ریاست اڑیسہ کی جانب سے پوسکو کے لیے زمین کے جبری حصول کے خلاف پولیس کے ساتھ اپنے اعصاب شکن تعطل کے دوران انہوں نے صرف دو ہفتہ قبل قومی توجہ حاصل کی تھی۔ آج ڈِھنکیہ اور گووند پور گاؤں بظاہر پرسکون اور خاموش نظر آ رہے ہیں۔

’’اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں یہاں سے ہٹانے کے لیے پولیس کے جو ۲۴ دستے یہاں آئے تھے وہ اب پوری میں جگن ناتھ رتھ یاترا کے انتظام میں مصروف ہو گئے ہیں (وہاں انہوں نے پجاریوں کی پٹائی کی ہے)۔ وہاں کچھ دنوں سے ان کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی،‘‘ ابھے ساہو مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ ساہو پوسکو کے لیے زمین کے حصول کے خلاف جدوجہد کر رہی تنظیم، پوسکو پرتی رودھ سنگرام سمیتی (پی پی ایس ایس) کے مرکزی رہنما ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ’’جون میں اپنی فضیحت کرانے کے بعد، اڑیسہ حکومت کو ایک نئی شرمندگی کی فکر لاحق ہو سکتی ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب چند دنوں بعد پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہونے والا ہے۔‘‘ اس لیے تصادم میں وقفہ آگیا ہے۔ اس تصادم کا پچھلا راؤنڈ زمینی اور میڈیا دونوں سطحوں پر پوسکو مخالف گاؤں والوں کے نام رہا تھا۔ لیکن جیسا کہ انہیں معلوم ہے پولیس صرف دو ہفتوں کے لیے بھگوان جگن ناتھ کے لکڑی کے رتھ کی خدمت میں مصروف ہے۔ ’’پوسکو کے اسٹیل رتھ سے ان کی وابستگی سال بھر رہتی ہے۔ وہ واپس آجائیں گے۔‘‘

PHOTO • P. Sainath

پوری سے واپسی کے بعد پولیس کو ایسے لوگوں کا سامنا کرنا ہوگا جو اپنے ارادوں پر سختی سے قائم ہوں گے۔ یہ لوگ جنوبی کوریا کی اس بڑی کمپنی کے مجوزہ پاور اور اسٹیل پلانٹ اور کیپٹیو پورٹ (متصل بندرگاہ) کے مربوط منصوبے کے لیے ریاستی حکومت کے ذریعہ اپنی کھیتی کی زمین کے حصول کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ مجوزہ منصوبہ کے تحت ۶۰۰ ملین ٹن لوہے کی کانکنی کی بھی اجازت دی جائے گی۔

پان کے باغات

یہاں کے لوگ اڑیسہ کے خوشحال زراعت پیشہ برادریوں میں شامل ہیں۔ پان کے بیلوں کی معیشت ان کی خوشحالی کا محور ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پروجیکٹ والے علاقے میں پان کے ۱۸۰۰ باغات ہیں۔ جبکہ یہاں کے کسان یہ تعداد ۲۵۰۰ تک بتاتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ایک ہزار باغات ڈِھنکیہ اور گووند پور میں واقع ہیں۔ یہاں یومیہ اجرت کے طور پر ۲۰۰ روپے یا اس سے کچھ زیادہ کے ساتھ ساتھ ایک وقت کا اچھا کھانا بھی ملتا ہے۔ یہ ریاست کے زرعی شعبے میں ملنے والی سب سے زیادہ یومیہ اجرت ہے۔ یہ بھونیشور کے تعمیراتی کاموں کی مزدوری سے زیادہ  اور اڑیسہ کی مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم (منریگا) کی مزدوری کی شرح سے دو گنی ہے۔ پان کے باغوں میں کچھ مخصوص خدمات کے لیے ۴۵۰ روپے تک یومیہ محنتانہ مل جاتا ہے۔ ایک ایکڑ کے دسویں حصے پر لگائے گئے پان کے ایک چھوٹے باغ سے ایک سال میں ۵۴۰ یا اس زیادہ مزدوری کے دن پیدا کیے جاسکتے ہیں، جو فیملی کے ۶۰۰ دن کی مزدوری کے علاوہ ہوں گے۔ کچھ بے زمین مزدور ماہی گیری کے ذریعہ اس سے بھی زیادہ پیسے کما لیتے ہیں۔ اگر جٹادھاری میں پوسکو کا کیپٹیو پورٹ وجود میں آجاتا ہے، تو ان کی آمدنی کا یہ ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ اس لیے مقامی لوگ یہاں مزدوروں کی کمی اور روزگار کی کسی بڑی مانگ کی عدم موجودگی میں، ملازمتیں دلانے والے منصوبوں کے دعوے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہاں تمام طبقے، بشمول تاجروں کے، ایسے منصوبے کے لیے اپنی روزی روٹی کھونے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ اسے اپنے لیے تباہ کن اور معاوضہ کو بے معنی سمجھتے ہیں۔

مقدمات اور وارنٹ

پوسکو مخالف جدوجہد سے نمٹنے کے ریاستی رویہ کو لے کر یہاں ظاہری پرسکون سطح کے نیچے زبردست تناؤ ہے۔ مظاہرین کے خلاف بڑی تعداد میں متعدد مقدمات درج کیے گیے ہیں اور بے شمار وارنٹیں جاری ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے پچھلے پانچ سالوں سے یہ لوگ اپنے گاؤں سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ پولیس کے خلاف ’’انسانی دیوار‘‘ بنا کر ڈِھنکیہ اور گووند پور کی حفاظت کرنے والے مظاہرین نے ہمیں بتایا، ’’ہم کسی دوسرے گاؤں میں قریبی رشتہ داروں کی شادیوں میں شامل نہیں ہوسکتے، اپنے بیمار بہن بھائیوں یا والدین سے ملنے نہیں جا سکتے،‘‘ یہ چیزیں محاصرے کی کیفیت کا احساس دلاتی ہیں۔

اَبھَے ساہو کے خلاف ۴۹ مقدمات درج ہیں، جن کی پاداش میں وہ چوڑوار جیل میں ۱۰ ماہ گزار چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہاں کل ایک ہزار سے زیادہ لوگوں پر پوسکو مخالف مزاحمت کے سلسلے میں ۱۷۷ مقدمات درج ہیں۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ اڑیسہ اور اس سے باہر زمین کے حصول کے خلاف جدوجہد سے نمٹنے کے سلسلے میں مظاہرین کو مجرم قرار دینے کی کوشش ایک معیاری آپریٹنگ طریقہ کار بن گیا ہے۔ ربی جریکا یہاں سے بمشکل سو کلومیٹر دور کلنگا نگر میں رہتے ہیں۔ وہ ٹاٹا اسٹیل پلانٹ کے لیے زمین کے حصول کے خلاف قبائلی مزاحمت کے رہنما ہیں۔ ’’میں سالوں سے اپنے گاؤں، چانڈیہ، سے باہر نہیں جا سکا ہوں۔ پولیس نے مجھ پر ۷۲ ایسے ہر اس دفعات  کے تحت مقدمات درج کیے ہیں جن کا آپ نام لے سکتے ہیں۔‘‘

جگت سنگھ پور ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ایس دیودت سنگھ، پی پی ایس ایس کی گنتی کو ’’بالکل غلط‘‘ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے دہلی سے فون پر ہمیں بتایا، ’’ہو سکتا ہے کہ گڑبڑی پھیلانے والے ۲۰۰ سے ۳۰۰ افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہوں۔ پی پی ایس ایس کے ذریعہ ہراساں کیے جانے والے لوگوں نے بھی کچھ مقدمات درج کرائے ہیں۔ ایسے ۵۲ خاندان ہیں جنہیں مظاہرین نے زبردستی گاؤں بدر کر دیا تھا۔ اور اگر بے گناہ لوگ گرفتاری کے خوف سے باہر نہیں نکلتے، تو یہ ممکن ہے کہ انہیں پی پی ایس ایس نے گمراہ کیا ہو۔‘‘

سال ۲۰۰۵ کا مفاہمت نامہ

ڈِھنکیہ کے موجودہ پرسکون ماحول کے بارے میں ساہو کے خیالات درست معلوم ہوتے ہیں۔ حالانکہ زمین کی جنگ میں آئے وقفہ کے لیے بارش کو ذمہ دارٹھہرایا گیا تھا، لیکن سیاسی فضیحت اس کے لیے زیادہ مضبوط وجہ معلوم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں تازہ معاملہ قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال سے متعلق ہے۔ اس تنظیم نے ریاست سے کہا ہے کہ وہ پروجیکٹ کے علاقے میں ’’بچوں کی تعلیم کے لیے بنائے گئے اسکولوں میں قیام پذیر پولیس دستے کو وہاں سے ہٹائے۔‘‘ پروجیکٹ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت ایک ایسے پروجیکٹ کے لیے زبردستی زمین حاصل کر رہی ہے، جس کے مفاہمت نامہ (ایم او یو) کی میعاد ایک سال قبل ختم ہو چکی ہے۔ ریاست اور کارپوریشن کے درمیان سال ۲۰۰۵ کے مفاہمت نامہ کے تحت پوسکو کو بازار سے بہت کم قیمت پر معدنیات فراہم کی گئی تھی۔ اعلیٰ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مفاہمت نامہ کی ’’۱۵ دنوں میں تجدید کی امید کی ہے۔‘‘ لیکن مفاہمت نامہ کی عدم موجودگی ریاست کو اس پروجیکٹ کے لیے ۴۰۰۴ ایکڑ اراضی حاصل کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ اس اراضی کا تقریباً نصف حصہ ڈِھنکیہ اور گووند پور میں پڑتا ہے۔

PHOTO • P. Sainath

اڑیسہ انڈسٹریل انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے سی ایم ڈی اور اراضی کے حصول کے آفیسر انچارج پریہ برت پٹنائک اعلان کرتے ہیں: ’’زمین کے حصول کے باب میں ہمارے لیے ایم او یو کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ ہم نے ۹۰۰۰ ایکڑ سے زیادہ زمین حاصل کرکے ان صنعتوں کو الاٹ کی ہے جن کا ریاست کے ساتھ کوئی ایم او یو نہیں ہے۔‘‘

اڑیسہ حکومت کے چیف سکریٹری بِجے کمار پٹنائک نے دی ہندو کو بتایا، ’’ہم صرف سرکاری زمینیں ایکوائر کر رہے ہیں۔ ایسی زمینوں کا زیادہ تر حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ ہم نجی زمینیں (جو کل زمینوں کا ایک معمولی حصہ ہیں) نہیں لیں گے۔‘‘ وہ زور دے کر کہتے ہیں، ’’پان کے باغات حال میں لگائے گئے ہیں۔‘‘ تاہم گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ سروے ریکارڈ بتاتے ہیں کہ یہاں ۱۹۲۷ میں پان کے باغات موجود تھے۔ اپنے پان کے باغ میں موجود گوجّری موہنتی کا کہنا ہے، ’’ہم اس سے بھی زیادہ عرصہ قبل سے یہاں رہتے آ رہے ہیں۔‘‘ ان کی عمر۷۰ سال سے تجاوز کر گئی ہے اور وہ بتاتی ہیں، ’’میں بچپن سے ہی اس کام میں مصروف ہوں۔‘‘

دیودت سنگھ زور دے کر کہتے ہیں: ’’پروجیکٹ والے علاقے کے سات دیہاتوں میں سے گووند پور اور ڈِھنکیہ کو چھوڑ کر باقی سب کے ساتھ معاملات آسانی سے طے ہوگئے ہیں۔ گووند پور اور ڈِھنکیہ میں مزاحمت ہوئی ہے۔ جہاں تک گووند پور کا سوال ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہاں کی اکثریت پی پی ایس ایس کے ساتھ نہیں ہے۔ صرف ڈِھنکیہ میں ایسا ہو سکتا ہے۔ ابھی ہم پہلے پانچ دیہاتوں میں کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پھر ہم دوسرے مقامات پر جائیں گے۔ یہاں کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے۔ ہم اپنا کام کریں گے۔ لیکن میں اس بات پر بحث نہیں کرسکتا کہ ہمارے پاس پولیس کے کتنے دستے ہیں یا ہماری حکمت عملی کیا ہے۔‘‘

وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ یہاں اس لحاظ سے کوئی جنگ نہیں ہو رہی ہے کیونکہ ایک مدمقابل گروپ مکمل طور پر غیرمسلح ہے۔ لیکن جب پولیس ڈِھنکیہ اور گووند پور میں داخل ہوگی تو پوسکو کا اسٹیل رتھ اس انسانی دیوار سے ٹکرا سکتا ہے۔

اس مضمون کا ایک ورژن ۱۳ جولائی ۲۰۱۱ کو دی ہندو میں شائع ہوا تھا، جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے

مترجم: شفیق عالم

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam