خواتین کے بالوں میں سفید سنبل اور ابولی کے پھول لگے ہیں، اور ان کی لال، نیلی، ہری اور قرمضی رنگ کی ساڑیوں میں لال پھندنے پن سے ٹانکے ہوئے ہیں۔ یہ سارے رنگ اس ہفتہ منگل کی دوپہر کو ڈہانو روڈ اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ۳ پر کافی چمک رہے ہیں۔ وہ دیگر مسافروں کی طرح ہی ٹرین آنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ ان مسافروں میں طلبہ بھی ہیں جو تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور جنوب کی طرف ممبئی جا رہے ہیں اور مزدور ہیں جو شمال میں کچھ کلومیٹر دور امبر گاؤں جیسے شہروں کے کارخانوں میں کام کرنے جا رہے ہیں۔

یہ عورتیں، جو تمام کی تمام وارلی آدیواسی برادری کی کسان ہیں، جلد ہی مہاراشٹر کے پال گھر ضلع کے ڈہانو تعلقہ سے آنے والی خواتین اور مردوں کی دیگر جماعتوں کے ساتھ جڑ جائیں گی۔

وہ سبھی اکھل بھارتیہ کسان سنگھرش کوآرڈی نیشن کمیٹی کے ذریعے ۲۹-۳۰ نومبر کو بلائے گئے پارلیمنٹ مارچ میں حصہ لینے دہلی جا رہی ہیں۔ یہ کمیٹی ملک بھر کے کسانوں کی تقریباً ۲۰۰ جماعتوں کی ایک تنظیم ہے، جن میں سے ایک اکھل بھارتیہ کسان سبھا (اے آئی کے ایس) بھی ہے۔ ڈہانو اسٹیشن پر انتظار کر رہے ہیں آدیواسی کسان اے آئی کے ایس کے رکن ہیں۔ ان کے مطالبات میں شامل ہے زرعی بحران پر مرکوز پارلیمنٹ کا تین ہفتوں کا ایک خصوصی اجلاس۔ اس میں خواتین کسانوں کے مخصوص مطالبات پر مبنی تین دن کی بحث بھی شامل ہے۔

Women from Dahanu, Maharashtra on their way to Delhi to participate in march
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia

مہاراشٹر کے پال گھر ضلع کے ڈہانو تعلقہ کے کئی دیگر کسان، دہلی کے راستے میں ان وارلی خواتین کسانوں کے ساتھ شامل ہو جائیں گے

آدیواسی خواتین کسانوں کے لیے زرعی بحران کے کچھ عناصر کیا ہیں؟

’’ہمارے سبھی چاول مر گئے،‘‘ مینا برسے کام کہتی ہیں۔ ’’بارش کے علاوہ ہمارے پاس پانی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ اگر بارش نہیں ہوگی، تو چاول زندہ کیسے رہ سکتے ہیں؟‘‘ مینا ڈہانو تعلقہ کے دھمن گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ پال گھر ضلع سخت خشک سالی کی مار جھیل رہا ہے، لیکن مینا اور دیگر خواتین کہتی ہیں کہ سرکار نے اب تک کوئی راحت نہیں پہنچائی ہے – چاول کی کھیتی کرنے والی ان سبھی خواتین کسانوں کی فصل اس بار خشک سالی کی وجہ سے برباد ہو گئی ہے۔

’’مجھے ۱۰۰ کلوگرام فی گونی [بوری] کے حساب سے چاول کی پانچ بوریاں مشکل سے ملتی ہیں، یہ پیداوار فیملی کے لیے سال بھر کے لیے ناکافی ہے،‘‘ ۳۲ سالہ ہیرو وسنت ببر کہتی ہیں۔ ان کے شوہر بیمار ہیں اور کام نہیں کر سکتے۔ ان کے تین بیٹے ہیں جو اسکول نہیں جاتے۔

مینا کی دو بیٹیاں بھی اسکول چھوڑ چکی ہیں۔ ’’ان کے لیے کپڑے تک خریدنے کے پیسے  نہیں تھے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’وہ اسکول کی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتی تھیں۔‘‘ ان کا بیٹا اور شوہر کشی پر مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ مہینوں دور رہتے ہیں، کبھی کبھی تو نو مہینے تک۔ ان کے ذریعے کما کر لائی گئی معمولی آمدنی اور پانچ ایکڑ کھیت سے وہ گھر چلاتی ہیں، جس پر ان کے سسرال والے کھیتی کرتے ہیں۔

اپنے کھیت پر وہ جتنا چاول اور جوار اُگاتی ہیں، وہ ان کی فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ وہ سبسڈی والے راشن کی دکانوں سے فیملی کو ملنے والے ۱۰ کلوگرام چاول، ایک کلو چینی، ایک کلو دال اور ۱۰ کلوگرام گیہوں پر منحصر ہیں۔ ’’یہ کافی نہیں ہے۔ ایجنٹوں کا ایک گروہ ہے جو ہمارے راشن کو بیچ دیتا ہے، اور یہ ہمارے پاس کبھی نہیں پہنچتا ہے۔ اتنے پر سات ممبران کی فیملی زندہ کیسے رہ سکتی ہے؟‘‘

Hiru Babar at Dahanu station
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia
Meena Barse Kom at Dahanu station
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia
Neelam Ravte at Dahanu station
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia

بائیں سے دائیں: ہیرو ببر، مینا برسے کام، اور نیلم راوٹے اس ہفتہ منگل کو ڈہانو اسٹیشن پر

اس سال چاول کی فصل برباد ہو جانے اور ناکافی راشن کے سبب، مینا، ہیرو اور دیگر خواتین کو اپنے کنبوں کو کھلانا مشکل ہو رہا ہے۔

ہیرو کے پاس، اس دن اسٹیشن پر موجود دیگر کسانوں کی طرح ہی، بہت کم زمین ہے، اور فیملی کے کھیت عام طور پر ان کے شوہروں یا والدوں کے نام پر ہیں۔ ’’پال گھر میں آدیواسیوں کے پاس بہت کم زمین ہے، صرف ایک سے پانچ ایکڑ تک۔ ان کو ہمیشہ بے گھر کیے جانے یا زمینوں کے چھین لیے جانے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ لینڈ سیلنگ قانون کے تحت انھیں یہ زمینیں اس لیے دی گئیں، کیوں کہ وہ انھیں جوت رہے تھے، یا پھر انھوں نے روایتی کسانوں کے طور پر کچھ جنگلاتی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے جس کے اصلی مالک، حق جنگلات قانون کے تحت وہی ہیں،‘‘ کسان سبھا کے پال گھر ضلع کے سکریٹری، چندرکانت گھورکن کا کہنا ہے، جو ڈہانو ٹیم کی قیادت دہلی تک کر رہے ہیں۔

’’ہم جب تک ساتھ نہیں رہتے اور ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتے، ہماری زمینیں ہم سے چھینی جاتی رہیں گی۔ ماضی میں، زمینداروں نے وارلیوں کو ان کی قانونی زمینوں سے ہٹانے کی ہر قسم کی کوشش کی تھی۔ اس کے لیے انھوں نے فرضی دستخط کے ساتھ دستاویز جاری کیے اور انھیں ڈرایا دھمکایا۔ جب اس سے کام نہیں چلا، تو اب وہ ہمیں ہماری زمینوں سے بھگانے کے لیے دوسرے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔‘‘

Women waiting for the train to participate in farmers march in delhi
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia
Chandrakant Ghorkana
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia

’ہم جب تک ساتھ نہیں رہتے اور ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتے، ہماری زمینیں ہم سے چھینی جاتی رہیں گی،‘ چندرکانت گھورکن (دائیں) کہتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ نیلم پرکاش راوٹے جیسے کسان اپنے حقوق کے لیے کسان سبھا کے ہر مارچ میں شامل ہوئے ہیں، بھلے ہی اس کے لیے انھیں اپنی فیملی اور کھیتوں سے لمبے وقت کے لیے دور کیوں نہ جانا پڑا ہو۔ نیلم ڈہانو کی ژرالو بستی سے ہیں؛ ان کے شوہر، پرکاش، سورت میں کام کرتے ہیں، اور ان کے تین بچے ہیں۔ ’’جب میں لانگ مارچ کے لیے ناسک سے ممبئی [مارچ ۲۰۱۸ میں] گئی تھی، تب میں تقریباً ایک ہفتہ گھر سے دور رہی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’میرا سب سے چھوٹا بیٹا بیمار پڑ گیا۔ ہم فون پر بات کرتے تھے اور وہ مجھ سے بار بار گھر لوٹ آنے کے لیے کہتا رہا۔ میرے واپس آتے ہی وہ ٹھیک ہو چکا تھا۔ اس بار اس نے میرا بیگ لے جانے سے منع کر دیا۔ اس نے میرے سامان چھپانے شروع کر دیے تاکہ میں نہ جاؤں۔‘‘

پھر آپ ہر بار مارچ کیوں کرتی ہیں؟ ’’ہمیں کرنا ہی ہے۔ اگر ہم جدوجہد نہیں کریں گے، تو ہم اپنی زمین کھو دیں گے۔ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے میں مارچ کر رہی ہوں۔ جب تک ہمارے سبھی مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، تب تک ہم مارچ کرنا جاری رکھیں گے۔‘‘

Women waiting for the train at the station to participate in Delhi farmers march
PHOTO • Himanshu Chutia Saikia

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Siddharth Adelkar

Siddharth Adelkar is Tech Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Siddharth Adelkar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez