر کر سکتا ہوں۔ ہم بس اپنے گھر پہنچنا چاہتے ہیں اس سے پہلے کہ حالات پچھلی بار کی طرح خراب ہو جائیں۔‘‘

’’کنفرم سیٹ حاصل کرنے کے لیے وہ ایجنٹ فی ٹکٹ ۱۶۰۰ روپے مانگ رہا ہے۔ میں اس سے مول تول کرنے کے بعد اسے ۱۴۰۰ روپے پر لے آیا ہوں،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔ ’’اگر ہمیں ایک سیٹ مل جائے، تو ہم اس پر سوار ہو جائیں گے اور پھر جو بھی جرمانہ یا پینالٹی لگے، ہم دینے کو تیار ہیں۔‘‘ ممبئی سے اتر پردیش تک کا سب سے سستا ریل ٹکٹ عام طور سے ۳۸۰ روپے سے ۵۰۰ روپے کے درمیان ہے۔ یوپی میں شمیم کے دو بڑے بھائی، فیض آباد ضلع کے مسودھا بلاک کے ابو سرائے گاؤں میں زمینداروں کے کھیت پر زرعی مزدوری کرتے ہیں، جو کہ ایک موسمی پیشہ ہے۔

۲۲ سالہ شمیم اور ممبئی کے ہزاروں مہاجر کارکنوں کے لیے، تقریباً ۱۰ مہینوں کے دوران گھر لوٹنے کے لیے یہ ان کا دوسرا سفر ہوگا کیوں کہ کووڈ- ۱۹ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حکومت مہاراشٹر نے نئی پابندیاں لگا دی ہیں، جس کی وجہ سے ایک بار پھر فیکٹریاں بند کر دی گئی ہیں، لوگوں کو کام سے نکال دیا گیا اور تعمیراتی مقامات پر کام کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔

ممبئی کے بڑے ریلوے اسٹیشن، خاص کر باندرہ ٹرمنس اور لوک مانیہ تلک ٹرمنس، جہاں سے شمالی ریاستوں اترپردیش اور بہار کے لیے متعدد ٹرینیں روانہ ہوتی ہیں، پر ۱۱-۱۲ اپریل سے کافی بھیڑ دیکھی جارہی ہے کیوں کہ مہاجر کارکنوں نے ریاست میں ۱۴ اپریل سے کام اور آمدورفت پر لگنے والی نئی پابندیوں سے پہلے گھر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ، مزید پابندیوں کے ڈر سے، اب بھی یہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالانکہ شیو سینا کی قیادت والی ریاستی حکومت نے کرفیو اور پابندیوں کو دوسرا ’لاک ڈاؤن‘ نہیں کہا ہے، لیکن شمیم اسے اپنی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’ہمارے لیے یہ مزدوری کے نقصان کا دوسرا دور ہے۔ اور اس کی شروعات ہو چکی ہے۔‘‘

Mohammed Shamim, Gausiya and their son: 'If we get one seat, we’ll board and then pay whatever fine or penalty is charged'
PHOTO • Kavitha Iyer

محمد شمیم، غوثیہ اور ان کا بیٹا: ’اگر ہمیں ایک سیٹ مل جائے، تو ہم اس پر سوار ہو جائیں گے اور پھر جو بھی جرمانہ یا پینالٹی لگے، ہم دینے کو تیار ہیں

کپڑے کی فیکٹری جہاں وہ کام کرتے ہیں، ۱۳ اپریل بروز منگل بند ہو گئی تھی۔ ’’سیٹھ کو نہیں لگتا کہ وہ جلد ہی اپنا کام دوبارہ شروع کر پائیں گے۔ انہوں نے ہمیں ۱۳ دن کی ہماری بقیہ مزدوری ادا کر دی تھی،‘‘ شمیم بتاتے ہیں۔ ان کے پاس بس اتنا ہی پیسہ ہے، یعنی ۵۰۰۰ روپے سے تھوڑا کم۔ انہوں نے لوک مانیہ تلک ٹرمنس سے فیض آباد جانے والی ٹرین کے ویٹنگ لسٹ والے دو ٹکٹ پر ۷۸۰ روپے خرچ کیے اور اب کسی ایسے ایجنٹ کو تلاش کر رہے ہیں جو گارنٹی سے کنفرم ٹکٹ دلا سکے۔ ’’پچھلے ہفتہ ہی میں نے، اس کمرے کے لیے مکان مالک کو مہینہ کے ایڈوانس کرایہ کے طور پر ۵۰۰۰ روپے ادا کیے تھے، اور اب وہ ایک بھی پیسہ لوٹانے سے انکار کر رہا ہے جب کہ ہم اس جگہ کو اگلے کچھ مہینوں کے لیے خالی کرنے جا رہے ہیں۔‘‘

پچھلے سال یہ فیملی، مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد بڑے شہروں میں پھنسے مہاجر کارکنوں کے لیے ریلوے کی طرف سے شروع کی گئی ’شرمک اسپیشل‘ ٹرینوں میں سے ایک پر سوار ہوکر کسی طرح ممبئی سے نکلنے میں کامیاب رہی۔

اُس وقت، شمیم کے فون پر آخرکار ریلوے کی طرف سے جب خودکار پیغام ملا کہ اترپردیش کو جانے والی ٹرین میں ان کی جگہ پکّی ہو گئی ہے، تب مئی کے آخری دن چل رہے تھے۔ ’’ہمارے اوپر [پچھلے سال کے لاک ڈاؤن کے پہلے دو مہینوں کے لیے] مکان کا کرایہ اور بجلی اور پانی کی ادائیگی کے ۱۰ ہزار روپے بقایہ ہیں۔ اور مجھے چار مہینے تک کوئی کام نہیں ملا تھا، تو کل ملاکر ۳۶ ہزار روپے کی کمائی کا نقصان ہوا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اب پانچ ہزار ویسٹ (ضائع) ہو گئے۔‘‘ ایک ایک روپیہ کا حساب لگانا انہیں بری طرح چبھتا ہے۔

شمیم کی اہلیہ، ۲۰ سالہ غوثیہ تھکی ہوئی ہیں۔ شمالی ممبئی کے باندرہ کی جھگی بستی، نرگس دت نگر میں اپنے ۸ بائی ۸ فٹ کے گھر کے اندر، ان کا آٹھ مہینے کا بیٹا، ننھا منا غلام مصطفیٰ، اجنبی لوگوں کے ذریعہ گود میں اٹھائے جانے کی وجہ سے خوش ہے اور بغیر دانت کے مسکرا رہا ہے۔ پچھلے لاک ڈاؤن کے بعد، اگست ۲۰۲۰ میں جب وہ ممبئی لوٹے تھے، تب وہ ایک مہینے کا بھی نہیں ہوا تھا۔ ’’وہ کئی ہفتوں سے بیمار تھا، بخار اور دست کی وجہ سے۔ شاید یہ گرمی کی وجہ سے ہو،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اور اب ہم دوبارہ جانے کے لیے پیکنگ کر رہے ہیں۔ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ حالات بہتر ہونے پر ہم واپس آ جائیں گے۔‘‘

فیملی کو اچھے دنوں کا بے صبری سے انتظار ہے۔ پچھلے سال اگست میں جب وہ ممبئی لوٹے تھے، تو شمیم سانتاکروز مغرب میں واقع ایک ورکشاپ میں شرٹ پیک کرنے کی اپنی نوکری پر واپس لوٹ گئے تھے۔ لیکن اس سال فروری میں جب ۱۰۰۰ روپے اضافی کمانے کا موقع ملا، تو وہ پچھلے پانچ سال سے جہاں کام کر رہے تھے اسے چھوڑ کر، سانتاکروز مشرق میں واقع ایک چھوٹی سی کپڑے کی فیکٹری میں شامل ہو گئے۔ یہاں پر ان کی تنخواہ ۱۰ ہزار روپے تھی۔

Moninissa and her family are also planning to return to their village in Faizabad district. Her husband lost a job as a packer in a garment factory during the 2020 lockdown, and has now once again lost his job as a driver
PHOTO • Kavitha Iyer

مونی نسا اور ان کی فیملی بھی فیض آباد میں واقع اپنے گاؤں لوٹنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ان کے شوہر کپڑے کی ایک فیکٹری میں پیک کرنے کا کام کرتے تھے جسے انہوں نے ۲۰۲۰ کے لاک ڈاؤن کے دوران کھو دیا، اور اب دوبارہ ان کی ڈرائیور کی نوکری چلی گئی ہے

نرگس دت نگر کی تنگ گلی میں دو چار گھر آگے، مونی نسا اور ان کے شوہر محمد شاہنواز بھی واپس جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ یہ لوگ بھی ابو سرائے گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ’’میرے شوہر [پچھلے سال کے لاک ڈاؤن سے پہلے، سانتاکروز مغرب میں واقع] کپڑے کی ایک فیکٹری میں پیک کرنے کا کام کرتے تھے اور ہر مہینے ۶ ہزار روپے کما رہے تھے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’لیکن جب ہم ممبئی واپس آئے تو کوئی کام نہیں تھا۔‘‘ یہ فیملی مئی کے آخر میں شرمک اسپیشل ٹرین سے روانہ ہو گئی تھی اور اگست میں واپس لوٹی تھی۔ ’’لہٰذا انہوں نے تین مہینے پہلے باندرہ کے ایک گھر میں بطور ڈرائیور نوکری شروع کر دی۔ وہ لوگ ہر مہینے صرف ۵۰۰۰ روپے دے رہے تھے کیوں کہ انہیں روزانہ ان کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔‘‘ مونی نسا بتاتی ہیں۔ ’’اب وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ڈرائیور کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ اس لاک ڈاؤن میں ہمیں نوکری کہاں ملے گی؟‘‘

اسی جھگی بستی میں، مختلف کام کے شعبوں میں ملازمت کر رہے کئی دیگر مہاجر کارکن وبائی مرض میں دوسری بار اپنے گاؤوں لوٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔۲۰۲۰ کے پہلے دور میں، معاش کے زیاں نے ان میں سے کچھ کو اپنے گاؤوں کے رشتہ داروں اور فیملی سے وابستہ لوگوں کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اور اس بار بھی صفیہ علی، اگر ان کی فیملی اپنے گاؤں واپس جاتی ہے، تو ویسا ہی کرنے کی سوچ رہی ہیں۔

’’کچھ دن میری ماں کے ساتھ، پھر ایک بھائی اور اس کے بعد دوسرے بھائی کے پاس، ایسے کرتے کرتے ایک دو مہینے کٹ جائیں گے،‘‘ صفیہ کہتی ہیں، جو ۳۰ سال کی ہیں اور اپنے چار بچوں اور شوہر کے ساتھ ۱۰۰ مربع فٹ کے تنگ گھر میں رہتی ہیں۔ ’’گاؤں میں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے، نہ تو کوئی زمین ہے اور نہ ہی کوئی کام، اس لیے پچھلے لاک ڈاؤن کے دوران ہم وہاں نہیں گئے تھے،‘‘ صفیہ بتاتی ہیں، جو اپنی بڑی بیٹی، ۱۴ سالہ نور سے کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے تین سال کے بھائی کے ساتھ عوامی بیت الخلاء جائے۔ نور بانو ایک سال سے اسکول نہیں گئی ہے، اور خوش ہے کہ بغیر امتحان دیے اسے ۷ویں کلاس میں پروموٹ کر دیا گیا ہے۔

صفیہ کے شوہر باندرہ میں بازار روڈ پر کپڑے بیچتے ہیں، اور فیملی کی یومیہ آمدنی ۵ اپریل سے گھٹ کر ۱۰۰-۱۵۰ روپے ہو گئی ہے، جب مہاراشٹر حکومت نے رات کا کرفیو لگا دیا تھا اور دن میں دکانوں اور پھیری والوں کی سرگرمیوں کو بند کر دیا تھا۔ صفیہ کا اندازہ ہے کہ ۲۰۲۰ سے پہلے رمضان کے مہینے میں، وہ ایک دن میں ۶۰۰ روپے کماتے تھے۔ ’’سیاست دانوں اور تنظیموں کی طرف سے [پچھلے لاک ڈاؤن کے دوران] جو کچھ راشن ملا، ہم اس کی وجہ سے زندہ بچ گئے،‘‘ صفیہ بتاتی ہیں۔ ’’اگر ہم دن میں کماتے ہیں، تو رات میں کھا پاتے ہیں۔ اگر کوئی کمائی نہیں ہوئی، تو ہم بھوکے رہتے ہیں۔‘‘

Migrant workers heading back home to the northern states waiting outside Lokmanya Tilak Terminus earlier this week
PHOTO • Kavitha Iyer

اس ہفتہ کے شروع میں لوک مانیہ تلک ٹرمنس کے باہر انتظار کر رہے شمالی ریاستوں میں اپنے گھروں کی طرف جانے والے مہاجر کارکن

صفیہ کو اپنی فیملی کی طرف سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، جیسا کہ نرگس دت کالونی کے متعدد گھروں میں عام ہے۔ اس بستی میں تقریباً ۱۲۰۰ گھر ہیں (جیسا کہ یہاں کے باشندوں کا اندازہ ہے)، جو کہ باندرہ ری کلیمیشن میں تین پتیا گھاس جیسے فلائی اوور کے نیچے اور اس کے آس پاس واقع ہے۔ کسی نے صفیہ کو بتایا ہے کہ اتر پردیش کے گونڈا ضلع میں ان کے بغل کے گاؤں کا پردھان، یعنی منتخب گرام پنچایت نمائندہ ایک بس بھیج رہا ہے۔ انہیں امید ہے کہ ان کی فیملی کو اس میں سیٹ مل جائے گی۔

’’گونڈا میں پنچایت الیکشن ہونے والے ہیں، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے لوگ ووٹنگ کے لیے وقت پر لوٹ آئیں،‘‘ صفیہ کہتی ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ ہلدھر مئو بلاک میں واقع خود ان کے گاؤں، اکھا ڈیرہ میں انتخابات ہیں یا نہیں، لیکن وہ اس بار ممبئی سے روانہ ہونے کی امید کر رہی ہیں۔ ’’ہم یہاں ایک اور لاک ڈاؤن کا خطرہ نہیں جھیل سکتے۔ عزت سنبھالنی ہے۔‘‘

اس کالونی سے جو لوگ پہلے سے تیار کردہ منصوبہ کے تحت جا رہے ہیں، وہ تب تک نہیں لوٹیں گے جب تک کہ لاک ڈاؤن ختم نہیں ہو جاتا۔ ۲۰ سالہ سندیپ بہاری لال شرما کے پاس ۵ مئی کا گونڈا کا کنفرم ٹکٹ ہے، جہاں سے وہ چھپیا بلاک کے ببھنا گاؤں پہنچیں گے۔ ’’فیملی میں ایک شادی ہے۔ والد صاحب اور ایک بہن پچھلے ہفتہ ہی چلے گئے تھے۔ لیکن ہم تب تک واپس نہیں لوٹیں گے، جب تک کہ ہمیں یہ نہ معلوم ہو جائے کہ کام پوری طرح سے دستیاب ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

سندیپ ایک فرنیچر بنانے والے کے پاس بطور معاون کام کرتے ہیں – ان کا تعلق بڑھئی برادری سے ہے جو لکڑی کے آرائشی سامان تیار کرتے ہیں۔ ’’ابھی کوئی کام دستیاب نہیں ہے، ان حالات میں نہ تو کوئی نیا فرنیچر لینا چاہتا ہے اور نہ ہی گھر میں مرمت کا کوئی کام کرانا چاہتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ سرکار دوسرا لاک ڈاؤن کیسے لگا رہی ہے۔ کیا انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ غریبوں کو کس قسم کا نقصان اٹھانا پڑا ہے؟‘‘

اس سال مارچ میں نئے احکامات جاری ہونے کے بعد جیسے ہی کام اور آمدنی میں آہستہ آہستہ بہتری آنی شروع ہوئی تھی، کووڈ- ۱۹ کی دوسری لہر آ گئی، وہ کہتے ہیں۔

The rush at the Lokmanya Tilak Terminus and Bandra Terminus, from where several trains leave for Uttar Pradesh and Bihar, began a few days before the state government’s renewed restrictions were expected to be rolled out
PHOTO • Kavitha Iyer

لوک مانیہ تلک ٹرمنس اور باندرہ ٹرمنس، جہاں سے بہت سی ٹرینیں اتر پردیش اور بہار کے لیے روانہ ہوتی ہیں، پر لوگوں کی بھیڑ چند دنوں پہلے شروع ہو گئی جب ریاستی حکومت کے ذریعہ نئی پابندیاں لگائے جانے کی امید کی جا رہی ہے

ذاتی طور پر با روزگار لوگ بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک ۳۵ سالہ سہیل خان بھی ہیں، جو تقریباً تین دہائیوں سے نرگس دت نگر میں رہ رہے ہیں۔ وہ مچھلی بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ ورسووا مچھلی بازار سے روزانہ کا اسٹاک خریدتے ہیں اور اسے اپنی جھگی بستی میں اور اس کے ارد گرد بیچتے ہیں۔ ’’رمضان میں، ظاہر ہے بیچنے کا کام دیر شام کو ہوتا ہے۔ لیکن ۷ بجتے ہی، پولیس ہمارے علاقے کا چکر لگانے لگتی ہے اور ہم سے ہماری دکانیں بند کرنے کے لیے کہتی ہے،‘‘ وہ غصے سے کہتے ہیں۔ ’’میرے پاس ریفرجریٹر یا کوئی دوسری سہولت نہیں ہے۔ اس لیے جو مچھلی فروخت نہیں ہو پاتی، وہ سڑ جاتی ہے۔‘‘

خان نے ایک ہفتہ پہلے، جب مہاراشٹر میں نئی پابندیوں کا اعلان پہلی بار کیا گیا تھا، اپنی بیوی کو گونڈا کے اکھاڈیرہ گاؤں بھیج دیا تھا۔ وہ اور ان کے بھائی اعظم کچھ دنوں سے انتظار کر رہے ہیں، اور حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی گھریلو آمدنی پچھلے سال کافی کم ہو گئی تھی، اور وہ اب بھی امید کر رہے ہیں کہ اس سال ۱۴ اپریل سے شروع ہو چکے رمضان کے مہینہ میں ان کے نقصان کی خانہ پری ہو جائے گی۔

سہیل کے چھوٹے بھائی، اعظم خان رکشہ چلاتے ہیں، جنہوں نے چند سال پہلے اپنے دم پر بجاج کا یہ تین پہیوں والا آٹورکشہ خریدا تھا۔ تقریباً ۴۰۰۰ روپے کی ماہانہ قسط ادا کرنا دنوں دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ’’وہ ای ایم آئی ادا کرنی ہی ہے، جب کہ کام مل نہیں رہا ہے۔ سی ایم نے آٹو پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے – لیکن اگر مسافروں کو کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں دی گئی، تو آٹو ڈرائیور کیا کمائیں گے؟‘‘ سہیل سوال کرتے ہیں۔

’’[ریاستی] حکومت کو چاہیے کہ وہ قرض کی قسط ادا کرنے والوں کے لیے مدد کا اعلان کرے، جیسا کہ انہوں نے پچھلی بار کیا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اگر حالات یونہی بنے رہے، تو ہم بھی پچھلے سال کی طرح اپنے گھر، گونڈا چلے جائیں گے۔ ایک بار پھر ہم ریاست کے ہی رحم و کرم پر ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Kavitha Iyer

Kavitha Iyer has been a journalist for 20 years. She is the author of ‘Landscapes Of Loss: The Story Of An Indian Drought’ (HarperCollins, 2021).

Other stories by Kavitha Iyer
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez